صارف:علامہ غلام یٰسین فیضی/تختۂ مشق
سیرت النبی ﷺ پر ہندو مصنفین کی منتخب کتب کا تحقیقی مطالعہ
ترمیممقدمہ ِ تحقیق
ترمیمحضور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ عصرِ حاضرکی نہایت اہم علمی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلوتاریخ کا عظیم اور نادرالمثال سرمایہ ہے۔ابتدائے کائنات سے لے کر زمانہ حاضر تک ہزاروں مصلحین ومدبرین، فلاسفر وحکماء ، سیاست دان وسائنسدان، واعظین ومقررین ، مقنین ومنتظمین ِ سلطنت ،انسانیت کی خیرو بھلائی چاہنے والے، فلاح وبہبود کا کام کرنے والوں کے بڑے بڑے نام ابھرے ،مقبولیت ملی ،مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ شہرت وناموَری جاتی رہی۔ لیکن ایک ہستی جن کی ہمہ گیر شخصیت کی سیرتِ طیبہ نے انسانی سماج پر ہمہ گیر اور جاوداں اثرات مرتب فرمائے ۔جن کی کہی ہوئی ہر بات جاوِداں، جن کا کیا ہو ا ہر عمل جاوِداں الغرض جن کی سیرت ِ طیبہ اور اسوہِ حسنہ بھی جاوِداں ، صرف یہ نہیں جو بھی جس دورمیں ،جس زمانے میں کسی صورت میں آپ ﷺ سے جڑا اس کے نام کوشہرت ،بامِ عروج اور جاوِدانی و ہمیشگی نصیب ہوئی۔
اسی طرح بڑے بڑے قلم کار اپنی تحریر اور نام کو دوام و ہمیشگی بخشنے کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر قلم اٹھاتے رہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم خصوصاً ہندو قلم کار بھی اس کارِ تحریر میں پیچھے نہ رہے۔گو کہ ہندو مصنفین کی نیتیں ٹھیک نہ تھیں اور نہ ہی ان کی تصانیف علمی درجے تک پہنچ پاتی ہیں۔پھر بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے مقاصد ومطالب اور وجوہات کیا تھیں جن کے پیشِ نظر وہ سیرت النبی ﷺ پر قلم اٹھاتے رہے۔ اس ضمن میں سیرت النبی ﷺ پر ہندو مصنفین کی دلچسپی کی چند وجوہات حسبِ ذیل ہیں:
اول: جب ہندو مفکرین ومصنفین نے پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ کو جاننے کی سعی کی تو انگشت بدنداں ہوگئے کہ 23 سال کے مختصر سے عرصہ میں ہادیِ برحق ﷺ نے توحید ورسالت کے پرچار کے ساتھ ساتھ سماج سے برائیوں کو مٹانے اور نیکیوں کی طرف راغب کرنے کا ایسا انقلاب بپا کیا کہ سب کے سب ایک ماتما پر ایمان لے آئے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ویدک مذاہب فلسفہِ توحید کے قریب تر ہیں۔اس قدرِ مشترک کے باعث ایک دوسرے کو قبول کیا جائے۔
ترمیمدوم:وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک ایسا انقلابی پیغمبر (ﷺ)جس نے انسانوں کو غلام بنانے ، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے ، عورتوں کی تذلیل جیسی سماجی برائیوں کو دور کیا۔ جس نے انسانیت کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے دوسرے مذاہب کا احترام کرنا بھی سکھایا۔ ہندو سیرت نگار چاہتے ہیں کہ ہندؤں کو چاہیے کہ وہ بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کا احترام کریں۔
