اظہار خیال حاجی عبدالحیات منصور براہوئی صاحب، براہوئی ادب کے ایک مایہ ناز ادیب اور قلم کار ہے۔ وہ ادب اور تحقیق کی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کو براہوئی اور بلوچستان کے قدیم ثقافت اور ادب سے اور زبانوں سے گہرا شغف حاصل ہے۔ انہوں نے براہوئی زبان کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حاجی صاحب کے اب تک چہار کتابیں چھپ چکی ہیں اور مختلف رسائل و جرائد میں اپنی نگارشات عوام کے سامنے لاتا رہتا ہے۔ حاجی صاحب کی مزید کتابیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ زیر نظر کتاب مولانا محمد عمر دین پوری کی شخصیت پر مبنی ایک جامع اور منفرد کتاب ہیں۔ جو ادب کے طالب علموں کے لیے ایک پیش قیمت خزانہ ہے ۔امید ہے کہ براہوئی زبان کو بین الاقوامی سطح تک متعارف کرانے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔ فقط والسلام ڈاکٹر ایم صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ سپریم کورٹ چیئر مین براہوئی اکیڈمی پاکستان (1) اظہار خیال :ڈاکٹر ایم صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ سپریم کورٹ چیئر مین براہوئی اکیڈمی پاکستان: علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم علامہ دین پوریؒ فن شخصےت از:مولاناعبدالخالق ابابکی الحمدللہ حمداً کثیراً ۔الذی خلق الانسان و علمہُ البیان و صلیٰ اللہ تعلیٰ محمد و علیٰ آلہٰ و ححبہ اجمین

بعد ازین اس وسیع کرہ ارض کے تزین و حسن وجمال کے پرورش کے خاطر اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کی آفرنیش کو فوق الخلائق کی سلطنت عطائ کی۔ سب سے بڑی اہمیت حضرت انسان کی یہ ہے کہ بشری خلعت میں نوریوں سے آگے چلی کہ انبیائ کرام ؑکی آفرینش اس ہی کی حصہ میں آئی۔ انسان کی قدر و منزلت کی مقام کے آگے فرشتے بھی سربخم ہوتے لیکن نسلِ جنات سے ابلیس _âشیطان_á وَالئَستکْبَرَ نہ مانے وَکَان مِنَ الْکافِرِین راندہ ازدرگائے رحمت ہوا ۔پھر انسانیت کی تقسیم سامنے آئی جسے ہم مسلم اور کافر کہسکتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں سے دوراستے نکلے ایک رشید و ہدایت، دوسرا ضلالت _ یہ اپنی جگہ _áآئیے رشد و ہدایت پر حضرت سید نا آدم علیہ السلام جبکہ ابوابشرسے ملقب ہے انسانیت کی بیخ ڈائی گئی ۔بماننددرخت تمام عالم میں پہل گئی ۔بتدریج یکے بادیگر کم بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیائ کرامؑ حضرت انسان کو صحیح انسانیت کی صراطِ مستقیم پر اپنے فرائض منصبی انجام دیئے ۔پھر یہ وراثت اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے حیات مقدسہ میں محفوظ پہونچی ۔پھر اَلْعُلَمائُ وَرَثَتُُ الْاَنْبِیَائ کی علم فضائے دہرمیں چہاروں سمت لہرایا گیا۔ بہت سے دہر یہ، کمنسٹ مزاج، آتش پرست منحرف قومیں انفرادی و اجتماعی رنگ میں اس جھنڈے کو سرنگوں کرنے کیلئے یہ طرح اپنے وسائل خوائے کہ وہ کسی بھی رنگ میں ہوں استعمال کیئے۔ ان کے زندگیاں ان تلخ خیالوں میں بکھرگئے مگر اپنے منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ان کوکیا علم کہ ہمارے مغزوں پر اِنَّانَزَّلْنَاالذِّکْرَوَاِنَّالَہ_¾ لَحَافِظُوْنَ کی دھار چلائی ہے اور تا قیامت چلتی رئیگی وہ کون ہے اس دھار بُرّان کی ضرب پر برسر پیکار سینہ سپر رئے ۔ کروہ ارض کے سینہ پر بکھرے ہوئے نسل آدم کے افعال و کردار کراما ًکاتبین کے تواریخ میں درج ہے جبکہ ضرورتِ اوقات پر یہ تواوریخات ِاوراق سنہری رنگوں میں نسل آدم کے روبر ونمایاں نمونہ میں سامنے آئینگے کہ انسانوں کو صحیح انسان بنانے اور انسانوں کو حیوانیت کے ڈھانچوں میں ڈھلنے والے کون لوگ ہیں ۔تو آج بھی کرہ ارض کے سمندر میں تےرنے والوں سے یہ راز اور یہ عنوان پوشیدہ منعدم نہیں کہ انساتوں میںانسان بنانے والے کو نسے اشخاص ہیں کہ وہ اپنا تمام اوقات گرانمایہ کو اس عنوان کے حوالہ کرکے وقف کرے تو یقینا عقلِ سیلم کے رحجانات علمائے کرام کے تشخص پر بریک لگا ئیگی کہی اور سمت پر سٹیرنگ نہیں گھوم سکتی کہ عُلْمَا ئِ اُمّتِیْ کَاَ نْبِیَا ئِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل ، ۔الحدیث۔ ،اس فرمان عالی کے سامنے کوئی بھی دانشور کو سر بتسلیم سر نجم کے سوا کوئی اور گنجائش نہیں کہ میری اُمت کے علمائ کرا م کے کار کر دگی بنی اسرائیل کی نبیوں کی مانند ہے۔ اُمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میںیہ وہ کارنامے ادا کررہے ہیں جس طرح نبیوں نے کی۔ ختم رسالت کے بعد امت کی ذمہ داری ان ہی کی سپرد کی گئی ۔دین کے کرنیںانہی کے بتوسط اطراف کائنات میں منورہوئیں۔ اگر ان کے کارناموں پر بصیرت کی چشم بیں کی نگاہیں دوڑاہیں تو باطل نظریات کے محاذوں پر ان ہی شخصیات کے دلیرانہ قوتیں سر بکف نظر آئینگے ۔سارے عالم کے ملحد انہ نظریہ رکھنے والوں کی نظران ہی پر جمی ہوئی ہے۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھاجائے تو ایک ہی عالم ِدین میں اللہ تعالیٰ وہ قوت استقلال مجاہدانہ جزبہِ ایثار رکھی ہے جو ہر دشمن اسلام کی مقابلہ کر سکتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اللہ تعالیٰ انہی قلم ظرفی کی وہ سلطنت ،جاوحشم عطافرمائی ہے۔ جو لفظوں معنوں حقیقت بیانی عیانی کی طفیانی سمندروں میں مچھلی کی طرح تیرتے رہتے ہیں۔ ان علمائ کرام کے اجتماع سے اگر ایک علامہ دین پوری ؒ کو میدان میںمدِّنظر رکھا جائے تو ہزاروں خاصیتیں انہی کی ذات میں پائی جاتی ہیں محقیقین دانشور حضرات انکی زندگی کی ہر پہلو پر قلم ظرفی کی ہیں ۔ان کی تشخص پر ہر صاحب شعورسر نجم ہے۔ میں احقراس خاطر کچھ نہیں لکھ سکتا کہ دین پوری کے متعلق اور حقائق تمام اس کتاب میں خود بخود درج ہیں ۔ ۔ لہٰذا ان محقیقین میں بر خوردار صاحبِ قلم محترم الحاج عبدالحیات منصور ؔ ابابکی براہوئی صاحب تو علامہ دین پوریؒ کی فن و شخصیت پراشک ریزی ، قلم ظرفی کی ہے تو میرے خیال میں تفصیلاً کسی نے بھی اس طرح سخن پردازی نہیں کی ہو جس طرح عبدالحیات منصور ؔ براہوئی ابابکی نے کی ہے ۔ تحقیق بمعنی کھوج لگا نا ،تلاش کرنا ،تحقیقات ،حقیقت کو سمجھنا ،محقق ،تحقیق کرنے والا ،تحقیق، محق سے مشتق ہے جس کی معنی ہے حق بجانب جو اپنی مضامین میں کمی بیشی نہ کرے تو صاحب کتاب منصور ؔصاحب کو محق ۔حق بجانب اس لئے سمجھتاہوں کہ علامہ دین پوریؒ کی شعبہائے زندگی کی کسی بھی پہلو کو نفرانداز نہیں کی ہے۔ تحقیق ہر کسی کی بس کی بات نہیں۔ دعویٰ کرنا ، قلموں کے بنڈلیں جیبوں میںسجھانا یہ تو آسان کام ہے لیکن قلم ظرفی و تحقیق اشک ریزی یہ ہمت مردانہ صلاحیت ہرکسی کی قسمت میں نہیں آ سکتی۔ صلاحیت...... نیکی پار ساہیت کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں استعداد ہے ۔

استعداد......دستگائے علمی دست رس، قوّتِ علمی، کسی فن پر رسائی کا نام ہے۔ میں سمجھتاہوں اللہ تعالیٰ عبدالحیا ت منصور ؔ براہوئی ابابکی کو ان حقائق سے نوازا ہے۔ انسان بذات خود ایک پھر تاہوا گوشت اور ہَڈیوں کا مجسمہ ہے خود بخود دعوے سے متعارف نہیںہو سکتالیکن ان کی شخصیت اور کارنامے خود بخود عالمِ انسانیت میںمتعارف کراوتے ہیں ۔اگر منصور ؔ صاحب کی ذات سے کوئی بھی شخص متاثر نہ ہوں تو ان کی کمال علمی و قلم ظرفی سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہسکتا ۔اگر پھول قوت گویائی کی ممکنات میں نہیں لیکن جو رنگ بوکی کشش اللہ تعالیٰ نے اس میںرکھی ہے تو عالم انسانیت سے ہٹ کر بلبل ،پروانے اور دوسرے پرندوں کے قّوت محسوسیت میں بھی اس پر فریفتگی کی رحجانات و دیت ڈالی ہیں۔ تو یہ سمجھئیے کہ کمال انسانیت ازلی ہیں اس میں ازلی اثرات موجود ہیں۔ اب اس طرح کے انسان کے سرمایہ داری نوابی سلطنت پر نظریں نہیں جمتیں بلکہ اس کے کردار حیات انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں ۔اگر نوری نصیر خان کے دور ِسلطنت 1760 ئ_÷پر دماغ کے تارمنسلک کریں تو سب سے پہلے ایک حُجرے میںزندگی کی گھڑیاں گزرنے والے ایک عالمِ دین ملا ملک داد قلاتی کی قلم ظرفی کی سلطنت سامنے آئیگی۔ بایں طور اگر1893ئ_÷میر محمود خان ثانی کی زمانہ میں گھس جائیں تو پھر بھی آپ کو ایک قلمی مجاہد عالمِ افلاس میں ملا مزار کی ذات گرامی سامنے آئیگی ۔جو کارنامے سرداروں سے سرز د ہوئے اب تک قوم انکے افعال سے شرمندگی کے بجائے اور کچھ بتانے کی قابل نہیں۔ جو خود آپ ناموس کافر کو بخشے کیوں قوم کی وہ کرے پاسبانی ٭احقرابابکی......٭ اگر قوم کو زندگی، عزت و وقار بخشنے والے ہوں تو اہل ِقلم واہل ِعلم حضرات ہیں خداکرے وہ ایک چھونپڑی میںزندگی کی لمحات کیونکر بسرنہیں کررہا ہو۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھاجائے تو قوموں کے زینت اوربقاان ہی اہل قلم دانشور وں پرمنحصرہے۔ لہٰذا اب آتاہوں اس صاحب کتاب درویش صفت انسان منصور ؔ براہوئی کی ذات پر ۔ ٭نام......الحاج حاجی عبدالحیات منصور ؔ ابابکی ۔ اس نام سے ان خاصیتوں کی نشان دہی ہو سکتاہے۔ 1- حاجی...... حرمین شریفین کی زیارت یہ تو بڑی سعادت ہے ۔ عبد......یعنی بندہ، فرمان بر دار، جمع عباد 2- عبید ، مخلص بندہ۔ 3- حیات...... یعنی زندگی حیّہ کی جمع ہے، قوم کو زندگی بخشنے والا ۔ 4- منصور...... تخلص یعنی نصرت دیا ہو ا ،مدد کیا ہوا ۔تخلص سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ ہے۔ اگر منصور ؔ کے راکے بجاصادلگا کر منصوص لگا یا جائے تو عربی لغت میں اس کی معنی ہے نہایت تحقیق کیا ہوا۔ 5- ابابکی......پانچویں نمبر پرنسل و ذات کے اعتبار سے ابابکی ہے۔ یہ ابوبکری سے مشتق ہے یعنی ابوبکر والا ۔یہ سلسلہ نسبیت خلیفہ اول سید نا ابوبکرؓ صدیق سے جا ملتی ہے۔ 6- عالی ......قوم میں طایفہ عالی زءی- عالی بمعنی بلند-و برتر جمع عوالی- 7۔ زئی ......نسبت قومی زئی معنی خاص تو من جملہ ان نام اور نسبتوں سے یہ تجسس ملتاہے کہ اس طرح کے جملے اور الفاظ برکات سے خالی نہیں ۔جبکہ اللہ تعالیٰ اس طرح کے انسان سے افادیتِ ملّی ،قومی و علمی کام کروارہا ہے ۔ نام...... تو الحاج حاجی عبدالحیات منصو ؔر ابابکی براہوئی ۔ پیدائش...8..-2-.1965�÷ئ۔

-کے سال کا ریز قادی مستونگ میں زندگی کی اولیں سانس لی۔

والد......والد محترم الحاج حاجی محمد امین صاحب ابابکی ] 1913 ۔ 28 �ٌ فروری 2010ئ[ ہیں۔ جبکہ اس قوم کے معتبریں میں شمار ہوتاہے ۔یہ ایک غریب اور معززقبیلہ سے تعلق رکھتاہے ۔ ابتدائی تعلیم ...... اس اوائل زندگی کے پانچ سال بعد1970ئ میں تعلیم کے ابتدائی سفر کا آغاز گورنمنٹ مڈل سکول کاریز نوتھ مستونگ سے کی ۔ قرآن پاک کی تعلیم......دسمبر1973ئ میں قرآن کریم کے ختم شریف کی سعادت لی ۔ چونکہ سکول میں تین جماعت پاس کرنے کی وجہ سے اردو پر کافی دسترس حاصل تھی اپنے قابل ِرشک اُستادِ محترم مولانا حافظ محمد عباس ؒ معلم القرآن گورنمنٹ مڈل سکول کاریز نوتھ مستونگ سے مشورے کے بعد ترجمعہ قرآن مولانا فتح محمد جالندھری چند ہفتوں میں پڑھ ڈالا۔ بہرحال اس نونہالی عمرمیں ہمت مردانہ سے کام لیتے ہوئے براہوئی میں لکھنا آغاز کیا اور ساتھ ہی تفسیر اختری براہوئی جو نیا نیا اسکا ابتدائی پارہ چھپ چکا تھا لیکر پڑھنے لگا۔ میٹرک کی تعلیم...... 1982ئ میں کوئٹہ بورڈ سے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کی تعلیم اور مقابلہ مضمون نویسی میں حصہ لینا...... 9 / 01 / 1982 سے 29/08/1984ئ ڈگری کالج مستونگ میں ایف اے اوراین سی سی �âنیشنل کیڈٹ کورس�ل کی تعلیم پانے کے دوران مقابلہ مضمون نویسی میں بھرپور حصہ لیا ۔ جبکہ ہرآن اُسے بہترین انعامات سے نوازا گیا ۔لگتا اسطرح ہے کہ قلم ظرفی کی محبت یہاںسے دل میں مزیدجاگزین ہوا۔ ایف اے �âبا رہ�ل جماعت کے بعد1984ئ میں بو رڈ آف انٹر میڈٹ اینڈ سیکنڈری سکول بلوچستان کو ئٹہ میں امتحا نو ں میںحصہ لیا اچھے نمبروںسے پاس ہوا۔ بہر حال تعلیمی تسلسل بر قرار اپنی جگہ لیکن6�ٌمارچ 1985ئ میں جے ولی ٹیچر گریڈ سات میں ضلع تعلیمی آفیسر قلات کے ذریعہ آڈرات ہوئے ۔ سب سے پہلے گورنمنٹ پرائمری سکول سنجدی لیز نمبر9میں9�ٌمارچ 1985ئ میں بحیثیت اُستاد اپنے فرائض منصبی پرپہلی سفر کاآغاز ہوا ۔اسی سال ڈیڑھ مہینہ بعدگورنمنٹ ہائی سکول محمود گہرام منگچر ضلع قلات میں اپریل 1985ئ تا مارچ1987ئ تک محنت اور جانفشانی کے ساتھ اپنے اُستاد دانہ صلاحیتیں استعمال کی۔ مارچ 1987ئ تافروی 1988ئ تک سی ٹی تربیت حاصل کی۔ تربیت پانے کے فوراً بعد دوبارہ گورنمنٹ ہائی سکول محمود گہرام منگچر ضلع قلات میںتعین ہوئے۔ چندماہ کے بعد گورنمنٹ مدل سکول مندے حاجی منگچر ضلع قلات میں علم کی شمع جلاتے رہے۔ بعدازیں اواخرِ1988ئ میں مستونگ کے گورنمنٹ مدل سکول کلی شیخان میں پہلی فرائض انجام دیتے ہوئے چند مہینوں گزارنے کے بعدمارچ 1979 میں گورنمنٹ مدل سکول غلام پڑینزمستونگ میں حاضری رپورٹ دی ۔ اسی دوراںاسے قابلِ رشک استاد ہیڈ ماسٹرحضور بخش سے کافی رہنمائی حاصل ہوئی اور اس کے زیرِسایہ بی اے کیا اور 9� ٌجون1991 کے سال بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایڈکی امتحان میں بہترین پوزیشن پر صاحبِ سند ہوا ۔بی ایڈ کرکے اس طرح گورنمنٹ سکول پندران ضلع قلات اورمڈل سکول شخیڑی ضلع قلات میں سینئیر استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے بعد ازاں1998ئ کویونیورسٹی آف بلوچستان سے ایم ایڈ کے سالانہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشن میں کامیابی سے سر فراز ہوا۔

	1994ئ سے2001ئ تک منگوچر کے مختلف سکولوں میںفرائض انجام دیتے رہے۔ پھر2007ئ تک گورنمنٹ مڈل سکول سپینرنڈ تحصیل دشت ضلع مستونگ میں بحیثیت ہیڈماسٹر فرائض بخوبی انجام دیتے ہوئے اب یکم\مئی2007 سے تا ہنوز گورنمنٹ مڈ ل سکول فیض آبادپٹ باغ[ مستونگ میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر اپنے فرائض منصب پر فائز ہوتے ہوئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مکمل قلم روانی......قلم بڑی نعمت ہے جس کی تعریف قرآن پاک میں موجود ہے مگر تعریف اس قلم کی مرقوم ہے جو اسلامی روایات ، حقائق قدرت کے نظارے اور انسانوں کو صحیح انسانیت میں کتابوں کے زمیں پر تخم ریزی کرے ۔ قلم تو آج کل ہر بشر کے ساتھ چل سکتی ہے لیکن ایسے قلم کار ہیں کہ جن کو اسلامی و قومی روایات اورمعاشرہ لات مارتی ہے۔مگر کائنات کی ضروریات میں وہ قلم کار شامل ہے جو منفی اثرات سے پاک۔ ہو دنیا کے ہر ہرزبان میں قلم کاروں کی ایک الگ روایات ہیں سب کو سمیٹ نا تمام قلم کاروں کی بس سے باہر ہے۔ یہاں صرف صاحب کتاب حاجی عبدالحیات صاحب منصو ؔرابابکی کی شخصیت کی افادیت پر قدرے مختصراً قلم کی نوک سے چند جملہ عرض کرنے کی سعادت اس لیئے لیتا ہوں کہ اس کی اور کتاب کی حق بنتی ہے۔ میں احقر1981ئ سے جبکہ مدرسہ اشرفیہ مستونگ میں اس دوران مدرس معلم تھا تو تقریباً 1981ئ کے اواخرمیں منصور ؔ صاحب میرے حال پر سی کے لئے میرے ہاںمیری عیادت کی غرض سے تشریف لائیں ۔اس وقت میرے سامنے اخبار ہفت’’ ایلم‘‘ مستونگ رکھا ہواتھا اسکی نظر پڑی۔ باتیں زبان و ادب پر چلیں تو منصور ؔ صاحب متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس طرح سمجھئیے کہ ابتدائی آفرینش قلم ظرفی کا ظہور اور عزمِ مُسمم کی بیخ ڈالی گئی۔ یہ عزیمت پھر عقیدت ‘محبت ومحنت ‘حرارت علمی و ادبی سخن پردازی کی عَلَم لہرائے۔ اس عَلَم نا مبردار سے نا مو ریّت کی مقاصد تک عقل سیلم کے کرنیں اپنی نشانے کو گرفت میں لے رکھا یہ۔ پختہ عالم شباب کی قوتیں منصو ؔر صاحب کی نصرت میں کمر بستہ ساتھ دیئے مگر حالات ناگزیز کے تلاطم خیزموجوں کے باجود �âجیسے سدِّ سکندری کہتے ہیں �á منصور ؔ صاحب کمربستہ گامزن رہا ہے۔ اس نے قلم کو سینہ پہ لگا یا اور قلم نے اسکو سینہ پر لگا یا اخبارات ‘جریدے‘ رسائل اسکے ہر قسم کے مضامین، تبصرے، معلوماتی نوشتہ کاری اور غزلوں سے مزین ہوتے رہے۔ اس کی صریر قلم ملک کے کونے کونے میں پہونچی یہ درویش صفت انسان اپنی تمام اوقاتِ گرنمایہ تعلیم و تحریر اور قومی ولسانی افادیت پر وقف کی ہے۔ جبکہ زمانہ ،حال اور مستقبل میں دنیا کو اس طرح کے اشخاص کی ضرورت ہے اور ہوتا رئیگا۔ علمی ارتقائ کے لئے ان کے اشک ایزی قابل ستائش ہیں۔ قوموں میں صدیوں بعد ایسے افراد قسمتاً جنم لے سکتی ہیں۔ مگر آج کل خاص کر اس خط میں مردم شناسی کی فقدان اس لئے سامنے آتا ہے کہ لوگ عقل کے بجائے شعور کے بھی قابل نہ رہے ۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان نسل عقل کے کورے دوسرے اقوام کے افعال و کردار رہیں منہمک یا لیکن اپنوں سے غافل ان کے عقلیں اصلیت سے بٹکر نقلیت میں تبدیل ہورہاہے۔ بہر حال منصور ؔ صاحب کو علم وادب کی ایک الگ باب کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ اپنے تمام صلاحیتیں اور عمر کے تمام اوقات قومی، اسلامی اور لسانی خدمات پر وقف کی ہے۔ اور ارتقائے ذہنیت وا نسانیت کے لئے ہر آن کوشان اور متفکر رہتا ہے۔ جو اپنے علمی و قلمی انستعداد لوگوں تک پہنچانے کی مسمم کوششیں جاری رکھی ہے۔ بہرحال اس کی کائوشیں قابل دیدوستائش ہے۔ علامہ دین پوریؒ کی مکمل حالات جبکہ اس کتاب میں لکھی ہے ۔تو لگتاہے ایساہے اور یقین بھی اس طرح ہے کہ علامہ دین پوریؒ کی اگر سراغ لگا نا ہو تو اسی کتاب کے بغیر کہیں اور جگہ بمشکل رسائی ہو سکے۔لہذا عبدالحیات منصور ؔ صاحب کے ممنوں ہونا چاہئے کہ علامہ کی تمام حالات اشک ریزی کرکے ہمارے سامنے رکھدی ۔ میں دربارِ خداوندی میں دست بدعاہوں کہ اللہ تعالیٰ منصو ؔر صاحب کو تحقیق قلمی تقویت سے مزید نوازے اور اسکی عمر طویل فرمائےں۔آمین۔ واسلام ......مولوی الخالق ابابکی مدیر مدرسہ اشرفیہ وبانی مکتب ابابکی مستونگ ......حال صدیق آباد 12�ñربیع الثانی 1430ھ�÷ بروزجمعۃ المبارک] 10�ñاپریل 2009ئ[ (2) ’’علامہ دین پوریؒــ ‘‘ فن وشخصیت :مولانا عبدالخالق ابابکی،علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 6تا12

علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی خدمات اور منصور براہوئی ترمیم

از۔-قلم حاجی شاہ بیگ شیدا ترمیم

  آجکل جدید دور ہے۔جس میں کتابیں لکھنا ،شائع کرنا اور انکو پہنچانا کتنی آسان ہوگئی ہیں۔مگر آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے اور وہ بھی ہمارا پسماندہ قبائلی نظام جس میں علم حاصل کرنا اور اسکی اشاعت کے لیئے کوئی وسیلہ نہیں تھا۔اس میں اس حالات میں کام کرنے پر انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔پھر وہ علمائے کرام ، محقق، شاعراور ادیبوں کو دل کی گہراہیوں سے سلام پیش کرتا ہوںمثلاً کہ حضرت علامہ مولانا محمد عمر دین پوریؒجیسے لوگ ہیں کہ وہ اپنی مذہب اور دین اور اپنے رسم ورواج کی بہتری دیگر مذائب اور زبان کے لٹریچر جو ہماری زبان ، مذہب پر حملہ آور تھیں انکا مقابلہ کرنے اور اپنی شیرین اور بہترین بولی براہوئی کی تحفظ اور اسے تحریری سرمایہ سے مالامال کرنے کی خاطر کوشش کیں ہیں ۔اور اُن میں خصوصا ً حضرت علامہ مولانا محمد عمر دین پوریؒ  نے۸۵ کتب تصنیف کرنے کے ساتھ اشاعت دین، تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے براہوئی سماج کے برے رسوم ورواج کو ختم کرنا کتنا بڑا کام ہے۔کہ حضرت علامہ مولانا محمد عمر دین  پوریؒاپنی ۶۶سالہ زندگی کہ جسکا دس بارہ سال کم عمری میں ۔ دس بارہ سال علم کے حصول اور باقی تمام عمر کتاب لکھنے جس میں قرآن مجید کا ترجمہ،شاعری، مختلف سماجی زندگی اور دینی کتب کی اشاعت تو واقعی یہ رتبہ اللہ پاک ہر ایک کو یک کو نہیں دیتا ۔کسی خاص بندے کویہ رتبہ حاصل ہوتا ہے۔وہ اپنے عہد کے عالم ، محقق اور علامہ کہلاتے ہیں۔ مولانا دین پوریؒ کے متعلق جو تحقیق علامہ عبدالحیات منصور ؔ براہوئی نے کیا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطائ کرے چونکہ حاجی عبدالحیات منصور ؔ براہوئی کی تحقیق اور کتاب سے بہت سے طالب علم اپنی ڈگریاں پکی کریںگے

حیات منصور ؔ چپ اور خاموش مزاج کا مالک ہے مگر آپ کی علم اور علم دوستی وہ تو اپنے تمام ہم عصروں میں معتبر ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب سے آپ نے شعور کی آنکھ کولی ہے وہ براہوئی زبان اور ادب کے لیئے ہردم لکھتے آرہے ہیں۔ آپ کے پاس براہوئی ادب سے متعلق ایک بہت بڑی انکی مثالی لائبریری ہے ۔ آپ کی خوبی آپ کو سب سے اس لیئے ممتاز کردیا ہے کہ آپ براہوئی زبان اور ادب کے لیئے چھوٹی سی تحریر ، ضرب المثل ، معلومات آپ کو مل جاتا ہے وہ اسے انپے ہاں محفوظ کرتے ہوئے اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیتے ہے ۔پھر اسکایہ کمال ہے کہ اپنا مقصد اور اپنی پیاری بولی کے لیئے اس طرح تحقیق و تفتیش کرتے ہیں کہ دوسرے کو یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ حاجی عبدالحیات مجھ سے مجلس کررہا ہے گویا کیا مجلس سے اپنی قومی زبان و ادب کی خاطر سرمایہ جمع کرتے ہوئے ہیروں کی شکل میں براہوئی پر نچھاور کر رہے ہیں ۔ آ پکی تحریر اور تحقیق سے ظاہر ہوائی کہ علامہ محمد عمر دین پوری ؒ کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے باہر پورے برصغیر کے علمائ اور سیاسی رہنمائوں سے تھا ۔آپ کی ہجرتِ افغانستان مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ اور تبلیغ دین کے لیئے مولنا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا اور برصغیر میں علمی ،ادبی ، صحافتی، سیاسی، جد و جہد کی نامور تحریکوں میں حلقہ احباب کتنی وسیع تھی۔ ایک طرف برصغیر ہند کی تحریکیں، علمائ و سیاست کار دوسری طرف سے اپنے علاقہ کی علمی پسماندگی، قبائلی نظام اور پھر بھی وہ ہمت نہ ہاری۔ براہوئی قوم کی زبان کے لیئے اس زمانے میں کتاب اور کام کیئے ہیں۔ جب تک دنیا ہے اور اس میں براہوئی بولی براہوئی زندہ ہے۔ مولانا حضرت دین پوری کی خدمات ضرور یاد ہوں گی اور اسی طرح حضرت علامہ محمد عمر دین پوری کی پوری حالاتِ زندگی ، بود و باش، خاندان ،دینی اور علمی کاوشیں ہیں وہ پہلے ہمیں رسائل میں مضمون کی شکل میں ملتی تھیں۔ انکو یکجا کرنے اور کتابی شکل دینے کے لیئے حاجی عبدالحیات منصور براہوئی کی کوششیں تعریف کا حق دار ہے۔ خصوصاً براہوئی اکیڈمی کوئٹہ جیسی تحقیقی چیزیں کہ جن میں براہوئی زبان و ادب کی بنیاد رکھی گئی ہے چھپائی کے سلسلہ میں مبارک باد کے لائق ہے۔ دعا ہے کہ حاجی عبدالحیات منصوربراہوئی زبان و ادب کے لیئے کمرباندھا ہے اللہ تعالیٰ اسکی عمر میں اور قلم میں برکت ڈالیں۔ حاجی شاہ بیگ شیدا کاریزنوتھ 19/10/2010

(3) خدمات دین پوری اور منصور براہوئی : حاجی شاہ بیگ شیدا: علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 13تا14


مہربان منصور ؔ تحریر از: رحیم ناز دین دوست ،ادب دوست عبدالحیات منصور ؔ کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ حیات منصور ؔ ایک اچھا نثر نگار ہے ۔ ایک تجربہ کار مترجم اور ایک نامور شاعر ہے۔ جہاں نثر کی بات ہوگی تووہاں منصور ؔ کا نام ضرور لیا جا ئیگا ۔خصوصاًدینی حوالہ سے ادبی میدان میں اسکا بہت بڑا نام ہے۔ آپ کو اپنی مادری زبان کے الفاظ پر دسترس حاصل ہے۔وہ بہت ہی خوب صورت انداز میں الفاظ کو پرونے میں مہارت رکھتا ہے ۔ اگر ایک جگہ ترجمہ بھی کرتاہے تو محض لفظی ترجمہ نہیں کرتا۔بلکہ وہ تحریر کا مطلب سمجھاتے ہوئے ترجمہ کرتاہے چونکہ محض لفظی ترجمہ سے تحریرمیں حسن پیدا نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے تراجم میں بھی سادہ اور پُر مغز الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ منصور ؔ کے تحاریر اکثر مداح اور پیکر سازی سے پاک نظر آتی ہیں۔آپ کی تحاریر میںخوبصورت الفاظ سے جملوں کی ترتیب دینااپنی مثال آپ ہے۔ کہتے ہیں کہ شاعری میںکبھی کبھار شاعر پر آمد کی کیفیت آتی ہے۔ اسی طرح نثر نگار پر بھی نثر میں آمد ہوتی ہے۔یہی خوبی منصور ؔ میں ہے ۔ جب قلم کوہاتھ میں پکڑ تا ہے تو آپ پر الفاظ کی آمد ہوتی چلی آتی ہے۔ جس طرح پہلے عرض کیا گیا کہ منصور ؔ صاحب نثرنگاری کے علاوہ ایک اچھا مترجم اور شاعر بھی ہے۔وہ اپنی تحاریر میں میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو خوبصورت بنانے کے لیئے اپنی قاری کے ساتھ دیتے ہوے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے قصہ اور لطیفہ بھی استعمال کیا ہے۔جیسا کہ آپ کی کتاب ’’مہمان نوازی‘‘ میں یہی رنگ صاف نظر آتی ہے ۔اپنی تحاریر میںاکثر براہوئی کے قدیم الفاظ استعمال کیاہے ۔پھر بھی آپ کی اظہار ِ مدعا آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔ آپ کی ہمیشہ کوشش یہی ہوئی ہے کہ آپ کی تحریر میں بناوٹ نہ ہو۔ آپ بہت ہی خوبصورت ،سادہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔آپ کو اپنی تحاریر پر بڑی گرفت حاصل ہے۔ابتدا ئ سے انتہا تک آپ کی تحاریر میں نشیب و فراز نہیں ملیگا ۔ آپ کے پاس براہوئی الفاظ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔جس طرح کی بھی تحریر ہو آپ بمناسبت موقع و محل بہت خوبصورت الفاظ استعمال کرتاہے۔ جگہ جگہ اپنی قاری کو خوش رکھنے کی خاطرمذاح سے بھی کام لیتاہے۔ علامہ محمد عمر دین پوریؒ نے ادب کے لیئے جو خدمات سرانانجام دیں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔منصور ؔ صاحب جس کتاب کو کہ ’’ علامہ محمد عمر دین پوریؒ:فن و شخصیت ‘‘ کے نام سے اردو میں مرتب کی ہے یقینا اس سے ہمارے نوجوان اور آنے والی نسلیں اور اردو دان حضرات بہت زیادہ معلومات حاصل کریں گے۔ چونکہ علامہ محمد عمر دین پوریؒ نے براہوئی میں قرآن پاک کا ترجمہ سب سے پہلے کیا اور پچاس سے زائدبراہوئی اور کئی موضوعات پر اسلامی کتب تصنیف کیں۔ منصور ؔ جان کی یہ دین دوستی کی ثبوتی ہے کہ آپ نے اتنا وقت نکال لیا اور مولانا کی شخصیت اور کارناموں کے بارے میں اردو میں بہت بڑی دولت جمع کی ہے۔

امید ہے کہ منصور ؔ مستقبل میں بھی اپنا یہ سلسلہ جاری رکھے گا۔   

رحیم ناز ؔ مستونگ 8_ñدسمبر2010ئ (4) مہربان منصور: رحیم ناز،علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/ کوئٹہ) پاکستان، سال : 2012، ص: 15تا16


ادب سے محبت از: فتح محمد شاد ؔ مستونگ بے حدشکرہے کہ دیگرزبانوں کے ادب کی طرح براہوئی زبان کے ادب کا باغ بھی بہت سرسبزو شاداب ہے۔جب ہم براہوئی ادب کا جائزہ لیتے ہیں۔ تو ہمیں ماشائ اللہ بہت بڑے اچھے معتبر نام اورقدآور شخصیات نظر آتے ہیں۔ اگر ہم نام لیں تویہاں ایک بہت بڑا وقت اوربہت بڑی کتاب چائیے ۔ الغرض بات ادب کی ہے تو ہمارے ادب کے حوالے سے اب اللہ کی فضل سے ہر صنف پر طبع آزمائی کرنےوالے اچھے اور قابل حضرات کے نام موجود ہیں ۔ بات شاعری کی ہو یا افسانہ اور ناول کی ہواور اسی طرح ہائیکو ، تیر بند و رباعی ہو یا قطعات و نظم ہواور دوسری طرف نثر کا میدان ہے تو جیسے تحقیق ، تنقید، سفر نامہ، تبصرہ، ادبی تاریخ ہیں تو ہمارے براہوئی کے ادیب اور دانشور شعرائ کرام بہت اچھے سرمایہ براہوئی ادب کے لیئے تحریر کی ہیںاور کر رہی ہیں۔ اُمید ہے کہ اسی طرح یہ سفر جاری وساری رہیگی۔ہمارے براہوئی ادب میں ایک اچھا مگر مشکل صنف تحقیق کا ہے۔ اس پر کام کرنے کے لیئے ایک بہت بڑی محنت ، تلاش اور علم چاہئیے۔ تویہی تحقیق کے میدان میں اگر ہم دیکھے تو ہمیں مستونگ کی حسین اور خوبصورت وادی میں بہت پیارا نام نظر آتاہے ، ایک مہربان دوست کہ وہ بچپن سے ہی اب تک براہوئی ادب کے ساتھ اخلاص سے کمر بستہ ہے وہ ہے حاجی عبدالحیات منصور ؔ ابابکی ۔ حاجی صاحب نثر کے علاوہ شاعری میں بھی اچھی خاصی طبع آزمائی کی ہیں۔ مگر آپ کا پسندیدہ موضوع تحقیق ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی کو فطرتاً تلاش وجستجو کی شوق ہوتی ہے۔توحاجی صاحب کو میں نے بچپن سے ہی دیکھا ہے۔ کہ وہ بہت ہی باریک بینی سے ہر ایک شخص اورہر ایک چیز کے متعلق تحقیق کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج وہ ایک اچھا محقق بن گیاہے۔

حاجی عبدالحیات منصور ؔ تحقیق کے میدان میں ماشائ اللہ بہت کامیابی سے کردار ادا کررہا ہے۔کہ یہ براہوئی ادب کے لیئے ایک بہت بڑا سرمایہ سے کم نہیں۔ جیسا کہ آپ کی ایک کتاب جوتحقیق پر مبنی ہے۔ جناب نورمحمد پروانہ ؔ کے حالاتِ زندگی اور آپ کی خدمات سے متعلق ہے۔ یہ کتاب براہوئی ادب کے لیئے ایک قمتی سرمایہ سے کم نہیں۔حاجی صاحب کی دوسری کتاب ’’آبِ حیات ‘‘ نامی براہوئی کتابیات کے موضوع پر مشتمل ہے۔ بے حد معلوماتی کتاب ہے۔ چایئے کہ یہ کتاب جلد ازجلد چھپ کر منظر عام پر آجائے۔ اب یہ کتاب کہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی حالاتِ زندگی ،دینی خدمات اورادبی کام کے بارے میں ایک مفصل تحقیقی تصنیف ہے۔ درحقیقت حاجی صاحب مبارک باد کے لائق ہے کہ اتنا بڑا کام سرانجام دیاہے۔ یقیناً اگرکوئی اسے مطالعہ کرے تو وہ ضرور تسلیم کرلیگا۔ حاجی صاحب اس کتاب میں علامہ دین پوریؒ کے دینی خدمات کا ذکر کیاہے۔ کہ وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔ جیسا کہ حاجی صاحب دین پوری ؒکی عملی زندگی، ابتدائی تعلیم ، خاندانی احوال، دینی شاعری، شاعری میں تصوف کا رنگ ۔دوسرا یہ کہ براہوئی شاعری کو دین پوریؒ نے جدت کا

رنگ دیا۔ یہ حوالے دین پوریؒ بحیثیت مبلغ ،بحثیثت مترجم،دین پوری کے شاعری میں وحدانیت، اور نعت کے رنگ اور دیگر بہت سے موضوعات سے متعلق حاجی عبدالحیات منصور ؔ صاحب نے ایک عظیم تحقیقی کام کردیاہے۔ ہم تو یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ سارے حاجی عبدالحیات صاحب کے ادب دوستی اور اخلاص ہے کہ اتنی بڑی تحقیق کی ہے کہ یہ ہمارے لیئے اور براہوئی ادب کے لیئے بہت عظیم سرمایہ چھوڑا ہے۔ یہ آپ کی جیسا کہ پہلے میں نے کہا ہے کہ ادب دوستی اور دین دوستی ہے کہ ہمارے پہلے گزرے ہوئے عالمِ دین کے ساتھ محبت ہے۔ اور ساتھ ہی ایک ادیب کی حالاتِ زندگی اور کارناموں کو ایک کتاب کی صورت میں ہمارے لیئے اکٹھارکھا ہے۔

دعائ ہے کہ اللہ پاک حاجی صاحب کو صحت اور خوشی کے ساتھ لمبی عمر عطائ فرمائے تاکہ وہ اسی طرح اور ہیرے و جواہرات براہوئی ادب کے لیئے اکٹھا کرسکیں_â آمین_á خادمِ دین و ادب فتح محمد شاد ؔ مستونگ

جمعۃ المبارک22اکتوبر2010	

(5) ادب سے محبت: فتح محمد شاد، علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 17تا18


مصنف کہتا ہے

جو شخص کوئی کتاب لکھتا ہے تو وہ اُس پر اپنے خیالات کیاپیش کرسکتاہے۔ پھربھی وہ جب قلم کی نوک سے سفید کاغذ پر کچھ نقشے کھنچتا ہے تو اُس وقت اُسے اپنی کمزوری اور طاقت کا خوب پتہ چلتا ہے ۔ کہ میں نے کیا کردیا ہے اور کیا کررہاہوں؟ اس کام کے لیئے مجھے جن جن چیزوں سے مدد لینا چائیے تھا وہ اس کارِزار میں میرے پاس موجود ہیں یا نہیں۔مصنف کو اپنی تمام خامیوں اور کوتائیوں کی احساس ہے ۔ نقاد جو کچھ تنقید کرتا ہے وہ اپنی ہی جگہ سہی پھر اگر وہ تماشائی خود مقابلے کے لیئے میدان میں قدم رکھے تو پھر اُسے پتہ لگ جائیگا کہ اپنے مدّ مقابل کو کتناطاقتور پائیگا۔

ان باتوں کو ایک طرف رکھی جائیں ۔اللہ تعالیٰ یوسف رودینی صاحب کو جزائے خیر دے اور اسے عزت سے نوازیں ۔براہوئی ادبی سوسائٹی کوئٹہ اگر سال بھر ادبی محافل کا اہتمام نہیں کرسکتی پھر بھی ہر سال جس طرح بھی ہو اپنا سالگرہ ضرور مناتاہے۔وہاں ایک سالگرہ کی تقریب میں محمد یوسف رودینی صاحب نے اپنا مقالہ’’ علامہ محمد عمر دین پوریؒ‘‘ پڑھا۔معلوم ہوا کہ موصوف اس بارے میں پی ایچ ڈی کرر رہاہے۔ ویسے بھی مکتبہ درخانی کی کئی کتابیں اس عاجز نے از رائے مطالعہ اور دین سے محبت کے واسطے اپنے پاس محفوظ رکھی تھیں۔تو رودینی صاحب سے کہا کہ علامہ دین پوریؒ کی کچھ کتابیں میرے پاس ہیں۔

بعد ازاں میری اور آپ کی دوستی پکی نہیں ہوئیں بلکہ الگ الگ موضوعات سے متعلق مجھ ناچیز سے پوچھنے کے بعد یہ کتاب چند سالوں کے اند اندر تیار ہوگئی۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیئے راقم نے کتابوں کے پیچھے بھی گیا۔جناب محمد اسلم بنگلزئی صاحب ، حافظ عبدالکریم پندرانی مرحوم کے فرزندان ، مولانا حامد اللہ پندرانی صاحب، نذیر شاکر صاحب ،مولنا عطائ اللہ دین پوری صاحب، عبدالطیف عبد ؔ دین پوری صاحب، مولانا عبدالقادر محمدحسنی صاحب، جوہر ؔ براہوئی صاحب، عبدالقیوم سوسن ؔ براہوئی صاحب اور کئی علم دوست حضرات نے مجھ سے تعاون کیئے ۔ اسی طرح شیخ فرید صاحب نے مذکروہ مقالات کو روزنامہ ’’آزادی‘‘ کوئٹہ، میں باقاعدہ اقساط میں اشاعت کی شرف بخشی۔ ہفت روزہ’’ایلم‘‘ مستونگ، روزنامہ ’’ایلم‘‘ کوئٹہ اور ماہنامہ’’ استار‘‘ سوراب نے میرے ان شہ پاروں کو اپنے رسالوں میں جگہ دیں۔میں ان سب کا تہہ دل سے مشکور ہوں اور خصوصاً حضرت مولانا عبدالخالق ابابکی صاحب کا بے حد ممنون و مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے بارہا خوابِ غفلت سے جگاتے رہے۔اور اس راہ میں میری دل کھول کر حوصلہ افزائی فرمائی۔آپ کے ایمائ و حکم کی تعمیل پر میں نے اس کتاب پر کام کا آغاز کردیا۔بکھرے ہوئے مواد کو ایک بار پھر جمع کرنا شروع کردیا۔ مولانا صاحب کی دعائوں کی برکت سے میں نے یہ کتاب میدان میں لے آئی۔ حاجی عبدالحیات منصور ؔ براہوئی سہ شنبے _ñ1431 4محرم الحرام

ھ 

_ñ 22دسمبر 2009ئ کاریز قادی مستونگ (6) مصنف کہتا ہے : حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 19تا20


مولانا محمد عمر دین پوریؒ کا خاندانی پس منظر خاندانی پس منظر: ٭٭……٭(۱۸۸۲ئ…۱۹۴۸ئ)…٭٭ علامہ مولانا محمد عمر دین پوری ؒ پندرانی براہوئی کے مایہ ناز اور قابلِ فخرقبیلہ پندرانی کے فرزندارجمند تھے ۔علامہ کاشجرہ نسب اس طرح سے ہے ۔ علامہ محمدعمر ولد عطاء محمد عطائی سلیمان زئی پندرانی ۔علامہ کا تفصیلاً شجرہ نسب دستیاب نہیں ہوا۔ پندرانی نامہ ’’کپوت‘‘جیکب آباد کے مطابق حضرت کا تعلق سلیمان زئی شاخ سے ہے۔ (ص 49) آگے لکھتے ہیں کہ علامہ حاجی محمد عمر دین پوریؒ سلیمانزئی پندرانی کے نامور شاخ الھدادز ئی سے ہے (ایضاً) جبکہ سلیمانزئی کی 26شاخ ہیں۔ ان میں مشہور 9شاخیں ہیں۔ مثلاً محمد عرف روھوزئی، مریدزئی ، شیشارزئی،نِندوزئی ، مینھازئی، خوشداد زئی ، الھدا د زئی، جماڑی، بھنگی زئی، اسی طرح الھدادزئی میں دو مشہور ذیلی شاخیں ۔علامہ کا سلسلہ نسب ان دو میں سے کسی ایک سے ہوگا ایک متوزئی اور دوسراراوت خان زئی ہے۔ پندر: + +--------------------------+ محمد(محمدزئی) سلیمان(سلیمان زئی) + + کلو بہلول + + +-----+-----+ +-----+-----+-----+ ترائی دربان گدا خوشداد مینھا الھداد سنی خان

                                        +         +          +         +

۳-----۲-----۱ + + +

                      نبو       گاھی     گبر       +          +          +
۵-----۴------۳------۲-----------۱         +          +                                       
مستی     عبدالنبی     دارو       مسکان           عبداللہ         +          +
                                                     ۲-----۱          +
                                                     متو       راوت      +
                       ۴---------۳---------۲---------۱

نندو شیشار مرید محمدروھو

                                  ٭

گویا علامہ محمدعمر بن عطاء محمد عطائی کا سلسلہ نسب متوزئی یا راوت خان زئی سے ہوتاہواالھددادزئی سلیمانزئی سے پندرانی تک جا سکتا ہے جو نسلاً رند ہے۔ مئورخین اور ماہرِنسلیات اور لسانیات نے براہوئی قبائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے۔ انہیں مختلف النوع نسلوں کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ عزیز اللہ عزیزؔ براہوئی کے مطابق:۔ ’’ ۱۹۰۱ء والی رپورٹ میں برطانوی عملداروں نے براہوئی قوم کی تقسیم درتقسیم آفیشل ریکارڈ میں کچھ اس طرح دکھائی ہے: ۔ (۱)…خالص عرب-: (۱)…قلندرانی(۲)قمبراڑی(۳) گرگناڑی(۴)میرواڑی (۲)…رند -: (۱)بنگلزئی (۲)پندراڑی(۳)لانگو(۴)لہڑی (۳)…افغان-: (۱)رئیسانی(۲)سرپرہ(۳)شاہواڑی (۴)…ترک اورایرانی -: (۱)کرد(۲)محمد شہی (۵)…جاٹ:۔ (۱)بزنجو(۲)ساجدی(۳)زہری(۴)مینگل۔(۱) مذکورہ بالا تحقیق میں پندرانی قبیلہ کو رند ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح مصنف ’’پندرانی نامہ‘‘ حکیم گلاب جان مہجورپندرانی وجہ تسمیہ اور پندرانیوں کے جدِ امجد’’پندر‘‘ کی شخصیت اور عظیم کارناموں اور ناموری کا ذکر خوبصورت الفاظ میںکیا ہے وہ رقم طراز ہے: پندر…پندروہی مشہوراور ممتاز شخص گذراتھاجسے اکثر لوگوں نے تمام پندرانیوں کا جدامجد خیال کر تے ہیں۔ پندرداداہے تو محمد اور سلیمان اُن کے دونوں نامور فرزند ہیں ۔ باقی پندر‘ پندرانی کا اولین باپ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ اس سے قبل بھی اقوام عالم میں پندرانی قوم کا وجودتھا جو برصغیر کے علاوہ دنیاکے دیگر خطوں میں زندگی بسرکرتے تھے ۔ محمد اور سلیمان کا دادا کہ اسی نا م سے یہ قوم پندرانی کہلاتی ہے ۔ اس موضوع پرایک الگ کتاب تصنیف کرنے کی ضرورت ہے ۔ اُس کی قابلیت ، لیاقت اور صلاحیتوں کی بنا ء پرآج تک مقولہ ہے کہ ’’بات کا گوہر پندرانی، دسترخوان پندرانی، زرزوال پندرانی‘‘ اقوامِ رند’’پندر‘‘ کی بھائی بندی پرفخر کرتی اور کہتی تھیں کہ پندرانی ہمارا بھائی ہے۔ یہ عظیم براہوئی میر چاکر خان رند کا ہمعصر اور نامور شخصیت گذراہے ۔بیک وقت براہوئی کے علاوہ بلوچی، سندھی، پشتواور فارسی جانتے تھے۔ اُس کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ اُنکے نواسوں کے نام گدا، ٹراسی اور دربان فارسی اور سندھی لہجوں پر ہے۔ اسی طرح شیشار (شونکار) نندئو، میھو، خوشداد اورا لھداد بلوچی ، لہجہ کے نام ہیں۔ کیونکہ براہوئی نام اس طرح ہوتے مثلاً کلنچی ،رغتی ،کلیری،پھوغی، اور رختی وغیرہ ۔ ’’پندر‘‘ کی حب الوطنی اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ جب میر چاکر خان رند قلات پر حملہ آور ہوا تو میر پندر بہت سی لالچوں کو چھوڑ کر پندران چلاگیا ۔ملک گیری سے اخوت ،محبت اور دوستی کو ترجیح دی۔ اپنے کسی ہمسایہ سے جنگ اور فساد نہیں کیا۔ ایک عظیم مدبر اور مفکر تھا(’’کپوت‘‘‘پندرانی نامہ ص28) خاندانی پس منظر:۔ علامہ محمد عمر دین پوریؒ کے ولد محترم عطاء محمد عطائی کے علاوہ باقی دیگر اسکے دادا، پردادا، بھائیوں، بہنوں ، چچااور چچازادبھائیوں سے متعلق تذکرہ نویس خاموش ہے۔ البتہ محققین اور مورخین نے علامہ محمد عمر دین پوریؒ کے آل واولاد اور بعد کے آنے والی نسلوں سے متعلق خوب کھوج لگائی ہے اس طرح یہ بھی تاہنوز تحقیق طلب ہے کہ علامہ کا آبائی علاقہ کونساہے ؟پھربھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مستونگ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مولانا ڈاہی سے حاصل کی۔ اسکا تعلق ایک غریب اور مفلوک الحال خاندان سے تھا۔ سوسنؔ براہوئی ’’براہوئی قدیم نثری ادب‘‘ میں علامہ دین پوریؒ کو یوں یاد کرتاہے :۔ ’’علامہ مولانا عمردین پوریؒ 1882ئ؁ میں مستونگ میں پیدا ہوا۔آپ کے والد محترم کا نام گرامی عطاء محمد تھا۔ ایک غریب گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کی بنا ء پر بچپن ہی سے گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ مدرسہ جاکر علم کی پیاس بجھائے تھے۔ اس طرح پندرہ سال کی عمر میں مولانا ڈاہی کی شاگردی میں قرآن حکیم ختم کیا۔‘‘(۲) علامہ کی جائے پیدائش اگر چہ مستونگ ہے۔ مستونگ شہر میں نور محمد پروانہؔ کے خاندان ،کلی غلام پڑنیز مستونگ میں مولانا عبدالشکور پندرانی کے خاندان اور کچھ گھرانے کانک مستونگ میں پندرانیوں کی رہا ئش رکھتے ہیں۔اُن میں سے کسی نے بھی علامہ دین پوریؒ سے خاندانی قربت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ شاید بعدمیں علامہؒ کا گھرانہ کئی اور چلاگیا ہے۔ ویسے بھی علامہؒ اپنی عمر کا ایک بہت بڑا حصّہ دین پور واقعے شکار پور سندھ میں گذاراہے ۔ ویسے بھی پہلے براہوئی قبائل اکثر سردیوں میں کچھی اور سندھ نقل مکانی کرتے تھے اور گرمیوں میں واپس مستونگ ،قلات، سوراب اور خضدار آکر جہاں چارہ و پانی وغیرہ وافر مقدار میں پائے جاتے وہاں ڈیرہ ڈالتے۔ اُن کا گزراوقات خانہ بدوشانہ زندگی پر مشتمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ دین پوری ؒمزید تعلیم حاصل کرنے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل بھیڑبکریاں چروا کر پیغمبرانہ سنت اداکررہا تھا کہ مدرسہ درخانی ڈھاڈر کے طالبان نے اسے ڈھاڈر کے قریب بھیڑبکریوں کے ساتھ گزرتے ہوئے دیکھ کر اسے آڑے ہاتھوں لیا اور اسکی وضع قطع پر نظر پڑی اور اسے اپنے مذاق کا موضوع بنا لیا مولانا حساس دل کا مالک تھا، بہت برا مانا اور سیدھامدرسہ درخان کے مہتمم علامہ مولانا عبدالحئی درخانی کے پاس گیا اور مدرسہ کے طلباء کے غیر شائستہ رویہ کا ذکر کیا۔علامہ دین پوریؒ مولانا عبدالحئی کی فیضانِ نظر سے مستفیض ہوکر بھیڑبکریوں کوخیر باد کہا اور مولانا کے آگے زانو تلمذباند کر علم کے عظیم سمندر میںغوطہ زن ہوا اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ نایاب اور قیمتی ہیرے اور جواہرات ڈھونڈڈ ھونڈ کر نکال لائے جنہیں براہوئیوں نے قابل استعمال بناکر اُس وقت کے فرعونوں ‘سامراجی قوتوں اور انگریزمستشرقوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ تاریخ اس بات پر انتہائی فخر کرتی ہے کہ ان مشنری تحریکوں کے دوران کسی ایک براہوئی نے بھی عیسائیت قبول نہیں کی۔مولانا دین پوری ؒنے ساری زندگی دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف میں گزاری اور نہ صرف پندرانی قبیلہ کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں جگہ عنایت فرمائی بلکہ براہوئی قوم کی حیاء ایمان اور غیرت کووہ زندگی بخشی جس کا ہم جتنا بھی شکر اداکریں و ہ کچھ نہیں ہے ۔ بہرحال قصہ کوتاہ علامہ عمر دین پوری ؒ کی جائے پیدائش مستونگ ہے حکیم گلاب خان مہجوراپنے باب داد او غیر کا تعلق غلام پڑینز مستونگ سے ظاہر کرتاہے آج بھی اس کے عزیز محمد عیوض رئیسانی ہیڈمالی کیڈٹ کالج مستونگ غلام پڑینز میں رہائش پذیر ہے۔حکیم گلاب خان مہجور کا تعلق بھی سلیمان زئی پندرانی سے ہے۔ ’’کپوت‘‘براہوئی دنیا میں سلیمانی زئی کی شاخ الھدادزئی کا وڈیرہ عبدالحمید خان ظاہر کیا گیا ہے۔‘‘(۳) حکیم گلاب خان ’’کپوت‘‘ پندانی نامہ میں پندرانی قبیلہ کی نامور شخصیات سنی خان، محمد عرف روھو ،مینوخان، مرید خان، سخی ہوتک،دلمراد خان بن محمد روھو ،سخی خان محمد محمد زئی پندرانی ،شاد مراد خان، میر سبزل خان سلیمانزئی پندرانی ،ملالوٹو خان ،مرید خان (دوئم) خلیفہ مصری خان (اوّل )،فقیر شکر بیگ ، شہید لعل بیگ، راوت خان ، سخی گل محمد، شیر محمد خان ، خلیفہ مستی خان ، فتح محمد خان ، گلاب خان، خلیفہ اختر محمد خان پندرانی (ٹلوزئی)۔ حکیم مولانا مہردل خان خوشداد زئی پندرانی ، علامہ حاجی محمد عمر دین پوریؒ ،صوفی حاجی دلمراد جواکثر علامہ دین پوریؒ کی صحبت میں رہتا تھا۔سردارحاجی علی محمد خان، نور محمدپروانہ،وڈیرہ حیدر خان، وڈیرہ نورالدین خان، حکیم مولاناعبدالحکیم صاحبؒجو علامہ دین پوریؒ سے بے حد متاثر تھا۔ سنی خان ثانی ،میر علی حسن خان ،عزیز اللہ عزیزؔبراہوئی،استاد عالم خان ،حاجی عبداللہ خان، میرسبزل خان، حاجی عبدالغفار خان ،یار محمد خان عالیزئی پندرانی کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں مستونگ میں پندرانیوں کا تذکرہ موجو دہے جبکہ محمد عرف روھوشہید پانی پت کی تیسری لڑائی کا مزار مستونگ میں ہے لکھتا ہے کہ:۔ ’’شہیدمحمد کے جسد خاکی کو اسکا بھائی مرید خان پانی پت سے مستونگ اپنے ساتھ لایا۔ شہر کے نزدیک اسے سپرد خاک کر دیا گیا ۔اس کی قبر آج بھی زیارت گاہ ہے۔‘‘(۴) گلاب خان جو حکیم گلاب خان مہجور کا داداہے اس کی ملکیت اور زمین کچھی کے علاوہ پندران اور مستونگ میںموجود تھی۔ گلاب خان کے پہلے والے باپ دادا کچھی کے علاوہ پنداران میں بھی رہتے تھے اسی وجہ سے وہاںبھی اسے ملکیت تھی عزیز اور رشتہ داروں کی وجہ سے وہاں بھی آتے جاتے تھے مگر مستونگ سے اسکا تعلق بہت گہراتھا اس لئے کہ خلیفہ اختر محمد جان پندرانی (ٹلوزئی)کا بھانجا میر کرم خان پندارنی (مریدزئی ) کا داماد تھاچونکہ میر کرم خان کو نرینہ اولادنہ تھی صرف دو بیٹیاں تھیں۔پھر مرنے کے بعد اُنکی ملکیت دونوں بیٹیوں کے حوالہ ہوئی۔ پھراسی ملکیت اور پھر رشتہ داری کی وجہ سے اُسے وہاں اکثرجانا پڑتا تھا۔(۵) علاوہ ازیں مستونگ میں رہائشی خلیفہ مصری خان (اوّل) کاہیضہ کی بیماری سے شفایابی کا ذکر بھی ص نمبر48پر کیا ہے جو غلام پڑنیز مستونگ میں خلیفہ کا گھر تھا۔ ڈاکٹر نذیر شاکر کے مطابق علامہ محمد عمردین پوریؒ کی سن ولادت 1877ئ؁ ہے۔(۶)ڈاکٹر آگے لکھتاہے کہ دین پور سے پہلے علامہ کا سندھ میں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لہٰذا مولانا عبدالحئی اور مولاناہمایوں نے ملکر سردار محمد بخش کا کیپوٹہ سے کچھ قطعہ زمین لیکر علامہ کے حوالے کردیا۔وہ رقم طراز ہے ۔ ’’اسی طرح مولانا عبدالحئی کی یہ دلی آروز تھی کہ علامہ دین پوریؒ کو سندھ میں رکھاجائے چونکہ دین پوریؒ کی سندھ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس مسئلہ کے حل کی خاطر مولانا عبدالحئی رئیسانی نے مولانا ہمایوں صاحب سے صلاح اور مشورہ کیا۔ مولانا ہمایوں ا پنے نامور عقیدت مند سردار محمد بخش کا کیپوٹہ کو دیکھا کہ ہمایوں گائوں کے نزدیک و کڑوگائوں میں رہائش پذیر تھا۔ اس سے گزارش کی کہ( علامہؒ کو زمین دے دی جائے) سردار محمد بخش نے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں وکڑوگائوں سے تھوڑ ی دور اپنی زمینوں میںسے کچھ جریب علامہ دین پوری ؒ کے حوالہ کر دیا ۔‘‘ (۷) ڈاکٹر نذیر احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق علامہ محمد عمر کی شادی 1899ئ؁ سے 1900ء کے درمیان ہوئی ۔وہ لکھتاہے:۔ ’’علامہ دینپوری صاحب کے خاندان سے متعلق روایات کے مطابق اور محققین کی تحقیق کی رُوسے دین پوری نے20سال یا اس سے کم یا زیادہ کی عمر میں شادی کی اس روایت میں کوئی شک نہیں کہ آپکی شادی نئے شہر دین پور میں ہوئی ۔1899ء میں دین پور گائوں کی بنیاد رکھی۔ اورشادی بھی اسی گائوں میں کی تو اسکی شادی بھی ضرور 1899ء کے بعد ہوگئی ہوگی ۔1899ء تک آپکی عمر 23سال رہ جاتی ہے اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ علامہ کی پہلی شادی 1899ء سے 1900کے درمیان ہوئی ہو گی۔‘‘(۸) انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس مقالہ میں علامہ کے آبائو اجداد۔ والدین ،چچا اور اہل و عیال، علامہ کی پھوپھیاں ،بھائی ، بہنیں، ننھیال ‘سسرال ‘ ازواج، اولاد ‘ داماد اور نواسے نواسیوں کا ذکر کریںگے ۔ براہوئی زبان کے نامور اُستاد، ادیب ،محقق ،مقالہ نگار اور شاعرجناب عبدالقیوم جوہرؔ بنگلزئی صاحب‘ علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی ازواج ِمحترمات کا ذکرصحافت کے حوالہ سے اپنا مقالہ’’ براہوئی زبان و ادب کے لئے علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی خدمات ‘‘میں یوں کرتا ہے۔ براہوئی صحافت کا آغاز بھی حضرت مولانا محمد عمر دین پوریؒ پہلی بار ماہانہ رسالہ ’’الحق‘‘ کے نام سے 1923ء میں دین پور سندھ سے کیا۔اس ماہانہ رسالہ کا چیف ایڈیٹر مولانا دین پوریؒ خود تھا۔اسکے سب ایڈیٹرزاسکی دونوں بیویاں گودی اُم حبیب اور گودی اُم حنیف تھیں ۔’’الحق‘ ‘ کا اجراء خواتین میں دینی شعور پیداکرنا تھا۔‘‘(۹) علامہ محمد عمر دین پوریؒ قرآن پاک ناظر ہ پڑھنے کے بعد تین سال میں فارسی کا نصاب ختم کرکے مزید حصولِ علم کے لئے کوشاں رہے۔ چونکہ خانہ بدوشانہ زندگی میں انہوں نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ حاصل کیا۔ مگر غربت کی وجہ سے آگے تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔ اسی دوران آپ کی شادی سے پہلے منگنی ہوئی ۔پروفیسر محمد یوسف رودینی صاحب اپنا مقالہ ’’محمد عمر دین پوریؒ ‘‘میں علامہ کی منگنی اور شادی کے متعلق یوں گل افشانی کرتاہے:۔ ’’ مولانا دین پوریؒ اپنا بچپن بھیڑبکریاں چرانے میں گزارا آپ اسی طرح بھیڑبکریاں چرانے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک ہم قبیلہ شخصیت مولانا ڈاہی سے قرآن پاک کو پڑھنا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے دین پوریؒ کو ایک اعلیٰ فکر عطا کی تھی آپ نے بہت جلد قرآن پاک ختم کیا ۔ اس کے بعد آگے تعلیم کا شوق اسے اپنے ایک اور ہم قبیلہ بھائی مولانا عبدالغفور ہمایوں تک جا پہنچایا آپ نے وہی تین سال میں فارسی کا کورس ختم کرنے کے بعد علم حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ چونکہ خانہ بدوشانہ زندگی میں جو کچھ حاصل کرنا تھا کر لیا ۔پہلا یہ کہ غریبی پھر دوسرایہ کہ اُس دور میں تعلیم حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا مگر پھر بھی آپکے شوق اسے مجبور کر رہا تھا لیکن اسی دوران اُسے ایک اور مصیبت نے آن گھیرا کہ اُس وقت آپکی عمر 22سال کی لگ بگ تھی اور آپ کی منگنی بھی ہو چکی تھی تو آپ کے والدین آپ کو شادی کرنے کے لئے خوب زور دینے لگے۔ دین پوری صاحب دین کا بے حد قائل تھا اور وہ اپنی منگیتر کو حاصل بھی نہیں کر سکتا تھا چونکہ آپ کی منگیتربھی سن بلوغت تک پہنچی تھی تو آپ نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آیا اور شادی کی پھر ہرلمحہ اسی فکر میں تھا کہ تعلیم کو کس طرح پایا تکمیل تک پہنچایاجائے ۔ آپ کے خاندان کا ہر ایک فرد مرد ہویا عورت سب نے یہی مشورہ دیا کہ دیکھو آپ کا والد محترم اَن پڑھ تھے ۔بھائی لکھنا پھڑھنا نہیں جانتے ۔آپ نے تو بہت کچھ پایا ہے اب تو اپنے استاد محترم مولانا ڈاہی سے بھی زیادہ اور اسی طرح اپنے دوسرے استاد جناب مولانا عبدالغفور سے بھی زیاہ پڑھاہے۔ بس کرو اب آپ کس لئے پڑھیں گے ۔ قرآن شریف آپ نے پڑھاہے نماز آپ پڑھتے ہیں تعویذ لکھنا آپ کو آتاہے ۔بس اب تو گھر میں بیٹھواور پھر اگر بھیڑبکریاں چروانے کا شوق ہے تو کچھ بھیڑبکریاں آپ کا والد محترم دیگا کچھ دیگر لوگوں کے مزدوری میں چرائو بس آپ کا گزرا وقات ہوگا آگے آپ پڑھ کر کیا بننا چاہتے ہو۔ ایک مسجد میں امامت کے فرائص سر انجام دوگے اور کیا ؟ ہم سے بھی دُورر ہوگے بس یہیں ہمارے ساتھ رہو۔ مولانا دین پوری کچھ عرصہ کے لئے اسی سوچ و فکر میں مبتلارہا ۔مگر اُسے پڑھنے کے شوق نے بیدار کر دیا ۔اپنے حصّے کی بھیڑبکریوں کو فروخت کرکے گھر میں کھانے پینے کے اخراجات کردیے۔ اور خود مکتبہ درخان آکر پہنچا۔‘‘(۱۰) گلدستہ سندھ مرتب جوہر براہوئی صفحہ 45پر دیا ہو ا مولانا محمد عمر پندرانی کے خاندان کے شجر ہ کے مطابق علامہ دین پوری کی پہلی اور بڑی بیوی کا نام گودی مراد خاتون بنت مولی ڈنہ عرف ہیڑا ہے اور دوسری بیوی کا نام گودی ہزار ناز خاتون بنت میر بیگ ہے۔(۱۱)گودی مُراد خاتون کی کنیت ام شریف اور گودی ہزار ناز خاتون کی کنیت اُم حنیف ہے۔ ام الشرف اور اُم الحنیف کا ذکر رسالہ ’’الحق ‘‘ میں بھی ہے۔ جوہر بنگلزئی نے ام الشریف کو اُم حبیب تحریر کیاہے ۔ علامہ عبدالقیوم جوہر براہوئی نے گلدستہ سندھ میں علامہ دین پوری کے نواسہ عبدالطیف عبدبن عبداللہ بن عبدالطیف بن مولانا محمد عمر دین پوری کے تعاون اور شکریہ کے ساتھ علامہ کا شجرہ کچھ یوں بیان کیا ہے ۔

