صارف:یاسمین سکندر/تختہ مشق
- صارفین کے حقوق کا عالمی دن
دنیا بھر میں ہر سال یہ دن پندرہ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ آج سے پچاس سال پہلے پندرہ مارچ کو اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے صارفین کے حقوق کی بات امریکی کانگریس میں کرنا ہے۔ اس وقت عوام کو اس سلسلے میں چار بنیادی حقوق دیے گئے تھے جس میں بعد ازاں کنزیومرز انٹرنیشنل(consumers international) نے (جو صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے)مزید چار نکات کا اضافہ کیا۔
پاکستان کے آئین کے تحت صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔
پاکستان میں صارفین کے حقوق کے لیے قانون پہلی بار بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں انیس سو پچانوے میں متعارف کروایا گیا تھا۔ تاہم اس وقت اس پر بیوروکریسی کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔
اس وجہ سے حکومت نے اسے اسلام آباد اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں نافذ کردیا اور تمام صوبوں کو اس کا مسودہ بھیج دیا تھا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں صارفین کے تحفظ کا نہ صرف قانون موجود ہے بلکہ اس کے کونسلز بھی موجود ہیں۔ اس کے برعکس بلوچستان میں صرف قانون موجود ہے تاہم وہاں اس پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک صرف دس اضلاع میں اس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جس میں سے صرف چھ میں اس پر عمل درآمد شروع ہو سکا ہے۔
سب سے زیادہ دگرگوں صورتِ حال سندھ میں ہے جہاں اب تک اس سلسلے میں تین مرتبہ آرڈینینس تو جاری ہوا ہے مگر اسے قانون نہیں بنایا گیا اور یوں تینوں مرتبہ یہ ختم ہوگیا۔ جب قانون ہی نہ ہوگا تو اس پر عمل کہاں سے ہوگا؟
صارفین کے حقوق کے حوالے سے ایک مثال: ملک میں عوام کو مختلف انعامی اسکیمز کے ذریعے دھوکا دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کسی انعامی اسکیم کی اجازت دے، تو بھی اس کے لیے سخت شرائط موجود ہیں۔
یہ عمل تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ دو سو چورانوے اور پچانوے کے تحت جرم ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صارف کی شکایت کے ازالہ کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
مثال: پاکستان میں مالیاتی اداروں کے صارفین کو کئی مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بینک کی برانچ کا منیجر صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھتا ہے کہ اس کی برانچ میں زیادہ سے زیادہ پیسہ آجائے۔ اکاؤنٹ کھولنے جائیں تو فارم پر شرائط انتہائی باریک انداز میں لکھی ہوتی ہیں اور صارف کو ان کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں بینکنگ محتسب نام کا ادارہ تو ہے مگر گزشتہ سال(2021ء) اسے صرف ایک ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ اسی عرصے میں بھارت میں اسی لاکھ درخواتیں موصول ہوئی تھیں ۔
پاکستان میں سرکاری ادارے نیپرا، اوگرا اور پی ٹی اے جو بالترتیب بجلی، گیس اور ٹیلیفون کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرتے ہیں ان کا بھی یہ فرض ہے کہ صارفین کو یہ بتائیں کہ شکایت کی صورت میں کیا کریں اور کس سے رجوع کریں۔ 2022ء کا موضوع ہے "ہمارا پیسہ ہمارے حقوق". مالیاتی معاملات میں صارفین کو حقیقی طور پر انتخاب کا حق ہونا چاہیے۔