ترمیمسوم: ہندو مفکرین ومصنفین یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر فراخ دِلی سے لکھا جائے۔ ان کی اچھی تعلیمات کا صدقِ دل سے اعتراف کرکے ہندو مسلم تضادات کو ختم کیا جائےاور امن ِ عالم کو بحال کیاجائے۔
ترمیمچہارم:معتدل ہندو مصنفین نے پیغمبر اسلامﷺ کے متعلق آریہ سماجیوں ، مہا بھائیوں اور شدھیوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے سیرت ِ رسول ﷺ کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو متعارف کرانے کی کوششیں کیں۔
ترمیمپنجم: حضور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کوقیامت تک کے لیے دوام بخشا گیا ہے۔ جس جس نے سیرتِ طیبہ پر قلم اٹھائی وہ بھی ابد تک جاوِداں ہوگئے۔ لہذا ہندو مصنفین نے اپنے کام اور نام کو بعدازمرگ زندہ رکھنے کے لیے سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کو لکھنے کی کوششیں کیں۔
ترمیممحمود خالد(۱) " اردو نثر میں سیرتِ رسول ﷺ" میں لکھتے ہیں:
"۱۸۵۰ء میں ایک انگریز مصنف واشنگٹن ارونگ نے"The Life of Muhammad" لکھی ۔ جس کا اردو میں ترجمہ ۱۸۹۲ء میں ہندو مصنف پنڈت لالہ رلیارام گولاٹی نے" سوانح عمری محمد ﷺ" کے نام سے کیا۔ یہ کاوش اردو نثر میں سیرتِ رسول ﷺ پر کسی ہندو مصنف کی پہلی کتاب کہلاتی ہے۔ اس سے قبل بین المذاہب ہم آہنگی کے طور پر پنڈت رلیارام گولاٹی نے امرتسر سے ۱۸۸۶ء میں " ناتن دھرم پرچارک" کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا تھا۔"
حضور نبی اکرم ﷺ کوہندو مصنفین نے بر بنائے مصلحت یابر بنائے عقیدت شاندار خراجِ تحسین پیش کیا ہےانیسویں صدی کے اواخر اور بیسیویں صدی کے آغاز سے سیرتِ رسول ﷺ پرہندو مصنفین کی تالیف کا ایسا سلسلہ دراز ہوا کہ دورِ حاضر تک بہت سی کتب منظرِ عام پر آگئی ہیں۔ قاموس الکتب اردو ،انٹر نیٹ اور دیگر کتب سے جو نام(۲) میسر آئے وہ حسبِ ذیل ہیں:
1۔سوانح عمری محمدﷺ،پنڈت لالہ رلیارام گولاٹی
2۔سوانح عمریحضرت محمدﷺصاحب بانی اسلام،شردھے پرکاش دیو جی
3۔رسول عربی ﷺ، گرودت سنگھ دارا
4۔حیات محمدﷺ، گووند دایا جنڈ ہوک
5۔پیغمبر اسلامﷺ، پنڈت سندرلال
6۔ عرب کا چاند، سوامی لکشمن پرشاد
7۔حضرت محمدﷺ اور اسلام، ڈاکٹر پنڈت سندر لال
8۔حضرت محمدﷺاور اسلام، بابو کنج لال ایم اے
9۔پیغمبر اسلامﷺ، رگھو ناتھ سہائے
10۔چار مینار،(رام چندر جی، حضرت محمدﷺ صاحب، حضرت عیسی علیہ السلام اور گرونانک جی کے حالات و تعلیمات)، گوبند رام سیٹھی پرشاد
11۔حضرت محمدﷺصاحب کی سوانح عمری، پروفیسر لاجپت رائے نیر۔
12۔میر محمدِ عربی ﷺ ، امر لعل وسن مل ہنگورانی
13۔ محمدرسول اللہ ﷺ ، لعل چند امر دنو جگتیانی
14۔ اسلام جو پیغمبر، جیٹھمل پرسرام گلجرانی۔ (۳)
ان میں سے چار کتب کا مطالعہ اور ان کا تحقیقی نقطہِ نظر سےجائزہ لیا جائے گا۔
۱۔رسول عربی (ﷺ) از گرودت سنگھ دارا
۲۔عرب کا چاند از سوامی لکشمن پرشاد
۳۔پیغمبرِ صحرا (ﷺ)،از کے ایل گابا
۴۔پیغمبرِ اسلام(ﷺ) از سندرلال
۳۔ مقاصد واہداف
ترمیم۱۔ہندو مصنفین کی منتخب کتبِ سیرت کے مشتملات کا جائزہ لینا
۲۔ہندو مصنفین کی منتخب کتب ِ سیرت کےاسلوبِ بیان اور اندازِ تحریر کا مطالعہ کرنا
