میرا گاؤں فتح پور (munawar ahmed khurshid, LONDON)

خاکسار نے اپنے گاؤں سے کچھ پرانے واقعات نئی نسل کے لئےرقم کئے ہیں حدیث مبارکہ ہے۔حب الوطن من الایمان۔حب الوطنی جزو ایمان ہے۔ اسی لئے وطن کی خاطر جان دینے کو شہادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ہمارے آقا ومولی حضرت محمد ﷺ کو مکہ سے مدینہ کو ہجرت کرنی پڑی۔ آپ مکہ شہر سے باہر نکلےاور جبل احد طرف رخ انور کرکے فرمایا۔اے احد ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔آپ ﷺ ہمیشہ اپنے آبائی شہر مکۃ المکرمہ کے لئے دعا گو رہے

تعارف فتح پور اسی رشتہ محبت اور ذکر خیر کی خاطر اپنے مادر وطن کے بارے میں کچھ لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے۔اللہ تعالی اس کی توفیق عطا فرمائے۔میرے گاؤں کا نام فتح پور ہے۔جو ضلع گجرات پنجاب پاکستان کی ایک خوبصورت بستی ہی۔

عاجز کو دنیا کے تین براعظموں کےچھبیس ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے ۔اللہ تعالی نے اس دنیا میں ہر جگہ کو مخصوص خوبصورتی،افادیت ،شہرت اور تقدس سے نواز رکھا ہے۔لیکن انسانی فطرت میں یہ چیز ودیعت ہے کہ وہ پہلے وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے پھر کسی اور کی باری آتی ہے۔ایسے ہی مجھے جو پیار ،محبت اور نسبت فتح پور سے ہے۔کوئی مقام اس کا متبادل نہیں بن سکتا۔کیونکہ ہر انسان کااپنے مولد و مسکن سے انس و محبت کا ایک فطری رشتہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہر انسان کی جنت اس کی اپنی ہی ماں کے قدموں میں ہوتی ہے۔

میں نےاسی گاؤں میں آنکھ کھولی،بچپن گزارا،ماں باپ ،بہن بھائی،گلیاں کوچے،اہم محلہ آج بھی دل ودماغ میں ایسے ہی زندہ ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ جب بھی میں آنکھیں بند کرکے چشم تصور میں فتح پور کا نقشہ سامنے لاتا ہوں۔ محبت بھرا ماحول زندہ ہوجاتا ہے۔یہاں تک کےمرحوم ماں باپ ،عزیز رشتہ داروں ،بہن بھائیوں اورہمجولیوں کی باتیں بھی فضا میں سنائی دیتی ہیں۔

تو آئیے آپ کو فتح پور کی سیر کراتے ہیں۔فتح پور ضلع گجرات کا ایک معروف گاؤں ہے۔جو گجرات شہر سے سولہ کلو میٹر شمال مشرق میں ہے۔اس کے مشرق میں جلال پور جٹاں کا شہر ہےمغرب میں دولت نگر کا تاریخی قصبہ ہے۔شمال میں اعوان شریف ہے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں پر ۱۹۶۵ میں ہندوستان نے بمباری کی۔بعد ازاں پاک و ہند جنگ کا آغاز ہوا تھا۔یہ مقام چھمب جوڑیاں کے قریب ہے۔اس بارڈر پر جنرل ملک اختر حسین کے زیر کمان جنگ لڑی گئی ۔جس میں انہیں تاریخی فتح حاصل ہوئی اوراس جنگ میں ہندوستان کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔کیونکہ اس وقت ساری قوم یک جان تھی۔

۱۹۶۵ کی جنگ میں ہم محاذ پر گولہ باری کی ہولناک آوازیں سنتے تھے۔رات کی تاریکی میں گولہ باری سے پیدا ہونے والی آگ کے شعلے بھی نظرآتے تھے۔ہمارے گاؤں کے بہت سے نوجوانوں کو فوج میں جاکرمادر وطن کی حفاظت کا اعزاز حاصل ہے۔وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرتےہوئے پانچ چھ جوانوں کو تو جام شہادت پینے کی سعادت بھی ملی ہے۔ فتح پور قدیم سے ہی علاقہ بھر میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔مضافات کے سب چھوٹےدیہات اپنے آپ کو فتح پور کے نام سے ہی منسو ب کرتے ہیں۔