                       عطاء محمد عطائی پندرانی
                           +

۱۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۴۔۔۔۔۔۵۔۔۔۔۔۔۔۶ ْمحمد صدیق محمد بقاء محمد عمر محمد امیر گودی لالین گودی ہزار ناز خاتون

                       +

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲ گودی مراد خاتون بنت مولی ڈنہ عرف ہیڑا گودی ہزار ناز خاتون بنت میر بیگ

  (مولانا محمدعمر کی بڑی بیوی)                        (مولانا محمد عمر کی دوسری بیوی) 
              +                                      +

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۳ ۱۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔۔۔۳ محمد شریف مولانا عبدالطیف تاج بانو محمد حنیف محمد منیف عبدالحفیظ + + + + + + لاولد عبداللہ + + + +

               +                  +  +         +         +             +

۱۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۴ + + + + عبدالطیف محمداشرف عطاء اللہ حقنواز + + + +

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳          +         +            +

غلام قادر فضل اللہ اُمۃ الواجد + + + ۱۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔۴۔۔۔۔۵۔۔۔۔۶ + + محمدعمر سعید احمد محمدالیاس عبدالرازق خالد مولاداد + + ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲ + محمد اشرف غلام حیدر + ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲ محمد اسماعیل محمد انور

(۱۲) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گودی تاج بانو :۔ مولانا محمد عمر دین پوریؒ کی اکلوتی صاحب زادی تھی (بمطابق شجر ہ خاندان علامہ دین پوری گلدستہ سندھ ص 45) ۔جو 1915ئ؁ کو دین پوری شکار پور میں پیداہوئی قابل احترام و الد گرامی سے کسب فیض کیا۔ براہوئی: 38کتابیں‘بلوچی:7کتابیں اُردومیں :3کتابیں اور فارسی میں: 2کتابیں لکھیں۔ ’’منظوم ثلاثہ‘‘کے عنوان سے براہوئی ‘بلوچی اور سندھی نظمیں مرتب کیں۔ انکی کتاب’’تسویغ النسوان‘‘ 2جلدوں میں 1353ھ اور1345ھ میں چھپیں ۔27رمضان1417ھ مطابق 6فروری1997 ء کو دین پور میں انتقال کرگئیں ۔(۱۳) ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی گودی تاج بانو کی علمی خدمات، خواتین کی اصلاحی کوششوں ،اسکی تصنیفات اورشاعری وغیرہ سے متعلق لکھتاہے:۔ ’’مائی تاج بابو علامہ دین پوری کی صاحبزادی ہیں اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر خواتین کی تبلیغ کیلئے کوشاں رہیں۔ معاشرتی و مذہبی اصلاح کے لئے آپ نے ’’تسویغ النسوان‘‘دو جلدوں میں لکھی یہ دونوں جلدیں ۱۳۵۳ھ اور ۴؍ذوالحج ۱۳۵۴ھ میں شائع ہوئیں ۔ان کی ضخامت 64‘64صفحات ہے۔ آپ نے مرثیہ‘ لوریاں ‘قومی نظمیں اور نعتیں لکھی ہیں‘ فارسی کی مندرجہ ذیل پہیلی کا منظوم ترجمہ اپنی ایک طویل نظم’’فراقان فریاد ‘‘ میں کیا ہے:۔ یکے مرغ دیدم نہ پائو نہ پر نہ ازشکم مادر نہ پشت پدر نہ بر آسمان نہ زیر زمین ہمیشہ خورد گوشت آدمی براہوئی میں ترجمہ :۔ خناٹ چکس نتے تن نیکہ پرہ میں نے ایک پرندہ دیکھا جسے کا نہ توپائوں تھے اور نہ پر کہ مس جانے دھنکہ ہرہ اس کا جسم آری کی طرح تھا نکہ پیداہ ئِ پڈآن لمہ نااو وہ نہ تو شکم مادر سے پیدا ہوا ہے مخانے نیکہ چاارے باوہ نا او اور نہ اپنے باپ کی پشت سے نہ کہ او بال کیک بڑزا آسمانا نہ تو وہ آسمان کی طرف محو پرواز ہوتاہے نہ کاہک شیف ڈغار ٹی ئِ پانہ نہ تو زمین میں جاتا ہے کنوک بندغاتا نن ودے سوئِ دن رات آدمیوں کا گوشت کھاتا ہے وشاغوک ہوش ٹی تا ہائِ ہو ئِ اور ان کی عقل اور ہوش کو چوپٹ کر دیتا ہے (۱۴) ’’نیاڑی تا ادب‘‘کا مصنف عبدالقیوم بیدار ؔ علامہ محمد عمر دین پوری کی بیٹی تاج بانو، نواسی اُمت الواجد ،داماد مُلاجلال الدین اور ملا گہرام کی بیٹی نور بی بی کی اسلامی، تبلیغی ،تعلیمی اورتدرسیی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہے :۔ ’’علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی بیٹی گودی تاج بانو ملا گہرام کی بیٹی گودی نور بی بی اور مُلا جلال الدین کی بیٹی گودی اُمت الواجدنے خواتین کی خاطر مدرسہ کھولا۔ انہوں نے مدرسہ البنات میں خواتین اور طالبات کو تعلیم دی۔ علاوہ ازیں ان خواتین نے براہوئی ادب میں بھی اعلیٰ پایہ کا ادبی مواد تخلیق کیا۔ انہوںنے براہوئی میں نظم اور نثرپر کام کیا۔‘‘(۱۵) پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر ڈائریکٹر بلوچستان سٹیڈیز سنٹر بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ نے تاج بانو کو خواتین براہوئی ادیبوں کا سر خیل قرار دے کر اس کی علمی اور ادبی خدمات کا ذکر کچھ یُوں کیا ہے :۔ ’’براہوئی ادبی تاریخ میں گودی تاج بانو جو کہ جناب دین پوری صاحب کی لائق دختر تھی اُس کی علمی اور ادبی خدمات براہوئی زبان کے لئے کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ اسی طرح خواتین کے یہ ادبی قافلے آج تک براہوئی ادب میں بہترین ادبی شہ پارے تخلیق کرتے ہوئے آرہے ہیں۔‘‘(۱۶) تاج بانو کے متعلق براہوئی لوک ادب کے ماہر محمد افضل مینگل اسکرپٹ ایڈیٹر پاکستان ٹیلیویژن کوئٹہ سینٹر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:۔ ’’اگر ہم براہوئی ادب پر نظر ڈالیں تو ہمیں براہوئی خواتین میں اچھی اچھی لکھنے والی خواتین نظرآتی ہیں۔براہوئی زبان میں سب سے زیادہ مولانا محمد عمر دینپوریؒ کی بیٹی مائی تاج بانوکے کارنامے نظرآتے ہیں۔ انہوںنے خواتین کی وعظ و نصیحت کیلئے ’’تسویغ النسواں ‘‘لکھی علاوہ ازیں اُس کی بہت سی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیفات ہیں۔‘‘(۱۷) مائی تاج بانو کے خاوند کا نام مُلا جلال الدین پندرانی بیٹی کا نام اُمت الواجد ہے جو مُلا جلال الدین کی سُلب سے پیداہوئی ۔ داماد کا نام محمد عیسیٰ پندرانی بھر یاروڈ سندھ والا نواسہ کا نام مولانا عطاء اللہ انقلابی اور بیٹے کا نام ملافضل الدین دین پوری۔‘‘ (نیاڑی تا ادب )’’دوسرے بیٹے کا نام غلام قادر ہے۔‘‘(۱۸) ’’حقیقی بھائیوں کے نام محمدشریف اور مُولانا عبدالطیف ہے اور سوتیلی بھائیوں کے نام محمد حنیف ‘محمدمنیف اور عبدالحفیظ ہے ۔والد ہ کا نام گودی مراد خاتون بنت مولوی ڈنہ عرف ہیٹر،کنیت اُم شریف ہے ۔‘‘(۱۹) ’’سوتیلی ماں کا نام گودی ہزار خاتون بنت میر بیگ کنیت اُم حنیف۔ چچائوں کے نام محمد صدیق ‘ محمد بقاہ اور محمد امیر اور چچیوں کے نام گودی لالین خاتون اور گودی بزناز خاتون ہے۔ عبدالطیف ‘محمد اشرف ‘ عطاء اللہ اور حق نواز اسکے بھانجے، عبداللہ بن عبدالطیف بن دین پوریؒ کے (بیٹے ہیں اور اسی طرح) محمد عمر ‘ سعید احمد ‘محمد الیاس ‘مُولانا عبدالرزاق‘خالد اور مولاداد دوسرے بھانجے ہیں جو اسکے بھائی محمد حنیف بن دین پوریؒ کے بیٹے ہیں۔‘‘(۲۰) گودی تاج بانو کی تصانیفات : ’’گودی تاج بانو کی کچھ تصانیف کے نام یوں ہیں ۔ دیوان تاج بانو‘ مثنوی تاج بانو‘نیاڑی تا سوغات یاتحفۃ النسوان۔ دہ بی بی نا قصہ‘ عارفہ آ نیاڑی تا قصہ‘ حقوق الزوجین ‘ فضائل قرآن و صدقات‘ اَرہ نا نا فرمانی وفرمانبرداری ‘ حمدباری تعالیٰ ‘نعت رسول، لولی حضورصعلم‘ نیاڑی تا فریاد‘ راحت القلوب ،تسویغ النسوان اوّل و دوم ۔ماہنامامہ الحق میں چھپے ہوئے مضامین ،مرثیہ تاج بانو‘ فراق نا مہ منظوم ،خطوط تاج بانو، کتابچہ فضائل ذکر ‘ توحید تقویٰ و شرک ‘ عالم برزخ، سخاوت و صدخہ جاریہ۔علم نا فضائل آک ، شکرونا شکری نا قصہ‘ مکاتیب تاج بانو‘ براہوئی دیندارآتے خطاب۔ خدانا عاشقا بی بیک ‘ نیاڑی نا لولی ‘ وصیت نامہ تاج بانو ‘ اُردو میں براہوئی مستورات کی علم و اسلام سے محبت و قربانیاں ۔براہوئی مستورات کے لئے نورانی دور (علامہ دینپوری ؒکی تبلیغ و تصانیف کازمانہ)،تعلیم یافتہ براہوئی مستورات (نثر) براہوئی شاعرات بمع نمونہ شعر ‘ مترجم مرثیہ تاج بانو‘ نوادرات تاج بانو ( ہفت روزہ ’’ایلم‘‘ مستونگ میں لکھے ہوئے شہ پارے)، براہوئی قوم کا اسلام سے عشق ‘فیض گاہ دین پوری کے درخشندہ ستارے ‘براہوئی عورت ،علاوہ ازیں پندنامہ ،تفسیرپارہ الم ‘ توحید تقوٰی و شرک، خطبہ براہوئی، مشتاق حرم، فراق نامہ ‘پند لقمان ‘ پنچ کتاب ‘ تفسیرپارہ سیقول،صبرو توکل ہے۔ جبکہ بلوچی میں پندلقمان پیررکھیل ئے جواب عالم برزخ، پنج گنج ‘ خطبہ بلوچی‘ وفات نامہ آنحضرتؐ، اورعلقمہ ئِ قصّہ فارسی میں پنج گنج اورعلم حق قابل ذکر ہے‘‘(۲۱) محترمہ تاج بانو سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ہاںرہتی تھی، مستونگ ، دین پور اور بھر روڈ میں آپ نے اپنی زندگی گزاری ہے۔’’گودی تاج بانو دین پورمیں اپنے بیٹے ملافضل الدین کے ساتھ ،بھریاروڈ نوشہر و فیروزسندھ میں اپنے داما د محمد عیسیٰ کے ساتھ رہتی تھی ،جب کہ موسم گرما میں براہوئی نور محمد پروانہؔ کے ہاں مستونگ میں رہتی ۔‘‘(۲۲) آپ نے علامہ کا مشن زندہ و پائندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور علم و ادب کا علم ہمیشہ بلند رکھا، مگر زندگی میں کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آسکی۔اور آخر کار اس جہان فانی سے یہ بے بدل عالمہ رخصت فرمائی۔’’اپنے عہدکی یہ عالمہ براہوئی ادب کی ایک بہترین قلم کار دین اسلام کی شیدائی 27رمضان المبارک 6/1417فروری1997ء ؁ کی شب دین پور ضلع شکار پور میں وفات پائی۔’’اناللّٰہ وانا الیہِ راجِعُوْن۔‘‘ (۲۳) ’’اپنے عہد کی یہ عالمہ، شاعرہ وادیبہ ‘براہوئی علم و ادب کیلئے بہت خدمت کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے رخصت ہوئی۔ مگراسکی اپنی زندگی میں اس کی کوئی کتاب نہیں چھپی جس کا ہمیں بہت افسوس ہے ہم پھر بھی مایوس نہیں اگر کسی کو گودی تاج بانو کی تصانیف دستیاب ہو سکیں اور وہ اس علمی اور ادبی سرمایہ کو شائع کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کرے۔ ‘‘(۲۴) ڈاکٹر انعام الحق کوثر علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی خوش قسمت اولاد کے بارے میں خوبصورت الفاظ میںیوں تحریر کرتاہے۔ ’’آپؒ کے ایک لخت جگر مُولانا عبدالطیف آپ کے سامنے اللہ کو پیارے ہوئے۔ دوسرے فرزند مولانا محمد شریف بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ البتہ آپکی صاحبزادی مائی تاج بانو نے تصنیف و تالیف کے ذریعے آپ کا مشن جاری رکھا۔‘‘(۲۵) ڈاکٹر انعام الحق کوثر علامہ دین پوریؒ کی صاحبزادی مائی تاج بانو کی دینی اور علمی کوششوں کے بارے میں لکھتاہے ۔ ’’مائی تاج بانو علامہ محمدعمردین پوریؒکی صاحب زادی ہیں۔ اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چل کر خواتین کی تبلیغ کے لئے کوشاں رہیں ۔معاشرتی و مذہبی اصلاح کی خاطرآپ نے ’تسویغ النساء ‘ دو جلدوں میں لکھی ۔یہ دونوں جلدیں ۱۳۵۳ھ/۱۹۳۴ء اور ۱۳۵۴ھ؍۱۹۳۵ء میں شائع ہوئیں ۔ ان کے صفحات چونسٹھ چونسٹھ ہیں۔ محترمہ حمد ‘ نعت ‘ منقبت،مرثیہ ‘ اخلاقی غزل اور دین سے بھی خصوصی لگائو رکھتی تھیں۔ آپؒ براہوئی زبان کی اولین ادیبہ ،شاعرہ اور مرثیہ نگار ہیں۔ ویسے تو علامہ دین پوریؒ نے درجنوں اچھے شاگرد چھوڑے مگر ان کا شاہکار اُنکی صاحبزدای مائی تاج بانو ہیں۔‘‘(۲۶) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد حنیف بن مولانا محمد عمر دین پوریؒ محمد حنیف نام ‘والد کا نام علامہ محمد عمر دین پوریؒ والدہ کا نام گودی ہزار ناز خان بنت میر بیگ ہے۔ ہزارناز خاتون کی کنیت اَم حنیف ہے جو علامہؒ کی دوسری بیوی ہے۔ پہلی بیوی کا نام گودی مراد خاتون بنت مولی ڈنہ عرف ھیٹرا ہے۔ محمد حنیف کے ماں کی جانب سے محمد حنیف اورعبدالحفیظ بھائی ہیں جبکہ باپ کی طرف سے محمد شریف ‘مولانا عبدالطیف اورمائی تاج بانو بھائی اور بہن ہیں۔ محمد حنیف کی اولادمیں محمد عمر ‘ سعیداحمد،محمدالیاس ‘مولانا عبدالرزاق‘ خالداور مولاداد شامل ہیں۔ محمدحنیف اور عبدالحفیظ کی تصاویر گلدستہ سندھ ص نمبر 46پرہے۔ جوہر براہوئی مرتب گلدستہ سندھ محمد حنیف کے حالات زندگی دینی اور ادبی کارناموں پر یوں قلم اُٹھا تاہے۔ ’’محمدحنیف بن مولانا محمد عمردین پوری ،دین پورمیں اس وقت پیداہوئے جب مولانا افغانستان سے واپس آئے کہ آپؒ نے تحریک ہجرت میں حصہ لیا تھا۔ محمد حنیف نے تعلیم اپنے والد گرامی سے دین پورمیں حاصل کی ۔دیگر اساتذہ مولانا محمد صالح شیخ اور مولانا شیر محمد جتوئی سے بھی استفادہ کیا بہر طور وہ ایک خوشنویس وکاتب بھی ہوئے کتابت میں اپنے والد گرامی کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ان کی کتابت کی ہوئی مولانا محمد عمر صاحب کی دو کتابیں ترغیب الجماعت اور تنبیہ الغافلین ہیں ۔‘‘(۲۷)’’تنبیہ الغافلین کی ابیات میں اسلامی عقائد بیان کئے گئے ہیں آخری صفحوں پر ایک مضمون ہے ۔کل سولہ صفحے ہیں۔ یہ کتاب۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء میں چھپی ‘‘ (۲۸) ’’ترعیب الجماعت 1948؁ء /1368ھ میں چھپی ہے۔‘‘(۲۹)

 	محمد حنیف بن مولانا محمد عمر دین پوریؒ سے جوہر براہوئی کی ملاقات ہوئی ہے ۔وہ  لکھتا ہے کہ:

’’ شاعری سے بھی مشغلہ ہے ۔لیکن انداز کلاسیکل اور مذہبی ہے ۔عمر اسی (۸۰)سال ۲۰۰۱ئ؁ تک آج بھی بخوبی زمین کا کام کاج خود کرتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ ہر نماز کے وقت مسجد میں سب سے پہلے آنے والے بھی ہیں ۔‘‘(۳۰) محمد حنیف بھی اپنے والد محترم علامہ دین پوری کی طرح نعتیہ غزل تحریر کرتے تھے۔ وہ ایک غزل میں مدینہ کی زیارت کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اشتیاق کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے :۔ (۱)روضہئِ رسولؐ نا خن تے اٹ خنوای جوان ای کیوہ سوال تینا اللہ ئِ ہر زمان (۲)اللہ کرک دعائے دامے ئَ نا قبول نی سوال منے مے ئَ نا مخلوق آ مہربان (۳)ای تنگ دست توسٹ طاقت سفر نا افک دا بیوسے نی ایتے مچا سفر نا سامان (۴)کسرے کنا ملہ کہ ای کائو مدینہ ناپارا پورو کرک دا شوقے کر مشکلے نی آسان (۵)دیدا رروضہ نا ‘مس ارمان است ٹی کَہ مایوس کس متو نا مہرنا کہ فضلان (۶)سوال محمد حنیف ئِ ہوغک دین پور ٹی اِنپک دمس مدینہ اُستان اے رحمان (۳۱) ٭…ترجمہ …٭ (۱)کیا بہتر ہوگا کہ میں آنحضرتﷺ کے مبارک روضہ کادیدار کرلوں۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو ہر وقت پکارتا ہوں ۔ (۲)اے اللہ !اپنے اس بندے کی دعا قبول کر!۔ اپنے غلام کا سوال حل کر!۔تُو !تو اپنے مخلوق پررحم کرنے والا ہے ۔ (۳)میں مفلوک الحال تنگ دست ہوں۔ اس بے چارہ کوسامان سفر عطاکر! (۴)کوئی راستہ نکال !کہ میں مدینہ طیّبہ پہنچ جائوں۔ میرے اس شوق کو پورا کر! اس مشکل کو آسان کر ! (۵)میرے دل میں بس ایک بات کا ارمان ہے کہ جناب آنحضرت ﷺکے مقدس روضہ کی زیارت کروں۔ کوئی بھی تیری رحمت سے اور تیرے فضل سے مایوس نہیں ہوا ۔ (۶)دین پور شکار پور میں پڑا ہوا محمد حنیف فریادی کا ایک سوال ہے کہ اے رحمان! ایک لمحہ بھی مدینہ منور ہ کی یاد دل سے نہیں مٹ سکتا ۔