۳۔ہندو مصنفین کی منتخب کتبِ سیرت کا تحقیقی مطالعہ کرنا
۴۔ضرورت و اہمیت
ترمیمسیرت النبی ﷺ کے حوالے سے ہندو مصنفین نےقومی تعصب ، مذہبی منافرت اور دقیانوسی سے بالاتر ہو کر حقیقت شناسی اور مذہب شناسی کے جزبے کو پران چڑھایا ہے۔خاتم الانبیاء محمدﷺ کی سیرت کو ایسے خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے کہ ان کا مطالعہ کرنے سے داد تحسین دینے کو دِل کرتا ہے۔ ان پر رشک آتا ہے کہ بے حد محنتی،حق گو،بااخلاق،دلیر اور اخلاقی اقدار کا لحاظ رکھنے والے انسان تھے۔صد افسوس عصرِ حاضر میں اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کو فخر سمجھا جاتا ہے۔ہمسایہ ملک میں آئے روز مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ خواتین کے حجاب پر پابندی، قربانی کے فریضہ میں رکاوٹیں، اذان ونماز کی ادائیگی میں خلل اندازی اور دیگر مذہبی رسومات کی بجاآوری میں ظلم وستم کا نشانہ بنانا، اب تو وہ حضورنبی کریم ﷺ کی عزت وحرمت پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہندؤوں اور مسلمانوں پر مشتمل ایک فلاحی اور پر امن معاشرہ بے امن اور پر خطر معاشرے میں تبدیل ہورہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کا امن کیسے خراب ہوتا ہے؟ پرامن معاشرہ بے امن اور پرخطر معاشرے میں کیسے تبدیل ہوتا ہے؟ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں اس کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ جب معاشرہ کے کچھ افراد اپنے ذاتی ،نسلی، لسانی اور مذہبی مفادات کو مقدم سمجھیں،عصبیت کو ہوادیں اور رنگ ونسل کے امتیازات کو روا رکھیں تومعاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔
معاشرے کے امن اور انسانی رواداری کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد بلاامتیاز و بلا تفریق اپنے رویے کو مثبت رکھے۔ رنگ ونسل ، قومیت اور مذہب کے امتیازات کوصرفِ نظر کرکے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ کسی کو حقیر وکمزور نہ سمجھے۔کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کرے۔ معاشرے کے ہرفرد کے حقوق کا خیال رکھے۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی رواداری کے پیشِ نظر ہندو سیرت نگاروں نے حضور نبی کریم ﷺ کے اسوہِ حسنہ کو قلمبند کیا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ آج کے ہندو نوجوان جو معاشرے کا ایندھن اور مستقبل کے معمار ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے سکالرز کی اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے متعلق تصنیفات کا مطالعہ کریں۔معاشرے کو امن کو برقرار رکھنے کےلیے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
۵۔ سابقہ تحقیق کا جائزہ
ترمیمغیر مسلم خصوصاًہندو مصنفین کی کتبِ سیرت پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں سے بھری پڑی ہیں ۔مسلم سیرت نگاروں نے ہندو مصنفہین کی کتب ِ سیر ت پر جامع مضامین لکھے ہیں۔ ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
