صارف:Obaid Raza/فتوحات
==فتوحاتِ مکیّہ، طربیۂ خداوندی اور جاویدنامہ==ایک تقابلی مطالعہمحمد شفیع بلوچابن عربی کی فتوحاتِ مکیّہ، دانتے کی طربیۂ خداوندی اور اقبال کی جاویدنامہ، یہ تینوں کتابیں، سماوی سفر نامے اور آسمانی تماثیل ہیں۔ ان تینوں میں بعض اقدار مشترک ہیں۔ ان کا مأخذ معراج نبوی ا ہے اور ان میں بڑا فرق یہ ہے کہ فتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی میں تمثیلی مظاہر اور معمات و اشارات کا بکثرت استعمال اور ذکر ہوا ہے اور اُن کی وجہ سے ان دونوں عظیم تصانیف کے بعض اسرار اب تک واضح نہیں ہوئے۔ جاویدنامہ میں بھی اگرچہ تمثیلی مظاہر اور معمات و اشارات ہیں لیکن نسبتاً کم۔ فتوحاتِ مکیّہ میں احوال و مقامات اور مشاہدات و واردات کا بیان ہے جبکہ ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ میں تخیل کی بلند پروازی کے ساتھ ساتھ فلسفہ طرازی بھی ہے۔ اسی طرح فتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی حیات بعد الممات کے حقائق و اسرار کو سمجھنے کی مساعی ہیں۔ اقبال کی توجہ حیات بعد الموت کے علاوہ حیات حاضرہ، حیاتِ مطلق اور بقائے حیاتِ انسانی پر بھی صرف ہوئی ہے۔اگر احادیثِ معراج، فتوحاتِ مکیّہ، ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو وہ تمام فروق اور مراتب سامنے آجاتے ہیں جو ایک نبی، ولی، شاعر فلسفی اور فلسفی شاعر کو ایک دوسرے سے متمیّز کرتے ہیں۔ ابن عربی۱؎کو تصوف و طریقت اور فلسفہ الہٰیات میں امام ومجتہد کا مقام حاصل ہے۔ اُن کی تمام تصنیفات میں فتوحاتِ مکیّہ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے جو اُن کے ذہنی، فکری، روحانی اور زمینی و آسمانی سفر کے احوال پر مشتمل ایک عظیم مابعد الطبیعاتی، مکشوفی اور ملکوتی تصنیف ہے۔ دنیا کی اس عظیم اور معرکہ آرا کتاب کو انھوں نے ۵۹۸ھ اور ۶۳۶ھ کے درمیانی سالوں میں مرتب کیا۔ کئی ہزار صفحات پر مشتمل چودہ سے زائد ضخیم جلدوں میں یہ کتاب مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے اپنے ولی صفت دوست شیخ عبدالعزیز ابو محمد بن ابی بکر قرشی نزیل تیونس کے نام معنون کیا۔ شیخ عبدالعزیز سرزمین مغرب میں پیشوایانِ تصوف میں سے تھے اور شیخ ابومدین (ابن عربی کے مرشد) کی صحبت اٹھائے ہوئے تھے۔ ابن عربی فتوحاتِ مکیّہ کے رقم کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں نے اس کتاب کا نام فتوحاتِ مکیّہ فی معرفۃ اسرار المالکیہ والملکیہ اس لیے رکھا کہ اس کتاب میں، میں نے اکثر وہ باتیں بیان کی ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے بیت مکرم کے طواف اور حرم شریف میں مراقبہ کے دوران عطا فرمائیں۔ میں نے اس کے ابواب مقرر کیے اور اس میں لطیف معانی بھردیے۔