گودی ناز بانو یہ علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی نواسی ہے۔ تعلیم یافتہ اور شاعرہ بھی ہے۔ جو ہر براہوئی کے مطابق: ’’ گودی ناز بانو بنت محمد حنیف بن مولانا محمد عمر دین پوری ؒیکم؍ اپریل ۱۹۵۵ئ؁ کو دین پور میں پیدا ہوئیں۔ ایک سال کی عمر ہوئی تو ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ۔پرورش نانی اماں جماعتی نے کی۔ نانی جماعتی خواستی ساسولی کی بیٹی تھی ۔تعلیم مدرسۃُ البنات دین پور میں گودی تاج بانو سے حاصل کی۔ ۴اسال کی عمر میں چچازاد عبداللہ بن عبدالطیف سے شادی ہوئی ۔براہوئی شاعری کررہی ہیں۔ موضوعات مذہبی بالخصوص حمد و نعت ہیں۔ پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔بغیر ردو بدل کے ان کی شاعری ملاحظہ ہو:۔ ایڑو لمہ غاک کبو خوفے خدانا نم کبو خوفے خدانا ہر دما الیبو شوقے دنیا نا د ا دما ہِنبو حکمٹ شریعت نا نم الیبو شوقے فیشن نا نم الیبوتینا دا زیب و زینت ئِ گم کبو شیطانی آ نم خیالا تے الیبو رسماتے شیطانی آ ہنبو نم حکماتِ آ رحمانی آ تینا زیب و زینت ظاہر کپبو تینے بیگانہ آتے آن ڈکبو دا حیاتی بے بقائے پہہ مبو دا نصیحت مونا نمائے پہہ مبو رب رسولؐ نا حکم دا وڑ بسونے نم مبو پردہ ٹی تینا دا دمے پین نا گلہ غیبتے نم کپبو دا ارے بھلو گنا ہس پہہ مبو تینا ارہ تا نم کبو چاخدمتے خوش کرورب پاک ننا ہم قیامتے سوال کیک دروازہ غائے ربنا نا ز بانو مس د عا گو کل نا ‘‘(۳۲) مائیں اور بہنیں اللہ کا خوف کرو ۱)…تم ہر لمحہ اللہ کا خوف کرو…اس وقت دنیا کا شوق ترک کردو۔ ۲)…تم شریعت کا حکم مانو…فیشن کا شوق چھوڑ دو۔ ۳)…اپنی زیب و زینت اور پُرتعیش زندگی ترک کردو۔شیطانی خیالات دل میں پیدا نہ کرو ۔ ۴)…شیطانی رسوم ترک کرکے اللہ رحمن ورحیم کے احکامات پرعمل کرو۔ ۵)…اپنی زیب اور زینت کو ظاہر نہیں کرو۔ اپنے آپ کو غیر سے چھپا ئو ۔ ۶)…سمجھو! اس دنیا کی زندگی فانی ہے ۔ اس نصیحت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ ۷)…اللہ تعالیٰ اور اُسکے رسول ﷺکے احکامات کچھ اس طرح ہیںکہ خواتین پردہ اور حجاب کو اپنائیں۔ ۸)…دوسروں سے گلہ و شکوہ نہ کرو اور نہ ہی اُن کی پیٹھ پیچھے بُرائی بیان کرو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے اس بات کو سمجھو۔ ۹)…تم اپنے خاوند کی خدمت کرو جس سے اللہ تعالیٰ آخرت میں ہم سے خوش ہوگا۔ ۱۰)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ناز بانو سب کے لئے دُعاکرتی ہے۔ ’’محمد عمر،سعیداحمد،محمدالیاس ‘ مولانا عبدالرزاق ‘ خالد اور مولاداد اسکے بھائی ہیں۔اور محمد حنیف ‘ عبدالحفیظ ‘مولانا عبدالطیف اس کے چچااور گودی تاج بانو چچی ہیں ۔‘‘(۳۳) سعید احمد دین پوری سعید احمد دین پوری علامہ دین پوریؒ خاندان کے چشم و چراغ ہے۔ والد کا نام محمد حنیف بن مولانا محمد عمر دین پوری ؒبن عطاء محمد عطائی پندرانی ہے ۔اس وقت دو زبانوں میں شعرو شاعری کررہا ہے ۔ اسلامی تعلیمات دین پورہی سے حاصل کیں۔ 1950؁ء کے قریب اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ اپنے آبائی گائوں دین پورمیں رہائش رکھتا ہے ۔ کھیتی باڑی کا مشغلہ ہے۔ شاعری اسے اللہ تعالیٰ نے وراثت میں عطاء کررکھی ہے ۔جوہرؔ براہوئی نے سعید احمد دین پوری کے حالات زندگی اور شاعری کے نمونے جمع کررکھاہے۔ لکھتاہے: ۔ ’’سعید احمد ولد محمدبن مولانا محمدعمر دین پوری پندرانی تخلص پردیسی رکھتے ہیں۔ براہوئی کے ساتھ سندھی میں بھی طبع آزمائی کررہے ہیں۔ ابتدائی دینی تعلیم دین پور میں ہی حاصل کی۔ ان کی عمر چالیس سال ہوگی۔ اپنے مسکن دین پور میں کا شتکاری کررہے ہیں۔ موروثی اثر میں شاعری کررہے ہیں۔ اندازکلاسیکل ہے۔‘‘ (۳۴) سعید احمد دین پوری کی شاعری کے نمونے کچھ یوں ہے:۔ مثنوی شان دنیاٹی محمدؐ نا کلان بڑزا ارے کل نبی تان عزتے اونا خدا بڑزا کرے مصطفیؐ نا ذات نا زیہانبوت ختم مس اوڑان پددعویٰ نبوت نا کرے برباد مس ہر کس ایمان اوڑا ہیس خناجنت جہئے کیوہ عربی نا پنٹ صدخہ ای تیناجان تس ہمے دے قیامت نا مرے حاصل شفاعت ہم کنے ملے قیامت ٹی محبت مہر شفقت ہم کنے دا دعا پورا مرے چارب نا در بار ٹی ای محمدؐ نا ثناء خوانی کروک ہروار ٹی اونا تعریف آن بامس شہد ہم شکران ہنین اونا پن مس ہر زمان ہر گڑا سے آن گچین است ٹی توحید اف تو مشکلے جنت خنے مشر ک آ تاہر عقیدہ نا مریک افسوس کنے دا زمانہ مس عمل نا کر عمل ایلم کنا بے عمل بندغ بلاشک بخت تو دوزخ کرے نے کرے پدا خدا تو نی برک اونا درا اے دنیا نا درداتے مرخدانا درا فنا مس سعید احمد سوالی رب نا دروازہ غان ہر زمان رب نا پن تو خواہیک او امان (۳۵) (ترجمہ )

۱)…آنحضرتﷺ کی شان دنیا میں تمام مخلوقات سے اعلیٰ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اُس کی عزت تمام انبیاء کرام سے اُونچی کی ہے۔

۲)…مصطفی ﷺکی ذات پاک پر نبوت ختم ہوئی آپ کے بعد جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا بس وہ برباد ہوا۔ ۳)…جس نے بھی آپ پر ایمان لایا و ہ جنت پائے گا اُس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا میں اپنی مستعار جان کو آنحضرت ﷺکے نام مبارک پر قربان کردونگا۔ ۴)…قیامت کے دن مجھے شفاعت مل سکے ۔اور ساتھ ہی آنحضرت ﷺکی شفقت اور محبت اور کرم بھی حاصل ہو۔ ۵)…یہ دعا اللہ کے دربار میں قبول ہو کہ میں ہر لمحہ پیارے حضورﷺ کی ثنا ء خوانی کرتارہوں۔ ۶)…پیارے نبی کریمﷺ کی تعریف سے منہ اور زبان شہد اور شکر سے بھی زیادہ میٹھا ہوتا ہے آپؐ کے نام ہر دور میں ہر ایک چیز سے بہترین ہے۔ ۷)…جس دل میں توحید نہیں تو اسے جنت کا ملنا مشکل ہے مجھے تو مشر کین کے تمام عقائد سے دکھ ہوتاہے ۔ ۸)…یہ وقت صرف عمل کرنے کا ہے پیارے بھائی جان نیک عمل کرو بد عمل انسان بلاشک دوزخ میں چلاجائے گا ۔ یہ اسکا مقدر ہے۔ ۹)…تمہیں اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر تو اُس کے دروازہ کی طرف دوڑ و دنیا کے تمام در گاہوں کو چھوڑ دو اور صرف ایک ہی اللہ کے در پر آجائو۔ ۱۰)…سعید احمد اللہ تعالیٰ کے در پرسوالی ہے ہر وقت رب کے نام سے وہ پناہ مانگتا ہے ۔ ’’محمد عمر ‘محمد الیاس ‘ مولانا عبدالرزاق ‘خالد ،مولاداد اسکے بھائی اور گودی ناز بانو اس کی بہن ۔ محمد حنیف ‘عبدالحفیظ ‘ محمد شریف اور مولانا عبدالطیف چچا اور گودی تاج بانو چچی ہیں ۔‘‘(۳۶) عبدالطیف عبدؔ عبدالطیف عبدؔ بن عبداللہ بن عبدالطیف بن مولانا محمد عمر دین پوریؒ پندرانی عبدالطیف عبدؔ شاعر بھی ہے اور دانشور بھی ۔یہ ذوق و شوق اللہ تعالیٰ نے اسے ورثہ میں عطا کیاہے۔ دینی اور دنیوی دونوں تعلیم سے آراستہ ہے۔ گلدستہ سندھ کی ترتیب میںعبدالطیف عبدؔ کا بڑاہاتھ ہے۔ سندھی اور براہوئی دونوں میں قلم کاجوہر دکھاتے ہیں۔ گلدستہ سندھ میں اس کی سوانح حیات ،اشعار کے نمونے اور تصویر بھی ہے ۔جو ہرؔبراہوئی علامہ دین پوریؒ کے اس رکن ِخاندان کو یوں متعارف کرتاہے۔ ’’ عبدالطیف عبدؔ بن عبداللہ بن عبدالطیف بن مولانا محمد عمر دین پوریؒ پندرانی براہوئی یکم؍ جنوری 1971؁ء کو گوٹھ حاجی خواستی نزد شکارپور میں پیداہوئے ۔دین پوربعدہٗ شکار پور کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ آخر ایم اے (پولیٹیکل سائنس)سیکنڈ کلاس میں کرکے ملازمت کرنے لگے ۔فی الوقت واپڈا میں ملازم ہیں۔ سندھی اور براہوئی میں نظم و نثرمیں دلچسپی لینے لگے ۔علمی اور ادبی ذوق موروثی تھا۔ پھر حکیم گلاب خان مہجورؔ صاحب کی رہنمائی ملی ‘ سندھی و براہوئی میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ بھرپور انداز سے سرمایہ دین پور کو سنبھالنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ گلدستہ سندھ کی ترتیب کے وقت مواد کے سلسلے میں مجھ سے ان کا تعاون مثالی تھا ۔میں اس نوجوان کا ازحد مشکور ہوا ۔ادبی سفر جاری ہے انشاء اللہ العزیز اپنے جدِامجدکی روشن تاریخ کا اک چراغ بن کر نور پھیلاتا رہے گا ۔‘‘(۳۷) عبدالطیف عبدؔکے دوسرے بھائی محمد اشرف ‘عطا اللہ اور حق نواز ہیں۔ اسکے دادا مولانا عبدالطیف بن علامہ دین پوری ‘ محمد شریف اور مائی تاج بانو ایک ہی ماں سے ہیں۔ جوہر براہوئی نے عبدالطیف عبدؔ کے تعاون سے علامہ دین پوری کے خاندان کاشجرہ نسب مرتب کرکے’’ گلدستہ سندھ‘‘ کے صفحہ نمبر45پر شائع کیا۔ وہ لکھتا ہے :۔ ’’ نواجوان قلمکارعبدالطیف عبد ؔکے شکر یہ کے ساتھ مولانا محمد عمر ؒکے خاندان کا شجر ہ صفحہ ۴۵پر ملا حظہ ہو‘‘(۳۸) گلدستہ سندھ باراوّل ۲۰۰۱و۱۰۰۰کی تعداد میں ۲۰۱ صفحات پرمشتمل اردو براہوئی نظم و نثر میں یونائٹیڈ پریس زونکی رام روڈ کوئٹہ سے چھاپ کر براہوئی اکیڈمی پاکستان کے خرچ سے شائع ہوا۔ اس میں 53شخصیات کی سوانحِ حیات اور نمونہ شاعری ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں دین پور گائوں کی ابتدائ، تاریخی پس منظر، دینی تعلیمی، ادبی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی پہلوئوں کو نمایاں طور پر قرطاس کاغذپر لائے گئے ہیں ۔ ’’عہدحاضرکے براہوئی شاعروں کی تعریف وتعارف اور نمونے کے دو دو کلام ان کی تصویروں کے ساتھ گلدستوں کی صورت میں مرتب کرکے چھاپنا میر محمد صلاح الدین خان مینگل چیئرمین براہوئی اکیڈمی کا آئیڈیا ہے۔ گلدستہ سندھ ان ہی کی فرمائش سے لکھی گئی ہے ۔۰۱‘۲۰۰۰میں براہوئی اکیڈمی کل نو(9)گلدستے مرتب کروا کر چھاپ رہی ہے جن میں(۱)گلدستہ سوراب‘(۲)قلات‘(۳)مستونگ (۴)خضدار(۵) نوشکی (۶) کچھی و نصیرآباد(۷)سریاب (۸)کوئٹہ اور(۹) سندھ شامل ہیں ۔ان میں باقی سب براہوئی میں لکھی گئی ہیں۔ صرف گلدستہ سندھ جو ہر براہوئی صاحب نے سندھی قاریوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھ کر اُردو میں لکھی ہے۔‘‘(۳۹) جوہربراہوئی نے گلدستہ سندھ کو مرتب کرنے کی خاطر نہ صرف ڈاک کا سہارا لیا بلکہ سندھ کے طول و عرض کا طویل سفر کرنے کی مشقت اور صعوبتوں کو بھی اس عمر میں برداشت کیا۔ اس دوران ڈیرہ مراد جمالی دین پور، ڈیرہ اللہ یار۔ فتح پور‘گنداوہ‘ گاجان‘ سکھر‘نوشہروابڑو‘ا مروٹ شریف، نیوفیض آباد ،قبہ سعید خان اور شکارپور گئے اور وہاں ڈاکٹر عبدالستار خان براہوئی، ڈاکٹرعبدالطیف خان براہوئی ‘ عابدبراہوئی‘ شاہ محمد مینگل‘ ذبیح اللہ جتوئی، ڈاکٹرنذیر احمد شاکرؔ براہوئی ‘عبدالحق مجروحؔ ‘ اسد اللہ اسد‘ؔمنظور جان ساسولی براہوئی ‘ عبدالغنی الفتؔ، مولانا محمدا نور آسیؔ کے علاوہ علامہ محمد عمر دین پوریؒ خاندان کی نمایاں شخصیت عبدالطیف عبدؔبن عبداللہ بن عبدالطیف بن علامہ دین پوری ؒ سے بھی ملاقات کی اور عبدالطیف عبدؔ نے بھرپور انداز میں دلچسپی لیکر دین پوری خاندان سے متعلق کافی مواد گلدستہ سندھ کی اہمیت اور قدر ومنزلت کو چار چاند لگانے کی خاطر خاص تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔علا مہ جوہرؔ براہوئی نے دل کھو لکر عبدالطیف عبدؔ کا شکریہ ادا کیا اور قلم کی زور بیانی کو کام میں لاکر لکھتا ہے :۔ ’’آزادی اور روحانیت کے مرکز امروٹ شریف میں بھی حاضری ہوئی ۔سندھ میں نعت کے مشہور شاعر جناب سید رفیق شاہ امروٹی کی زیارت بھی ہوئی۔او روہاں دیگر احباب کے سوائے نوجوان قلمکار جناب عبدالطیف عبدؔبراہوئی دین پوری نے اپنا ئیت کا ایک جذبہ لیکر امروٹ تشریف لے آئے ۔‘‘(۴۰) جب گلدستہ سندھ کے لئے مواد اکٹھاکرنے کی خاطر جوہر براہوئی دین پور پہنچ جاتے ہیںتو تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو نمایاں کرکے وہ لمحات اور یادیں تازہ کرتی ہے۔ کہ یہاں ایک زمانے میںعلمی اور ادبی ولولہ ساماحول برپا تھا ۔کرہِ ارض پردین پور کا نام ستارہ زہرہ کی طرح پوری آب وتاب سے چمکتا ہوا شائقین کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا۔ جوہرؔ براہوئی لکھتا ہے:۔ ’’شکارپور سے ۳۵کلو میڑ دور دین پور کامل سرور میں پہنچا ۔عبدالطیف عبدؔکی اوطاق (مہمان خانہ )کی بجائے میں دین پور کی اس جامع مسجد میں آکر بیٹھ گیاجس مسجد کے متولی حضرت مولانا محمد عمر صاحب تھے۔ جس مسجد میں آزادی کے امام روحانی پیشوا حضرت تاج محمودؒ امروٹی ‘زیبِ درخان مولانا عبدالحئیؒ رئیسانی‘ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی اور سینکڑوں اکابرین فروکش ہوئے تھے۔ دین پور میں عبدالطیف عبدؔاور اہلیان دین پور نے جو محبت دی یوں محسوس ہورہا تھا کہ دین پورسے بچھڑا ہوا ایک عزیز دین پور لوٹ آیاہے۔ دین پور میں کافی مواد بھی حاصل ہوا۔ بہ شفقت عبدالطیف عبدؔ اور جناب محمد انور آسیؔ کا انتہائی شکر گزار دعا گوہوں۔‘‘(۴۱) ’’عبدالطیف عبدکے والد کا نام عبداللہ بن مولانا عبدالطیف بن علامہ دین پوریؒ اور والد ہ کا نام گودی ناز بانو بنت محمد حنیف بن علامہ دین پوریؒ ہے ۔والد کی شادی 1969؁ء میں ہوئی ۔ عبدالطیف یکم؍ جنوری 1971؁ء کو پیدا ہوا ۔‘‘(۴۲) گلدستہ سندھ ص ۷۰پرعبدالطیف عبدؔ کی لکھی ہوئی ایک ’’حمد‘‘ دی ہوئی ہے۔ جس میں توحید کو بھرپور اندازمیں بیان کرکے دریا کوکو زہ میں جمع کیا ہے ۔مولانا محمد بن عبدالوہاب نجدیؒاور سید احمد شہیدؒ سے لیکر علامہ دین پوریؒ تک شرک کے خلاف جو تحریک اُٹھی اس حمد میں وہ تمام تعلیمات موجودہیں۔ وہ کچھ یوں ہے ۔ ’’حمد…عبدالطیف عبدؔ الیپہ درے خدانا کلان اودے رحمان رُلیسہ پین تادر تانی مسونس کہ نادان پیروفقیر عالم محتاج رب نا او یعنی نبی کلیم ہم محتاج رب نا او اللہ تیک نفع اللہ تیک نقصان مشکل برے توتینا اللہئِ یاد کرنی رحمان رحیم اودے اُستاتے شاد کرنی فریاد او بنوکا کلائے او مہربان اللہ تو برابراف مٹ و مثال او نا جنت ارے جہنم قائم کمال اونا مشرک جہنمی ئِ دا رب نائے فرمان تے مارتے مسڑتو مختیار رب پاکے مخلوق ناکہ خالق ہرواررب پاکے قدرت ٹی تینا تنہا مس لاشریک شان عبدالطیف عبدؔے رب نا درا سوالی اونا درا کس بس متنے او جھولی خالی مومن نا دا عقیدہ مس دین پوری نا ایمان ‘‘(۴۳) اُردو ترجمہ ۱)…اللہ تعالیٰ کا در ترک نہ کردو وہ سب سے بڑھ کرم رحم کرنے والاہے۔ دوسروں کے ہاں مارا مارا پھر کر تو بے وقوف بن کر رہ گیا ہے۔ ۲)…پیر وفقیر اورعالم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔یعنی نبی کلیمؑ بھی اللہ کے محتاج ہیں۔ نفع اور نقصان دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ ۳)…مشکل کی گھڑی میں تو اپنے رب کو پکار۔ اللہ تعالیٰ رحمن او ر رحیم ہے ۔تو اُسے یاد کر کے اپنے دلوں کو شادکر۔ وہ فریاد سنتاہے اور سب پر مہربان ہے۔ ۴)…اللہ کے برابرکوئی نہیں اور اُسکا کوئی ثانی اور مثال نہیں ۔جنت اور جہنم قائم کرکے اپنے کمال کو ظاہر کیاہے۔ مشرک جہنمی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ ۵)…یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے بیٹا عطافرمائے ۔جسے چاہے بیٹی کی نعمت سے نواز دے۔تمام مخلوق کے پیدا کرنے والا رب پاک اپنی قدرت میں تنہاہے اور اسکی یہ شان ہے کہ وہ لاشریک ہے۔ ۶)…عبدالطیف عبدؔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بدست دعا ء ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کوئی بھی خالی واپس نہیں لوٹتا تو ایک مرد مومن کا عقیدہ یہ ہے اور دین پوری کا ایمان ہے۔ گودی اُمت الواجدخلیفانی نام اُمت الواجد،و الد کانام مُلاجلال الدین پندرانی اور والدہ کا نام گودی تاج بانو ہے۔ محمد عیسیٰ پندرانی کی زوجہ۔ علم و ادب ورثہ میں ملی ہے ۔ عبدالقیوم بیداؔرنے ’’نیاڑی تا ادب ‘‘ اشاعت 2001صفحہ نمبر31تا 34 میں’’گودی اُمت الواجد‘‘ کے حالات زندگی کے علاوہ اشعار کے نمونوں کا بھی ذکر کیاہے اور لکھتا ہے :۔ ’’محترمہ تاج بانو کی بیٹی ہے۔ سال پیدائش کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ یہ خاتون0 196؁ء کے بعد پیدا ہوئی ہے چونکہ 1996؁ء کے سال محترم تاج بانو صاحبہ کی ایک طویل نظم ’’ چھنائِ شندیک ‘‘ کے عنوان سے تین اقساط میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے تیسرے حصے میں محترمہ تاج بانو اپنی بچی اُمت الواجد کی صحت ‘ سلامتی ‘ نیک صالح اور اُنکی عمر میں اضافگی کیلئے دعا کرتی ہوئی کچھ یوں لکھی ہے:۔ اُمت الواجد ئے خنتا نور رب نے کپروئے کنے آن دور کنکہ مُری نا اَرے نا سور زیبل رب نے درا جنگا عمر ے ایتے اُمت الواجد ئے نور دید ہ کلان او ارے پسندیدہ ہم سرآن تینا مس چید ہ زیبل رب نے درا جنگا عمر ئے ایتے امت الواجد نے جی او جان کیو سہے شکر ٹی رب نا تیو ایمانے نے ای شالہ داکان دیو زیبل رب نے درا جنگا عمرے ایتے تاج بانو ہیت منہ پاروک مس نور دید ہ تینا نواروک مس رب نا درا دعا خواہوک مس زیبل رب نے درا جنگا عمرے ایتے ٭٭٭٭اردو ترجمہ ’’اُمت الواجد آنکھوں کا نور ہے رب تجھے مجھ سے دور نہیں کریگا تیری دوری میرے لئے نا سور ہے اے زیبدار! اللہ تجھے لمبی عمر عطاکرے اُمت الواجد نور دید ہ ہے سب سے زیادہ پسندید ہ ہے اپنے ہمسروں سے چید ہ ہے اے زیبدار! اللہ تجھے لمبی عمر عطاء کرے امت الواجد میں تیری خاطر تو اضع کروں رب کے شکر میں جان دے دوں یہ میر ایمان ہے کہ میں تجھے یہاں سے لیجائوں اے زیبدار! اللہ تجھے لمبی عمر عطاکرے تاج بانو نے چندباتیںکہیں اپنی نوریدہ کو ڈھارس بند ھائی بارگاہ الہی میں دُعا ء گوہے اے زیبدار! اللہ تجھے لمبی عمر عطاکرے ‘‘ محترمہ تاج بانونے اپنی اس بیٹی کی تعلیم و تربیت بہترین انداز میں کی ۔اُسکی ہونہار بیٹی امت الواجد کی تعلیم و تربیت اپنے گھر میں ہوئی۔ یہ خاتون اپنی والدہ محترمہ سے متاثر ہوکر دوسری خواتین کو تعلیم دیتی تھی ۔جس کے بعد یہ محترمہ خلیفانی کے نام سے پہچانی جاتی تھی ۔ محترمہ کی شادی محمد عیسیٰ پندرانی کے ساتھ ہوئی جو بھریارو ڈسندھ میں رہتے تھے۔ شادی کے بعد والدین کے فراق اور اُن کی شفقت اور محبت کی وجہ سے ا پنے احساسات کا اظہار کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے۔ ’’باوہ لمہ اُستابریرہ ہوش و حواس آن او دم دیرہ او تینا غم ٹی نن ودے زریوہ ہر دم شکرے رب نا کیوہ استا ہنینا باوہ ئے شاوہ ہوش وحواس آن تینا کاوہ لُمہ باوہ نا شفقت زورے واجد نم کہ خنتیان کورے ‘‘ اردو ترجمہ:۔ ’’ماں باپ یاد آتے ہیں ہوش وحواس کھو جاتے ہیں اُنکے غم میں شب وروزنڈھال ہورہی ہوں ہرلمحہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتی ہوں شیرین ابوکو یاد کرتی ہوں ماں باپ کی شفقت غالب ہے واجد تمارے لئے آنکھوں سے اندھی ہے ۔‘‘ جیسا کہ محترمہ تاج بانو موسم گرما کیلئے مستونگ آکر براہوئی نور محمد پروانہؔ کے ہاں رہتی تھی۔ تو محترمہ اُمت الواجد اپنی والدہ محترمہ کی بیماری میں عیادت کیلئے فکرمند ہوتی تھی ۔انکاحال و احوال کیلئے خطوط لکھتی اسی طرح کا ایک خط ذوالحج کے ماہ میں غالباً 1980؁ء میں محترم پرواؔنہ صاحب کے پتہ پر ایک نظم لکھی جو کہ اس طرح ہے ۔ اول پاوہ تینا رب نا ثناء ِ گڑا پاوہ درودس دوستاؐئِ پدان دانا اریٹ رب آن سوالی کنا لُمہ نے ر ب ایتے حیاتی کنا اللہ بے شک رحمن رحیم کنا لُمہ نا حالان علیم اس کنا ماما لُمہ کن بے قرارٹ جدائی آن اونا دا غدار ٹ کنا ماما ہمر کیوکائو اَرانگ ای بیان درداتا پا دیر تو کیو ای جدائی لمہ نا ماما ہشوک ئِ دڑداک کاٹم نا نزور کروک ئُُ خدا واسطے حوالس جوانو تیس غمی اے کنا اُستے نی خوش کیس اُمتہ الواجد کرک داسہ نی صبر خدا وند مہربان ئِ کیک او مہر ‘‘