۱۔بدایونی (۴)نے سیرت النبی ﷺ پر لکھی گئی ہندو مصنفین کی تین کتب کا ۱۶ صفحات پر مشتمل مختصر اور جامع انداز میں تعارف کرایا ہے۔ موصوف کی یہ تحقیق " ماہنامہ معارف" میں اگست ۲۰۱۸ء کو "غیر مسلم مصنفین اور سیرتِ نبوی ﷺ" کے عنوان سے شائع ہوئی۔موصوف شردھے پرکاش دیو جی کا مسلمانوں کی سیرت النبیﷺ کی واقفیت کے بارے میں تحریر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ایسے لوگ بہت نایاب ہیں،جو پیغمبر اسلام ﷺ اعلی زندگی کے حالات سے واقف ہیں۔ ہم کو سینکڑوں ہزاروں ایسے لوگوں سے ملنے کا اکثر اتفاق ہوا ہے جو اپنے آپ کو پکامسلمان گردانتے ہیں، لیکن اگر ان لوگوں سے ان کے نبی محمدﷺ کے حالات کے متعلق سوال کرو تو منہ تکتے رہ جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جوجانِ عالم اور بے نظیر پیغمبر کی سیرت کے تمام واقعات بتا سکیں۔"
۲۔ گرودت سنگھ دارانے اپنی تصنیف " رسول عربی ﷺ" کےابتدا میں ایک تمہید لکھی ہے جو بڑی پُر جوش و پُر اثر ہے۔ سید سلیمان ندویؒ (۵)نے اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں :
"دارا نے پیغمبر اسلامﷺ کی سوانح عمری ذاتی خواہشات اور مذہبی منافرت کو پسِ پشت ڈال کر تحریر کی ہے۔ کتاب کا حرف حرف سے عشق و محبت کے آب کوثر کے دھلا ہوا نظر آتا ہےاور معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے کا قلم کسی جوش و خروش کے ساتھ عشق ومحبت کے دریا میں بہتا جارہا ہے۔ میں نے اس کتاب کو ابتدا سے انتہا تک پڑھا اور سلاستِ روانی کی حیثیت سے اس کو پسند کیا ۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے دربارِ رسالتمآب ﷺ میں ایک ہندو مصنف کی خلوص وعقیدت پرمبنی نایاب علمی کاوش ہے"۔
۳۔ سندر لال (۶)نے اپنی تصنیف "حضرت محمدﷺ اور اسلام"میں ' محمدؐ صاحب کا جنم 'کے نام ایک عنوان قائم کیا ہے جس میں وہ رقمطراز ہیں:
"شہرِمکہ کا شمار دنیا کے سب سے پرانے شہروں میں کیا جاتا ہے۔محمدؐ صاحب کی آمد سے ایک ہزار سال پہلے یورپ کے ساتھ ہندوستان اور دوسرے ایشیائی ملکوں کی تجارت عرب ہی کے راستے ہوتی تھی، یعنی اسوقت مکہ تجارتی لحاظ سے ایک اہم مرکز بنا ہوا تھا۔تجارت کا ذوقرکھنے والے بہت سے لوگ مکے میں اور اس کے ارد گرد قیام پذیر ہوگئے۔ مکہ عرب کا سب سے بڑا خوشحال شہر بن گیا اور ایک طرح کی حکومت وہاں قائم ہوگئی۔
مکہ میں سب سے معزز قبیلہ ان دنوں قریش کا قبیلہ تھا۔ قریش کاسردار ہی مکے کے راج کابادشاہ یاحاکم ہوتا تھا وہی کعبے کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ محمد(ﷺ) صاحب کے پردادا ہاشم ،جس کے نام پر محمد(ﷺ)صاحب کے خاندان کے لوگ بنی ہاشم کہلاتے تھے، اپنے زمانے میں مکے کا حاکم تھااور لوگ اس کو محبت اور عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہاشم کے بعد ان کے بیٹے عبد المطلبؓ گدی پربیٹھے۔ عبد المطلب کے کئی لڑکے تھے،جن میں سب سے چھوٹا لڑکا عبد اللہ پچیس سال کی عمر میں شادی کے دوسال بعد دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ عبد اللہ کے وصال کے چند روزبعد عبد اللہ کی بیوہ آمنہ نے محمد (ﷺ)صاحب کو جنم دیا"۔
