تحریر: اقبال جنجوعہ اصل بات ایک آزاد اور بے باک پریس کسی بھی معاشرے کے لئے ایک بڑی قوت ہوتا ہے اور اس قوت کو کچلنے کی ہر کوشش آزادی کی روح کو نقصان پہنچانا ہے،طاقت اقتدار اور ناجائز اصولوں سے مقابلہ بہت پرانا ہے، اٹھاویں صدی میں جب اخبارات کی اشاعت کا کام شروع کیا گیا،تو اس زمانے کے اہل اقتدار اس بات سے سخت خائف تھے کہ کوئی خبر عام لوگوں تک پہنچ نہ سکے،اس کے لئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا،اخبارات اتنے مہنگے داموں میں فروخت کئے جاتے کہ عوام کیپہنچ سے دور ہیں،اخبارات پر حد سے زیادہ ٹیکس اور پابندیاں لگائی گئی،مگر اخبارمالکان نے ہتھیار نہیں ڈالے اور بڑی بہادری سے مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا،جب یہ دنیا وقائم ہے باطل قوتوں کے خلاف یہ جنگ جاری رہے گی۔ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں آج بھی پریس پابندیوں کی زد میں رہتا ہے۔ہمارے معاشرے میں مدیر اور صحافی کو اثروروسوخ سے یا دھمکی سے ڈرایا جاتا ہے،ایک صحافی کو عنایت مہربانی اور تعاون کے طلبگاروں سے خود کو بچانا نہایت مشکل کام ہے،ایک صحافی کی معاشرتی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے اس کے سفارشی کافی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں،ان حالات میں اپنی آزادی اور سچائی کو برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہے، طرح طرح سے بہلانے،پھسلانے،دھمکانے اور للچانے کی کوشش کی جاتی ہے،تاجر برادری کی طرف سے بھی دباو ہوتا ہے کسی خاص معاملے کے لئے نرمی سے رپورٹ تیار کی جائے،مذہبی پشیوا صحافی سے خاص رویے کے طلب گار نظر آتے ہیں،الغرض طرح طرح سے صحافیوں،مدیروں،کالم نویسوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ایسی حق یتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ جنھوں نے اصول اور مقصدیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا وہ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے،مقصدیت اور معروضیت ہی کسی صحافی کا اہم اصول ہے،صحافت میں حق گوئی کی حوصلہ شکنی کے لئے ایسے عناصر ضرور سامنے آتے ہیں،اور اسی مخالفت کا سامنا کرنا ہی صحافی کے لئے میدان جنگ ہے،لیکن اگر ایک صحافی اپنی حق گوئی پر بہادری سے قائم رہے تو مخالف قوتیں اپنے آپ مر جاتی ہیں،اس لئے تو کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کی طرح ایک اخبار کی بھی پرسنالٹی ہوتی ہے،سچ کو سامنے لانا اس کی خصوصیت، اس کا معیار ہوتاہے،اسی دیانت داری کے تحت وہ خبر جن میں عوام کی افادیت اور اہمیت زیادہ ہو،وہی شائع کی جاتی ہیں،اس کی مثال بالکل اس طرح ہیکہ گندم کو پیسنا اور بھوسی الگ کرنا اخبار کا کام ہے،ایسا نہ ہو کہ بھوسی اخبار میں آجائے اور گندم پڑارہ جائے۔ آج کے دور میں معاشرہ اخبار کے بغیر نا مکمل ہے،پریس کی قوت سب پر عیاں ہے،اخبارات کی آزادی ایک نعرہ بھی ہے اور ایک جائز مطالبہ بھی،جمہوری ملک کی بقا میں اخبارات کا درجہ تیسرے نمبر آتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اخبارات کی آزادی نے حکومتیں قائم بھی کی اور کئی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑ بھی پھینکا۔مشہورمورخ جی ایچ ویلز نے کہاکہ،روم کی طاقتور ایمپائر اس وجہ سے بھی دیر پا ثابت نہ ہو سکی کہ اس زمانے میں اخبارات عام نہ تھے۔مشہورفاتح نپولین بونا پارٹ کو اخبارات کی طاقت کا بخوبی علم تھا،اس کا ایک قوم پریس کے حوالے سے ہے کہ تین مخالف اخباروں سے ایک ہزار بندوق سے بھی زیادہ خوف کھانا چاہیے،برصغیر کی آزادی کے حصول میں اخبارات کا ایک تاریخی کردار رہا ہے،یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اخبارات کی وجہ سے ہمارے ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔ یہ بات ذرائع ابلاغ کے مفکر مارشل میکلوہن کے قولmedium is the messageنے ثابت بھی کیا ہے کہ میڈیا کا کام پیغام کو عوام تک پہنچانا ہے۔آزادی کے بعد ملک میں کئی حکومتیں آئیں،مارشل لا کے نظام نے جہاں ملک کی ترقی میں روڑے اٹکائے وہاں پریس کی آزادی میں بھی کئی نشیب و فراز آئے، مگر آج صحافت کا حال اور مستقبل روشن ترین ہے۔بحیثیت ایک ادنیٰ سا کالم نگار کے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ صحافت کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں،کوئی بھی فرد جو انداز تحریر میں مہارت رکھتا ہو اس میں داخل ہو کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے، ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایسے ہی اخبارات کامیاب رہے ہیں جنھوں نے اپنے قارئین کے ساتھ ایک آزادانہ تخاطب قائم کیا اور ان کی صحیح رہنمائی کی، جنھوں نے معاشرے کے پہلو کو منصافہ انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا،اس کے برعکس جو اخبارات کسی خاص سیاسی جماعت سے بندھے رہے،وہ معاشرے کی جائز مسائل کی عکاسی میں اس لئے بھی ناکام رہے کہ ان پر نظریات کی چھاپ لگی ہوئی تھی،جس نے ان کے دائرہ کو ان کی آزادی کو محدودکر دیا، ایسے اخبارات اپنے فرائض مکمل آزادی سے انجام نہیں دے سکتے، صحافت کے شعبے میں ایک آزاد کالم نگار جو اپنے قلم کی طاقت کو غیر جانب دار ہو کر استعمال کرے،ایک جہاد کی حیثیت رکھتا ہے،ایک کالم نگار اپنے کالم میں معاشرے کے مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں اپنے نظریہ سے پیش کرتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ جس دن دنیا کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے،شاید اس دن اداریہ نگار اور کالم نویس بھی بیکار ہو جائیں گے، جب تک دنیا قائم ہے انسانی مسائل ختم نہ ہوں گے کالم نویس کو موضوع کی کمی نہ ہو گی اور کالم نویس عوامی مزاج سے واقفیت کی بنا پر آزادانہ کالم لکھتا رہے گا، صحافت کی دنیا میں آزادانہ ذاتی کالم لکھنے کی ابتدا 8ستمبر 9131میں والٹر لپ مین نے دی ہیر الڈٹر یبیون،میں کی،اس کاکالم پانچ سو سے زائد امریکی اخبارات میں آج اور کل کے عنوان سے شائع ہوتے تھے،آج بھی امریکہ میں ایسے کئی کالم نگار ہیں جو بیک وقت سینکڑوں اخبارات میں ایک ساتھ شائع ہوتے ہیں،ان تمام لوگوں نے اس لئے کامیابی حاصل کی کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صحافت کو آزادی حاصل ہے وہ اپنا کام بنا کسی رکاوٹ کے کر سکتے ہیں ایسے میں جب کہپوری دنیا میں آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے ہمیں بھی پاکستانی صحافت میں مزید اصلاحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے