حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ

ترمیم

آپؒ کا نام گرامی ”عبدالحکیم“ ہے۔ تصوف سے نسبت کی وجہ سے نام کے شروع میں ”خواجہ“ لگایا جاتا ہے۔ آپؒ کے آباؤ اجداد کا تعلق پانی پت والے انصاری خاندان سے تھا جن کا سلسلہ نسب مشہور صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؒ سے ملتا ہے۔ آپ کا سلسہ نسب کچھ یوں ہے۔ خواجہ عبدالحکیم انصاری بن حافظ مولوی عبدالرحیم (خلیفہ مجاز حضرت احمد دین عالی سرکارؒ گوجرانوالہ) بن مولانا عبدلعزیز (شاگرد وخلیفہ مجاز حضرت غلام رسول صدیقی  ؒگوجرانوالہ) بن مولانا احمد بن عبداللہ بن جواہر بن فتح اللہ بن قاسم بن راج دین بن میرک بن شمس الدین۔آپ کے اجداد میں سے شمس الدین پہلے شخص تھے جو پانی پت میں آ کر آباد ا ہوئے۔ آپکا مزار انورپانی پت شہر میں درگاہ حضرت شمس الدین شمس الارض ؒ کے پاس ہے۔[1] آپؒ ۲۹ جولائی ۱۸۹۳ء کو جوارِ دہلی کے شہر فرید آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جداعلی شیخ احمد بن عبداللہ پہلے شخص تھے جو پانی پت سے فریدآباد میں آ کر آباد ہوئے۔

حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ
پیدائش ۲۹ جولائی ۱۸۹۳ء
قومیت پاکستانی
وفات ۲۳ جنوری ۱۹۷۷ء

خاندانی حالات:

ترمیم

آپؒ کے والد ماجد کا اسم گرامی مولانا حافظ عبدالرحیم تھا، جو حافظ قرآن اور عالم الدین تھے۔آپ اپنے والد کے شاگرد تھے۔ آپ نے حدیث وتفسیر کی سنداپنے والد گرامی مولانا عبدالعزیز سے پائی۔آپ کی شادی سادات گھرانے میں ہوئی۔آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ امۃ العائشہ سادات خاندان کی نہایت پارسا اور نیک اطوار خاتون تھیں۔انکی ایک بہن کی شادی مشہور شاعر نور الٰہی صدیقی تخلص رازصدیقی متوطن گوجرانوالہ سے ہوئی تھی۔ آپؒ کے دادا مولانا عبدالعزیزؒ اپنے وقت کے ایک جید عالم، کامل صوفی، ولی اللہ اور مرد خود آگاہ تھے۔ آپ حضرت مولانا غلام رسول ؒ محدث کھیالوی گوجرانوالہ کے شاگرد تھے اور انہیں سے حدیث وتفسیر کی سند پائی۔ مولانا عبدالعزیزؒ ایک تعلیم یافتہ اور وسیع النظر بزرگ تھے۔ جو کافی عرصہ تک لکھنؤ میں سینئر سب جج کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کے مشہور شاگردوں میں مولاناحضرت کریم الدین احمدؒ(نقشبندی وقادری سلسلہ مرشد انصاری صاحب)، حضرت سید قاسم علی کلیمؒی مرادآباد(چشتی سلسلہ مرشد انصاری صاحب)، حافظ عبدالرحیم  (والد انصاری صاحب)، مولانا صوفی سراج الدین، اور سید مردان علی شاہ  مگھو پنڈی پھالیہ ہیں۔

آپؒ کے پردادامولانا احمد بھی عابد و زاہد بزرگ تھے۔آپ نے ملازمت کے دوران کافی وقت ایبٹ آباد میں گزارا اور پھر کرنال سے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ پر ریٹائر ہو کر فرید آباد چلے آئے۔

آپؒ کے ننھیال دہلی کے محلہ بَلّی ماراں میں رہتے تھے جہاں قریب ہی حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلویؒ کا مزار ہے۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلویؒ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے جانشین تھے اور قبلہ انصاریؒ کے ننھیال سے ہیں۔

آپؒ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ایک چھوٹے بھائی عبدالعلیم انصاری اور ایک چھوٹی بہن رفیعہ بیگم تھیں۔ عبدالعلیم انصاری آپ سے بارہ سال چھوٹے تھے۔

بچپن:

ترمیم

آپؒ میں بچپن سے ہی ایسے خواص موجود تھے جو عام بچوں میں نہیں ہوتے۔ آپؒ سے کرامات کا ظہور ابتدائی عمر سے ہی ہونے لگا تھا۔ گھر کا ماحول ایسا ملا جس نے اعلیٰ طرز پر نکھار پیدا کیا۔ بچپن میں جب آپؒ اپنے ننھیال جاتے تو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلویؒ کے مزار پر کھیلا کرتے تھے۔

تعلیم و تربیت:

ترمیم

آپؒ کا بچپن اپنے دادا مولانا عبدالعزیزؒ کی گود شفقت میں گزرا جنہوں نے پانچ برس کی عمر تک آپؒ کو نماز، مسنون دعائیں، اور کئی چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانی یاد کرا دیں۔ مولانا عبدالعزیزؒ کا ایک ذاتی کتب خانہ تھا جس میں دینی و دنیاوی علوم پر کافی کتب تھیں۔ اس کتب خانہ سے آپؒ نے کافی کتب کا مطالعہ کر کے دینی و دنیاوی علوم پر دسترس حاصل کی۔ آپؒ جب اٹھارہ سال کے تھے تو نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ان دنوں دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ جو ملازمت کے خواہش مند ہوتے وہ مولوی فاضل اور پھر منشی فاضل کا امتحان دیتے۔ مولوی فاضل اور منشی فاضل فارسی میں ہوتے تھے۔ میٹرک کے بعد بھی منشی فاضل کا امتحان دیا جا سکتا تھا۔منشی فاضل کا امتحان دینے سے انگریزی کا امتحان دینے کا راستہ کھل جاتا تھا۔ اس طرح کسی ادارہ کے تحت لوگ پنجاب یونیورسٹی سے امتحان دیتے تھے۔ آپؒ گریجوایٹ تھے۔ آپؒ نے دینی مدارس کی تعلیم اور پھر مولوی فاضل کا امتحان دے کر منشی فاضل کرنے کی بجائے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد منشی فاضل کیا پھر گریجوایٹ بنے۔ آپؒ انگریزی سے اردو، اردو سے انگریزی، فارسی سے انگریزی اور انگریزی سے فارسی ترجمہ کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

ازدواجی زندگی:

ترمیم

آپؒ کی شادی آپؒ کے چچا کے گھر ہوئی جو کہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے۔ آپؒ کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں۔ بیٹے کا نام عبدالہادی اور بیٹیوں کے نام شمسہ بیگم، رابعہ بیگم اور ہمایوں بیگم تھے۔ شمسہ بیگم سب سے بڑی اور ہمایوں بیگم سب سے چھوٹی تھیں۔ عبدالہادی انصاریؒ اپنی نوجوانی میں ہی وفات پا گئے تھے۔ آپؒ نے اپنے بھتیجے انور علیم انصاری کو گود لے کر بیٹا بنا لیا تھا۔

گھریلو حالات:

ترمیم

آپؒ کے بیٹے عبدالہادی انصاریؒ جوانی میں ہی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ علاج کے لیے لاہور مینٹل ہسپتال داخل رہے۔ کچھ عرصہ علاج جاری رہا مگر جانبر نہ ہو سکے اور لاہور مینٹل ہسپتال میں ہی چھتیس (۳۶) سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان دنوں آپؒ کا قیام بنوں میں تھا۔ عبدالہادی انصاریؒ کی وفات کے وقت آپؒ ایبٹ آباد گئے ہوئے تھے۔ عبدالہادی انصاریؒ کو لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں دفن کیا گیا۔

آپؒ کی بڑی بیٹی شمسہ بیگم کی شادی خواجہ فخر الحسن سے ہوئی’ جو کراچی میں رہتے تھے۔ کراچی کا ماہوار مرکزی حلقہ ذکر ان کی رہائش گاہ ‘‘شمس النہار’’ واقع گارڈن ایسٹ پر ہی ہوا کرتا تھا۔ خواجہ فخر الحسن نے خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ کے دستِ شفقت پر بیعت بھی کی۔ چھوٹی بیٹی ہمایوں کے میاں شیخ امتیار علی آفاقی کافی عرصہ تک ہفتہ وار مجالسِ ذکر اور سالانہ اجتماعات میں شریک ہوتے رہے لیکن سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں باقاعدہ بیعت نہیں ہوئے۔ شیخ امتیاز علی آفاقی نے خاندان سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں شامل تمام بزرگوں کے انتہائی مختصر تعارف پر مشتمل ایک کتابچہ بھی لکھا۔

آپؒ نے اپنے بھتیجے انور علیم انصاری کو گود لے کر بیٹا بنا لیا تھا، جو پاک فضائیہ میں ٹیکنیکل آفیسر بھرتی ہو کر ونگ کمانڈر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔

آپؒ کی اہلیہ کو سب مریدین سلسلہ عالیہ توحیدیہ ’’نانی اماں‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ نانی اماں بھی ایک اعلیٰ مرتبہ کی حامل خاتون تھیں۔ آپؒ کی زندگی میں آپؒ کی اہلیہ کا کردار بہت واضح نہیں ہے۔ مگر ان کا مقام بھی بہت بلند تھا۔ نانی اماں کے مرتبے کا ذکر ایک مرتبہ آپؒ نے ایک حکایت ‘‘گھر کا جوگی جوگڑا’’ بیان کرتے ہوئے کیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ

’’اور تو اور مجھے میری اپنی بیگم بھی نہیں گانٹھتی۔ وہ تو اپنے آپ کو مجھ سے بھی اونچا سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ تم کیا بزرگ بنے بیٹھے ہو، میرے ساتھ تو اﷲ میاں باتیں کرتا ہے۔‘‘

آپؒ نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ ۱۹۲۰ء میں آپ نے انڈین آرمی میں مترجم کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ آپؒ کی پہلی تعیناتی شملہ میں ہوئی۔ آرمی ہیڈکوارٹر دہلی میں بہت وقت گزارا۔ آرمی ہیڈکوارٹر دہلی میں تعیناتی کے دوران آپؒ نئی دہلی گورنمنٹ کے اے کلاس کوارٹر ٹیگور روڈ پر اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ رہتے تھے۔ آپؒ کو آرمی ہیڈکوارٹر دہلی سے عارضی طور پر بلگام بھیجا گیا، بلگام قیام کے دوران اہلِ خانہ دہلی میں ہی رہے۔ ابھی کام ختم نہیں ہوا تھا کہ آرمی ہیڈکوارٹر دہلی کی طرف سے آپؒ کو بلگام سے واپس بلایا گیا۔ بلگام کی طرف سے کام مکمل نہ ہونے کا عندیہ دیا گیا مگر آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی نے یہ کہہ کر دہلی بلا لیا کہ باقی کام دہلی رہ کر پورا کر دیا جائے گا۔ آپؒ بلگام سے واپس دہلی تشریف لائے اور اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے۔

۱۹۴۷ء میں جب آپ دہلی سے ہجرت کر کے لاہور اور پھر کراچی آئے تو آپؒ نے پاکستان ائیر فورس بیس ڈرگ روڈ (موجودہ شارع فیصل) میں بطور لائبریرین ملازمت شروع کی۔ یہاں سے کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ ملیر کینٹ لائبریری میں ہو گیا۔ ۱۹۵۵ء میں جب آپe نے کراچی سے بنوں مستقل سکونت کا فیصلہ کیا تو اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

تصوف کی طرف رجحان:

ترمیم

آپؒ کی ابتدائی تربیت میں آپؒ کے دادا مولانا عبدالعزیزؒ کی صحبت کار فرما تھی۔ آپؒ کا بچپن اپنے دادا مولانا عبدالعزیزؒ کی گودِ شفقت میں گزرا۔ جن کی فیضِ صحبت سے آپؒ تصوف کی طرف مائل ہوئے اور آپؒ کو فقراء سے محبت و موانست نصیب ہوئی۔ آپؒ پیدائشی ولی اﷲ تھے۔ آپؒ سے بچپن میں ہی کرامات کا ظہور ہونے لگا مگر آپؒ نے کرامات کو خاطر خواہ اہمیت کبھی نہ دی۔ مولانا عبدالعزیزؒ کے ذاتی کتب خانہ سے دینی و دنیاوی کتب کا مطالعہ کر کے نہ صرف دینی و نیاوی علوم پر دسترس حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تصوف اور صوفیاء کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملا۔ آپؒ ابھی دس برس کے تھے کہ آپ ؒکے دادا مولانا عبدالعزیز ؒ ۱۹۰۲ء میں انتقال فرما گئے۔ مولانا عبدالعزیزؒ کا تو انتقال ہو گیا مگر ان کی صحبت کے اثرات سے آپe کی تربیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئی۔ لڑکپن سے ہی آپؒ نے مرشد کی تلاش شروع کر دی۔ کئی درویشوں، بزرگوں، فقیروں، ملنگوں کے پاس گئے۔ بڑے بڑے درباروں، آستانوں اور درگاہوں کی طرف گئے، طرح طرح کی دنیا اور اس کے رنگ ڈھنگ دیکھے مگر کسی جگہ بھی دل مطمئن نہ ہوا۔ آپؒ نے مرشد کی تلاش میں جو جستجو کی وہ آپؒ کی تصنیف ‘‘چراغِ راہ’’ کے پہلے خطبہ میں انتہائی مختصر درج ہے۔

مقصودِ حیات:

ترمیم

آپؒ کا مطمعئ نظر آپ کے بقول

”ایسے بزرگ کی تلاش تھی جو صاحبِ علم، صاحبِ عرفان اور صاحبِ تحقیق ہو، کشف و کرامات دکھانے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عارف اور محقق کہاں نظر آتے ہیں۔“

آپؒ کا مقصدِ حیات ”رویت باری تعالیٰ کا حصول تھا“۔

تلاشِ مرشد:

ترمیم

باقاعدہ سلوک طے کرنے کے لیے آپؒ مرشد کی تلاش میں سرگرداں رہے، آخرکار۱۹۱۱؁ میں آپ کے والد کے مرشد حضرت احمد دین عالی سرکارؒ بمع حضرت امام دین صدیقیؒ ودیگر بزرگوں کے ساتھ آپ کے گھر دہلی تشریف لاے ئ۔ آپکے والد گرامی نے آ پ کو حضرت امام دین صدیقیؒ کے سامنے بیعت کے لیئ  پیش کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ انکا حصہ ہمارے پاس نہیں ہے البتہ میں ان پر ایک سبق تلقین کرتا ہوں جو یہ اگر حضرت نظام الدین ؒ محبوب الٰہی کے مزار اقدس پر جا کر پڑھیں تو اپنے مرشد کو پا لیں گے۔ حضرت نے وہ سبق پڑھا تو چند ہی دنوں بعد آپ اپنے ایک قریبی عزیز شیخ عبد الرحمٰن کے توسل سے اپنے دادا کے شاگردحضرت مولانا کریم الدین احمدؒکے بارگاہ میں حاظر ہوے ٔ۔ [2]مولانا کریم الدین احمدؒ میں وہ تمام خوبیاں کما حقہٗ موجود تھیں جن کے حامل بزرگ کی آپؒ کو عرصہ دراز سے تلاش تھی۔ آپ ؒپہلی نشست میں چھ گھنٹے تک مولانا کریم الدین احمدؒ کی خدمت میں حاضر رہے اور بیعت ہو گئے۔ مولانا کریم الدین احمدؒ نے کہا کہ

"دو چار ماہ ہماری صحبت میں رہو اور خوب جانچ پرکھ کر لو، پھر بیعت ہونا"

مگر آپؒ نے فرمایا کہ ”جو کچھ مجھے دیکھنا تھا وہ سب دیکھ لیا، خدا جانے پھر وقت اور موقع ملے نہ ملے اس لیے مہربانی فرمائیں اور مجھے بیعت کر لیں۔“

سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے نسبت:

ترمیم

مولانا کریم الدین احمدؒ کے دست شفقت پر ۱۹۱۱ء میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کے وقت آپِؒ کی عمر اٹھارہ سال تھی اور نویں جماعت کے طالب علم تھے۔

مولانا کریم الدین احمدؒ نے آپؒ کو چوبیس گھنٹے پاس انفاس، اور روزانہ پانچ ہزار مرتبہ نفی اثبات کرنے کو کہا۔ سلسلہ نقشبندیہ میں رائج طریق ذکر نفی اثبات کے برعکس مولانا کریم الدین احمدؒ نے آپ کو ذکر نفی اثبات بالجہر کے طریقہ پر کرنے کو کہا۔ آپؒ نے بڑی جانفشانی اور جوش و خروش سے تین برس متواتر اپنے اوراد جاری رکھے۔ مولانا کریم الدین احمدؒ کے بتائے گئے ان اوراد و اذکار کو پورا کرنے کی کوشش میں راتیں گزرتی تھیں۔ اس کی وجہ سے آپؒ دو مرتبہ میٹرک میں فیل ہو گئے۔ اسی دوران اﷲ کے فضل و کرم سے آپ کے تین لطیفے، قلب، روح اور سِر روشن ہو گئے اور ان کے دوائر کی سیر بھی میسر آ گئی۔ جس پر مولانا کریم الدین احمدؒ نے تحریری طور پر آپؒ کو خلافت سے نوازا اور بیعت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ اجازت نامہ میں تحریر فرمایا کہ

’’جب تک چالیس سال کی عمر نہ ہو جائے کسی کو بیعت نہ کرنا۔‘‘

اس وقت آپؒ کی عمر تئیس (۲۳) برس کے لگ بھگ تھی۔ مولانا کریم الدین احمدؒ نے آپ کو نوافلِ تہجد پر خصوصی توجہ، ممکنہ حد تک تلاوتِ قرآن پاک اور تفکر یعنی مراقبے میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی ہدایت کی۔ آپؒ نے اپنے مرشد کی ہدایات پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۲۰ء میں مولانا کریم الدین احمدؒ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپؒ جب مولانا کریم الدین احمدؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تو ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے۔ تقریباً نو (۹) سال تک سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے وابستہ رہے۔ ابتدائی چھ (۶) سال میں آپؒ دس پندرہ مرتبہ اپنے مرشد (مولانا کریم الدین احمدؒ) سے ملے۔

سلسلہ چشتیہ سے نسبت:

ترمیم

مولانا کریم الدین احمدؒ کی وفات کے بعد آپؒ نے سلسلہ چشتیہ میں مراد آباد کے رہنے والے ایک مشہور بزرگ اور اپنے دادا کے شاگرد سید محمد قاسم علی کلیمیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپؒ نے پانچ چھ سال میں ہی چشتیہ سلوک طے کر لیا۔ آپؒ کم و بیش دس سال کے عرصہ میں صرف دو مرتبہ اپنے مرشد (سید محمد قاسم علی کلیمیؒ) سے ملے۔ آپؒ مزاجاً مرشد کی زیات کی نسبت ان کی بتائی گئی تعلیم پر پورے جوش سے عمل کرنے کے قائل تھے۔ آپؒ پیر سے عقیدت کے ساتھ ساتھ محبت کو بھی ضروری خیال کرتے تھے۔