۴۔ انصاری (۷)جو کہ ایک ہندوستانی مسلم سکالر ہیں جن کی تحقیق ریسرچ جرنل" نقیب الہند" میں مارچ ۲۰۲۱ء کولکشمن پرشاد کی کتاب" عرب کا چاندایک نظریاتی مطالعہ " کے عنوان سے ۱۲ صفحات پر مشتمل ایک جامع تحریر شائع ہوئی ہے۔لکشمن پرشاد کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"لکشمن پرشاد کہتا ہے کہ جب میں مسجد کےسامنے سے گزرتا ہوں تو میری چال خود بخود دھیمی ہوجاتی ہے ،گویا کوئی میرا دامن پکڑ رہا ہو۔میرے قدم وہیں ٹھہر جانا چاہتے ہیں ،گویا وہاں میری روح کے لئے تسکین کا سامان موجود ہو،مجھ پر یک لخت ایک بے خودی سی طاری ہونے لگتی ہے،گویا مسجدکے اندر سے کوئی میری روح کو ظاہراً نظر نہ آنے والی حقیقت اپنی طرف بلا رہی ہو۔ جب مؤذن کی زبان سے میں اللہ اکبر کی صداسنتا ہوں تو میرے دل کی دنیا میں ایک ہنگامہ سا برپا ہوجاتا ہے،گویا کسی خاموش سمندرمیں تلاطم آگیا ہو ،جب نمازیوں کو میں خدائے پاک کے سامنے جھکا ہوادیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں ایک بیداری سی پیدا ہو جاتی ہے،گویا میری روح کے خواب کوکسی نے جھنجوڑ کر جگادیا گیا ہو۔"
۶۔ پرشاد(۸)دنیا کی عظیم شخصیات کی سوانح حیات قلم بند کرنا چاہتے تھے،لیکن انہوں نے سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ کی شخصیت کا انتخاب کیا۔ تو اس بارے لکھتے ہیں:
میں نے دنیا کی عظیم المرتبت اورنادرروزگارہستیوں کے حالات یا برکات کو صفحہ قرطاس پر لانے کا ارادہ کر لیا ہے ،انہوں نےدنیا کی جہالت کی شب تاریک میں علم و عرفان کی ضیاپاشیوں سے روشنی پھیلائی اور اپنے اصول کے مذبح اور اپنی زندگی کے تمام عیش و عشرت کو بے دریغ قربان کر دیا ، دنیا کی جلیل القدر ہستیوں میں جن کے اسمائے گرامی ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں،رحمۃ للعالمین ،شفیع المذنبین ،سید المرسلین،خاتم النبین،باعث فخر موجودات سرورکائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو کئی اعتبار سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے،اس لئے میں نےسب سے پہلے اسی قابل تعظیم ،فخر روز گار ہستی حیات مطہرہ کے حالات قلم بند کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔
۵۔ طاہرالقادری(۹)نے ہندو مصنف راما کرشنا راؤ کے پیغمبرِ اسلام ﷺ کے متعلق خیالات کو یوں قلمبند کیا ہے:
"حضرت محمد ﷺ کی ہمہ گیر شخصیت کا احاطہ میرے لیے ناممکن ہے۔آپ کی شخصیت کے بے شمار دلآویز اور مختلف النوع مظاہر ہیں ۔میں تو سیرت کے کسی ایک پہلو کی مکمل جھلک بھی نہیں دیکھ سکتا۔حضرت محمد ﷺ بحیثت سپہ گر، حکمران،جنگ آزما،مربی، تاجر، معلم ، فلسفی، سیاستدان، خطیب،یتیموں کے والی،غلاموں کے محافظ، عورتوں کے نجات دہندہ، مصنف، خدا رسیدہ انسان اور ان تمام کرداروں اور انسانی سرگرمیوں کے تمام شعبوں میں آپ قبلِ رشک شخصیت کے مالک تھے۔ـ"
۶۔ مورس بکائے کی کی کتاب' دی لائف آف محمد' کا اردو ترجمہ لکشمن پرشاد نے ' عرب کا چاند' کے نام سے کیا ۔ اس میں وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سیرت واحادیث کی مستند حیثیت کے حوالے سےجو تعریفی کلمات تحریر کیےان کوکرم شاہ الازھری (۱۰)نے یوں بیان کیا ہے:
"جن لوگوں نے احادیثِ طیبہ اور سیرتِ مبارکہ کے مجموعوں کومرتب کرنے بیڑہ اٹھایا، انہوں نے سیر ومغازی کی جانچ پڑتال کے وہ اصول وضع کیے جو تاریخ کا سنہرہ باب ہیں۔احادیث ومغازی کو جمع کرنے کے مشکل کام میں روایات کی صحت ہمیشہ پورے اہتمام واحترام کے ساتھ ملحوظِ خاطر رہی۔ اس بات کا ثبوت اس حقیقت سے آشکار ہوتا ہے مسلمانوں کے ہاں جو احادیث ومغازی کے مجموعے ہیں ان تمام کی اسناد صحابہ کرام یا اہلِ بیت تک متصل ہیں۔"
۷۔مغل (۱۱)نے 2019ء میں سندھی ہندو سیرت نگار کے نام سے 278 صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہےجو کہ موصوف نے تین سندھی ہندو سیرت نگاروں کی کتب (میر محمدِ عربی ﷺ ، از امر لعل وسن مل ہنگورانی ،محمدرسول اللہ ﷺ ، از لعل چند امر دنو جگتیانی،اسلام جو پیغمبر، از جیٹھمل پرسرام گلجرانی ) اردو میں ترجمہ کیا ہےاوردیباچے میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:
"مذکورہ کتب کی نسبت جو کچھ میں نے دیکھا بہت زیادہ تعریف کے لائق پایا۔ مصفین نے یہ کتاب لکھ کر سچائی اور حق پسندی کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کی سب کوتقلید کرنی چاہیے۔ پوری دنیا میں رہنے والے خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، اس خیال ِخام میں مبتلا رہے ہیں کہ غیر مذہب کی خوبیوں میں جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالیں اور چن چن کر اس کی برائیاں ظاہر کریں۔ جہاں تک اندازہ کیا جاتا ہے تمام اہل مذاہب اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ غیرمذہب کے کسی اعتراض کو تسلیم کر لینا یا اس کی کسی خوبی کا اقرار کرنا اپنے مذہب کے دائرے سے نکل جانے کے برابر ہے۔ یہ مصنفین برہمہ دھرم کے اس اصول کے قائل ہیں کہ وہ ہر ایک دھرم کے پیشوائوں کی تعظیم کرتا ہے۔ بالکل یہ اصول اسلام کے عین مطابق ہے اور یہی وہ اصول ہے جس سے امید ہوتی ہے کہ مذہبی جھگڑے شاید آہستہ آہستہ دنیا سے زائل ہوجائیں۔"
(۱۲) پیغمبرِ اسلام ﷺکے بارے میں لکھتا ہے:(Philip K Hitti)۸۔ فلپ۔ کے۔ہٹی
“ Throughout his life time Muhammad served as God’s spokesman , thereby performing the triple function of legislator, judge and executive.”
"(حضرت )محمد ﷺ نے تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سےاپنے فرائض سر انجام دئیے اسی طرح وہ قانون ساز،جج اور منتظم کے سہ جہت فرائض سرانجام دیتے رہے۔"
(۱۳)نےحضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے متعلق لکھا ہے: (John Bagot Glubb۹۔جان بیگٹ گلب(
There were many miner legal and administrative problems to settle , his decisions in which were passed down in Muslim tradition and became unchanging laws for hundreds of millions of persons, for centuries to came.
"کئی چھوٹے موٹےقانونی اور انتظامی مسائل کو حل کیا۔ایسے امور کے( متعلق محمدﷺ کے) فیصلے اسلامی روایات (وسیرت)کی شکل میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے منتقل ہوئے،صدیوں کے لیے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ناقابل تغیر قانون کی حیثیت اختیار کر گئے۔"
۱۰۔ جی سنگھ دارا (۱۴)حضور نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں عرب کی زمین کومخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے:
اے سرزمینِ عرب ! آج وہ دن ہے کہ تیرا نام پورے جہاں میں خلقِ خدا کی زبانوں پر ہے، کون ہے وہ جو تیرے دیدار کو نہ ترسے ، کس کا دل ہے جو تیری دید کی تمنا نہیں رکھتا،وہ کون سا ملک ہے جس نے تیرے شاہ کا سکہ نہیں مانا،وہ کون سا بادشاہ ہے جوتیرے شاہ کے رعب وجلال سے مرعوب نہیں ہوا۔ اے زمینِ عرب! بھاگ نرالے تیرے ،زہے نصیب تیرے،تیرے ہاتھ دولتِ محمدی اور جمالِ احمدی آیا۔(ﷺ)
اسی طرح موصوف کوہ ہمالیہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اے کوہ ہمالیہ ! سچ بتانا ، کہیں تو نے دیکھا ہے وہ مکےکا راج دلارا،کہیں تیری نظروں میں آیا ہے وہ مدینے کا پیارا۔
۶۔تحقیقی استفارات
ترمیم۱۔کیاہندو مصنفین کی کتب ِ سیرت کے مشتملات کا جائزہ لیا گیا ہے؟
۲۔ہندو مصنفین کی کتبِ سیرت کا اسلوبِ بیان اور اندازِ تحریر کیسا ہے؟
۳۔کیاہندو مصنفین کی منتخب کتب ِ سیرت تحقیقی نقطہِ نظر سے تحریر کی گئی ہیں؟
۷۔تحقیقی خلاء
ترمیمدنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی سوانح پر ہزاروں کتابیں لکھی ہیں۔ان مصنفین میں اسلام کے دوست اور دشمن سبھی شامل ہیں، خواہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کو پسند کریں یا نہ کریں اس بات پر متفق ہیں کہ "حضرت محمد ﷺ ایک عظیم انسان ہیں۔"(۱۵)خاتم النبیین ﷺ کی سیرت ِ طیبہ کے حوالے بہت سے سیر نگاروں نے کام کیاہے مگر بطورِ خاص ہندو سیرت نگاروں کی کتب ِ سیرت کے مشتملات کا مطالعہ تحقیق طلب ہے ۔ان کی کتبِ سیرت پرتحقیقی مطالعہ کے حوالے سےقلم نہیں اٹھایا گیا۔ہندو مصنفین نےقومی تعصب ، مذہبی منافرت اور دقیانوسی سے بالاتر ہو کر حقیقت شناسی اور مذہب شناسی کے جزبے کو پران چڑھایا ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکوامنِ عالم کا داعی ، بین المذاہب ہم آہنگی کا سفیر اور انسانی رواداری کا پیامبر پیش کرنے کی خوش ٓائندکاوشیں کی ہیں ان پر تحقیقی کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
۸۔طریقہ ہائے تحقیق
ترمیمزیرِ بحث تحقیق کو مستند اورجامع بنانے کے لیے سیرت النبی ﷺپر ہندو مصنفین کی مستند اور اصل کتابوں سے استفادہ کیا جائے گا۔ تحقیق کو پایہ ِ تکمیل پہنچانے کے لیے بنیادی مصادر کے علاوہ بوقتِ ضرورت ثانوی مصادر(النبی الخاتم ﷺ از سید مناظر احسن گیلانی، خطباتِ بہاولپور از ڈاکٹر حمید اللہ ،رحمۃ اللعالمینﷺ از قاضی سلیمان منصور پوری، ضیاء النبیﷺ از پیر کرم شاہ الازہری اور سیرت الرسول ﷺاز ڈاکٹر محمد طاہر القادری) سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ اس مقالہ کا طریقہِ تحقیق بیانیہ اورتجزیاتی ہو گا۔بیانیہ تحقیق کے تحت ہندو مصنفین کی کتب ِ سیرت کے مشتملات،اسلوبِ بیان اور اندازِ تحریر کا جائزہ لیا جائے گا۔