ڈلی (برساتی ندی) فتح پور کی شرقی جانب ایک بہت ہی خوبصورت ندی بہتی تھی۔جس میں صاف شفاف ،آئینہ کی طرح چمکدار پانی سال بھر بہتا رہتا تھا۔اس زمانہ میں پورے گاؤں میں چند ایک کنویں تھے جن میں سے لوگ بنیادی ضروریات ،نہانے دھونے اور پینے کے لئےپانی حاصل کیا کرتے تھے۔باقی ندی کا سدا بہار بہتا پانی سب افراد کی بہت سی متفرق ضروریات پورا کردیتا تھا۔کہتے ہیں یہ ندی کہیں دورکشمیر میں چشموں سے نکلتی تھی۔جو ہم سب کے لئے ایک بہت بڑی رحمت خداوندی تھی۔جس کے ساتھ ہمارےبچپن کی بہت ساری انمٹ یادیں وابستہ ہیں ۔سنا ہے اب تو اس کا نام ونشان بھی مٹ چکا ہے۔ کیونکہ شاید لوگوں کے رویہ سے دل برداشتہ ہو کر اس نے بہنا بند کردیا ہے۔

کچی سڑک ہمارے گاؤں کے شمال میں ایک کچی سڑک گزرتی ہے۔جو راولپنڈی اور سیالکوٹ کو ملاتی تھی۔ اس کی دونوں اطراف میں شیشم کے بلند وبالادرخت ہوتے تھے۔یہاں لوگ اکثر وبیشتر پیدل ہی سفر کرتے تھے۔سال میں ایک دوبار افواج پاکستان اپنی سالانہ مشقوں کے سلسلہ میں ادھر سے گزرتیں۔ہم لوگ بڑے اشتیاق سے فوجی گاڑیوں اور بھاری بھرکم ٹینکوں کو دیکھا کرتے تھے۔

یہ سڑک ایک اہم راہ گزر ہونےکے علاوہ ہمارے لئے ایک پارک کا درجہ رکھتی تھی۔بچے یہاں کھیل کر اپنا شوق پورا کر لیتے۔کوئی وہاں سے تھوڑا ایندھن لے آتا۔تازہ مسواکیں ہر آن میسر ہوتیں۔ہمارے اساتذہ کرام تو طلبہ کی گوشمالی اور انہیں قابل بنانے کےلئے ان شیشم کے درختوں سے صحت مند مولی بخش (ڈنڈا)لے آتے تھے۔

فتح پور علم کے میدان میں جب میں نے آنکھ کھولی۔اس دور میں فتح پور میں لڑکوں کاایک مڈل سکول تھا۔جو گاؤں کےشمال میں تھا۔ بچیوں کے لئے گاؤں کےجنوبی محلہ میں ایک پرائمری سکول ہو اکرتا تھا۔ فتح پور کے مضافات سے تقریباً دس دیہاتوں کے بچے تحصیل علم کی خاطر فتح پور میں ہی آیا کرتے تھے۔ جب میں کلاس ہشتم کا طالب علم تھا اس وقت میری کلاس میں تقریبا’ پندرہ سولہ طالب علم تھے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

سکول ہمارے گھر سے تقریباًنصف میل کی مسافت پر تھا۔ عمارت پختہ تھی۔کلاس رومز کے سامنے ایک برآمدہ تھا۔جس کی دیواروں پر بڑی خوش خطی سے جلی حروف میں اشعار تحریر تھے۔ایک شعر آج تک مجھے یاد ہے۔ نہال اس گلستان میں جتنے بڑھے ہیں ہمیشہ ہی نیچے سے اوپر چڑھے ہیں

سادہ ،پُروقار ،محنتی اور مخلص اساتذہ کرام اہل خرد نے استاذ کو باپ کا درجہ بخشا ہے۔کیونکہ یہ استاذ ہی ہے۔جوبچے کی فکری اور عملی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اس کو شرف انسانیت سے متعارف کراتا ہے۔اس لئے اپنےاساتذہ کرام کا ذکر خیر اور ان کے لئے نیک تمنائیں شامل حیات رہنی چاہیں۔ ان ہستیوں کا ہماری شخصیات کو کسی اعلی مقام پر پہنچانے میں بڑا عمل دخل ہے۔