اردو ترجمہ:

’’اول اپنے رب کی ثناء کہتی ہوں پھر محبوب پر درود بھیجتی ہوں بعدازاں اس کے لئے رب سے سوالی ہوں میری ماں! اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی عطاکرے میرے اللہ بے شک رحمن و رحیم میری والد ہ کے حال سے باخبر ہو میرا ماموں پرواؔنہ میں اپنی ماں کیلئے ادا س ہوں اسکے فراق سے داغدار ہوں میر اماموں! کیا کروں کہاں جائوں ؟ کہو ںکیا کس کے ساتھ دُکھوں کا اظہار کروں ؟ ماما! ماں کی جدائی جلارہی ہے سردرد نے کمزور کرر کھ دیا ہے اللہ کیلئے اچھا احوال دینا میرے غمی دل کو خوش کرنا اُمت الواجد! ابھی تو صبر کرو اللہ تعالیٰ مہربان ہے جو رحم کرتاہے ‘‘ محترمہ اُمت الواجدنے شاعری میںاپنی والدہ سے اثرلیا ہے۔ محترمہ تاج بانو بھر یا روڈ سندھ میںاپنی اس بیٹی کے ساتھ رہتی تھی ۔ علم و ادب کی اس خاتون اُمت الواجد کے ساتھ عمرنے وفانہیں کی ۔ یہ محترمہ نومبر 1996ء میں بھر یا روڈ سندھ میں وفات پائی۔‘‘(۴۴) حوالہ جات:۔ (۱)سالتاک ’’اولس‘‘ کوئٹہ نومبردسمبر1986ئ؁ ، ص 100برائیویک دیرو بحوالہ نفرنٹیئراینڈ اوور سیز ایکسپیڈیشنس فرام انڈیا‘ پرافشل سیریزجلد بلوچستان ’براہوئی ‘کلکتہ 1910ء (۲)براہوئی قدیم نثری ادب ص 145 (۳) ’’کپوت‘‘ براہوئی دنیا ص 65 (۴)’’کپوت‘‘ پندرانی نامہ ص39 (۵) ’’کپوت‘‘ پندرانی نامہ ص42 (۶)’’دِے ٹک ‘‘اپریل تاجون 2002 ص17 ( ۷)سہ مائی’’دے ٹک‘ ‘کوئٹہ اپریل تا جون 2002ء ص 18 (۸)’’دے ٹک‘ ‘اپریل تا جون 2002ء ص 19-18 (۹)دے ٹک ‘‘اپریل تا جون 2002ص 27 (۱۰)’’دے ٹک‘ ‘اپریل تا جون 2002ء ص10 تا 12 (۱۱)گلدستہ سندھ ص 45 (۱۲)’’گلدستہِ سندھ‘‘کوئٹہ2001ء ص 45

(۱۳)گلدستہ سندھ ص197‘198

(۱۴)براہوئی زبان و ادب کی مختصرتاریخ ص ۱۳۶‘۱۳۷، براہوئی ادبی تاریخ از خدا دادگل اشاعت 1993؁ء ص 125

(۱۵)نیاڑی تا ادب ص 3

(۱۶)نیاڑی تا ادب ص9 (۱۷)’’نیاڑی تا ادب ‘‘ص 16 (۱۸)گلدستہ سندھ ص 45 (۱۹)گلدستہ سندھ ص 45 (۲۰)گلدستہ سندھ ص45 (۲۱)نیاڑی تا ادب ص 67تا71 (۲۲)نیاڑی تا ادب ص72 (۲۳)نیاڑی تا ادب ص72ِ (۲۴)نیاڑی تا ادب ص78 (۲۵)نبی کریم ؐ کا ذکر مبارک بلوچستان میں ص 76 (۲۶)نیاڑی تا ادب ص 87ِ (۲۷)گلدستہ سندھ ص 65 (۲۸)نبی کریمﷺ کا ذکرمبارک بلوچستان میں۔ ص 83 (۲۹)آب حیات قلمی ص 68 (۳۰)گلدستہ سندھ ص 65 (۳۱)گلدستہ سندھ ص 44 (۳۲)گلدستہ سندھ ص68 (۳۳)گلدستہ سندھ صفحہ نمبر45 (۳۴) گلدستہ سندھ ص نمبر73 (۳۵)گلدستہ سندھ ص 74تا75 (۳۶)گلدستہ سندھ ص 45

(۳۷)گلدستہ سندھ ص 69

(۳۸)گلدستہ سندھ ص44 (۳۹)گلدستہ سندھ:2001ء اظہار خیال ازجنرل سیکرٹری براہوئی اکیڈمی پاکستان سوسن براہوئی ص 10 (۴۰)’’گلدستہ سندھ‘‘کوئٹہ 2001ء ص 17 (۴۱)’’گلدستہ سند ھ ‘‘کوئٹہ 2001ء ص 18 (۴۲)گلدستہ سندھ‘‘کوئٹہ 2001ء ص 45۔67۔49 (۴۳)گلدستہ سندھ ص 71-70 (۴۴)نیاڑی تا ادب ص 31تا33 (7) مولانا محمد عمر دین پوری ؒ کا خاندانی پس منظرعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:21تا50 ٭٭٭٭ علامہ محمد عمر دین پوریؒ اپنے خاندان کی نظر میں

از۔-قلم ؛ منصور براہویئ

علامہ محمد عمر دین پوریؒ کا ایک نواسہ بھر یاروڈ ضلع نوشہرہ فیروز سندھ میں رہتا ہے اور وہاں ایک جامع مسجد اقصیٰ میں پیش امام ،مدرس اور خطیب ہے۔ انقلابی اور طوفانی کے نام سے مشہور ہے ۔مگر اس کا اصل نام عطاء اللہ ہے۔ راقم کی ملاقات عطاء اللہ سے ۱۱؍جنوری۲۰۰۴ء کو جامع مسجد اقصیٰ میں ہوئی ۔عطاء اللہ سے اسکے نانا علامہ محمد عمر دین پوریؒ کے متعلق کافی باتیں ہوئیں۔ میرے استفسار پر اس نے اپنا شجرہ علامہؒ سے کچھ یوں ملایا۔

علامہ محمد عمر دینپوریؒ

        ×

     مائی تاج بانوزوجہ جلال الدین

               ×

          ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳

         فضل اللہ             زوجہ عیسیٰ پندرانی               غلام قادر

           ×                        ×                         ×

   ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲                              ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲

  زوجہ اوّل      زوجہ دوم                           دختر                    دختر

     ×             ×                               ×                       ×

     ×     ۱۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۳              ۱۔۔۔۔۔۔۲                 ۱

  ×       عزیز اللہ   امداد اللہ   عنایت اللہ     محمد عمر      نذیر             منیر

۱۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔۴

عطاء اللہ   نعمت اللہ    غلام قادر    ہارون الرشید

مولانا عطاء اللہ انقلابی دین پوری کا اسم گرامی عطاء اللہ شا ہ بخاریؒ کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انقلابی صاحب براہوئی کے نامور شاعر و ادیب ندیم گرگناڑی کا ہم جماعت بھی ہے۔انقلابی صاحب نے راقم سے اپنی گفتگو کے دوران اپنے نانا علامہ دین پوریؒ کی تصانیف کی دوبارہ اشاعت کیلئے کچھ یوں دل کی تمنائوں کا اظہار فرمایا:۔

’’مجھے مولانا عبدالقادر محمد حسنی صاحب نے علامہؒ کی کتابوں کی دوبارہ اشاعت کیلئے اجاز ت دینے کا بہت کہا ہے ۔مگر علامہؒ کے فرزند نہیں مانتے ۔البتہ یہ کہ صرف مجھے اشاعت کیلئے اجازت دی ہے ۔باقی دوسروں کو اجازت نہ دینے کی تاکید کی ہے۔اگر براہوئی اکیڈمی یا دیگر ادبی اوراشاعتی ادارے اس بارے میں کوئی قدم اُٹھائیں تو پھر کتابوں پر میرا نام اور پتہ ضرور ہونا چائیے۔ شاید کوئی جھگڑا پیدا نہ کرے۔ ‘‘

انقلابی نے اپنے نانا اور دادی مائی تاج بانو اور علامہ دین پوریؒ کی تحریر کردہ کتب کے شائع نہ ہونے پر بے حد افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:۔ 

’’بلی (مائی تاج بانوؒ) کے پاس کافی کتب تھیں ‘قلمی موادموجود تھے۔ مگرجب ان کو تراب براہوئی لے گیا ۔اسکے بیٹے نے ان کو جلایا کافی مواد تھے۔ سب ضائع ہوگئے۔‘‘

انقلابی اپنے نانا حضرت علامہ محمد عمر دین پوریؒ کو ایک بہت بڑا عالم دین اور ایک بہت عظیم مصنف کہتاہے ۔آپ کی بے شمار تصانیفات کا ذکر کرتے ہوئے اب اُنکی عدم دستیابی پربے حد افسوس اور دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ: ۔

’’مولوی اشرف علی تھانوی ؒکیوں مشہور و معروف ہے۔ ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی کتب کی اشاعت کے سلسلے میں اجازت عام دی ۔اب سارے لوگ اور ادارے اس کی تصانیف کو چھپواتے ہیں ۔جہاں بھی جائے اسکی کتابیں آپ کو نظر آئیں گی۔ ہمارے لوگ اس باے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘

انقلابی نے علامہؒ کا رشتہ نامور ہستیوں سے جوڑتے ہوئے یوں کہا کہ ’’تاج محمود امروٹی نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ۔شیخ صالح محمد دین پوریؒ اور دوسرا احمد علی لاہوری ؒکے خلفاء کا رشتہ قائم کیا ۔ اور شیخ صالح محمد سندھی ؒنے سندھی میں’’ سجود‘‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے ۔جسے علامہؒ نے کتابت کرکے شائع کی ہے۔‘‘ 

راقم جنوری 2004؁ء کو دین پورگیا وہاں علامہؒ کے گھروالوں ‘بیٹے عبدالحفیظ ‘محمد اسماعیل ‘ عبدالطیف عبدؔ‘ عطاء اللہ‘حق نواز‘ عبدالوحید‘ عبداللہ ‘ عبدالقادر‘ محمد عمر اور فضل اللہ سے ملنے کا موقع ملا۔

میرے سوال کرنے پرعبدالقادر ولد محمد صدیق ولد عطائی نے کہاکہ’’  علامہ محمد عمر دین پوریؒ کا اب چہرہ اسکے فرزند عبدالحفیظ سے ملتاہے۔‘‘

عبدالحفیظ ولد علامہ محمد عمر دین پوریؒ نے علامہ کی چند نایاب کتب کا ذکر یوں کیا :۔

’’نور محمد پروانہؔ اور ترابؔ لاڑکانوی نے علامہؒ کی دو کتابیں ایک ’میراث ‘(پدر) اور دوسری ’پنچننگا سوال قیامت نادے ‘کو لے گئے مگر انہیں نہیں چھپوایا اور نہ ہی واپس کئے۔‘‘

عبداللہ ولد میاں خان نے کہا کہ :۔

’’میرے والد محترم نے علامہ دین پوری ؒکے ساتھ کافی کام کیا ہے ۔علامہؒ کے ساتھ ملکر میرے والدنے کتابوں کی چھپائی میں مدد کی ہے ۔میرے والد صاحب ایک پائوں سے لنگڑا تھا۔ علامہؒ کے خاص دوستوں میں سے تھا ۔علامہؒ کا دست و بازو اور خدمت گار تھا۔ میرے والد صاحب میاں داد ولد محمو د الھداد زئی پندرانی تھا۔‘‘

میرے پوچھنے پر عبداللہ نے اپنے والد کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ:۔

’’میرے والد صاحب پائوں سے لنگڑاتھا۔ ریلوے والے اس سے کرایہ نہیں لیتے ۔ مسکین فقیر اور غریب شخص تھا۔ تو پھر یہاں سے کتابیں اُٹھاکر کراچی اور لاہور لیجاتے  ۔ وہاں پریس سے چھپواکر لے آتے۔ میاں داد ولد محمود پندرانی ‘ محمود میرے والد کاباپ تھا۔ جو علامہ محمد عمر دین پوریؒ  کے والد محترم عطائی کا حقیقی چچازاد بھائی تھا۔ اس کا بیٹا محمودعلامہ دین پوریؒ کا خادم تھا۔ دین پور میں اس کی پرچون کی دکان تھی۔ پڑھا لکھاتھا۔ علامہؒ کی وفات کے ایک دو سال بعد اس نے بھی وفات پائی۔ اور میں اسکی وفات کے چھ مہینے بعد پیدا ہواہوں۔‘‘

عطائی کے ایک بیٹے کانام محمد صدیق تھا۔ محمد صدیق کے فرزند عبدالقادر سے بات چیت کا موقع ملا ۔ عبدالقادر نے علامہ دین پوری ؒ کی پیدائش ہجرتِ افغانستان اور ہجرت ِمولہ کے بارے میں تفصیل سے گفتگوکی:۔

’’علامہ محمد عمر دین پوریؒ(چچا) مستونگ میں پیدا نہیں ہوئے۔ ہمارے خاندان کے لوگ آبائو اجداد کے دور سے مستونگ نہیں گئے ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد پندران (قلات) سے سندھ کے علاقے محمد پورراوڈھو ضلع جیکب آباد آئے۔ پیرہ(دادا) گلاب خان کے گوٹھ میں آئے۔‘‘

علامہ دین پوری ؒ سندھ میں پیدا ہوئے ہیںاس بارے خود آپؒ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔

الٰہی دین پورے نا رضا نا خاطرآن ہلاٹ 

دنیا نا بندغاتا محبت ئِ نا رضا نا خاطرآن ہلاٹ 

ہلاٹ ای سندھ نا ملکے ولادت نا وطن اس 

خیالے کل جہہ تا نا خاطران ہلاٹ 

ہلاٹ ہوغوک ایڑھ ایلم ئِ دوست ئِ قریب آتے 

سلوک ہوغوک تنہا نا رضا نا خاطرآن ہلاٹ (۱)

٭…اردو ترجمہ…٭

(۱)یا الٰہی! میں نے دین پور کو صرف تیری ہی رضا کی خاطر خیر باد کہا اور دنیاکے لوگوں کی محبت کو تیری رضا مندی کیلئے دل سے نکال دیا۔(۲)میںنے اپنی جائے ولادت سندھ کو چھوڑ دیا۔ تمام مقامات کا خیال تیری رضا کی خاطردل سے نکال دیا۔(۳)دوست و اقرباء بہن اور بھائیوں کو روتے ہوئے چھوڑ دیا ۔ یہ سارے صرف تیری رضا کی خاطر انہیں تنہا چھوڑ کر چل دیا۔

انہوں نے علامہ دین پوریؒ کے والد محترم عطائی کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ:

’’ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے عطاء کے پاس بھیڑبکریوں کا ایک بہت بڑا ریوڑتھا۔ بہادر ،غیرت مند اور سخی انسان تھا۔ پندران میں کسی بات پر جھگڑا پیداہواتو وہاں سے محمدپور آئے ۔عطائی سندھ میں پیدا ہوئے ۔محمد پور کے پندرانیوں نے اسے رشتہ دیا۔ چونکہ عطائی کے پاس بہت بڑی تعداد میں بھیڑبکریاں تھیں۔ اس لئے وہ محمد پور میں ہمیشہ رہنا نہیں چاہا ۔پھر وہ محمد پور سے نقل مکانی کرکے بیگاری (جیکب آباد) کے علاقے تشریف لائے۔ابڑو قوم کا ہمسایہ بنا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پیرہ گلاب خان محمد پور سے بیگاری تشریف لائے اور عطائی کا مہمان ہوا۔ پیرہ گلاب خان کیا دیکھتاہے کہ ابڑو برادری کے لوگ آپ کی خدمت میں ہر وقت لگے ہوئے ہیں۔ گائوں میں آپ کی بہت بڑی عزت اور مقام ہے۔پیرہ گلاب نے عطائی کی بہادری اور لیاقت کا مشاہدہ کیا ۔یہ بھی دیکھا کہ ابڑو کے لوگوں نے جا کر عطائی کی بھیڑبکریوں میں سے ایک بہترین بھیڑنکالی ذبح کی اورخاطر تواضع کی۔ پھر پیرہ گلاب نے یہ سب کچھ غور سے دیکھا اور واپس محمد پور (جیکب آباد) آئے اور اپنے لوگوں سے کہا کہ’ عطائی توہمارا آدمی ہے۔ وہاں ابڑو کے تمام لوگوں کو اپنا گرویدہ اور پرستار بنالیاہے۔ ایک لائق اور قابل شخص ہے۔ پھر اس نے اُسے اپنا داماد بنالیا۔چونکہ عطائی بیگاری کے قریب رہتا تھا تو پھروہاں علامہ دین پوریؒ پیدا ہوئے ۔ پھر علامہ دین پوریؒ محمد پور جاکر مولانا ڈائی کی شاگردی اختیار کی ۔ بعد ازاںدرخان (ڈھاڈر) جاکر مزید دینی علوم سے بہرور ہوئے۔ اُس زمانے میں محمد پورمیں امرو ٹیؒ کا خلیفہ علامہ عبدالکریم ؒکو ہاڑو رہتے تھے ۔علامہ دین پوری ؒنے اپنے برادری کے لوگوں سے کہا کہ اگر آپ دین پر کا ربندرہیں گے اور پر دہ کو اپنائیں گے تو میں آپ لوگوں کے ساتھ رہوں گا، ورنہ میں علامہ عبدالکریم کو ہاڑوں کے ساتھ زندگی گزرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھرپندرانیوں کے بڑے بوڑھوں خدابخش اور دیگر لوگوں نے علامہ دین پوریؒ کو نہیں چھوڑا ۔ ہم شریعت کی باتوں پر بسر وچشم عمل کریں گے ۔مگرآپ ہرگزنہ جائیں ۔چنانچہ علامہ محمد عمر نے امروٹیؒ کو دعوت پر بلایا ۔امروٹی ؒ نے مسجد کی جگہ دکھائی۔ اس دین پور شہر کی بنیاد رکھی گئی ۔پھر  افغانستان ہجرت کی ‘ہجرت بذریعہ ریل مع اہل وعیال براستہ پشاور لنڈی کوتل افغانستان ہوئی۔

پھرعلامہؒ کو دین پورسے نٹربینٹ کے لئے عبدالکریم ولد لعل محمدکے  بیٹے  خیر محمد ‘نور محمد اور والد آئے ۔یہاں سے آپ کو لے گئے ماسٹرنذیر احمد (پروانہ ؒ کا داماد) کے دادامحمد وارث اور والد امام دین نے میرے والد محمد صدیق ولد عطائی کے پاس آکر صلاح ومشورہ کیا۔ بالآخر بڑی زوجہ محترمہ کو مع بچوں کے ساتھ یہیں دین پور چھوڑ دیا۔ جبکہ چھوٹی زوجہ محترمہ کو اپنے ساتھ لیکر پہاڑ(نٹربینٹ مولہ) لے گئے ۔چھوٹی بیوی کے بچوں کانام محمد حنیف ‘ منیف اور عبدالحفیظ ہیں جبکہ بڑی بیوی سے محمد شریف ‘ عبدالطیف اور تاج بانو پیداہوئے۔

گڑھی خیرو سے آگے ایک جگہ ہے وہاں اپنے خالہ زاد بیٹوں سوالی اور مزار کے پاس کچھ دن ٹھہرے۔ چونکہ دورانِ سفرعلامہؒ کی ایک پائوں میں مرض پیداہوا تھا جس سے چلنے پھرنے میں تکلیف تھی۔ علامہؒ نے ا  پنا یہ سفرنامہ اشعار میں بیان کیا ہے۔ جو بیاض پر تحریر ہے۔ پھر یہ قافلہ اپنے خالہ زاد بھائیوں سے رخصت کرکے شہدادکوٹ کے راستے نٹر کیلئے کوچ کر گیا۔ بھر علامہؒ وہیں نٹر میں اپنے پیارے مہر بان ربّ کو پیارے ہوگئے۔دو حج کیے ۔ وہاں سے سید ھاقلات جا کر خان کو تبلیغ والوں کے ساتھ جاکر دعوت دی ۔پھر اصولِ ستہ نامی کتاب تحریر کی۔ کبھی کبھار خان کوسندھ کی جانب کسی مہم پر نکلنا پڑتا تو وہاں نٹر کے علاقے میں پڑا ئو ضرور کرتے۔ایک دفعہ علامہؒ  کو مسجد تعمیر کرنے کا کہا کہ جتنا خرچہ آئے میں ادا کروں گا۔ مدرسہ اور مسجد کی تعمیر کا خرچہ مجھ پر ہے ۔علامہؒ  کو کہاکہ آئو باقاعدہ تنخواہ لے لیں۔ مگر علامہ دین پوریؒ نے خان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا اور اسے ردکرکے فرمایا کہ جو بھی حکم دے بسروچشم مجھے قبول ہے مگر اس بات کو ہرگزقبول نہیں کرونگا کہ دین کی خدمت کیلئے کوئی میرے لئے تنخواہ مقرر کرلے ۔میں ایک آزاد شخص ہوں ۔مجھے تنخواہ دیتے ہوئے نوکر مقرر نہیں کرنا ۔ میں نے اپنی زندگی کو دین کی خدمت کیلئے وقف کردیاہے تنخواہ کسی شے کا نام نہیں ۔‘‘