اس کے علاوہ دورِ حاضر سے ہم آہنگ ہونے والے واقعات کو اجاگر کیا جائے گا ۔یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ ہندو مصنفین کی منتخب کتبِ سیرت تحقیقی نقطہِ نظر سے تحریر کی گئی ہیں کہ نہیں۔تجزیاتی تحقیق کے تحت ہندو مصنفین کی کتبِ سیرت میں سے حضور نبی کریمﷺ کے شایانِ شان القابات، آداب ،تعظیمی کلمات ، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی رواداری کی کاوشوں کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا ۔سیرت النبی ﷺ پر ہندومصنفین کی منتخب کتب میں موجود مماثلت اور اختلافی نقطہِ نظر کا جائزہ لیا جائے گا۔آخر میں سیرت النبی ﷺ کے نمایاں پہلوؤں سےعصرِ حاضر میں استفادہ کی ممکنہ صورتوں کابھی جائزہ لیا جائے گا۔
۹۔حدود وقیود
ترمیممقالہ ہذا میں سیرت النبی ﷺ پر ہندو مصنفین کی منتخب کتبِ سیرت (حضرت محمد صاحب بانیِ اسلام از شردھے پرکاش دیو، عرب کا چاند از سوامی لکشمن پرشاد، پیغمبر صحرا،از کے ایل گابا، حضرت محمد اوراسلام از پنڈت سندر لال ) کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے گا جس میں کتب کے مشتملات، اسلوبِ بیان ،اندازِ تحریرکا بیانیہ انداز میں جائزہ لیا جائے گا اس کے ساتھ ہندو مصنفین کی کتبِ سیرت سے بین المذاہب ہم ٓہنگی اور انسانی رواداری کی کاوشوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے گا۔بجزِ خاص تحریر کو اصل موضوع تک محدود کرتے ہوئے غیر ضروری مواد سے اجتناب کیا جائے گا۔
حوالہ جات وحواشی
ترمیم۱۔ خالد،انورمحمود ، ڈاکٹر،(۱۹۸۹ء)،اردو نثر میں سیرت رسولﷺ، لاہور،اقبال اکادمی ،ص :۴۶۸
۲۔ انجمن ترقی اردو، (۱۹۹۱ء)،قاموس الکتب اردو، لاہور،انجمن ترقی اردو پاکستان پبلشرز ۔ج:۱،ص:۲۷۸
۳۔ ماہنامہ معارف، (اگست ۲۰۱۸ء)،اعظم گڑھ ، انڈیا،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ،ص:۳۶
۴۔بدایونی،شمس الرحمن،(جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء)، غیر مسلم مصنفین اور سیرتِ نبوی ﷺ، نقیب الہند، ڈاکٹر صغیر احمد،سدھارتھ یوپی ،انڈیا، آئی ایس ایس این نمبر:۵۸۹۴-۲۴۵۵ ،ص:۲۴
۵۔ دارا، گرودت سنگھ،(۱۹۴۶ء)، رسولِ عربیﷺ، کراچی، مکتبہ امدادیہ ،ص:۲۶
۶۔ سندرلال،(۱۹۸۶ء)،پیغمبرِ اسلام (ﷺ)،لاہور، مکتبہ تعمیر انسانیت،ص:۶
۷۔ مغل، مدثر نواز(جنوری۲۰۱۹ء)،سندھی ہندو سیرت نگار،" التفسیر"، ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ،کراچی،آئی ایس ایس این نمبر:۱۶۱۱:۵۳۸۹،ص:۱۳
۸۔ پرشاد،سوامی لکشمن(س۔ن)عرب کا چاند، لاہورمکتبہ تعمیر انسانیت ،ص:۴
۹۔ طاہرالقادری،(جنوری ۱۹۹۸ء) ، سیرت الرسول، لاہور،منھاج القرآن پبلیکیشنز،ج:۶،ص:۷۰۹
۱۰۔ الازہری، محمد کرم شاہ، (۲۰۰۵ء)، ضیاء النبی ﷺ، لاہور، ضیاء القرآن پبلیکیشنز ج:۷،ص:۱۵۴،
۱۱۔مغل، مدثر نواز،(۲۰۱۸ء)،سندھی ہندو سیرت نگار، کراچی ، مکتبہ امدادیہ،ص:۵
12.Philp K Hitti , Islam a way of life, (1971), Lahore, Tameer e Insaniat press , p:42
13.Glubb,JohnBagot, (1970), The Life Times Of Muhammad,Karachi, Oxford Press Club, . P:359
۱۴۔دارا،گرودت سنگھ، (جون ۱۹۸۹ء)، رسولِ عربی،لاہور، سیرت اکیڈمی، ص:۲۲
۱۵۔ حمید اللہ ،ڈاکٹر،(۲۰۰۳ء)،محمدرسول اللہ ﷺ، بہاولپور، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،ص:۲۵۳