صارف:شعیب عالم قاسمی/ہندوستان میں جمہوریت

۔

ہندوستان میں جمہوریت

ہندوستان میں ۱۹۳۵ء سے جو برطانوی ایکٹ نافذ تھا وہ ۲۶ /جنوری ۱۹۵۰ء کو منسوخ ہوگیا،اور جمہوری نظام کا قیام عمل میں آیا۔اس دستور کو وضع کرنے میں تین کروڑروپئے اور تین سال کا وقت صرف ہوا،یہ دستور کیبنٹ مشن پلان مئی ۱۹۴۶ ؁ء کے تحت آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ بنایا گیا،پہلے غیرمنقسم ہندوستان میں الیکشن کے ذریعہ۲۹۲ نمائندوں کا انتخاب کیا گیا،دوسو آٹھ نمائندے کانگریس کے اور تہتر نمائندے مسلم لیگ کے منتخب ہوئے،ترانوے نمائندے نوابین اور راجاؤں کی طرف سے نامزد ہوئے،اس طرح کل تین سو ترانوے نمائندوں سے اسمبلی وجود میں آئی،۹دسمبر۱۹۴۶ ؁ء کو اس کا پہلا اجلاس ہوا،جس میں سب سے معمر رکن اسمبلی ڈاکٹر سچتانندسنہا کو اس اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا ،۱۱/ستمبر کو تمام اراکین نے اتفاق رائے سے ڈاکٹر راجندر پرشاد کو اسمبلی کا مستقل چیئرمین بنادیا،اسمبلی نے آئین سازی کے لیے ۱۳ کمیٹیاں بنائی،ان کمیٹیوں نے اپنے اپنے مسودات تیار کیے،بعد میں ایک سات رکنی ڈرافٹ کمیٹی نے جس کی صدارت ڈاکٹر امبیڈکر کررہے تھے ان مسودات کے گہرے مطالعہ کے بعدآئین کا نیا مسودہ تیار کیا۔۴/نومبر کو یہ مسودہ بحث ونظر ،ترمیم و تنسیخ اور حذف واضافہ کے لیے آئین ساز اسمبلی میں پیش ہوا،جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ مسودہ عام لوگوں کے لیے شائع کردیا گیا،ترمیم و تنسیخ کے لیے دو ہزار سے زیادہ تجاویز موصول ہوئیں،۲۶ نومبر ۱۹۵۰ ؁ء کو مسودہ آئین دستور ساز اسمبلی میں پیش ہوا،مولانا حسرت موہانی کے علاوہ تمام اراکین نے ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ کے اجلاس میں اس کی ہندی اور انگریزی کاپیوں پر دستخط کیے،مولانا حسرت موہانی نے لکھا:’’یہ آئین برطانوی دستور کی نئی توسیع شدہ شکل ہے،اس سے آزاد ہندوستانیوں کا اور آزاد ہندوستان کا مقصد پورا نہیں ہوتا‘‘۔

بالآخر26جنوری 1950کو ہندوستان میں جمہوری قانون کا نفاذ عمل میں آیا،جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس ملک میں مذہبی آزادی، تہذیبی و تعلیمی حقوق کی پاسبانی،جائداد کے حقوق اور حصول انصاف کا حق ہر ہندوستانی کو بلا تفریق مذہب وملت برابر حاصل ہوگا۔اقلیتوں کو بالخصوص یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے دین و مذہب اور ان کے تشخص کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔


موجودہ صورت حال

۲۶ جنوری۲۰۱۸ کو ہم ۶۹ واں جشن یوم جمہوریہ منا ئیں گے۔کیا ۶۸ سالہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد ہماری موجودہ جمہوریت ان تقاضوں کو پورا کررہی ہے؟آج دن کے اجالے میں ڈنکے کی چوٹ پر اقلیتوں،دلتوں،عیسائیوں اوربالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر جس طرح شبخون مارا جا رہا ہے اس کی مثال تاریخ عالم کے کسی حصہ میں بلکہ کسی بھی ملک میں بآسانی نہ مل سکے گی۔

گزشتہ 72 سالوں کا جائزہ یہ یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جمہوریت کا ہمارا نعرہ صرف ایک فراڈ ہے ۔یہ کیسی جمہوریت اور آزادی ہے کہ ہردن طلوع ہونے والا آفتاب اقلیتوں کی تباہی کی خبرلاتا ہے۔ جب سے آریس ایس کے سیاسی بازو’’ بی جے پی‘‘ملک پر قابض ہوئی فرقہ پرستی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔کبھی مسلم مکت بھارت کا نعرہ ،تو کبھی جے شری رام کے نام پر دلت اور مسلموں کابے رحمانہ قتل،کبھی تبدیلی مذہب،لوجہاد،گؤکشی اورلینڈجہادکے نام پر دہشت پھیلانا ۔حکومت کا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والے آرایس ایس کے لوگوں کے ساتھ پھر بھی ہمدردی کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا،سوشل میڈیا ہرجگہ حکومت کی چاپلوسی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزبیانات اور ڈبیٹس کے ذریعہ ایک طبقہ کو مسلسل نشانہ بنارہا ہے،مگر ملک کا سربراہ من کی بات تو کرتا ہے ،لیکن فرقہ پرستی اور ظلم کے خلاف اس کے لب سلے ہوئے ہیں۔

ملک کے ماحول کو اس قدر پراگندہ اور خوف زدہ کردیاہے کہ جمہوریت کا دوسرااہم ستون عدلیہ تک بھی محفوظ نہیں ہے،وہاں بھی بھگوائیت کا ہی سکہ رائج ہے ۔چارججز پریس کانفرنس کریہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جمہوریت خطرہ میں ہے۔