اویسیہ نسبت:

ترمیم

آپؒ سلسلہ نقشبندیہ اور سلسلہ چشتیہ کا روحانی سلوک طے کر چکے تھے مگر مقصودِ حیات یعنی ’’رویت باری تعالیٰ کا حصول‘‘ تاحال ایک خواہش کی صورت میں موجود تھا۔ مزید کہیں بیعت تو نہ ہوئے مگر سلسلہ قادریہ اور دیگر سلاسل کے سلوک کا بغور مطالعہ کیا۔ تمام تر مطالعہ میں کہیں بھی رویت باری تعالیٰ کے حصول کا ذکر تک نہ پایا۔ مولانا کریم الدین احمدؒ نے پہلی ملاقات میں ہی ایک دوست کے ذریعے رویت باری تعالیٰ کے حصول کی پیشین گوئی کی تھی۔ اس دوست کے انتظار میں آپؒ لطیفہ غیبی کے منتظر رہے۔ آخر کار اکتوبر ۱۹۲۸ء میں رسالدار محمد حنیف خاںؒ سے ملاقات ہو گئی۔ یہ وہی بزرگ تھے جن کا نام آپؒ کے دادا مولانا عبدالعزیزؒ نے خواب میں آ کر آپؒ کو بتایا تھا اور جن کے بارے میں مولانا کریم الدین احمدؒ نے بشارت دی تھی کہ

’’میرے مرنے کے بعد تمہیں ایک دوست ملے گا جس کے پاس تمہارا حصہ ہے، اس کی تعلیم اور صحبت سے تمہارے اندر وہ صلاحیتیں پیدا ہو جائیں گی جو جیتے جی اﷲ کا دیدار حاصل کرنے کے لیے لازمی ہوتی ہیں۔‘‘

رسالدار محمد حنیف خاںؒ ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے قصبہ مہندر گڑھ کے رہنے والے تھے اور اویسی بزرگ تھے، جنہیں سیالکوٹ کے مشہور بزرگ امام علی الحقؒ سے اویسیہ طریق سے روحانی فیض ملا۔ امام علی الحقؒ کسی جہادی مہم پر سیالکوٹ آئے اور شہید ہو گئے انہیں یہیں پر دفن کر دیا گیا، رسالدار محمد حنیف خاںؒ ۱۹۲۸ء میں آپؒ سے ملاقات کے وقت بلگام میں بطور وائسراے کمیشن آفیسر (VCO) آرمی کے ٹریننگ سکول میں آئے ہوئے تھے اور آپؒ آرمی ہیڈکوارٹر دہلی سے آرمی ٹریننگ سکول بلگام میں مترجم کی حیثیت سے عارضی طور پر موجود تھے۔

رسالدار محمد حنیف خاں ؒ سے دوستی:

ترمیم

آپؒ کی رسالدار محمد حنیف خاں ؒ سے دوستی کا سفر کم و بیش انیس (۱۹) سال پر محیط ہے۔ آپؒ کا تعلق رسالدار محمد حنیف خاں ؒ سے چھوٹے بھائی کا سا تھا۔ آپؒ بلگام قیام کے دوران رسالدار محمد حنیف خاں ؒ کی دوستانہ صحبت سے بھرپور استفادہ کرتے رہے۔ بالآخر سرکاری حکم پر بلگام سے دہلی آرمی ہیڈکوارٹر واپس آ گئے۔ رسالدار محمد حنیف خاں ؒ بھی بلگام میں ٹریننگ مکمل کر کے بنوں چلے گئے۔ بنوں قیام کے دوران رسالدار محمد حنیف خاں ؒ چھٹیوں پر گھر جاتے ہوئے پہلے دہلی آتے، آپؒ کے ہاں قیام کرتے اور پھر گھر جاتے۔ بعض اوقات بنوں سے گھر چلے جاتے، اور واپسی پہلے دہلی میں قیام کرتے اور پھر بنوں کے لیے روانہ ہوتے۔ رسالدار محمد حنیف خاں ؒ کے دہلی میں قیام کے دوران کئی معتقد اور دوست احباب بھی آپؒ کی رہائش گاہ پر آ جاتے اور خوب محفل جمتی۔

آپؒ کو رسالدار محمد حنیف خاں ؒ نے کوئی ذکر اذکار وغیرہ نہ بتائے۔ ان کا تعلق صرف دوستی اور صحبت کا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی سال بعد آپؒ نے اپنے پرانے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ والے معمولات جو مولانا کریم الدین احمدؒ نے بتائے تھے وہ دوبارہ شروع کر دیے۔ رسالدار محمد حنیف خاں ؒ دہلی آئے تو آپؒ کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور فرمایا:

”ماشاء اللہ اب تو خوب رنگ چڑھا ہوا ہے کیا پڑھتے ہو؟“

آپؒ نے جواب دیا کہ

”آپؒ تو کچھ پڑھنے کو بتاتے نہیں ہیں اس لیے میں نے اپنے پرانے سلسلہ نقشبندیہ والا ذکر ہی شروع کر دیا ہے۔“

رسالدار محمد حنیف خاں ؒ نے کہا کہ

”یہی ٹھیک ہے، یہی کرتے رہیں۔“

آپؒ نے ایک مرتبہ اپنے مریدین کو بتایا کہ

”جب رسالدار محمد حنیف خاں ؒ تشریف لاتے تو رات کافی دیر تک احباب کے ساتھ نشست جمتی، چائے کے دور چلتے اور خوب گپ شپ ہوتی۔ ایک شب ایسی ہی ایک مجلس تھی کہ آپؒ نے پانی منگوایا، اس میں سے تھوڑا سا خود پیا اور گلاس والا ہاتھ آگے بڑھایا۔ نزدیک ہی ایک دوست ظہور الحسنؒ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے گلاس پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو رسالدار محمد حنیف خاں ؒ نے انہیں ایک تھپڑ رسید کیا اور گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ اس کا حصہ ہے“ میں نے وہ چند گھونٹ پانی کے پی لیے۔ اللہ جانے اس ظالم نے اس میں کیا ملایا تھا کہ پانی پینے کے ساتھ ہی زن کی آواز آئی کہ جیسے میں نے پگھلا ہوا تانبا یا سیسہ پی لیا ہو۔ وہ پانی جہاں جہاں سے گزرا سب کچھ جلاتا ہوا گزرا۔ بس اس کے بعد تو پھر میری ترقی راکٹ کی سپیڈ سے ہوئی۔ اب تو جو کچھ بھی میرے پاس ہے یہ رسالدار صاحب کا دیا ہوا ہے۔ چونکہ انہوں نے مجھے بیعت نہیں کیا تھا اس لیے ہم اپنا شجرہ مولانا کریم الدین احمدؒ سے ملاتے ہیں کہ وہی ہمارے مرشد تھے۔‘‘

آپؒ بھی چند مرتبہ مہندر گڑھ گئے۔ رسالدار محمد حنیف خاںؒ فوج سے ریٹائر ہو کر مہندر گڑھ آباد ہو گئے۔ جہاں سے اکثر اوقات دہلی جایا کرتے تھے۔ ان دنوں شب و روز ملاقاتوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ آپ ان گزرے ہوئے دنوں کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔

ہجرتِ پاکستان:

ترمیم

تقسیم ہند کے بعد امن و امان کی صورتِ حال ابتر ہوتی چلی گئی۔ پاک و ہند سرحد کے آر پار ہجرت ہو رہی تھی۔ آپؒ نئی دہلی ٹیگور روڈ کے مکان سے پاکستانی سفارتخانے چلے گئے اور ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ء کو دہلی سے ہجرت کر کے بذریعہ ریل گاڑی لاہور تشریف لائے۔ بستی نظام الدین کے ریلوے اسٹیشن سے لاہور تک یہ سفر کوئی معمولی سفر نہ تھا۔ اس ہجرت کے آگ و خون کے حالات اور غیبی نظام سے آپؒ کی ریل گاڑی کی حفاظت کے واقعات کو انتہائی مختصر طور پر آپؒ نے اپنے دسویں سالانہ خطبہ ۱۹۷۴ء میں بیان فرمایا ہے۔

کراچی میں قیام:

ترمیم

آپؒ لاہور مہاجر کیمپ میں دو ہفتے گزارنے کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے پاس کراچی چلے گئے اور اپنے خالہ زاد بھائی کے ساتھ کچھ دیر رہے۔ اس کے بعد اپنے داماد کی رہائش گاہ پر چلے گئے۔ جب آپؒ کی بطور لائبریرین پاک فضائیہ کے ڈرگ روڈ (شارع فیصل) سٹیشن میں ملازمت ہوئی تو آپؒ کو کیمپ کے اندر ہی رہائش کے لیے کوارٹر بھی مل گیا۔

کراچی میں دورانِ ملازمت ہی آپؒ کی بزرگی عیاں ہو گئی۔ آپؒ کے عقیدت مند حضرات پاک فضائیہ میں کثرت سے تھے۔ جب آپؒ کا تبادلہ پاک فضائیہ کے ڈرگ روڈ (شارع فیصل) سٹیشن سے ملیر کینٹ لائبریری میں ہوا تو یہاں بھی آپؒ کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ جب کراچی میں ملیر ائیر فورس بیس کا افتتاح ہونے والا تھا تو وہاں کے سٹیشن کمانڈر ونگ کمانڈر عبدالسلام بٹ نے آپؒ سے نئے کیمپ کے لیے مونو گرام لکھنے کی درخواست کی۔ آپؒ نے اس کیمپ کے مونو گرام کے لیے یہ شعر لکھ دیا:

آتی ہے مجھے غیب سے آواز مسلسل ہے عرش بھی نیچا جو ہو پرواز مسلسل

آپؒ کا تجویز کردہ یہ مونو گرام آج بھی ملیر ائیر فورس بیس کے مین گیٹ پر لکھا ہوا ہے۔

آپؒ جنوری ۱۹۵۵ء میں کراچی سے بنوں منتقل ہو گئے۔ آپؒ ۱۹۶۳ء میں آخری مرتبہ اپنے چھوٹے بھائی عبدالعلیم انصاریؒ سے ملنے کے لیے کراچی آئے۔ اس کے بعد دوبارہ کبھی کراچی جانا نہیں ہوا۔

بنوں میں قیام:

ترمیم

آپؒ کے دوست اور محسن رسالدار محمد حنیف خاںؒ فوج سے ریٹائر ہو کر مہندرگڑھ ریاست پٹیالہ میں اپنے آبائی گھر میں آباد تھے انہوں نے ہجرت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ

’’ہمیں حکم ہوا ہے کہ یہاں پر ہی شہید ہونا ہے۔‘‘

عزیز واقارب نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہیں مانے او ربعد میں وہیں شہید ہوئے۔

آپؒ فرماتے تھے کہ

’’رسالدار صاحبؒ تو اکثر میرے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘

’’رسالدار صاحب جب بھی ملتے یہی فرماتے کہ بنوں آ جاؤ۔ اگر آرام سے رہنا چاہتے ہو تو بنوں آ جاؤ۔ آخر ان کی محبت ہمیں بنوں لے گئی۔‘‘

آپؒ جنوری ۱۹۵۵ء میں کراچی سے ترکِ سکونت کر کے بنوں تشریف لے آئے۔ بنوں جانے کا بظاہر سبب یہ ہوا کہ آپؒ کے جاننے والے ایک صاحب بنوں میں سیٹلمنٹ کمشنر تھے۔ وہ اکثر آپؒ کو دعوت دیتے تھے کہ آئیں مجھے مل جائیں۔ آپؒ ان سے ملنے کے لیے بنوں گئے تھے اور ان کے پاس مہینہ بھر ٹھہرے۔ انہوں نے آپؒ سے آپؒ کے کلیم (Claim) کے بارے میں دریافت کیا۔ آپؒ نے ابھی تک اپنے کلیم پر الاٹمنٹ نہیں کرائی تھی۔ اس سیٹلمنٹ کمشنر نے آپ ؒسے کلیم مانگا تاکہ اس کے بدلے الاٹمنٹ کی جا سکے۔ آپ ؒنے انہیں کلیم دیا، جس پر انہوں نے آپؒ کو نحاسٹن پارک کے قریب محلہ قصاباں میں مکان نمبر ۷۴۶ سی الاٹ کر دیا۔ اور پانچ ہزار روپے نقد رقم ادا کی۔ سیٹلمنٹ کمشنر کے ہاں قیام کے دوران آپ ؒکی ملاقات عبدالستار خانؒ سے ہوئی۔ عبدالستار خانؒ نے بہت جلد آپ کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں بیعت کر لی۔ آپؒ کو مکان کی الاٹمنٹ کے ڈیڑھ ماہ بعد اس سیٹلمنٹ کمشنر کا بنوں سے تبادلہ ہو گیا۔ آپؒ کا مکان ابھی خالی نہیں ہوا تھا اس مکان میں رہنے والے لوگوں نے مکان خالی کرنے کے لیے مہلت مانگی جو انہیں دے دی گئی تھی۔ اس دوران آپؒ کا عارضی قیام عبدالستار خانؒ کی رہائش ‘‘شانتی بھون’’ میں رہا۔ آپؒ کے اس دور کے خطوط ‘‘شانتی بھون’’ کے اس پتہ پر آتے تھے۔ عبدالستار خانؒ کے گھر ‘‘شانتی بھون’’ میں ساکنین کی تعداد کافی تھی۔ ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز و اقارب بھی یہاں رہتے تھے۔

آپؒ کا مکان ۷۴۶ سی خالی ہو گیا تو آپؒ اس مکان کی صفائی اور رنگ روغن کے بعد ۱۹۶۲ء میں اس مکان میں منتقل ہو گئے، عبدالستار خانؒ کو بھی اپنے مکان میں آنے کی دعوت دی۔ عبدالستار خانؒ اپنے انتہائی مختصر خاندان، بیگم اور ایک بیٹی کے ساتھ آپؒ کے پاس آ گئے۔ محلہ قصاباں میں واقع یہ مکان چھوٹا سا تھا جس میں ایک دو کمرے تھے۔ ساتھ ہی بیٹھک تھی۔ بیٹھک کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جن سے اوپر جا کر لیٹرین تھی۔ عبدالستار خانؒ نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ بنوں میں آپؒ کی خوب خدمت کی۔

آپؒ اکتوبر ۱۹۶۴ء میں لاہور منتقل ہونے تک بنوں میں اسی مکان میں رہے۔ محمد صدیق ڈار صاحب بھی ایک مرتبہ بنوں گئے اور اسی گھر میں دو شب قیام کیا۔

لاہور میں قیام:

ترمیم

آپ ؒ اکتوبر ۱۹۶۴ء میں اپنے مریدین کے متواتر اصرار اور میاں محمد علیؒ کی دعوت پر بنوں سے ترکِ سکونت کر کے لاہور تشریف لے آئے۔ بنوں والا مکان پندرہ ہزار روپے میں فروخت کر کے اور محکمہ تملیک (Sattlement) کی جانب سے ملنے والے پانچ ہزار روپے بھی بنک میں جمع کرا دیئے اور اپنے وصیت نامہ میں اپنی وفات کے بعد یہ رقم اپنی دو بیٹیوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں ہدایات درج فرما دیں۔ آپؒ لاہور تشریف لائے تو آپؒ کے رفیق اور مرید عبدالستار خانؒ اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ ساتھ ہی لاہور آ گئے۔ لاہور آمد کے بعد ابتداء میں آپؒ چند ماہ فضل بلڈنگ واقع کوپر روڈ اور پھر چھاؤنی ایریا کی ایک کوٹھی میں مقیم رہے۔ جب میاں محمد علیؒ 76-B-1 المعروف گنبد والی کوٹھی گلبرگ سکیم تھری میں منتقل ہوئے تو آپؒ بھی ساتھ چلے آئے۔ گنبد والی کوٹھی میں ایک بڑا ہال بیٹھک کا تھا۔ یہ آپؒ کی رہائش اور گزر بسر کے لیے تھا۔ اس ہال میں آپؒ اکیلے رہتے تھے اور کسی دوسرے کو شاذ و نادر ہی وہاں سونے دیتے تھے۔ اندر دو کمرے عبدالستار خانؒ اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے مخصوص تھے۔ آپؒ سے ملاقات کے لیے آنے والے دوست احباب دن کے اوقات میں ہی مل کر واپس چلے جاتے تھے۔ رات کے وقت دوست احباب کا اس گنبد والی کوٹھی میں قیام کا رجحان بہت کم تھا۔ دور دراز سے آنے والے احباب بھی رات کو کم ہی قیام کرتے یا گیراج میں سو جاتے تھے۔ آپؒ نے گنبد والی کوٹھی میں کم و بیش نو سال قیام کیا۔

۱۹۷۳ء میں آستانہ عالیہ توحیدیہ کی جزوی تعمیر کے بعد اس کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔تقریب کے بعد اسی رات آپؒ B-1-76 گلبرگ تھری (المعروف گنبد والی کوٹھی) گئے اور اپنا سامان لا کر آستانہ عالیہ توحیدیہ میں آباد ہو گئے۔ عبدالستار خانؒ بھی اپنی بیگم اور بیٹی کے ہمراہ آپؒ کے ساتھ تھے۔ آپؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقریب کے بعد بھائی مجھے واپس گلبرگ چھوڑ آئے۔ لیکن مجھے وہاں خوف سا محسوس ہوا۔ اﷲ میاں نے کہا کہ تمہیں آستانہ بنا دیا ہے اب یہاں کیا لینے آئے ہو۔ میں نے اپنا مختصر سا سامان سمیٹا، ٹیکسی پکڑی اور واپس آستانہ توحیدیہ پہنچ گیا۔ سب بھائی مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے کیوں کہ ابھی اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔

آپؒ جب کراچی سے بنوں منتقل ہوئے تو نانی اماں کراچی میں ہی رہیں۔ بعد ازاں جب آپؒ کی چھوٹی بیٹی ہمایوں بیگم ۱۹۶۲ء میں کراچی سے راولپنڈی آباد آئیں تو نانی اماں بھی ان کے ساتھ راولپنڈی آ گئیں اور اپنی چھوٹی بیٹی کے پاس پامر لائنز کوارٹرز راولپنڈی صدر میں رہیں۔ آپؒ جب بھی بنوں سے راولپنڈی آتے تو دن کے اوقات میں اپنے اہلِ خانہ سے ملنے چلے جاتے تھے۔ لیکن رات کے وقت واپس محمد صدیق ڈار صاحب کے گھر آ جاتے جہاں پیار کی محفل جمتی اور اﷲ کی باتیں ہوتیں۔

نانی اماں سب مریدین سے ہی پیار کرتیں مگر منشی خان ؒسے کراچی سے ہی واقف تھیں۔ منشی خانؒ میر پور کے رہنے والے تھے انہیں نانی اماں نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ آپؒ فرماتے تھے کہ

’’نانی اماں کو یا تو گڑ والے چاول پسند ہیں یا بیٹوں میں منشی خان پسند آیا ہے۔‘‘

ایک مرتبہ آپؒ کے دورہ راولپنڈی کے موقع پر نانی اماں کو بھی مدعو کیا گیا۔ نانی اماں محمد صدیق ڈار کی رہائش گاہ راولپنڈی میں واقع محلہ چاہ سلطان پر تشریف لائیں، دو تین روز قیام کیا۔ نانی اماں کے سفری سامان میں مصلیٰ، تسبیح اور پان دان شامل تھا۔ واپسی پر انہیں بیٹھک کی طرف سے لایا گیا۔ ان کی آمد سے قبل ہی آپؒ نے حاضرین مجلس سے کہہ دیا کہ

’’اس کا جوان بیٹا فوت ہو گیا ہے، دکھیا ہے، سب سلام کرنا ذرا خوش ہو جائے گی۔‘‘

نانی اماں جیسے ہی واپسی کے لیے بیٹھک میں داخل ہوئیں تو سب نے سلام کیا۔ آپؒ نے کہا کہ

’’بیٹے سلام کہہ رہے ہیں، یہ سب تمہارے بیٹے ہیں۔ ان کو پیار دو‘‘

نانی اماں 15 اپریل 1965ء میں لاہور میں انتقال کر گئیں اور انہیں ایف بلاک، ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آپؒ نے اپنی وصیت میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے وفات سے دو سال قبل ہی اپنے مالی اثاثوں کے بارے میں تفصیلات درج فرما دیں۔ آپؒ کے عزیز و اقارب میں سے کم لوگ ہی سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں آئے۔

آغازِ بیعت:

ترمیم

آپؒ نے کبھی بھی ایک پیر کی حیثیت سے منظر عام پر آنا پسند نہیں فرمایا تھا۔ ملازمت کے دوران ہی لوگ آپؒ کی طرف متوجہ ہونے لگے جس نے جو دعا بھی کرائی اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما لی اور آپؒ کی بزرگی کا چرچا ہونے لگا۔ آپؒ اپنے قریب آنے والوں کو وعظ و نصیحت فرماتے اور اﷲ کی رضا کی خاطر روحانی فیض سے مخلوقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے۔ ۱۹۵۰ء میں چند طالبانِ حق کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ آپؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ ابھی تک سلسلہ عالیہ توحیدہ کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا گیا تھا۔ آپؒ سے ملنے والے زیادہ تر لوگ پاک فضائیہ سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فضائیہ کے لوگ ہی کاروانِ محبت و صداقت کا ہر اول دستہ بنے۔

سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی بنیاد:

ترمیم

آپؒ ۱۹۵۳ء میں اپنے مقصودِ حیات یعنی ‘‘رویت باری تعالیٰ کے حصول’’ سے ہمکنار ہوئے۔ آپؒ کو اپنا مقصودِحیات مل گیا تو آپؒ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی ۱۹۵۳ء میں کراچی میں بنیاد رکھ کر اس فیض کو عام کیا۔

آپؒ کے اولین مریدین میں ونگ کمانڈر محمد اکبر، قاضی غیور احمد، میر ظفر علی، نور بابا، چوہدری غلام قادر اور محمد حسین چہل (المعروف مارشل)ؒ وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں سلسلہ عالیہ توحیدیہ کراچی سے پاکستان ائیر فورس کی تمام چھاؤنیوں میں متعارف ہو گیا۔ اور کئی جگہ اﷲ کے ذکر کے باقاعدہ حلقے قائم ہو گئے۔ پاک فضائیہ کے لوگوں ہی کے توسط سے یہ دعوتِ محبت و صداقت چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچتی چلی گئی۔

سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی دعوت کی اشاعت کے ابتدائی ذرائع آپؒ کی وعظ و نصیحت، ذاتی ملاقاتیں، مریدینِ سلسلہ اور بالخصوص وہ خطوط جو آپؒ نے دور دراز مقامات پر رہنے والے اپنے مریدین کو لکھے تھے، خطوط کی زبان و بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر خطوط مریدین کو ان کے خطوط کے جواب میں لکھے گئے۔ آپؒ خطوط کا جواب بروقت دیتے اور شاذ و نادر ہی ایسا ہوا کہ کسی خط کا جواب نہ دیا ہو۔ آپؒ کی علالت پر آپؒ کی طرف سے محمد قاسم خانؒ خطوط کے جوابات دیتے۔

۱۹۵۴ء تک ارکان سلسلہ کی تعداد چالیس پچاس سے زیادہ نہ تھی۔ جنوری ۱۹۵۵ء میں بنوں منتقل ہونے کے بعد چند ہی ماہ میں یہ تعداد بہت زیادہ ہو گئی۔ ۱۹۵۶ء کے آخر میں ضرورت محسوس ہوئی کہ حلقے کی باقاعدہ تنظیم کی جائے۔ یہ قاعدہ بنایا گیا کہ جس مقام پر کم از کم پانچ آدمی سلسلہ میں شامل ہو جائیں وہیں ایک حلقہ قائم کر دیا جائے اور انہیں پانچوں میں سے ایک کو ان کا انچارج مقرر کر دیا جائے۔ پشاور میں چونکہ ارکانِ سلسلہ کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے تجرباتی طور پر پہلا حلقہ وہاں قائم کیا گیا اور ملک بخشیش الہٰیؒ کو حلقہ کا انچارج مقرر کر دیا گیا۔ حلقہ کے انچارج کو پہلے ‘‘امیر حلقہ’’ کہا جاتا تھا جو بعد میں ‘‘خادمِ حلقہ’’ کر دیا گیا۔

تصانیف:

ترمیم

آپؒ نے مروجہ پیری فقیری سے قطع نظر کر کے تصوف کی تجدید کی اور اسے قرآن و سنت کے عین مطابق بنانے کا عظیم کام سرانجام دیا۔ آپؒ نے حضور نبی کریمﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق تصوف کی تعلیم کو نئے سرے سے مدون فرمایا۔ اسے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق قابلِ عمل بنا کر باقاعدہ طور پر سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی بنیاد رکھی۔ آپؒ نے اپنے بنوں قیام کے دوران ہی اپنی پہلی شہرہ آفاق تصنیف بعنوان ‘‘تعمیر ملت’’ ۱۹۵۷ء میں مرتب کی۔ بنوں میں ہی آپؒ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے ذکر اذکار، قواعد و ضوابط اور آداب کو اپنی کتاب ‘‘طریقت توحیدیہ’’ میں قلمبند کر دیا۔ ‘‘طریقت توحیدیہ’’ پہلی مرتبہ ۱۹۶۲ء میں نوشہرہ ورکاں میں ہونے والے سالانہ اجتماع میں منظر عام پر آئی۔

’’طریقت توحیدیہ‘‘سلسلہ عالیہ توحیدیہ سے وابستہ حضرات کے لیے دو ٹوک الفاظ میں لکھا جانے والا ہدایت نامہ ہے جو سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے منشور اور آئین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے تنظیمی اور عملی سلوک کے ہر پہلو کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے ایک ضابطہ مقرر کرتی ہے۔ جس پر عمل کرنا سلسلہ عالیہ توحیدیہ سے وابستہ ہر فرد پر لازم ہے۔

آپؒ نے اپنی کتاب ’’حقیقت وحدت الوجود‘‘ اس وقت لکھی جب آپ گلبرگ لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ ۱۹۶۹ء میں حقیقت وحدت الوجود کا مسودہ تیار تھا۔ محمد صدیق ڈار صاحب سرگودھا سے ایک دن کی چھٹی پر لاہور آئے ہوئے تھے۔ آپؒ نے یہ مسودہ انہیں دیا اور فرمایا کہ

’’میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ایک مرتبہ پڑھ لیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو کاتب کو دینے سے پہلے درست کر لی جائے۔ لیکن میں اسے آپ کو ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسے یہاں ہی پڑھ لیں۔ یہ چھوٹی سے کتا ب ہے۔ آپ ایک نظر یہاں ہی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

محمد صدیق ڈار صاحب نے چند ہی گھنٹوں میں مسودہ پڑھ لیا۔ اور چند جگہوں پر آپؒ سے درستگی کروائی۔ ایک خاص بات جو مسودہ میں موجود تھی لیکن جب کتاب چھپی تو آپؒ نے بوجوہ اسے نکال دیا۔ وہ یہ تھی:

’’مولانا کریم الدین احمدؒ کی وفات کے بعد جب حضرت رسالدار صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو اس مرتبہ میرا سلوک عجیب طرح سے طے ہوا۔ میں ہر چیز کو اچھی طرح دیکھتا اور سمجھتا ہوا آگے بڑھا۔ وہاں ایک روحانی گائیڈ ملتا ہے، مجھے جو گائیڈ ملے وہ تین سو برس پہلے فوت ہوئے اور نیشا پور کے رہنے والے تھے۔ (ان کا نام بھی لکھا تھا) وہ بہت بڑے بزرگ تھے لیکن دنیا میں انہیں کوئی نہیں جانتا تھا یعنی بالکل مشہور نہیں تھے۔‘‘ اس وقت کتاب کا مجوزہ نام ’’حقیقت کبریٰ‘‘ تھا۔ قبلہ حضرتؒ نے فرمایا کہ اس نام سے نفسِ مضمون معلوم نہیں ہوتا تھا اس لیے ہم نے بدل کر ’’حقیقت وحدت الوجود‘‘ کر دیا۔