میںنے ایک سوال کیاکہ:’’ کیا واقعی مستونگ میںعلامہ محمد عمر دین پوریؒ پیدا ہوئے ہیں؟‘‘

تو علامہ کا بھتیجا عبدالقادر ولد محمد صدیق ولد عطائی نے کہاکہ:۔

’’ چچا جان کی جائے پیدائش یہاں دین پور شہر سے شمال کی جانب بیگاری کینال پُرانا وکٹروہے۔ آج وکڑو کے گائوں کا نام ونشان نہیں۔ وہیں علامہؒ نے آنکھ کھولی۔ مستونگ میں علامہ ؒپیدا نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

عبدالقادر ولد محمد صدیق ‘عبداللہ ولد میاں داد اور فضل اللہ ولدمائی تاج  بانو،خیر بی بی بنت عبداللہ یعنی زوجہ عبدالطیف ولد علامہ دین پوریؒ نے علامہؒ سے متعلق میری بہت سی باتوں کے جوابات دیئے۔ یہاںاُن کی چید ہ چیدہ باتیں لکھتا ہوں:۔

۱)…امام دین ‘نورمحمد پروانہ اور مائی تاج بانو علامہؒ کی بہت سی قلمی کتابوں کو بغر ض چھپائی اور اشاعت لے گئے مگر تاہنوز ان کا ابھی کوئی اتا پتا نہیں ۔

۲)…علامہؒ  کو اسکے گائوں والی خواتین پیرہ مُلا(داداملا) بڑے مرد حضرات عمر خان کہتے ہیں۔ عطااللہ انقلابی ولد فضل اللہ اپنی دادی اماں کو بلّی(دادی) کہتے تھے۔ محمد صدیق کے فرزند عبدالقادر علامہؒ  کو اِلہ یعنی چچا کہتے تھے اورمائی تاج بانو  ؒکو اَدی (بہن)کہتے تھے ۔ اسی طرح فضل اللہ ولد مائی تاج بانو اپنی والدہ مائی تاج بانو کوکُراڑی کہتے تھے ۔

۳)…اُمت الواجد کو صرف دو اولاد ہوئی تھی ۔دونوں لڑکیاں تھیں ایک کا نام خدیجہ اور دوسرے کا نام حلیمہ ہے۔ خدیجہ زوجہ پٹھان خان ولد ولی ہے ۔جبکہ حلیمہ زوجہ عبدالسمیع عرف سُمل ولد شاہ محمد ہے۔ انکا تعلق پندرانی قبیلہ سے ہے ۔جبکہ دین پور میں رہائش رکھتے ہیں۔

۴)…شیخ صالح محمد دین پوری نے تصفیہ السجود نامی کتاب لکھی جو مدرسہ محمد یہ دین پور میں مدرس تھے۔ اس کے بیٹے عبداللہ ‘ عبدالرحمن اور محمد حسن ہیں۔

۵ )…مولوی شیر محمد جتوئی دین پوری نے قرآن پاک کی تفسیربلوچی میں لکھی جبکہ علامہؒ نے براہوئی میں۔ بلوچی تفسیر کے ناشر بھی علامہؒ ہے۔ مولوی شیر محمد جتوئی دین پوری کے بیٹے مولوی محمد انور جتوئی ہے جسکا مدرسہ انوارالعلوم سکھر نزد بورڈ آفس انٹرمیڈٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ہے۔ شیر محمد جتوئی کی کتابیں سندھی ۔اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں۔

۶)…علامہ محمد عمر دین پوری ؒکے فرزند ارجمندعبدالطیف کی بیوی خیر بی بی جو حیات ہے۔ خیر بی بی کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام مریم ہے۔ یتیم تھی ،عمرانی قبیلہ سے تعلق ہے اپنے والد محترم کانام اپنے بیٹے عبداللہ پر رکھا ‘عبدالطیف عبدؔ‘ عطااللہ ‘ محمداشرف ‘ اور حق نواز عبداللہ کے فرزند ہیں۔

۷)…خیر بی بی کے خاوند عبدالطیف ولد علامہ دین پوریؒ جب وفات پائے توخیربی بی  نے دوسری شادی اپنے والد کی برادری عمرانی قبیلے میں کی جو کپوتو قلات سے ان کا تعلق ہے ۔خیر بی بی کے دوسرے خاوند کا نام عبدالکریم عمرانی ہے ۔عبدالکریم کے بیٹے عبدالغفور عمرانی ہے جو قلات شہر میں رہائش رکھتے ہیں ۔عبداللہ کے بیٹے عطاء اللہ کو عبدالغفور نے اپنی بیٹی دی ہے ۔ خیربی بی گرمیوں میں قلات اور سردیوں میں دین پور جاکر اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتی ہیں۔

۸)…علامہ محمد عمر دین پوریؒ پہلے نوواہ میں رہتے تھے۔ جو دین پور کے شمال مغرب میں ہے۔ وہاں جن وغیرہ بچوں اور عورتوں کو تنگ کرکے تکلیف دیتے تھے۔ پانی بھی نوواہ کا کھارا تھا ۔ اسی بناہ پر وہاں سے جنوب کی طرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے جگہ بدل کر دین پور کی بستی بسائی گئی ۔ بستی کا نام امروٹی نے ہی دین پور تجویز فرمائی ۔نوواہ وکڑو گائوں کے قریب ہے۔ وکڑوعلامہ دین پوریؒ کی جائے پیدائش ہے۔

۹)…علامہ محمد عمر دین پوریؒ کے خاندان میں صرف عبداللہ ولد عبدالطیف ولد دین پوریؒ کے پاس جائیداد وغیرہ زمین کی صورت میں پائی جاتی ہے ۔ عبداللہ کے پاس 25جریب زمین ہے۔ دس جریب ابھی خریدے ہیں۔ باقی خاندان کے لوگ سارے غریب اور بے روزگار ہیں ۔ہاتھ سے مزدوری وغیرہ کا کام کرکے بڑی مشکل سے زندگی گزارتے ہیں البتہ باقی پندرانیوں کے پاس زمین جائیداد وـغیرہ ہے۔

۱۰)…محمد شریف ولد علامہ محمد عمر دین پوریؒ کے گھر میں نور محمد پروانہ کی بہن تھی۔

۱۱)…علامہ محمد عمر دین پوریؒ کی ایک کتاب فی الفراق کو غلام قادر ولد محمد بقاء ولد عطائی 2000کی تعداد میں سکھر سے آج سے 25سال قبل چھپوائی ۔

۱۲)…آج کل جاگن سے حجام آکر دین پور کے لوگوں کی داڑھی وغیرہ منڈاتے ہیں اور مزید یہ کہ دین پور میں ہوٹل بھی ہیں ۔جس میں ریکارڈنگ چلتی ہیں ۔پہلے زمانے میں یہ دونوں چیز یں نہیں تھیں۔

۱۳)…دین پور میں عالیزئی ابابکی ‘ پندرانیوں میں الھدادزئی ‘ روہوزئی ‘ میاں زئی‘ نندوزئی قبیلے رہتے ہیں۔

حوالہ جات:۔

(۱)  ہفت روزہ ’’ایلم‘‘ مستونگ، ۲۶؍مارچ ۲۰۰۰ ء ص ۶ (8) علامہ محمد عمر دین پوری ؒاپنے خاندان کی نظر میںعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:51تا59


علا مہ محمد عمر دین پو ریؒ کی بہوسے علامہؒ کے متعلق مفید گفتگو 

گزشتہ دنو ں اتوا ر ۱۱؍شعبان المظم ۱۴۲۴ ہ کے مطابق ۲۴؍ستمبر ۲۰۰۴ء کو قلا ت جانے کا پر وگرا م ہو ا ۔ علا مہ محمد عمر دین پو ری ؒ کی بہو خیر بی بی بنت عبد اللہ عمرا نی اپنے   فرزند عبد الغفو ر ولد عبد الکریم عمرا نی کے ہاں رہتی ہیں۔ خو ش قسمتی کہیے اس مبا رک مو قع پر  علا مہ محمد عمر دین پو ری ؒ کے بیٹے عبدالطیف کا نو اسہ عبدالطیف عبدؔ بھی مو جود تھے جو دین پو ر جیک آباد سے قلا ت تشریف لا ئے تھے۔ اس دو را ن ما ئی خیر بی بی سے بر اہو ئی زبان کے نا مور شا عر ، ادیب ، صحا فی ، سیا سی، مذہبی رہنما ، مفسرومتر جم قرآن بزبا ن بر ا ہو ئی ، کثیر   التصا نیف مصنف علا مہ محمد عمر دین پو ری ؒ ولد عطا ئی پند را نی کے با رے میں مختلف مو ضو عا ت پر مفید بات چیت ہو ئی ۔ جو حسب ذیل ہے: ۔

۱)…تفسیر : بر اہو ئی زبان میں سب سے پہلے علا مہ محمد عمر دین پو ری ؒ نے قر آن مجید کا ترجمہ کیااور ترجمہ کے بعد تفسیر کا کا م شروع کیا ۔ مگرچند پا رو ں کی تفسیر کی ۔ آگے زندگی نے وفا نہیں کی ۔ مطلب یہ کہ مکمل تیس پا رے تفسیر نہیں کی ہے ۔ علا مہ ؒ  کی وفات کے بعد تما م کتب مع تفا سیر نا یا ب اور ضا ئع ہو گئیں ۔ آج ہما رے پا س علا مہ ؒ  کی کو ئی کتاب مو جود نہیں ہے ۔

۲)… فریضئہِ حج کی ادا ئیگی اور رو ضہ رسول ﷺ کی زیا رت ۔

  علا مہ محمد عمر دین پو ری ؒ نے دو نہیں بلکہ ایک ہی حج کیا ہے ۔۱۹۳۵ء میں حاجی صحبت کے ہمراہ حج کیاتھااور تین آدمی اوربھی آپ کے ساتھ تھے۔ کہتے ہیں کہ جب علامہ نے حا جیوں کو کر ا چی میں بحری جہا ز پر سوا رہو تے رخصت فر ما ئی تو اُس وقت رو نا شروع کردیا کہ کا ش آج میر ے پا س بھی سفر خرچ ہو تا اور حج کر نے کی طا قت ہو تی تو پھرمیں بھی قا فلہ حجاز کے ہمر اہ فریضہ حج ادا کرنے کیلئے چلے جا تے ۔ حا جیوں کو رخصت کرنے کے بعد گھر آکر ہر وقت غمگین اور اداس رہتے ۔ اور ہر وقت روتے رہتے تھے ۔

قد رت کا کیا کر نا ہے اُس سا ل علا مہ محمد دینپو ریؒ نے زمینو ں میں پا لیز کا شت کی۔ پا لیز کی قیمت حد سے زیا دہ ہو گئی ۔ علا مہ ؒ کے پا س پیسے بہت آگئے ۔ پھر دو سر ے سال حا جی ملو ک مینگل کے ہمرا ہ حج کیلئے رخت سفر با ند ھ لیا ۔ حا جی ملو ک مینگل سلطا ن کوٹ کا رہا ئشی تھا  ۔جبکہ اسکا اصل علا قہ اور آبا ئی شہر نوشکی تھا ۔ 

علا مہ محمد دینپو ری ؒ اُس زما نے میں حج کو چلے جس زما نے میں اُ سکا بیٹا عبد الطیف پیدا ہو ئے تھے اور شیر خو ار تھے ۔ کہتے ہیں کہ میر ا خا وند عبدالطیف اپنے وا لد محتر م کیلئے  بہت غمگین اور بے حد اُداس تھے ۔ جسکی وجہ سے وہ بہت بیما ر ہو ئے ۔ اُ س زما نے میں گوٹھ میرو میں ایک مشہو ر ڈا کٹر تھا ۔ جسکی نبض شنا سی کا عالم یہ تھا کہ اسکا آج تک کو ئی ثا نی دنیا میں پیدانہیں ہو ا۔ جسکا نا م ڈا کٹر کو ڈ یا تھا ۔ ڈا کٹر کو ڈیا عبدالستا ر کا وا لد ہے ۔ڈاکٹر کو ڈیا یہا ں تک کہ مو ت کی پیشنگو ئی بھی کر تے تھے ۔ ایک خا تو ن ڈا کٹر کو ڈیا کے پا س آئے اور اس نے اپنی قمیص کے اندر ایک بلی چھپا دی ۔اور ڈا کٹر کو ڈیا عو رت کی نبض پر ہا تھ لگا ئے بغیر ایک    داھا گہ عو رت کے ہا تھ میں تھما دیئے اور د ھا گہ کا دو سرا سر ا اپنے ہا تھ میں لیا۔ تو اُ س نے  عو رت سے کہا کہ تم کو کو ئی مرض نہیں البتہ آپ کا دل چو ہے کھا نا چا ہتا ہے ۔ 

ڈا کٹر کو ڈیا کی حکمت سے متعلق کا فی وا قعا ت آج تک لو گو ں کی زبا ن پر ضر ب المثل ہیں ۔ جب علا مہ دینپو ریؒ کے بیٹے عبد الطیف کو اسکے پا س لے گئے تو اُس نے کہا کہ یہ ا پنے با پ کیلئے اُدا س ہے اور با قی اُسے کو ئی بیما ری نہیں ۔

علا مہ دینپو ری ؒ نے صر ف ایک حج کیا ۔ دو حج نہیں کئے ہیں ۔ سو رو پے میں حج کیا ۔پچا س رو پے جا نے کا اور پچا س رو پے آ نے کا خرچہ ہو گیا ۔ اُس دو ر میں ارزا نی تھی   کو ئی سختی اور پا بند ی نہیں تھی ۔ پا لیز سے کا فی رقم ہا تھ آئی حج کا خرچہ نکل آیا ۔ 

         علا مہ دینپو ریؒ نے زیا رت رو ضہ اطہر کو جا نے کیلئے منت ما نی تھی کہ آپ ؒ نے حاجی ملوک مینگل کے ہمرا ہ بیت اللہ شریف سے مد ینہ منورہ تک پیدل اور ننگے پا ؤں سفر کیا ۔ دستار کو چیر پھاڑکر کمر اور گر دن میںبا ند ھ لیا۔ لو گ آتے جا تے اور منت سما جت کرتے کہ سوا ریا ں بہت ہیں۔ کیو ں ہما رے سا تھ نہیں چلتے ۔ تو وہ یہی کہتے کہ ہم نے منت مانی ہے ۔ تمام دو سرے سا تھی نا را ض ہو ئے سوا ئے حا جی ملو ک مینگل کہ جو سختی اور تکلیف کے وقت بھی سا تھ نہیں چھو ڑا ۔

ببو پا ن نن درود تینا خو اجہ ؐ  نماد رود نا وخت ارے دا سا ئی 

پہلواٹ تفیٹ تینا مُخے ایلو پہلو اٹ تفیٹ تینا لخے 

ببو پان نن درود تینا خواجہ ؐ غا نت شپاد ہرفیٹ چوٹ آتے دوٹی

 تر جمہ:۔

 آئو اپنے آقا ؐ پر دورد کہیں ۔ درود کا وقت تو اب ہے 

اپنی دستا ر کو چیر پھاڑ کر ایک سرے سے اپنی گر دن با ندھ لی اور دو سرے سرے سے کمر ۔

آئو اپنے آقا ؐ پر درود کہیں، د رود کا توو قت اب ہے ۔

ننگے پا ؤں سفر پر روا نہ ہو ئے اور نعلین در بغلین ہوئے ۔ 

۳)…ہجرت افغا نستان :۔

افغا نستان کے لو گ ،چیچک کی مر ض : علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒ کے بڑ ے بیٹے محمد شریف شیر خو ار تھے کہ افغا نستان ہجرت کر گئے ۔علا مہ دینپو ری ؒ تا ج محمد امرو ٹی ؒ اور مو لا نا عبید اللہ سندھی ؒ کے ہمر اہ نہ صر ف اپنے خا ندان مع مر دو عور تیں ، بڑے اور چھوٹے ہجرت کیلئے تیا ر ہوئے بلکہ دینپو رکے تما م پندرا نی آپ کے سا تھ ہو کرہجرت کی۔ ہجر ت بذریعہ ریل ہوئی ۔

علا مہ ؒ کے بھا ئی محمد صدیق کے بیٹے عطا ئی اور ما ئی تا ج با نو کو ہجرت کے دو را ن  چیچک کا وبا ئی مر ض لا حق ہو ا ۔ جب یہ قا فلہ افغا نستان پہنچا تو عطا ئی وفا ت پا ئے ۔ بقو ل عبدالطیف عبدؔ ما ئی تا ج با نو کے چہر ہ پر چیچک کے نشا نا ت تھے ۔ ما ئی تا ج با نو  کے مطا بق  افغا نستا ن کے لو گوں کے دل پتھر کے تھے ۔ جب محمد صدیق ولد عطا ئی کے بیٹے عطا ئی انتقال کرگئے تو وہا ں کے با شندو ںنے قبر کے کھدا ئی کے لیے بیلچہ  ، گنتی وغیرہ تک نہیں دی۔ 

۴)…بھا ئی:

محمدصدیق: علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒکے ایک بھا ئی کا نا م محمد صدیق تھا ۔ محمدصدیق کے ایک بیٹے کا نام عبدالقا در ہے ۔ اور ایک کا نا م عطا ئی تھا ۔ عطا ئی کا انتقا ل ہجرت کے دوران افغا نستان میں چیچک کے مرض سے ہو ا ۔ 

محمد امیر: محمد صدیق کے علا وہ علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒ کے ایک اور بھا ئی کا نام محمد امیر ہے ۔ جب علا مہ ؒدینپو ر سے ہجرت کر کے مو لہ تشریف لے آئے تو آپؒ کے دونوں بھائی محمد امیر اور محمد صدیق بھی دیگر افراد کے ساتھ مولہ آئے اور علا مہؒ  کو وا پس دینپو ر آنے کی منت سما جت کی ۔ علا مہ ؒکے دو نو ں بھا ئیوں کا انتقا ل علا مہ ؒ کی وفا ت کے بعد ہو ا۔

محمد امیر ولد عطا ئی کی اولا د سوا ئے ایک بیٹے عبد الحلیم کے کو ئی نہیں ۔ عبد الحلیم مدینہ منورہ میں محنت مزدو ری کے سلسلے میں رہتے ہیں ۔ لیکن آپ کے با ل بچے دینپو ر میں ہیں۔

محمد صدیق ولد عطا ئی کے بیٹے عبدالقا در سے راقم کی ملا قا ت جنوری ۲۰۰۴ میں دینپو ر میں ہو ئی ۔

۵…بیو یاں:۔

علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒ نے دو شا دیاں کیں ۔ عبدالطیف اور محمد شریف ایک ہی ما ں سے تھے ۔ محمد شریف علا مہ کی وفا ت کے بعد تیںچا ر سا ل زندہ رہے ۔دو نو ںبھا ئی وفا دار تھے۔  

سب سے بڑا بیٹا محمد شریف ہے جو بہت ہی چھو ٹا اور شیر خو ار رتھا کہ ہجرت افغانستان کا وا قعہ پیش آیا۔ عبدالطیف ، محمد شریف اور ما ئی تا ج با نو ایک ہی ما ں سے تھے۔ جبکہ محمد منیف، محمد حنیف اور عبد الحفیظ ایک ہی ماں سے تھے۔عبدالحفیظ ، محمد حنیف اور محمدمنیف سے علا مہ ؒ نا را ض ہو ئے۔ چو نکہ تینو ں بیٹوں نے اس کو بیما ری کی حالت میں مو لہ چھوڑ کر وا پس دینپو ر چلے گئے ۔ علا مہ ؒ نے کہا کہ میں نے مو لہ میں مسجداور مدرسہ دین کی خا طر تعمیر کی اور بیٹوں نے ساتھ نہ دیکر چلے گئے ۔ تو محمد شریف نے تن تنہا با پ کی تیما ر دا ری کے لیے دن را ت ایک کی۔ علا وہ ازیں خو اتین میں عبدالطیف کی بیوہ نے اپنے سسُرکی خد مت میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی         

۶)…بیٹے :۔

 علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒ کے بیٹوں میں عبدالطیف ، محمد شریف ، محمد منیف ، محمد حنیف اور عبدالحفیظ اور بیٹی ما ئی تا ج با نو کے نا م قا بل ذکر ہیں۔

  عبدالطیف اورمحمد شریف ایک ہی ماںسے تھے ۔ عبدالطیف کی وفا ت علامہ ؒ کے انتقال سے ایک سا ل قبل ہو ئی اور جبکہ محمد شریف کی و فا ت علا مہ ؒ کی وفا ت سے تقریباً دو یا تین سا ل بعد ہو ئی ۔ دو نوں بھا ئی وفا دار تھے ۔ 

سب سے بڑا بیٹا محمد شریف ہے ۔جو بہت ہی چھو ٹا اور شیر خو ار تھا کہ افغا نستان ہجرت کر گئے ۔ عبدا لحفیظ جو ابھی تک حیا ت ہے ۔ محمد منیف اور محمد حنیف تینوں سے علا مہ ؒ اس بات کی وجہ سے نا را ض ہو ئے کہ تینوں بیٹوں نے آپکی بیما ری کی حالت میں آپ ؒ کو چھو ڑ کر نڑمو لا سے سند ھ چلے گئے۔ دو سری وجہ یہ ہے کہ علا مہ ؒ نے کہا کہ میں نے  مسجد شریف اور مدرسہ دین کے لیے بنا یا اور وہ چلے گئے ۔ محمد شریف نے با پ کی تیما ردا ری کے لیے دن را ت ایک کی۔

محمد شریف نے دو شا دیا ں کیں ۔ آپ کو کو ئی اولا د نہیں ہو ئی ۔محمد شریف کی ایک بیوی نو ر محمد پر وانہ ؒ کی بہن نو رخاتو ن تھی جو بے حد دیندا ر ، خد اتر س ،نیک ، متقی اور پر ہیز گا ر خاتون تھی۔ جب عبدالطیف کا کسی بیما ر ی کی وجہ سے مو لہ میں انتقا ل ہوا تو اسکی بیوہ وا رثاء  کپوتو قلا ت لے آئے اور شیر خوار بچہ عبداللہ کی پر ورش اور دیکھ بھال اسی خا تو ن نے کی۔ما ئی نو ر خاتون نے عبدالطیف کے اکلو تے شیر خوار بیٹے کی پرورش کے سلسلے میں کو ئی کمی نہیں چھو ڑی ۔ شیر خو ار بچہ کا نا م عبدا للہ ہے ۔اسکی ما ں ما ئی خیر بی بی بنت عبداللہ عمرا نی نے اپنی برادری میں دوسری شا دی کی ۔ 