اس دور میں چونکہ ماحول میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کا قحط الرجال تھا۔اس لئے ان مدارس میں اساتذہ کی تعلیم بظاہر بہت ہی بنیادی ہواکرتی تھی۔ آپ کو اس بات سے اندازہ ہوجائے گا ۔ کہ ہمارے سکول میں ایک استاذ مکرم کرم شاہ صاحب ہوتے تھے۔جو آٹھ جماعتیں پاس تھے اور آٹھویں جماعت کو ہی پڑھاتے تھے۔لیکن ایک بات ہے کہ وہ اساتذہ کرام اپنے کام میں بہت زیادہ مخلص ہوتےتھے۔سکول میں آٹھ کلاسز تھیں اور آٹھ ہی اساتذہ تھے۔مکرم چوہدری حاکم علی صاحب آف شیر گڑھ اس ادارہ کے ہیڈ ماسٹر تھے۔جو غالباً بی اے بی ایڈ تھے۔ بڑی بارعب شخصیت کے مالک تھے۔

مجھے یاد ہے۔جب میں کلاس ہفتم میں تھا۔ہمارے ایک استاذ مکرم محمد خان صاحب جو فتح پور کے ایک مضافاتی گاؤں کریم داد سے آیا کرتے تھے۔ان کی ایک ٹانگ کمزور تھی۔ جس جی وجہ سےلنگڑا کر چلتے تھے۔یہ اپنے گاؤں سے سائیکل پر سوار ہو کر سکول آتے تھے۔سردی ہو یا گرمی ہمیشہ ہی قبل از وقت سکول آجاتے۔رستہ میں انہیں ڈلی (برساتی ندی)عبور کرنی پڑتی۔جو ایک معذور آدمی کے لئے کوئی آسان کام نہ تھا۔الغرض سب اساتذہ اس قدر اخلاص اور فرض شناسی سے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی سعی مسلسل کرتے کہ آج بھی میرے دل و دماغ میں ان شفیق اور مخلص اساتذ ہ کےنقوش رقم ہیں۔

امتحان کلاس ہشتم۔ورنیکلر فائنل جب میں آٹھویں کلاس میں تھا۔اس دور میں آٹھویں کلاس کا ورنیکلر فائنل کا امتحان کہلاتا تھا۔ہمارے علاقہ کے جملہ مدارس کا سنٹر دولت نگر نامی قصبہ تھا۔ تمام قریبی مدارس کے طلبہ وہاں امتحان کے لئے آتے تھے۔اور ان ایام میں ان سب طلبہ اور اساتذہ کاقیام دولت نگر ہائی سکول میں ہوتا تھا۔سب طلبہ کلاس رومز میں ٹاٹ پر سوتے تھے۔ یہ قیام غالباً دس روز کے قریب ہوتا تھا۔دولت نگر ہمارےگاؤں سے تقریبا پانچ میل کی مسافت پر تھا۔اپنے استاذ مکرم محمد اکرم صاحب کی نگرانی میں ہم پیدل ہی دولت نگر گئے۔سب طلبہ نے غالبا دو دو روپے فی کس کے حساب سے ادائگیمک کی۔ہم نے کھانے پینے کا سامان ایک گدھی پر لادا اور دولت نگر پہنچ گئے۔ہمارے ساتھ ہمارے محلہ سے ایک بزرگ چاچارمضان صاحب تھے۔جن کا کام ہمارے لئے کھانا تیار کرنا تھا۔

اس دور میں یہ ہمارا پہلا طویل ترین سفر تھا۔ ہمارے گاؤں میں تو صرف چند ایک دوکانیں تھیں ۔لیکن دولت نگر میں باقاعدہ ایک بازار تھا۔جو ہمارے لئے ایک بڑی بات تھی۔ہماری زندگیوں میں یہ ایک نیا تجربہ تھا۔امتحان سے فارغ ہو کر واپس اپنے گاؤں لوٹے۔اس مختصر سے سفر ی تجربہ نے ہمیں یہ احسا س بخش دیا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں جس سے باقی لوگ نا بلد ہیں۔ ہم لوگ کئی روز تک اہل خانہ اور اپنےدوستوں کو بڑے فخریہ انداز میں دولت نگر میں قیام کے دران اپنے تجربات اور مشاہدات بتاتے رہے۔ہمار ےبزرگ ہماری سادگی پر بس مسکرا دیتے۔

میرے ایک پروفیسر دوست کی بچی سکول داخل ہوئی۔اس کی ٹیچر نے اسے بتایا کہ زمین گول ہے۔بچی نے گھر آکر بڑے فخریہ انداز اپنے ابو جان سے کہا۔پاپا پتہ ہے کہ زمین گول ہے۔پروفیسر صاحب نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور چند بنیادی باتیں نظام شمسی کے بارے میں بچی کو بتائیں۔جس پر بچی بڑی حیرانی سےبے ساختہ بولی۔ابو آپ کو یہ کیسے معلوم ہے ۔آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔ اسے ہی بچپن کہتے ہیں۔ اس ادارہ کے لئے یہ بات قابل صد فخر ہےکہ اس مادرعلمی کی آغوش سے بہت سے قابل قدر جوہرپیدا ہوئے۔ جنہیں مختلف صورتوں میں ملی اور قومی خدمات جلیلہ کی سعادت ملی ۔جن میں ڈاکٹرز،پروفیسرز، ٹیچرز،دانشور،کاروباری شخصیات سیاست دان،وکلاء،اور پولیس اور فوج کے افسران بھی شامل ہیں۔

ادب واحترام ۔رشتوں کی پاسبانی ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ میرے بچپن کے دور میں ہمارے گاؤں کی تین اطراف میں بڑے بڑے تالاب ہوا کرتے تھے۔جو اب لالچ اور ہوس پرستی کی نذر ہوچکے ہیں۔ان تالابوں میں برساتی پانی جمع ہوجاتا تھا جو سارا سال کھڑا رہتا۔ لوگ اپنے مال مویشی کو وہاں سے پانی پلاتے ،نیز یہ آبی ذخیرہ بہت سی دیگرضروریات کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ یہ تالاب اس دور کے سوئمنگ پول بھی ہوا کرتےتھے ۔ کیونکہ یار لوگ یہاں تیراکی کا شوق بھی پورا کر لیا کرتے تھے۔ایک دفعہ چند مرغابیاں تلا ش معاش میں اڑتی اڑتی ہمارے محلے کے تالاب میں اتر گئِں ۔اس دور میں ہمارے گاؤں میں چند ایک لوگوں کے پاس بندوقیں ہوتی تھی۔جن میں مکرم سید منظور احمد شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ شاہ صاحب کو تالاب میں مرغابیوں کی آمد کا علم ہوا ۔انہیں بھی شکارکا شوق پیدا ہوا ۔وہ اپنی بندوق لے کر تالاب کی طرف چل پڑے۔انہیں دیکھ کربےشمار لوگ تالاب کے قریب جمع ہوگئے۔میں بھی ان تماش بین لوگوں میں شامل ہوگیا اور اتفاق سے جہاں پر شاہ صاحب مرغابی کی جانب بندوق تانے نشست لئے بیٹھے ہوئے تھے ۔میں بھی ان کے قریب ہی کھڑا تھا۔ہمارے گاؤں میں اس قسم کے شکار کا یہ پہلا موقع تھااور پہلی بار ہی لوگوں نے بندوق کو اپنےاتنے قریب سے چلتے دیکھنا تھا۔اس لئے لوگوں میں کافی جوش وخروش اور ھیجان نظر آرہا تھا۔شاہ صاحب اچھے نشانہ باز تھے۔پھر بھی احتیاط برتنی لازمی تھی۔جب شاہ صاحب بندوق چلانے کے لئےبالکل تیا ر ہوگئے۔ اتفاق سےعین اسی وقت ہمارے محلے کی ایک خاتون جس کا نام اللہ رکھی تھا۔وہ اپنی زمینوں کی طرف سے آرہی تھی۔ اس نے بھی یہ سار ماجرا دیکھا۔ وہ جب شاہ صاحب کے قریب پہنچی ۔اس نے زور سےکہا ۔ لوگو اگر ایک بے چارہ معصوم ساپرندہ تمہارے گاؤ ں میں آ ہی گیا ہے ۔آپ کیوں سارا گاؤ ں اس کو مارنے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں ۔جیسے ہی منظور شاہ صاحب کے کانوں میں اس خاتون کی یہ آواز پہنچی۔اس بزرگ خاتون کی درخواست یا خواہش کے احترام میں اسی وقت انہوں نے بندوق اٹھائی اور اپنے گھر کو چلےگئے۔

پیار محبت اور امن کا گہوارہ بنی نوع انسان میں فکری ،علمی،معاشی اور مذھبی اختلاف تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ ابنائے آدم ہابیل اور قابیل کے قصہ سے ہم سب آشنا ہیں۔ انسانی فطرت میں یہ جو فکری اختلاف ہے۔ اس کے غلط اور بےجا استعمال سے ا ختلافات پھر لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ہمارے دور میں بھی لڑائی جھگڑے ہوتے تھے۔اکثر تو صرف زبانی کلامی اورگالی گلوچ تک ہی ہوتے ۔کبھی کبھار ہاتھا پائی تک بھی نوبت آجاتی تھی۔چونکہ ڈانگ ،سوٹے کا دورتھا۔اس لئے بد نتائج محدود ہوتے تھے۔

مجھے یاد ہے۔غالباً۱۹۶۳ میں ہمارے گاؤں میں پہلی بار دو گروپس کے مابین باقاعدہ بندوقوں سے لڑائی ہوئی تھی۔جس میں کسی قریبی گاؤں کا ایک آدمی اکبر نامی قتل ہو گیا تھا۔اس واقعہ کے بعد کافی عرصہ فتح پور کی فضا کی میں خوف وہراس کے سائے لہراتے رہے۔ ایک لمبا عرصہ تک اس لڑائی اورخاص طورپرقتل کے واقعہ ہر درودیوار میں گونجتا رہا۔ ہمارے سکول کے بچے لکڑیوں کو رسیاں باندھ کر بندوقیں بنالیتے اور پھر آپس میں لڑائی کرتے۔جس کے نتیجہ ہر بار وہی اکبر نامی آدمی قتل ہوجاتا تھا۔اب تو سنا ہے بہت سے بچوں کے پا س اصلی پستول بھی ہوتے ہیں۔جن سے وہ محض کھیلتے نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں قتل بھی کردیتے ہیں۔

کیا زمانہ تھا۔سارا گاؤں ایک خاندان کی طرح جیتا تھا۔سب کی خوشیاں اور غمیاں مشترکہ ہوتی تھیں ۔لوگ اکٹھے بیٹھتے تھے۔گھنٹوں باتیں کرتے۔بچے اپنے دوستوں کے ساتھ دارہ میں کھیلتے ۔بچیاں اپنی سکھی سلہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی تھیں۔ہر کوئی اپنے سے بڑے کو بھائی،چاچا ،ماموں کہتا۔ہر بڑی عورت بہن ،ماصی یا پھپھی کہلاتی تھی۔مذہبی روادری تھی۔

عصر حاضر کا فتح پور کہتے ہیں ۔دنیا کی ترقی کا میں سب سے اہم اور بنیادی کردار پہیےکا ہے۔کیونکہ اگر پہیہ جام ہوجائے۔تو سارے کام دھرے کے دھرے رہ جائیں۔نقل و حمل نہ ہونے کہ برابر ہو جائے۔ترقیات کی فلک بوس عمارت زمین بوس ہو جائے۔

فتح پور میں جب سے کھاریاں سے سیالکوٹ والی سڑک بنی ہے۔جس کی وجہ فتح پور چوک وجود میں آگیا ہے۔ اس سے گاؤں کی اہمیت ،شہرت اور افادیت فرش سے عرش پر پہنچ گئی ہے۔کہاں چند ٹانگے بھاگا کرتے تھے۔اب گاڑیوں کی ریل پیل ہوگئی ہے۔

کچی گلیاں پختہ ہو چکی ہیں۔کچے مکان کوٹھے عالیشان عمارات میں ڈھل چکے ہیں۔ آب گھر میں میسر ہےا گرچہ اب خوش آب نہیں رہا۔ایک وہ دور تھا جب لو گ گاؤں سےگجرات تک پیدل ہی جایا کرتے تھے۔اب توایک محلہ سے دوسرے محلہ میں جانے کے لئے بھی سواری میسر ہےاور اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔فتح پور میں گوشت کی اکلوتی دوکان ہوا کرتی تھی۔جایںہفتہ میں غالباً دو دن ایک جانور ذبح کیا جاتا تھا۔اس جانور کو ذبح کرنے سے پہلے باقاعدہ بناؤ سنوار کے بعدپورے گاؤں میں پھرایا جاتا تھا۔ لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ایک ڈھولیا بھی ساتھ ہوتا تھا۔

فتح پور میں تین چار چھوٹی چھوٹی پرچون کی دوکانیں ہوتی تھیں۔اب سینکڑوں چھوٹی بڑی دوکانیں ہیں۔تعلیمی میدان میں بہت ترقی ہوچکی ہے۔بہت سے بچے اور بچیاں بی اے تک تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔اب تو گجرات یونیورسٹی بھی چند کلو میٹر کے فاصلہ بن گئی ہے۔ نئی تہذیب اور ترقی بام عروج پر پہنچ رہی ہے۔طبی سہولیا ت نہ ہونے کے برابر تھیں۔اب تو سرکاری اسپتال کے علاوہ پرائیویٹ طبی سہولیات کے مراکز آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔الغرض ہر نعمت اور سہولت جس کا تصور آپ کسی بڑے شہر میں کرسکتے ہیں ۔وہ آج آپ کو فتح پور میں میسر ہے۔

لمحہ فکریہ ایک وہ دور تھا جب پانچوں وقت مؤذن کی دلفریب آواز گونجتی تھی اور لوگ پیار محبت سے مسجدوں کو آتے جاتے تھے۔اب لاؤڈ سپیکر کی آوازیں گرجتی ہیں مسجد ں میں جانے والے بے چارے نمازی سہمے ہوئے اور خائف نظر آتے ہیں۔ مساجد کے دروازوں پر گن مین بندوقیں تانے مستعد کھڑے ہوتے ہیں۔جوہرآنے والے نمازی کو بنظر غور دیکھتے ہیں۔شاید یہ نمازی نہیں بلکہ کوئی حملہ آور ہے۔مساجد میں ذکر الہی اور تقدس کے ماحول کی بجائے خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

لیکن ان سب نعمتوں کے باوجود جیسا کے اللہ میاں قرآن میں فرماتا ہے۔ جب جہنم دھکائی جائے گی اور جنت قریب لائی جائے گی۔ عجیب کیفیت ہے کوئی ایسا ہی معاملہ نظر آتا ہے۔سب ظاہری نعمتوں کے میسرہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہے۔سکون نہیں ہے ۔امن نہیں ہے۔صلح جوئی،روادری،تحمل بردباری اور شرم وحیا کی کمی ، رشتوں کا احترام ، چھوٹے بڑے کے متعلق فرائض اور حقوق کا فقدان عروج پر پہنچا ہوا ہے۔نشہ کی لعنت،چور بازاری ،ڈاکے ،اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت نے ہر شہری کوصلیب پر لٹکا رکھا ہے۔گھروں میں تو بڑی بڑی پختہ اور اونچی دیواریں بن گئی ہیں۔جن کے ساتھ ساتھ دلوں میں بھی نفرت وتعصب کی بلند وبالا اور مستحکم فصیلیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۔اس نفسا نفسی کے دور میں ہر شخص جو آپ کو خوش و خرم نظر آتا ہے۔اس کا سینہ کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی مسکراہٹ مصنوعی ہے۔بظاہر سکون کا لبادہ اوڑھے ہوئےہے ۔لیکن اس کا دل ہرآگے پیچھے آنے والے خائف ہے۔

درد مندانہ التماس ہے : ہم میں سے ہر شخص کواپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے۔ حسد ،کینہ،تعصب ،لالچ ،بغض اور اناء نفس سے بالا ہو کر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ہم کیوں یہاں کھڑے ہیں۔ہم یہاں کیسے پہنچ گئے۔یہ ایک طویل کہانی ہے۔جسے سب جانتے ہیں اظہار جرأت نہیں ہے۔ یہ ایک درد ہے ۔یہ ایک درد مندانہ ندا ہے۔یہ بات صرف فتح پور کی نہیں۔ پورے وطن عزیز کی ہے۔ اےاللہ تعالی ہمیں انسانیت کی نعمت سے نواز ۔آمین