آپؒ نے اپنی زندگی میں سالانہ اجتماعات کے موقع پر جو خطبات دیے وہ ایک کتابچے کی صورت میں اجتماع کے موقع پر ہی چھپے ہوئے موجود ہوتے تھے جو شرکائے اجتماع اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ سالانہ اجتماعات پر دیے جانے والے خطبات کو ‘‘چراغِ راہ’’ کی صورت میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ پہلے چھ (۶) خطبات کو آپؒ کی زندگی میں ہی کتابی شکل دے دی گئی تھی۔ جبکہ باقی خطبات کو وفات کے بعد آنے والے ایڈیشن میں شامل کر دیا گیا۔ ‘‘چراغِ راہ’’ میں اب موجود خطبات کی تعداد گیارہ (۱۱) ہے۔

۱۹۶۷/۶۸ء میں آپؒ بیمار ہوئے۔ تو آپؒ نے خط اور ملاقاتیں منع فرما دیں۔ ایک اجتماع صحت یاب ہونے کی خوشی میں نوشہرہ ورکاں میں منعقد کیا گیا۔ یہ اجتماع سالانہ اجتماعات کے درمیانی عرصہ میں کسی وقت منعقد ہوا۔ اس موقع پر آپؒ نے درود شریف روزانہ ایک ہزار مرتبہ (۱۰۰۰) پڑھنے کا حکم دیا۔ آپؒ نے کہا کہ

‘‘مجھے کشف کیا گیا ہے کہ درود شریف پڑھیں۔ ورنہ خالی توحید سے تنگ دستی اور امراض کا ہجوم رہے گا’’

سب مریدینِ سلسلہ کو خط کے ذریعے سرکلر کی صورت میں مطلع کر دیا گیا کہ ‘‘کوئی چھوٹا سا درود شریف چن لو اور روزانہ ایک ہزار مرتبہ پڑھو۔’’

آپؒ کے خطوط سے یہی پتہ چلا کہ آپ ؒخود بھی ‘‘صَلَّی اﷲُ عَلَـیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ’’ پڑھتے اور یہی درود شریف بھائیوں کو بھی تلقین فرماتے تھے۔ آپ نے اس درود کی اجازت اپنے والد گرامی حافظ عبدالرحیمؒ سے پائی تھی۔[3]

مجازینِ کرام:

ترمیم

آپ ؒنے جن مریدین سلسلہ کو اپنا مجازِ روحانی مقرر فرمایا، ان کے نام یہ ہیں:

  • عبدالستار خانؒ
  • محمد صدیق ڈار صاحب
  • الحاج محمد مرتضیٰ صاحب
  • قاضی غیور احمد انصاریؒ
  • سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ
  • شیخ علی اصغر
  • غلام قادر چوہدری صاحب
  • عابد علی صاحب
  • راجہ علی اکبر صاحب
  • ملک بخشیش الہٰیؒ

تفویضِ خلافت:

ترمیم

آپؒ نے جب اپنی خلافت کے لیے کسی کی نامزدگی کا ارادہ فرمایا تو سب مجازینِ کرام سے اس موضوع پر سرسری سی بات کی۔ اس وقت آپؒ کے مجازینِ کرام میں عبدالستار خان، محمد صدیق ڈار، قاضی غیور احمد انصاری، الحاج محمد مرتضیٰ، سید عطاء اﷲ شاہ، غلام قادر چوہدری، شیخ علی اصغر، عابد علی اور راجہ علی اکبر تھے۔ آپؒ نے اگرچہ مجازین سے مشورہ کیا مگر خلافت کے لیے نامزدگی کے وقت اور بعد کے حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے آپؒ پہلے سے اپنے خلیفہ کا فیصلہ کر چکے تھے۔

۱۹۶۸ء کے سالانہ اجتماع لاہور کے موقع پر آپؒ نے اپنے ساتویں سالانہ خطبہ میں فرما دیا کہ

’’اب آخر میں ایک نہایت ضروری بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیماری کے پیشِ نظر اور حلقہ توحیدیہ کے استحکام اور بہبود کے خیال سے ابھی سے اپنا ایک خلیفہ اور جانشین مقرر کر دیا ہے۔ صاحبِ موصوف جن کی تقرری کا اعلان اس مجلس میں کیا جائے گا وہ روحانی مراتب اور اخلاقی بزرگی میں مجھ سے کسی طرح کم نہیں۔ اس لیے میں آپ سب کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر آپ کو میری دی ہوئی تعلیم سے محبت ہے تو آپ سب کو میرے اس حکم کی تعمیل میں آج ہی کے جلسہ میں صاحبِ موصوف کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا ہو گی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آپ نہ صرف میری زندگی میں بلکہ میرے مرنے کے بعد بھی پوری خوشی اور خلوص کے ساتھ حلقہ کو مستحکم سے مستحکم تر بنانے میں صاحبِ موصوف کے ساتھ پورا پورا تعاون فرمائیں گے۔ جزاک اﷲ۔‘‘

۱۹۶۸ء کے اسی سالانہ اجتماع کے موقع پر عبدالستار خانؒ نے پرنس ہوٹل میں ایک چھوٹا سا خطبہ دیا’ جس کے بعد آپؒ نے عبدالستار خانؒ کی خلافت کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا اور سب مریدینِ سلسلہ کو حکم دیا کہ وہ آ کر عبدالستار خانؒ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کریں۔

سالانہ اجتماعات:

ترمیم

آپؒ کے اولین مریدین میں سے ایک نور احمد میر عرف نور بابا تھے۔ اہلِ حدیث مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نور بابا نوشہرہ ورکاں کے رہنے والے تھے۔ ان کی کوششوں سے کئی لوگ سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں شامل ہوئے اور ان کی اصلاح ہوئی۔ نوشہرہ ورکاں میں حلقہ ذکر بھی ان کی کاوشوں سے قائم ہوا۔ نوشہرہ ورکاں کے مکین چوہدری جلال الدین کی سراپا ایثار شخصیت، خلوص اور مہمانداری کے جذبہ کی وجہ سے نوشہرہ ورکاں سے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا۔ نوشہررہ ورکاں میں سب سے پہلا سالانہ اجتماع ۱۹۵۹ء میں ہوا۔

آپؒ کی زندگی میں کل پندرہ (۱۵) سالانہ اجتماعات ہوئے۔ پہلے چار (۴) اجتماعات نوشہرہ ورکاں میں ہوئے۔ آپؒ نے چوتھے سالانہ اجتماع سے سالانہ خطبہ پڑھنے کا آغاز کیا۔ ایک اور اجتماع نوشہرہ ورکاں میں ہوا۔ لاہور میں ہونے والے چھ (۶) سالانہ اجتماعات میں سے ایک برکت علی اسلامیہ ہال میں اور چار اسمبلی ہال کے پیچھے واقع پرنس ہوٹل میں ہوئے، جب کہ ۱۹۷۴ء کا واحد اجتماع آستانہ عالیہ توحیدیہ پر ہوا۔ تین (۳) سالانہ اجتماعات ملتان میں اور ایک نامکمل سالانہ اجتماع شیخوپورہ میں ہوا۔

۱۹۶۲ء کے سالانہ اجتماع کے بعد آپؒ نے حکم دیا کہ اجتماع میں شامل افراد اجتماع کے لیے کچھ نہ کچھ چندہ ضرور دیں جو کسی طرح بھی پانچ روپے سے کم نہ ہو۔ آئندہ اجتماعات میں کنونشن فنڈ جمع ہونا شروع ہوا۔

۱۹۶۸ء کے سالانہ اجتماع کے چار سال بعد ۱۹۷۲ء میں ملتان میں سالانہ اجتماع ہوا۔ ان چار سالوں میں اجتماعات نہ ہونے کی وجہ دو سال تو آپؒ کی علالت تھی جب کہ دو سال ملکی حالات کے پیشِ نظر اجتماع نہ ہو سکا۔ ۱۹۷۲ء کے سالانہ اجتماع کے خطبہ میں آپؒ نے فرمایا کہ

’’اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔ میں نے ۱۹۵۰ء میں یہ مبارک کام شروع کیا تھا۔ اس وقت میں بالکل اکیلا تھا اور آج بائیس برس بعد آپ دیکھتے ہیں کہ بفضلِ خدا میرے ساتھ چار پانچ ہزار آدمی ہیں۔ جن میں سے کئی سو ولی کامل ہیں اور باقی بھی خالی نہیں، روحانیت میں خاصا بلند مقام رکھتے ہیں۔ چونکہ ہم لوگ یہ کام بطور پیشہ نہیں کرتے اور فقیری وضع قطع اختیار کیے بغیر دنیا کے تمام کام سرانجام دیتے ہوئے ‘‘اﷲ اﷲ’’ کرتے ہیں اور مدارجِ روحانی کا اکتساب کرتے ہیں، اس لیے دنیا والوں کی نظر سے بچے ہوئے ہیں یعنی مشہور نہیں ہیں۔‘‘

آستانہ عالیہ توحیدیہ کی تعمیر جاری تھی۔ اسی ۱۹۷۲ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر آپؒ نے محمد صدیق ڈار صاحب کو آستانہ عالیہ توحیدیہ کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیل کرنے کا حکم دیا۔ محمد صدیق ڈار صاحب سٹیج سیکرٹری تھے۔ انہوں نے حاضرینِ مجلس سے چندے کی اپیل کی۔ میاں محمد علی صاحب نے آ کر کہا کہ میری طرف سے اعلان کر دیں کہ جتنی رقم سب مل کر دیں گے اس سے دوگنی میں عطیہ کروں گا۔ سب شرکاء اجتماع نے چندے کی اس اپیل پر ایثار و قربانی کے جذبہ سے بھرپور معاونت کی۔

۱۹۷۴ء کا ایک ہی اجتماع آستانہ عالیہ توحیدیہ میں ہوا۔ جس میں سالانہ خطبہ قبلہ حضرتؒ کی جگہ محمد صدیق ڈار صاحب نے پڑھا۔ آپؒ نے فرمایا کہ

’’خطبہ لمبا ہے مَیں بیمار ہوں، خطبہ کیسے پڑھوں گا؟‘‘

آپؒ نے محمد صدیق ڈار صاحب کو حکم دیا کہ آپ خطبہ پڑھیں۔ محمد صدیق ڈار صاحب نے آپؒ کا لکھا ہوا ۱۹۷۴ء کا خطبہ آپؒ کی موجودگی میں پڑھ کر سب کو سنایا۔

۱۹۷۵ء کا سالانہ اجتماع ملتان میں ہوا۔ یہ اجتماع ملک کریم بخش صاحب کی دعوت پر دریائے چناب کے کنارے ان کے ایک کلب پر ہوا۔ اجتماع گاہ میں آپؒ کے آرام کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک بیڈ آرام کے لیے اور چند کرسیاں ملاقاتیوں کے لیے تھیں۔ اس اجتماع کے آخر میں آپؒ نے چند لوگوں کو اوپر اپنی آرام گاہ میں بلوایا۔ ان آٹھ دس لوگوں میں مجازینِ کرام خاص طور پر شامل تھے۔ انہیں حکم ملا کہ

’’بابا جی بلا رہے ہیں۔‘‘

یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں بیڈ پر آپؒ تھے باقی افراد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ عبدالستار خانؒ بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ آپؒ نے بڑی دکھی آواز میں فرمایا:

’’میں نے آپ لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں، کئی اور تکلیفیں ہیں، کسی وقت بلاوا آ جائے، میری زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ جلد بلاوا آ جائے یا چند برس اور لگ جائیں۔ میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ سب لوگ عبدالستار خان سے تعاون کریں۔ آپ تعاون کریں گے تو ان شاء اﷲ حلقہ خوب بڑھے گا۔‘‘[4]

یہ باتیں سن کر حاضرین غمگین ہو گئے کہ آپؒ جانے کی بات کر رہے ہیں۔ حاضرین پر سکتہ طاری ہو گیا۔ آپؒ نے کہا کہ

’’آپ نے کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھیں۔‘‘

اس ماحول میں کس نے کیا بات پوچھنی تھی۔ تجمل حسین صاحب نے صرف خاموشی توڑنے کے لیے پوچھا:

’’قبلہ! آپ ایک رسالہ جاری کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کا کوئی پروگرام ہے؟‘‘

آپؒ نے جواب دیا کہ

’’چھوڑو جی تجمل صاحب! آپ ہی میرے رسالے ہیں سارے۔ بنا دیا آپ کو، آپ کام کریں، رسالے بھی بنتے رہیں گے۔‘‘

آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ

’’جب کبھی ہمیں موقع ملا۔ میں نے رسالہ نکالا تو میں اس کا نام ‘‘انسانیت’’ رکھوں گا۔‘‘

۱۹۷۶ء کا سالانہ اجتماع شیخوپورہ میں ہوا۔ آپؒ نے اس سالانہ اجتماع کے لیے خطبہ نہیں لکھا تھا۔ یہ اجتماع موسلا دھار بارش اور تندو تیز ہوا کی نظر ہو گیا۔ اجتماع آدھا ہوا تھا کہ اسے ختم کرنا پڑا۔

آستانہ عالیہ توحیدیہ:

ترمیم

سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے لیے ایک مرکز ‘‘آستانہ عالیہ توحیدیہ’’ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔ آستانہ عالیہ توحیدیہ کے لیے مالی وسائل کی ضرورت تھی۔ مالی وسائل کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک سوسائٹی کی تجویز زیرِ غور آئی جس کو آپؒ نے قبول کیا۔ مریدین سلسلہ عالیہ توحیدیہ نے اس سوسائٹی کے ذریعے رقوم اکٹھی کر کے ماڈل ٹاؤن میں کچھ زمین خریدی۔ بعد ازاں یہ زمین فروخت کر کے جی بلاک ماڈل ٹاؤن میں چھ کنال زمین خریدی گئی۔ زمین کی خریداری کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی اس میں محمد قاسم خان صاحب اور محبوب فرید ترمذی صاحب سمیت چار پانچ افراد تھے۔ اس وقت پچاس ہزار روپے (50,000) میں خریدی جانے والی یہ زمین ۹۲ جی ماڈل ٹاؤن لاہور کی تھی۔ جنوری ۱۹۷۱ء میں آستانہ عالیہ توحیدیہ کے لیے ایک نقشہ بنوا کر آپe کو حتمی منظوری کے لیے پیش کیا گیا اسے آپe نے منظور فرمایا۔ 92۔ جی ماڈل ٹاؤن لاہور میں آستانہ عالیہ توحیدیہ کی تعمیر شروع ہوئی۔

آپؒ پہلے فرماتے تھے کہ کل آمدنی کا اڑھائی فیصد حلقہ فنڈ دیں۔ آستانہ پر جتنے مرضی دیں پھر پانچ فیصد آستانہ فنڈ مقرر کیا۔ مخیر حضرات نے زیادہ دیا۔ مریدین سلسلہ عالیہ توحیدیہ نے آستانہ عالیہ توحیدیہ کے لیے زمین خریدی اور تعمیر کے لیے بھرپور ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ حصہ لیا۔ ملازمین بھائیوں کے لیے حکم تھا کہ چھ ماہ کے اندر ایک پوری تنخواہ تعمیر مرکز کے لیے دیں۔

آستانہ عالیہ توحیدیہ 92۔ جی ماڈل ٹاؤن لاہور کی تعمیر تین مراحل میں ہوئی۔ کل رقبہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے پر رہائش و دیگر امور کے لیے تعمیر کی گئی جب کہ دوسرا حصہ سالانہ اجتماعات کے لیے خالی چھوڑ دیا گیا۔ دوسرے مرحلہ میں خالی چھوڑی جانے والی جگہ پر کنونشن کے لیے ہال تعمیر ہوئے۔ تیسرے مرحلہ میں ایک مزید منزل بنائی گئی۔ آستانہ عالیہ توحیدیہ کی تعمیر ۱۹۷۱ء میں شروع ہو کر ۱۹۷۷ء میں ہر طرح مکمل ہو گئی۔

آخری ادوار:

ترمیم

عمر کے آخری حصہ میں آپؒ کی سماعت کافی متاثر ہو گئی۔ ذرا اونچا سنتے تھے۔ جسمانی اور ذہنی کمزوری بھی ہو گئی۔ آپؒ کے کولہے کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔ آپؒ میو ہسپتال لاہور میں داخل ہوئے، یہاں مریدین سلسلہ عالیہ توحیدیہ ڈیوٹی دیتے تھے۔

آپؒ کی کولہے کی ہڈی کا جوڑ برطانیہ سے منگوایا گیا مگر تکلیف رہتی تھی۔ زخم میں پَس پڑ جاتی جسے نکالنے کے لیے ڈاکٹر آتا۔ آپ ایک سائیڈ پر بیٹھ جاتے، ڈاکٹر پَس وغیرہ دبا کر نکالتا اور قینچی وغیرہ سے صاف کرتا جس کے بعد آپ سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے۔ ڈاکٹر آپ کے کمال درجہ صبر اور برداشت پر حیران رہتا۔

وصیت:

ترمیم

ملتان میں ہونے والا ۱۹۷۵ء کا سالانہ اجتماع آپؒ کی زندگی کا آخری مکمل سالانہ اجتماع تھا۔ اس میں آپؒ نے اپنا آخری خطبہ پڑھا۔ اس کے بعد آپؒ نے ۲۵ مئی ۱۹۷۵ء کو اپنی تفصیلی وصیت پر دستخط کیے۔ یہ وصیت آپؒ کے حکم پر رستم ایس سدھوا نے مرتب کی۔ کئی بار آپؒ نے کچھ مقامات کی نشاندہی کر کے رستم ایس سدھوا کو حکم دیا کہ اسے مزید بہتر بناؤ۔ رستم ایس سدھوا کہتے ہیں کہ

’’آپؒ نے تین مرتبہ وصیت کو ٹھیک کرنے کے لیے واپس بھیجا اور میں اسے ٹھیک کر کے لایا اور میری تین مرتبہ ہی ترقی ہوئی۔‘‘

رستم ایس سدھوا ۱۹۷۵ء میں وکیل تھے۔ اس کے بعد وہ ہائی کورٹ کے جج بنے۔ پھر سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ وہاں سے ریٹائر ہوئے تو بین الاقوامی عدالت برائے انصاف (International Courts of Justice) میں جج بنے۔ یہ پہلے اور واحد پاکستانی ہیں جو بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں جج تعینات رہے۔

وفات:

ترمیم

رات بارہ بجے جب دسمبر کی ۳۱ تاریخ بدل کر یکم جنوری ۱۹۷۷ء شروع ہوا تو اس وقت محمد صدیق ڈار صاحب آپؒ کے پاؤں کے تلووں کی مالش کر رہے تھے۔ انہوں نے آپؒ کو بتایا کہ

’’نیا سال لگا ہے۔‘‘

آپ ؒنے دریافت فرمایا کہ

’’کون سا ہے؟‘‘

’’۷۵ ہے؟‘‘

جواب ملا کہ

’’نہیں ۷۷ ہے۔‘‘

آپؒ نے دوبارہ پوچھا کہ

’’۷۶ ہے؟‘‘

محمد صدیق ڈار صاحب نے دوبارہ بتایا کہ ’’۷۷ ہے‘‘ اور انگلی سے لکھا کہ ۷۷ ہے۔

محمد صدیق ڈار نے کہا کہ

’’دعا کریں سب کے لیے‘‘

حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ نے کہا کہ

’’کسی نے کہا تھا کہ آپ کی عمر تراسی (۸۳) سال ہو گی، میری عمر تراسی سال تو ہو گئی ہے۔ میں نے ایک قبر دیکھی تھی، اسی وقت سے بیمار ہوں۔ یہیں تھی، میں نے دیکھی، اس کے اندر چلا گیا ، بڑی Decorated تھی۔‘‘

محمد صدیق ڈار صاحب نے کہا:

’’بابا جی! آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

آپؒ نے فرمایا کہ

’’فقیر کا پردہ نہیں رہا یہ اچھی بات نہیں ہے۔ جانا ہی چاہیے۔ ذرا خاموشی کے بعد پھر فرمایا:

بکواس کرتے ہیں سب۔ اپنے مزے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی۔ سب کچھ بتا دیا ہے بلکہ لکھ دیا ہے، اب مجھے رکھ کر کیا کرو گے۔‘‘

آپؒ نے ۲۳ جنوری ۱۹۷۷ء کو ظہر سے پہلے وفات پائی۔[3][5]

تجہیز و تکفین:

ترمیم

آپؒ کو ۲۳ جنوری ۱۹۷۷ء کو رات کے وقت غسل دیا گیا۔ مولوی محمد یعقوب صاحب اور میاں مختار صاحب غسل دینے والے تھے۔ مولوی امین صاحب ہدایات دیتے اور یہ دونوں حضرات غسل دیتے۔ نمازِ جنازہ اگلے دن ظہر کے بعد ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ سے پہلے بہت بارش ہوئی۔ جب آپؒ کو دفن کیا جا رہا تھا اس وقت بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

جانشینی:

ترمیم

آپؒ کی تدفین کے بعد عبدالستار خانؒ 92 جی ماڈل ٹاؤن لاہور (آستانہ عالیہ توحیدیہ) کے برآمدے میں جلوہ افروز ہوئے۔ عبدالستار خانؒ کے ہاتھ پر بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مریدینِ سلسلہ عالیہ توحیدیہ نے بیعت کی۔

پروفیسر محبوب فرید ترمذیؒ کو آپؒ نے اپنے مقرر کردہ خلیفہ عبدالستار خانؒ کی مدد اور علمی تعاون کرنے کی خاطر نائب خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ

’’عبدالستار تو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن میرا حلقہ تو پڑھے لکھے لوگوں کا ہے۔ یہاں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی آئیں گے۔ اس لیے ان کو نائب مقرر کیا ہے تاکہ پڑھے لکھے لوگوں کو مطمئن کرنے میں ان کی مدد کریں۔‘‘[3]

نمونۂ اشعار:

ترمیم

آپؒ نے شاعری بھی کی، آپؒ کا تخلص’’منتظر‘‘تھا۔ اگرچہ آپؒ کی شاعری کسی باقاعدہ کتاب کی صورت میں منظرِ عام پر نہیں آئی مگر نمونہ اشعار سے ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قبلہ محمد صدیق ڈار صاحب نے ایک مرتبہ عرض بھی کیا کہ آپ ؒکا کلام چھپوا دیا جائے لیکن آپؒ نہیں مانے اور فرمایا کہ یہ اس قابل نہیں ہے۔

ڈار صاحب نے قبلہ حضرت کے بیاض کی ایک نقل تیار کر لی تھی لیکن کسی دیوانے نے غائب کر لی اور پھر واپس نہیں کی۔

غزل

حسن و جمال یار کی دھندلی سی ہیں نشانیاں

پہنِ فلک پہ کہکشاں صحنِ چمن میں یاسمیں

کس کو ملا وہ سنگِ در تو نے یہ کیا کیا مگر

سجدے سے سر اٹھا لیا، مٹ نہ گئی تیری جبیں

دشمنِ جاں بجلیاں دشمن دیں تجلیاں

عرش بریں ہو یا زمیں امن و اماں کہیں نہیں

عمر یوں ہی گذر گئی بات مگر وہیں رہی

میری وہی خدا خدا، اس کی وہی نہیں نہیں

پھیلے نہ کیوں جہاں میں اس کے قدم سے روشنی

سجدوں سے داغدار ہے ماہِ دو ہفتہ کی جبیں

عرش سے لے کر فرش تک بکھرا ہے نور ہر طرف

محو خریمِ ناز ہے اوجِ فلک پر ایک حسیں

سارا جہاں منتظر ؔباغِ خلیل بن گیا

روئے نگار آتشیں رنگ بہار آتشیں

غزل

روح مستی سے چور ہے ساقی

دل مگر ناصبور ہے ساقی

پھر وہی دے، جو کل پلائی تھی

جس کا اب تک سرور ہے ساقی

پھونک دے دل سے جگر تک سب کچھ

مے تری برق طور ہے ساقی

کون دیکھے جھلک گلابی کی

تو جو مینائے نور ہے ساقی

منتظرؔ چاہتا ہے مدہوشی

باقی اب تک شعور ہے ساقی

آپؒ فرماتے ہیں کہ رسالدار صاحبؒ اس شعر پر بڑا جھوما کرتے تھے۔

عمر یونہی گزر گئی بات مگر وہیں رہی میری وہی خدا خدا، اس کی وہی نہیں نہیں

آپؒ کا یہ اپنا شعر نہیں ہے مگر آپؒ یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔

دیدار کے قابل تو کہاں میری نظر ہے یہ تیری عنایت ہے کہ رخ تیرا ادھر ہے

عزیز الحسن مجذوب کا یہ خاص شعر آپ کو بہت پسند تھا

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

ذوقِ مطالعہ:

ترمیم

آپؒ کو بچپن سے ہی مطالعہ اور غور و خوض کی عادت تھی۔ آپؒ کے دادا مولانا عبدالعزیزؒ کا ذاتی کتب خانہ وہ پہلا کتابوں کا ذخیرہ تھا جس سے آپؒ مستفیض ہوئے۔ سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں بھی آپؒ نے مطالعہ کتب اور کتب خانوں کو دلچسپی کی نظر سے دیکھا۔ محمد صدیق ڈار صاحب نے راولپنڈی میں قیام کے دوران ایک لابئریری بنائی جسے دیکھ کر آپؒ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ

’’آپ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی پہلی لائبریری بنائی ہے۔ ہم آپ کو انعام دیتے ہیں۔

آپ ؒنے ڈار صاحب کو لائبریری کے لیے کتابوں کی ایک فہرست بھی ارسال کی۔

ان کتب میں شاہ ولی اﷲ کی کتاب’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘، امام غزالی کی کتاب’’کیمیائے سعادت‘‘، غلام جیلانی برق کی ساری کتب جیسے ایک اسلام، دو اسلام، اﷲ کی عادت، من کی دنیا، اسلام اور عصرِ رواں وغیرہ۔ علامہ اقبال کی شاعری کی ساری کتب، علامہ اقبال پر لکھی جانے والی کتاب ’’فکرِ اقبال‘‘کو آپؒ نے پسند کیا اور ا س کے بارے میں فرمایا کہ

’’یہ علامہ پر لکھی ہوئی سب سے بہترین کتاب ہے۔‘‘

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس کتاب کے مصنف ہیں۔

’’نفسیات واردات روحانی‘‘ از ولیم جیمز اگرچہ زیادہ تر نفسیات پر ہے اس کا ترجمہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے کیا۔ آپ ؒا س کے بارے میں کہتے ہیں کہ

’’پڑھنی چاہیے۔‘‘

ولیم جیمز امریکہ کا مشہور ترین فلاسفر ہے۔

وِل ڈیورنٹ کی کتاب ’’داستانِ فلسفہ‘‘اور امریکن کتاب’’Existence of God in the expanding Universe‘‘ جس کا ترجمہ’’خدا موجود ہے‘‘

’’ملفوظات اقبال‘‘ آپؒ کو بہت پسند آئی۔ آپؒ نے فرمایا کہ

’’ایسی ہی کتابیں ہونی چاہیےں دس بیس‘‘

’’اخبارِ اخیار‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’یہ تذکرۃ الاولیاء کی طرح ہے، مستند حکم کی ہے۔‘‘

’’دو اسلام‘‘کے بارے میں فرمایا کہ

’’یہ بھی پڑھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں کتنے فرقے ہیں۔‘‘

’’قیصر و کسریٰ‘‘ کے بارے میں کہا کہ

’’یہ اچھی کتاب ہے پڑھیں۔‘‘

’’قول الجمیل‘‘ از شاہ ولی اﷲؒ کے بارے میں کہا کہ

’’اس میں تصوف کے چار مشہور سلسلوں کے سلوک کے بارے میں کافی اچھی اور مفید باتیں تحریر ہیں۔‘‘

  1. مولوی بشیر احمد صدیقیؒ۔ خطحی نسخہ سفرنامہ دہلی۔ گوجرانولہ 
  2. مولوی بشیر احمد صدیقیؒ۔ خطحی نسخہ سفرنامہ دہلی۔ گوجرانولہ 
  3. ^ ا ب پ میاں علی رضا (2010)۔ فرموداتِ فقیر از خواجہ عبدالحکیم انصاری۔ گوجرانوالہ 
  4. میاں علی رضا (2017)۔ اولیاۓ گوجرانولہ۔ گوجرانولہ: میراں محی الدین فاونڈیشن 
  5. میاں علی رضا (2017)۔ اولیاۓ گوجرانولہ۔ گوجرانولہ: میراں محی الدین فاونڈیشن