محمد شریف مو لوی تھے۔ جب علا مہ ؒ کی وفا ت ہو ئی تو شا ید انہوں نے نما ز جنا زہ پڑھا ئی ۔  عبدالطیف اورمحمد شریف ایک ہی ما ںسے تھے ۔ عبدالطیف شیر خوار تھے کہ علا مہ ؒ فریضہ حج ادا کر نے کیلئے حجاز مقدس تشریف فر ما ئے ۔ عبدالطیف اپنے باپ کیلئے بے حد اُداس ہو گئے ۔ عبدالستا ر کے والد ڈاکٹر کو ڈیا گوٹ میردومیں تھا ۔ عبدالطیف کو اسکے پا س لے گئے۔ بیما ر تھا ۔ڈا کٹر کو ڈیا نبض شناس تھا ۔ اس نے دو رسے شر خوا ر بچہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ اپنے باپ کیلے اُداس ہے ۔ اسے کو ئی بیما ری نہیں ۔ چو نکہ اس کے وا لد حج کیلئے گئے تھے ۔ 

جب علا مہ دینپو ریؒ نے دین کی تبلیغ اور اشا عت کی غرض سے دینپور کو ہمیشہ کیلئے خیر با د کہہ کر مو لہ ہجر ت کی تو یہا ں سب سے پہلے ایک بیما ری ما ل مویشیوں میں پیدا ہو ئی ۔ جو انتہا ئی خطر نا ک اور مہلک مرض تھا ۔ جا نور سب ہلا ک ہو گئے ۔ پھر یہ بیما ری انسا نوں میں پھیل کر وبا ئی مرض کی صو رت اختیارکی ۔ عبدالطیف بھی اسی مر ض میں مبتلا ہو کر اپنے رب کو پیا رے ہو گئے ۔ 

عبدالطیف کی وفا ت مو سم سر ما میںہو ئی ۔ عبدالطیف اور نو رمحمد آدما ڑی زہری ایک ہی بیما ری میں مبتلا ہو کر اللہ تعا لی کو پیا رے ہو گئے ۔ دینپو ر کے لو گ اور بھا ئیوں اور بیٹوں نے مو لہ آکر علامہ ؒ کو بہت منت سما جت کی اور اس سے درخواست کی کہ آپ ؒ وا پس دینپو ر آئے ۔ہم آپ ؒ سے دین کے معا ملہ میں ہر طر ح کا تعا ون کر یں گے ۔ مگر علا مہ دینپوری ؒنے عبدالطیف کی وفات کی وجہ سے یہ کہہ کر اُنکی در خوا ست مسترد کر دی کہ میں اب بالکل دینپور نہیں آؤنگا ۔ عبدالطیف (کی قبر ) کو تنہا ہر گز نہیں چھوڑوں گا ۔ علا مہ ؒ کی قبر بھی عبد الطیف کی قبر کے سا تھ ہے ۔ 

عبد الطیف کی اچا نک مو ت پر علا مہ محمد عمر دینپو ریؒ بے حد ملول اور غمگین ہو گئے ۔ غم سے نڈ ھال بو ڑھے وا لد اپنے جگر کے ٹکڑے کی لا ش دیکھ کر پھر بھی اپنے رب کا شکر گزار بندہ ثابت ہو نے کا مظا ہر ہ کیا۔ جنا زہ کے دو ران بلند آوا زسے آپ ؒ کی زبان پراپنے رب اور آقا کی حمدو ثنا ء کے برا ہو ئی اشعا ر دریا کی طرح روا نہ ہو ئے ۔ چا ر پا ئی کو خو د کندھا دیتے رہے اور کہتے رہے :۔

بسو ٹ مش ٹی جی کنا اللہ الحمد للہ 

 بسو ٹ مو لہ ٹی نڑ نا مش ٹی جی کنا اللہ الحمد للہ ۔ 

تر جمہ : ۔

 میں پہا ڑ وں پہ آ گیا ۔اے میر ے اللہ الحمد للہ

 مو لہ میں نڑ کے پہا ڑ میں آگیا ہو ں اے میرے اللہ الحمد للہ ۔

تجہیز و تد فین کے بعد علا مہؒ نے عبدالطیف کی قبر کی دا ئیں طر ف ایک بڑا پتھر نصب فر ما کر یہ کہا کہ میر ی قبر یہی عبدالطیف کی قبر کے ہمراہ ہو گی ۔

ما ئی تا ج بانوسند ھ میں تھی ۔اپنے بھائی کی وفات کا سُن کر بے حد پریشان اور غمگین ہوگئی۔ نہ صرف عبدالطیف بلکہ والد محترم کے انتقال کے دوران بھی مائی تاج بانو سندھ میں تھی۔ اور انکا دیدار نہیں ہو ا ۔ علامہ ؒ سا ت سا ل تک نڑمو لہ میں رہے ۔ جب کہ عبدالطیف کی وفات کے بعد تین سال تک زندہ رہے۔

علامہؒ کی صرف ایک ہی بیٹی مائی تاج بانو تھی،عبدالطیف، محمد شریف اور تا ج با نو ایک ہی ما ں سے تھے۔ جب علا مہ ؒ  مع اپنی برا دری افغانستان ہجرت کر گئے تو وہا ں چیچک کی مرض پڑگئی ۔ علا مہ ؒ کے بھا ئی محمد صدیق کے بیٹے عطائی افغا نستا ن ہی میں چیچک کی مرض میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیا رے ہو گئے ۔ 

  ما ئی تا ج با نو بھی چیچک کے مرض سے دو چا ر ہوگئی ۔ اور بقو ل عبدالطیف عبدؒ  آخر تک اسکے چہر ے پر چیچک کے داغ تھے ۔ 

جب علا مہ ؒ دینپو ری نے لو گو ں سے کسی معا ملہ میں ناراض ہو کر مو لہ نقل مکا نی  کی تو ما ئی تا ج با نو سندھ میں رہی ۔ جب خط کے ذریعے اس پر یکے بعد دیگر ے بھا ئی عبدالطیف اور با پ علا مہؒ کی وفا ت کی خبر بجلی بن کر گر ی تو اس خا تو ن اپنے غم کا اظہا ر بر اہو ئی میں یوں کیا ۔ 

 ای اسو ٹ تُغے ٹی پر اِنگا    بس نا گما ن کا غذ دھڑ نگا 

تر جمہ :۔

میں خو اب میں تھی     اچانک کا غذ آپہنچا۔

ما ئی تا ج با نواس دو را ن دینپو ر میں تھی ۔ اپنے بھا ئی اور با پ کا آخری دیدا ر نہیں کر سکی۔

 ۷)… برا ہو ئی تفا سیر قرآن پا ک اور دینی کتب کی اشا عت کیلئے لڑکیوں کا چند ہ میں دینا اور علا مہؒ کی بہو ما ئی خیر بی بی  :  

  وڈھ کے ایک شخص نے چندہ میں لڑ کی دی مگر علا مہ ؒ نے اسے وا پس کر کے فر ما یا کہ اب آپ نے دیا اور میں نے لیا ۔

  کپوتو قلا ت کے عبد اللہ ولد نو ر الدین عمرا نی اپنی اکلوتی پیا ری بیٹی خیر بی بی کو لیکر قلا ت سے دینپو ر آئے اور علا مہؒ  کو بطو ر چند ہ دین کی خد مت کیلئے اپنی بیٹی کو حوالے کر دیا ۔خیر بی بی اکیلی تھی ۔ اس کا کو ئی بھا ئی اور بہن نہیں تھی۔ علا مہ ؒ نے دو را ند یشی سے کام لیکرفیصلہ کیا کہ وہ اکلوتی ہے اسے دوسری جگہ کسی کے نکا ح میں دینا مناسب نہیں ۔چونکہ وہ وہاں آسودہ نہیں ہو گی ۔ لہٰذا اسے اپنے بیٹے عبدالطیف کے عقد میں دیکربہو بنا لی۔

خیر بی بی عبدالطیف کے عقد میں صر ف چا ر سا ل رہی۔ ایک سال دینپو رمیں اور با قی تین سا ل مو لہ میں رہی ۔جب مو لہ میں عبدالطیف کا انتقا ل ہو ا تو اس نیک خا تون نے شر ع کے مطا بق شا دی کا فیصلہ کیا ۔ عبدالطیف سے اسے صر ف ایک بیٹا عبداللہ ہو ا ۔ جس پر خیر بی بی نے اپنے با پ عبداللہ کا نام رکھا ۔ چو نکہ اس دو را ن خیر بی بی کے وا لد عبداللہ عمرانی وفا ت پا چکے تھے ۔ عبدا للہ شیر خوا رتھا ۔ اس کا با پ عبدالطیف اس جہا ن فا نی سے کو چ کر گئے تھے اور عبداللہ کی ما ں خیر بی بی نے عدت گزار تے ہی اپنی بر ادری میں عبدالکر یم عمرا نی نا می شخص سے شا دی کر لی ۔جس سے بھی اسے صر ف ایک بیٹا عبدا لغفو ر نامی ہو ا جو آجکل قلا ت خیل میں رہا ئش پذیر ہے ۔ عبدا للہ کی والدہ محترمہ خیر بی بی نے دوسری شا دی کی تو پھر شیر خو ار عبداللہ کو اسکے چچا محمد شریف ولد علا مہ محمد عمر دینپو ری ؒ کی زوجہ محترمہ نور خا تون نے پا لنا شر وع کیا۔ جو نو ر محمد پر وا نہ کی بہن تھی ۔

  عبدا لطیف کی وفا ت کے بعد علا مہ  ؒ تین سا ل تک زندہ رہے ۔مگر اس عرصہ بیٹے کی جد ائی کے غم میں گزا ر کر بیما ر ہو گئے تو آخر عمر میں اس نے اپنی بہو خیر بی بی کیلئے پیغا م بھیجا جو قلات میں دو سری شا دی کی ہو ئی تھی کہ آپ کے ہا تھ کے کھا نے کے سوا میں کسی کے ہاتھ کا کھا نا نہیں کھا ؤنگا ۔خیر بی بی کے با پ کے بھا ئی فقیر محمد عمرا نی اسے علا مہؒ کے پیغام پر لبیک کہتے ہو ئے مو لہ لے گیا ۔ آپ علا مہؒ  کی تن تنہا تیما ر دا ری کرنے لگی ۔ اُس وقت خواتین میںصر ف خیر بی بی مو جود تھی ۔ یہ نیک خا تون علامہ  ؒ کی خدمت میں کھا نے پینے کا انتظا م کر تی تھی ۔

۸)… مو لہ کیلئے نقل مکانی : ۔

دینپو ر کے با شندوں نے دین کے معا ملہ میں علا مہ ؒ سے تعا ون نہیں کئے ۔ جب یہا ں کے لو گو ںنے بے دینی اور بے راہ روی اختیا ر کی تو علا مہ ؒ ان سے نارا ض ہو ئے ۔ نورمحمد اور خیر محمد یہ دو نو ں شخصیا ت مو لہ کی رہنے وا لی تھیں ۔ آدما ڑی قبیلے سے اُن کا تعلق تھا ۔ انہوں نے علا مہ ؒ کو دینپو ر چھو ڑ نے اور مو لہ آنے کی دل کھول کر دعوت دی ۔مو لہ میں ان دو نو ں نے علا مہ ؒ سے بھر پور تعا ون کیا ۔ علا مہ ؒ کے مو لہ تشریف لا نے پر یہاں کے مکینوں نے بے حد خو شی او ر شا د ما نی کا اظہا ر کیا کہ علا مہ دینپو ری ؒ ہما رے ہا ں آئے اور ہمیں عزّت و شرف بخشی ‘ مسجد اور مدرسہ قا ئم کر کے دین کی اشا عت اور سر بلندی کیلئے کا م کا آغاز کیا ۔ 

نو ر محمد کے ایک بیٹے کا نا م محمد عمر ہے ۔ جبکہ خیر محمد کے بیٹوں میں سے محمد بخش نامی ہے ۔ کہتے ہیں کہ نو ر محمد اور علا مہ محمد عمر دینپو ریؒ کے بیٹے عبدالطیف کی وفا ت ایک ہی مہلک بیما ری کی وجہ سے ہو ئی ۔ شروع میں یہ وبا ئی مر ض جا نوروں میں پایاگیا اور اس کے بعد یہ بیماری انسا نو ں میں بھی پھیل گئی ۔

مو لہ کے لو گ علا مہ ؒ  کو مریضو ںکو دم کر نے کے لیے لیجا تے تھے ۔ تو گھر  کے اند ر ہی سے علا مہ ؒ کے پاؤں کی آہٹ سن کر مریض خو د بخو د اُٹھ کھڑے ہو جا تے اور کبھی ایسا بھی ہو تا تھا کہ مر یض علا مہ ؒ کے پا ؤں پر سر جھکا کر چو منے کی کو شش کرتے تو علا مہ انہیں ایسا کر نے سے منع کر تے ہو ئے کہتے کہ یہ شر ک ہے ۔

۹)…مو لہ کی عو رت کو ہدا یت ملی: ۔

  مرا د بی بی بے او لا د تھی ۔ اس کا خا وند مر چکا تھا ۔ زرکزئی سر دا ر خیل میں اسکی شادی ہو ئی تھی ۔ بیوہ ہو نے کے بعد نڑآئی۔  بیچا ری بیوہ یتیم تھی ۔ اسکا کو ئی وا رث نہیں تھا۔ مگر بہت ہی چالاک اور زبا ن درا ز خا تون تھی ۔ لو گ اس سے بیزا ر اور تنگ تھے ۔اس کے بھا ئی کو سر دارخا ن جا ن نے قتل کیا تھا ۔ چو نکہ ان کے در میا ںکسی با ت پر جنگ ہو ئی تھی۔ تو یہ خا تو ن نڑ آئی ۔ لو گ اس سے ڈرتے تھے ۔علا مہ ؒ نے لو گوں سے کہا کہ اسے اپنی حالس پر چھوڑیئے پھر اللہ کا کیا کر نا تھایہ خاتو ن ہدا یت پائی اور نیک ‘خدا ترس اور پا رسا بن کر علا مہ ؒکی آخر ی عمر تھیںبہت خد مت اور تیما ر دا ری کی ۔ 

۱۰)…بیوہ عو رت کو سر دا ر کے چنگل سے نجات دلانا :۔

ایک بیوہ عو رت تھی جس کا کو ئی وا رث نہیں تھا سوا ئے چند شیر خو ار بچوں کے ۔ علامہ ؒ نے مرا د بی بی کے کہنے پر سردار رسو ل بخش زہری کے پا س اس مظلو م عو رت کیلئے سفا رش کی ۔ چو نکہ یہ روا ج تھا کہ جس عو رت کا کو ئی وا رث نہیں ہو تا اسے سر دار بیچ کر رقم کھا جا تھے  علا مہ ؒ کی سفا رش پر سر دار نے اس عو رت کو جا نے کی اجا زت دی ۔

۱۱)…سردار زہری اور خا ن قلا ت کو وعظ ونصیحت :۔

  نو روز خا ن اور سردار رسول بخش نے علا مہ ؒ  کو وعظ و نصیحت کی غرض سے دعوت دی۔ یہ لو گ مو لہ کے قریب  کیمپ لگا ئے تھے ۔جو چھتر پھلیجی اور گا جا ن جا رہے تھے ۔ علامہ ؒ نے سر دار کے ظلم وستم اور دیگر لو گو ں کی بہا دری اور دلیری سے متعلق وعظ کیا اور قر آن وحدیث بیا ن کر کے اُن کو دین کے خلاف طر زعمل سے روکا۔ 

خا ن نے جب مو لہ کے قریب  کیمپ لگا ئے اور کچا ری کی۔ اسکے سا تھ بیس ہزار کی فوج تھی۔ تین دن اور را ت ٹھہرے تو علا مہ ؒنے اُ ن کے پا س جا کر وہاں پر موجودایک  سفید پتھر پر بیٹھ کر خا ن کو نصیحت کی ۔ یہ سفید پتھر آ ج بھی ہے جو بہت بڑا پتھر ہے ۔ علا مہؒ اس دوران اُ نکے کھا نے سے گریز کر تے ۔ 

۱۲)…بیٹے کی وفا ت :۔

  علا مہ ؒ نے نڑ میں زندگی کے آخر ی سا ت سال گزارے ۔ عبدالطیف کی وفا ت کے بعد تین سا ل تک بیما ر ی کی حا لت میں زندگی گزاری ۔

۱۳)…مر ض المو ت ووصیت نا مہ :۔ 

علا مہ ؒ اپنے بیٹے عبدالطیف کی وفا ت کے غم میں بیما ر ہو گئے ۔ اور خیر محمد کو با ر بار  وصیت کر تے تھے کہ جو پتھر میں نے عبدالطیف کی قبر کے سا تھ رکھا ہے ۔ دیکھنا میری قبر وہاں تیار کر نا ۔میرے بھا ئی وغیرہ اگر دینپو ر سے آئے تو انہیں میر ی لاش حوالے نہیں کرنا ۔ جہاں میں نے پتھر رکھا ہے ۔ وہیں پر میری قبر ہو گی ۔ اُس وقت علامہ ؒ کی وفا ت ہو ئی تو خوا تین میں صر ف عبدالطیف کی بیوہ ما ئی خیر بی بی اور بیٹوں میںمحمد شریف مو جو د تھے ۔ ما ئی تا ج با نو دینپو ر میں تھی ۔ 

جب عبدالطیف کا انتقا ل ہو ا تو دینپو رسے عزیز واقا رب آئے۔ بہت منت سماجت کی کہ دینپو ر تشریف فر ما ئیں ۔ مگرآ پ ؒ نے عبدالطیف کی وفا ت کے غم کی وجہ سے کہا کہ میں با لکل نہیں آئوں گا۔ عبدالطیف کو کہا ںتنہا چھو ڑ دوںگا ۔

علا مہ ؒ اپنے پیارے بیٹے عبدالطیف کے غم میں بہت بیمار ہو ئے ۔ اس دوران کسی کے ہا تھ کا کھا نا نہیں کھا تے تھے ۔ عبدالطیف کی بیوہ خیر بی بی نے اپنی برا دری میں دوسری شادی کی تھی ۔ قلا ت میں تھی ۔اسکے لیے پیغا م بھیجا کہ میں کسی کے ہا تھ کا کھا نا نہیں کھاسکتا جو میری طبیعت کے مو ا فق نہیں ہو تے ۔ خیر بی بی نے اسکے پیغا م پر لبیک کہتے ہو ئے اپنے چچا فقیر محمد عمرا نی کے ساتھ مو لہ آ گئی ۔ اور علا مہ کی تیما ر دا ری میں دن را ت ایک کی ۔ 

۱۴)… علا مہ ؒکی وفا ت :۔

  علا مہؒ کی وفا ت نڑ مو لہ کے مقام پر عبدالطیف کے انتقال کے تین سا ل بعد مو سم سر ما میں ہو ئی ۔ علا مہ کی قبر بھی عبدالطیف کی قبر کے سا تھ ہے ۔ نما ز کی حا لت میں علامہؒ کی وفا ت ہو ئی ۔عشا ء کی نما ز فرض پڑ ھا رہے تھے کہ پہلے سجدہ میں رو ح پر وا ز کر گئی۔ خیر محمد آ د مڑی نے اسے اٹھا یا ۔ پھر خیر محمد نے لو گو ں کو حکم دیاکہ جہا ں علا مہ ؒ نے خو د اپنے بیٹے عبدالطیف کی قبر کے سا تھ پتھر رکھا ہے وہا ں آپ ؒ کی قبر کی کھدا ئی شرو ع کرنا ۔ شا ید مولو ی محمد شریف نے نما ز جنا زہ پڑھائی ۔ وفا ت کے وقت صر ف یہی ایک بیٹا مو جو د تھا با قی دینپو ر میں تھے۔

۱۵)… علا مہ ؒ کی آخر ی آرا م گا ہ :۔

  گو ر وسا سو ل وڈ ہیر وا لو ں کا را ستہ مو لہ نڑ بینٹ کے قر یب سے گزر تا ہے ۔یہ لوگ آتے جا تے وہا ں سے گزر تے ہیں ۔ او ر دعا ء پڑ ھ کر جہا لت کی وجہ سے علا مہ ؒ کی قبر کی نشا ندہی کر تے ہوئے قبر سے مٹی اٹھا کر بچو ں کی گر دنوں میں با ند ھتے ہیں ۔ جا ڑی اور یکتا کی بخا ر کیلئے مو لہ کے لو گ قبر کے پتھر اور مٹی اٹھا کر گلے میں با ند ھتے ہیں ۔

۱۶)…علامہ کے القاب:

پیرہ ملا، عمر خان، حاجی،علامہ، دین پوری، شمس العلماء آ پ کے القاب ہیں۔ا

۱۷…) سندھی میں شاعری:۔

عبدالطیف عبدؔ کے مطابق کہ علامہ نے سندھی میں بھی شاعری کی ہے ۔ صرف ایک شعر ملا ہے خواتین سے یہ شعر زبانی ملا ہے۔ اسے پیرہ مُلا خواتین کہتی ہیں ۔:

سندھی)اُٹھی جاگ  جانی تھی نِڈھری نِباھگی

براہوئی)نن ئِ درست خاچا جس تغ بس ساگی

سندھی)چوری کائی تھی بیغم چوتھو وائین

براہوئی)لشکر نا پدٹ ئِ اوفتونے پاگی

سندھی)کاہل این تھی تون غافل نہ تھی تون

براہوئی)دوزخ قبر نا مروس بجی     (9) علامہ محمد عمر دین پوری ؒ کی بہو سے علامہؒ کے متعلق مفید گفتگوعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:60تا70 ٭٭٭٭


حوالہ جات : ۔ (1) اظہار خیال :ڈاکٹر ایم صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ سپریم کورٹ چیئر مین براہوئی اکیڈمی پاکستان: علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 5 (2) ’’علامہ دین پوریؒــ ‘‘ فن وشخصیت :مولانا عبدالخالق ابابکی،علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 6تا12 (3) خدمات دین پوری اور منصور براہوئی : حاجی شاہ بیگ شیدا: علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 13تا14 (4) مہربان منصور: رحیم ناز،علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/ کوئٹہ) پاکستان، سال : 2012، ص: 15تا16 (5) ادب سے محبت: فتح محمد شاد، علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 17تا18 (6) مصنف کہتا ہے : حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، علامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص: 19تا20 (7) مولانا محمد عمر دین پوری ؒ کا خاندانی پس منظرعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:21تا50 (8) علامہ محمد عمر دین پوری ؒاپنے خاندان کی نظر میںعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:51تا59 (9) علامہ محمد عمر دین پوری ؒ کی بہو سے علامہؒ کے متعلق مفید گفتگوعلامہ محمد عمر دین پوری (حالات و زندگی)، تحقیق حاجی عبدالحیات منصور براہوئی ، ناشر: براہوئی اکیڈمی (رجسٹرڈ/کوئٹہ)پاکستان، سال : 2012، ص:60تا70