۲؎ہزاروں صفحات پر مشتمل یہ معرکہ آرا کتاب اسلامی ثقافت پر اس کے وسیع معانی و مفاہیم کے اعتبار سے ایک مبسوط اور جامع تالیف ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی تمام کڑیوں کو ملا کر تصوف اور فلسفہ تصوف کا وہ عظیم الشان نظریہ استوار کیا جو، اُن سے پہلے اور ان کے بعد اس قدر جامعیت، اتنی دیدہ ریزی، اس درجہ وسعتِ نظر اور فکر کی ایسی گیرائی اور گہرائی کے ساتھ کبھی معرضِ وجود میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر سید حسین نصر، فتوحاتِ مکیّہ کو شیخ کی سب سے اہم، برتر اور دائرۃ المعارفی کتاب قراردیتے ہیں۔۳؎فتوحاتِ مکیّہ کے مختلف ابواب میں شیخ کے روحانی تجربات، واردات اور جن مکاشفات کا بیان ہوا ہے وہ زیادہ تر ایک فرشتے کی وساطت سے ہوا۔ بہشت، دوزخ اور سیارگان کی سیاحت کی تفصیل مختلف جگہوں پہ مکاشفات کے اسلوب میں ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی متعدد دیگر کتب کے علاوہ فتوحاتِ مکیّہ میں ھویت الٰہی کے ظاہر و باطن اور آنحضرت ا سمیت متعدد انبیاو رسل علیہم السلام کے عینی مشاہدات کے واقعات رقم کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت خضر علیہ السلام سے کئی مرتبہ ملاقات کی اور انھیں پانی پر چلتے اور فضائے آسمانی میں حصیر بچھا کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ یہی نہیں بلکہ کئی بزرگوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے پایا۔ انھوں نے کعبہ کے اندر عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زاہد و عابد لڑکے احمد السبتی کی روح سے ملاقات کی اور اس سے حالات دریافت کیے۔ اس طرح مشہور صوفی ابوعبدالرحمن السلمی (المتوفی۴۱۲ھ) کی روح سے بھی ملاقات کی۔ بڑے بڑے اوتاروابدال و اقطاب سے بھی ملے، نیز تجلی کی حالت میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ذوالنون مصریؒ، حضرت سہیل بن عبداللہ تستریؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حسینؒ بن منصور حلاج، ابوعبداللہ المرتعشؒ اور ابن۔عطاؒ سے ملاقات اور گفتگو کی۔۴؎ابن عربیؒ کی معراج بنیادی طور پر سات آسمانوں (افلاک) کی سیر پر مشتمل ہے یعنی فلکِ قمر، فلکِ عطارد، فلکِ زہرہ، فلکِ شمس، فلکِ مریخ اور فلکِ زحل۔ اس آسمانی سفر پر دو کردار روانہ ہوتے ہیں… فلسفی براق پر سوار ہے اور عارف رفرف پر۔ جنت کے دروازوں پر دونوں بہ یک وقت پہنچتے ہیں لیکن دونوں کا استقبال مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ عارف کو انبیا علیہم السلام کی طرف سے پذیرائی ملتی ہے اور فلسفی کو ’’عقولِ عشرہ‘‘ (Intellects) کی جانب سے۔ فلسفی یا حکیم، عارف کے اچھے حال کو دیکھ کر دل گرفتہ ہوتا ہے۔ تاہم عقولِ عشرہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسے طبیعات اور ہیئت افلاک کے بارے میں علمی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ تاہم وہ دیکھتا ہے کہ انبیا علیہم السلام عارف کو یہی مسائل ایک بلند تر نقطۂ نظر سے سمجھاتے ہیں۔ یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ عارف خود ابن عربیؒ کی علامتی صورت ہے۔ فلکِ قمر پر عارف کی ملاقات حضرت آدم ں سے ہوتی ہے۔ حضرت آدمں، عارف کو اسمائے حسنیٰ کے تخلیقی اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ فلکِعطارد پر حضرت عیسیٰں اور حضرت یحییٰں سے عارف کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہاں موضوعِ گفتگو معجزات اور کلمات کی تاثیرات ہیں۔ حضرت عیسیٰں جو روح اللہ ہیں، عارف کو اپنے معجزات کی حقیقت اور معنویت سے آگاہ کرتے ہیں۔ بیماروں کو تندرست کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا، جیسے معجزات زیرِبحث آتے ہیں۔ فلکِزہرہ پر عارف کی ملاقات حضرت یوسفں سے ہوتی ہے جو حسنِ ترتیب، حسنِ تناسب اور کائنات کی ہم آہنگی پر گفتگو فرماتے ہیں اور شاعری اور تاویل الاحادیث (تعبیرِ خواب) کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ فلکِشمس پر حضرت یونسں رات اور دن کی تبدیلیوں اور ان کی رمزیت کی تشریح کرتے ہیں۔ فلکِمریخ پر حضرت ہارونں اقوام کی قوت اور ان کے اقتدار کی رمزیت کو بیان کرتے ہیں اور عارف کی توجہ شریعتِخداوندی کی طرف مبذول کرتے ہیں جو غضب کے مقابلے میں رحم اور رحمت پر مبنی ہے۔ فلکِمشتری پر عارف کی ملاقات حضرت موسیٰں سے ہوتی ہے جن کی زبان فیض ترجمان سے ابنِعربی کے نظریۂ وحدت الوجود کا بیان ہوتا ہے۔ رسی کے سانپ بن جانے والے معجزے کے حوالے سے حضرت موسیٰں ثابت کرتے ہیں کہ تمام ہیئتوں کی قلبِماہیت ہوسکتی ہے۔ آخر میں فلکِزحل پر حضرت ابراہیم ں اخروی زندگی کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد روحانی سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے… عارف کو مزید عروج حاصل ہوتا ہے… اس سفر کے تمام مراحلِ تصوف اور الٰہیات کی صوری تشکیلات سے عبارت ہیں۔ انتہائی مراحل میں عارف سدرہ المنتہیٰ تک پہنچتا ہے۔ سدرہ (بیری کا درخت) کے نیچے چار دریا بہہ رہے ہوتے ہیں یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآن کریم۔ اس کے بعد عارف ثوابت (Fixed Stars) کی دنیا میں پہنچتا ہے جس میں ہزاروں فرشتے جاگزیں ہیں۔ ان پاک سرشت فرشتوں کے ہزاروں مساکن ہیں۔ عارف ان تمام مساکن تک پہنچتا اور ان کو دیکھ کر خداوندِقدوس کے انعامات کا اندازہ لگاتا ہے۔ آخری مرحلہ سفر میں فردوسِ بریں کا مشاہدہ ہوتا ہے اور عارف بلند ترین مقامات کی تجلی سے بہرہ اندوز ہوتا ہے۔۵؎طربیۂ خداوندی (Divine Comedy)، جسے دانتے۶؎ نے اپنی ۱۸ برس کی جلاوطنی کے دوران میں لکھا، اس کا نام بھی دانتے کا تجویز کردہ نہیں۔ اُس نے تو اس کا نام فقط کامیڈیا (Commedia) رکھا تھا۔ لفظ ’’ڈیوائن‘‘ کا اضافہ اس کے مداحوں اور قدردانوں نے کیا۔ اس کا یہ نام ۱۵۵۵ء میں شائع ہونے والے اڈیشن کا تھا۔ یہ تمثیلی انداز کی ایک بیانیہ نظم ہے جس کا آغاز ۱۳۰۷ء میں ہوا اور ا۱۳۲ء میں یہ نظم مکمل ہوئی۔ اس میں دانتے نے اپنے تخیلی معراج کے مشاہدات کو شاعری کی صورت میں قلمبند کیا جو اپنے عہد کے علوم و فنون، عیسائی اقوام کی مذہبی اور اخلاقی کمزوریوں اور سیاسیاتِ یورپ کے صحیح کوائف کا مرقع ہے۔ اسی واحد علمی و ادبی کتاب کی بدولت اُس زمانہ کی نسلوں کے دل و دماغ، اخلاق و عادات اور احساس و شعورِ حیات میں وہ ہیجان رونما ہوا جو کچھ عرصہ کے بعد یورپ کی عام علمی، مذہبی اور سیاسی نشاۃِ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس طویل تمثیلی نظم میں بصارت و بصیرت، لحن و سماعت، خوشبو و لمس، خوف و رحم اور مسرت و غم کے جذبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ دنیائے فن میں عظیم شعری آرٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ طوالت اور فنی ساخت کے اعتبار سے ابھی تک دنیا کی کوئی اور نظم یا شعری تصنیف اس کی حریف نہیں بن سکی سوائے علامہ اقبالؒ کی عظیم نظم جاویدنامہ کے جو طربیہ کے چھ سو سال بعد لکھی گئی۔طربیہ کو ساری مغربی دنیا اپنا سرمایۂ افتخار گردانتی ہے۔ اسے مغرب کے قرونِ وسطیٰ کا حاصلِ فکرونظر قرار دیا جاتا ہے بلکہ کارلائل کے خیال میں تو دانتے نے اس شاہکار کے ذریعے عیسویت کی گیارہ خاموش صدیوں کو زبان عطا کی ہے۔۷؎ یہ تلمیحات، اشارات اور علامات سے لبریز ایسا کلام ہے جو ہر قدم پر قابلِ تشریح اور محتاجِ وضاحت ہے۔ اس میں بلاشبہ شعریت کی عظیم خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ دینیات (عیسائیت) کے عناصر زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈیوائن کو بعض نقّادوں نے خالص مذہبی نظم قرار دیا ہے۔ خود دانتے اس کے بارے میں ایک خط میں لکھتا ہے:طربیہ لکھنے کا کام محض کسی خیال آرائی کی خاطر نہیں بلکہ ایک عملی مقصد کی خاطر شروع کیا گیا۔ اس ساری تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں‘ انھیں ابتری سے نجات دلائی جائے اور بابرکت زندگی کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔۸؎ طربیہ کو اطالوی زبان میں لکھ کر دانتے نے اطالوی زبان کو نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا اور اسے وہ کمال واعجاز بخشا کہ جلد ہی اس کا شمار دنیا کی مشہور زبانوں میں ہونے لگا۔ اب یہ اطالوی ادب میں ہی نہیں۔ بلکہ عالمی ادب میں بھی فکروفلسفہ اور ادب و فن کا ایک زندہ حوالہ ہے۔ دنیا کے مشہور ترین مصوروں نے اس عظیم تصنیف کے مختلف حصوں کی نقاشی کی ہے اور دنیا کی ہر وقیع اور مہذب زبان میں اس کا ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں بھی اس کے متعدد ترجمے ہوئے جن میں لارنس بینن کا ترجمہ زیادہ اہم ہے جس کے حواشی گرانٹ جنٹ نے تحریر کیے۔ علاوہ ازیں جیمس فن کاٹر (James Finn Cotter) کا ترجمہ بھی بہت شستہ ہے جو دانتے کی ویب سائٹ پہ دستیاب ہے۔ اردو میں عزیز احمد نے اطالوی سے براہِ راست منثور اور شوکت واسطی نے منظوم ترجمہ کیا، علاوہ ازیں ایک ترجمہ دانتے کا جہنم کے نام سے مولوی عنایت اللہ نے بھی کیا تھا۔طربیہ کے تین حصے ہیں۔ ۱۔ جہنم (Inferno) جس میں ۳۴ کینٹوز (سرود یا نغمے) ہیں۔ ۲۔اعراف یا برزخ (Purgatorio) کے ۳۳ کینٹوز ہیں اور ۳۔ بہشت (Paradiso) کے بھی ۳۳ کینٹوز ہیں۔ یہ سب کینٹوز ۱۴۲۳۳ مصرعوں پر مشتمل ہیں۔جہنم یا دوزخ میں انسانی زندگی کی سیاہ کاریوں کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اس نے زیادہ تر اپنے سیاسی مخالفوں کو گوناںگوں اذیتوں میں مبتلا دکھایا ہے۔ عذاب و اذیت کے مدارج کے اعتبار سے دوزخ کی درجہ بندی گناہ اور مدارجِ گناہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ دوزخ کے حلقے یا درجے جس قسم کے گنہگاروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر اخلاقی گنہگار ہیں، مثلاً ابن الوقت لوگ، شہوت پرست، شکم پرست، مغلوب الغضب لوگ، زندیق اور بد عقیدہ لوگ، کفر بکنے والے، ہر نوع کی اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہونے والے، مکار اور دھوکے باز لوگ وغیرہ۔ اعراف یا برزخ کے مکینوں کے بارے میں دانتے کا خیال ہے کہ وہ بعض اذیتیں برداشت کرلینے کے بعد روحانی پاکیزگی کے ایسے مقام تک پہنچ پائیں گے جہاں سے ان کے لیے بہشت میں داخل ہونا ممکن ہو جائے گا۔ اس مقام میں عذاب سہنے والوں میں اہلِ غرور، حاسدین، اہلِ حشم، تن آسان، کنجوس، بخیل، اسراف کرنے والے، شکم پرست، نفس پرست وغیرہ شامل ہیں۔ برزخ کا اختتام ایک خوبصورت مقام پر ہوتا ہے جسے ’’بہشتِ زمینی‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اعراف کا تصور عیسائیت کے لیے نیاتھا۔جنت میں روحانی مسرت و وجدان کی کیفیات کا بیان ہے۔ اس مقام پہ وہ ارواحِ جلیلہ ہیں جنہوں نے دنیا میں قابلِ رشک اخلاقی زندگی بسر کی تھی تاہم ابتدا میں ان روحوں کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے مذہبی اعمال میں کوتاہی برتی۔ دانتے کی دنیائے بہشت زیادہ تر عیسائیت کے خدمت گزاروں سے آباد ہے۔اس تصنیف کا ماحصل و ملخص یہ ہے کہ اگر انسان مشعلِ علم ہاتھ میں لے کر نیک نفسی اور پاک باطنی کے ساتھ آگے بڑھے تو وہ اس زندگی میں بھی دنیا بھر کی نعمتوں اور برکتوں سے فیضِ روحانی حاصل کرسکتا ہے۔ جس جہنم، اعراف اور بہشت کا اس نظم میں ذکر ہے وہ سوائے روح کی اخلاقی پستی اور بلندی کے اور کچھ نہیں ہے۔طربیہ اور معراج النبی(صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم)دنیائے ادب میں ایک طویل عرصے تک طربیہ کے مواد کو دانتے کی عبقریت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں سے منسوب کیا جاتا رہا۔ مغربی ادیب و مفکر کارلائل (۱۷۹۵ئ-۱۸۸۱ئ) نے تو دانتے کو ادبِ عالیہ میں سیر روحانی کے تصور کا موجد و مخترع قرار دیا تھا۹؎ لیکن مغرب ہی کے ایک نامور ہسپانوی مستشرق اور محقق پروفیسر میگوئیل آسن پلاسیوس (Miguel Asin Palacios) جو کہ اسپین کے ایک کیتھولک پادری اور میڈرڈ یونیورسٹی میں عربی زبان کا استاد تھا، نے ۱۹۱۹ء میں ایک معرکہ آرا کتابLa escatologia musalmana en la Divina Comedia (اسلام اور ڈیوائن کامیڈی) لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ ڈیوائن کامیڈی کے مآخذ میں اولاً معراج النبی ا کی اسلامی روایات اور ثانیاً وہ کتب تصوف و ادبِ اسلامیہ جن میں اسرارِ معراج اور صوفیہ کی خود اپنی سیاحتِ علوی اور مشاہدۂ تجلیات کا ذکر ہے، شامل ہیں۔ دانتے اور اسلام کے موضوع پر آج تک یہ کتاب بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آسن پلاسیوس کی یہ کتاب جب منظرِ عام پر آئی تو دانتے شناسوں کے حلقہ میں ایک کھلبلی مچ گئی کیونکہ اس کتاب کی بدولت دانتے کی شخصیت اور فن کے کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جو آج تک نظروں سے پوشیدہ تھے۔ مذکورہ کتاب میں پروفیسر آسن لکھتے ہیں:جب ڈینٹے الغیری اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصور اپنے ذہن میں لایا، اس سے کم از کم چھ سو سال قبل اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی جو محمدا کی مساکن حیاتِ مابعد کی سیاحتوں پر مشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ آٹھویں صدی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی کے اندر اندر مسلم محدثین، علما، مفسرین، صوفیا، حکما اور شعرا سب نے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کا لباس پہنادیا۔ کبھی یہ روایتیں شروح معراج کی شکل میں دہرائی جاتیں، کبھی خود راویوں کی واردات کی صورت میں اور کبھی ادبی اتباعی تالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر اگر ڈیوائن کامیڈی سے مقابلہ کیا جائے تو مشابہت کے بے شمار مقامات خود بخود سامنے آجائیں گے بلکہ کئی جگہ بہشت و دوزخ کے عام خاکوں، ان کے منازل و مدارج، تذکرہ ہائے سزاو جزا ، مشاہدۂ مناظر، اندازِ حرکات و سکناتِ افراد، واردات و واقعاتِ سفر، رموز و کنایات، دلیلِ راہ کے فرائض اور اعلیٰ ادبی خوبیوں میں مطابقتِ تامہ نظر آئے گی۔۱۰؎ جہاں تک دانتے کے مصادر کا تعلق ہے تو دانتے کے عقیدت مند اسے مسیحی اور ماقبل تاریخِ یورپ تک محدود کرکے دانتے کی عبقریت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لیکن معراجِ نبوی ا کی روایات اور ابن عربی کی اسرار و رموز سے معمور روحانی معراج جس کا فتوحاتِ مکیّہ میں گاہے گاہے ذکر ہوا ہے‘ سے بھرپور استفادہ کے بعد دانتے نے طربیہ کو خالصتاً ادبی انداز میں لکھا۔دانتے نے شاعری کا وجدان و رجل کے کلام سے حاصل کیا۔ مشہور لاطینی شاعر و رجل (۷۰ تا۱۹ق م) جو لیس سیزر کے عہد کا بے پناہ شعری صلاحیتوں کا مالک، شائستہ، متحمل مزاج اور نیک طینت شاعر تھا۔ ایک نیک شخص کے عقل کے استعارے کے طور پر دانتے اسے اپنا رہنما بناتا ہے اور اس سے اپنے احوال بیان کرتا ہے۔ورجل کی تصنیف اینیڈ (Aeneid)‘ جو ایک طویل رزمیہ ہے، سے دانتے نہ صرف بہت متاثر تھا بلکہ اس سے اس نے بہت کچھ اخذ و حاصل کیا۔ ورجل کو وہ اپنا معنوی استاد اور مرشد تسلیم کرتا ہے۔مذہبی فکر و شعور، دانتے نے تھامس ایکوئنس کی تحریروں سے اور ایمان و ایقان سینٹ آگسٹن سے حاصل کیا۔ جبکہ خیالی سفرِ سماوی کی تفصیلات اُس نے معراج النبی ا کی روایات سے اخذ کیں۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ طربیہ سے قریباً چھ سو سال پہلے اسلام میں معراج النبی ا کی وہ تمام تفاصیل موجود تھیں جن میں بہشت اور دوزخ کے خاکے اور منازل و مدارج، جزاو سزا، مشاہدات و مناظر، اندازِ حرکات و سکناتِ افراد اور اس عظیم سفر کی واردات اور رموز و کنایات و اشارات کے خزائن ہیں۔ معراج النبی ا کے بعد اس کے مصادر محی الدین ابن عربی کی فتوحاتِ مکیّہ اور الاسریٰ الی مقام الاسریٰ، منصور حلاج کی طواسین، ابوالعلا معری کا رسالۃ الغفران اور ابن سینا کا رسالۃ الطیر ہیں۔ رسالۃ الطیر، جس میں روح کے طیران یا پرواز سے بحث کی گئی ہے، اس کا ترجمہ دانتے سے قبل لاطینی زبان میں ہوچکا تھا اور فرانس کے میوزیم واقع پیرس میں موجود تھا جہاں دانتے نے جلاوطنی کا زمانہ گزارا۔ علاوہ ازیں خود عیسائیت میں ٹنڈل البریک آف مانٹے کسینو، جہنم، اعراف اور بہشت کی فرضی اور خیالی سیر البریک کا خواب کے نام سے لکھ چکا تھا جس میں اس نے دکھایا کہ سینٹ پیٹر نے اسے جہنم اور اعراف کی سیر کرائی جہاں اسے گنہگاروں کے مختلف عذابوں کا حال سینٹ پیٹر بتاتا ہے۔ وہ سات آسمانوں کو عبور کرکے بہشت میں بھی جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دانتے کے سامنے تھا۔ ان تمام مصادر کا ذکر کیے بغیر ڈیوائن کامیڈی میں دانتے نے اپنے ہاں کے سیاسی و تاریخی تناظر کے ساتھ کچھ ایسا اسلوب اختیار کیا کہ طویل عرصہ تک یورپ میں اپنی شاعرانہ و حکیمانہ قابلیتوں کا لوہا منوایا۔پروفیسر آسن کی تحقیق کے مطابق معراج کی روایت مغرب میں ہسپانوی علما و صوفیائے اسلام کے ذریعے پہنچی۔ دانتے نے محی الدین ابنِ عربی کی کتاب فتوحاتِ مکیّہ سے بہشت، دوزخ اور اعراف اور ان کی تمام منازل و مناظر کو نقل کیا۔ اسی طرح تمام علومِ مروجہ پر اپنی سیر کے دوران میں بحثیں کیں۔ البتہ سیاسی اور تاریخی واقعات وغیرہ کی بحث سے اپنی کتاب کی خوبیوں کو بڑھایا اور اپنے مآخذوں کا ذکر نہ کرکے ایک آنے والے طویل زمانۂ یورپ پر اپنی شاعرانہ و حکیمانہ خوبیوں کا سکہ بٹھالیا۔۱۱؎ میگویل آسن، نے ابن ابی حاتم، ابن جریر، طبری، بیہقی وغیرہ کی روایاتِ معراج کی جزئیات کو ترتیب دے کر دانتے کی طربیہ کا معراج سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے:دونوں جگہ خود صاحب واقعہ نے واقعہ بیان کیا ہے۔ دونوں جگہ سفر رات میں شروع ہوتا ہے اور ایک اجنبی رہبر نیند سے بیدار ہونے کے بعد ملتا ہے۔ دونوں جگہ شروع میں پہاڑ کی چڑھائی آتی ہے۔ اعراف، دوزخ اور جنت کی سیر دونوں واقعات میں ہے اگرچہ سیاق و سباق اور تفصیلات میں فرق ہے۔ پیغمبرِ اسلام ا نے جن ابتدائی پانچ سزاؤں کو دیکھا وہ اسلام کا اعراف ہے۔ چوتھا دائرہ جہنم کا ہے جو کافروں کے لیے مخصوص ہے۔ باقی واقعات بچوں، اولیا، شہدا اور مومنین کی جنت سے متعلق ہیں۔ دونوں جگہوں پر قصہ کا اختتام عرشِ الٰہی پر ہوتا ہے۔ دونوں واقعات میں رہبر خود اپنی زبان سے گنہگاروں کے گناہوں اور نیکوکاروں کی نیکیوں کو بیان کرتا ہے۔ دونوں واقعات میں سفر کرنے والا ان لوگوں کی روحوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے شناسائی رہ چکی ہے۔ دونوں جگہوں پر دوزخ کی سیرکی ابتدا میں مسافر کو ندامت، غصہ اور تکلیف کی آوازیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔۱۲؎ اسلامی اعراف اور دانتے کے اعراف کے مناظر میں خاصی یکسانیت ہے۔ دانتے نے اعراف کے سات دروازوں اور سات دیواروں کا ذکر کیا ہے وہ اسلامی بہشت کی آٹھ دیواروں اور آٹھ دروازوں کی نقل ہے۔۱۳؎ معراج میں اعراف، سینۂ آدم اور بہشت کے چار اخروی مرحلوں کو الگ الگ دکھایا گیا ہے۔ اوپر جانے کے لیے ایک ہی درخت کا زینہ ہے۔ یہاں رہبر دو فرشتے ہیں جبکہ دانتے کے رہبر انسان ہیں۔ دونوں جگہ داروغۂ دوزخ کا ذکر ہے۔ دانتے کا داروغۂ دوزخ مینوس (Minos) ہے۔ دونوں جگہ سفر کی ابتدا یروشلم سے ہوتی ہے۔ دونوں واقعات میں گناہوں اور ان پر دیئے جانے والے عذابوں میں مناسبت دکھائی گئی ہے…زانی، سودخور کی سزا دونوں جگہ یکساں ہے۔ دونوں جگہوں پر یہ لوگ آگ کی لپیٹوں میں بہتے ہوئے دکھائے گئے ہیں… دونوں واقعات میں ایک ندی ملتی ہے جو اعراف کو بہشت سے جدا کرتی ہے۔ دونوں جگہ پر مسافر اس ندی کا آبِ شیریں پیتا ہے۔۱۴؎ دانتے کی بہشت اور اسلامی بہشت میں خاصی یکسانیت ملتی ہے۔ دونوں میں رہبر ایک ہے، معراج میں جبریل اور طربیہ میں بیاترچے۔ دونوں واقعات میں افلاک کی سیر ہوتی ہے اگرچہ تعداد اور ہیئت کا فرق موجود ہے۔ دانتے کے سات افلاک بطلیموسی ہیئت سے مستعار ہیں۔ اس نے آٹھویں فلک، فلک ثوابت، نویں فلک فلکِ شفاف اور علیین (Empyrean) کا اضافہ کیا ہے۔ اسلام میں اس کے مقابلے میں افلاکِ سبعہ کے علاوہ سدرۃ المنتہیٰ، بیتِ معمور اور عرشِ الٰہی ہیں۔ معراج کا رہبر جبریل فرشتہ جبکہ دانتے کی رہبر ایک انسان بیاترچے ہے جسے ملاء اعلیٰ کے سفر میں’ عملِ تحسین‘ کے ذریعے فرشتہ بنادیا جاتا ہے جو خدا کی اجازت سے دانتے کو عرشِ الٰہی تک لے جاتا ہے۔ دونوں جگہوں پر سفر فضا میں ہوتا ہے۔ ہر آسمان پر مسافر وہاں کے رہنے والوں سے بات چیت بھی کرتے ہیں۔ اسلامی افلاک میں پیغمبر رہتے ہیں جو طربیہ میں صوفی بن جاتے ہیں۔ دونوں کا ادبی ڈھانچا ایک جیسا ہے اگرچہ فنی اور روحانی تفصیلات میں فرق موجود ہے۔۱۵؎ طربیہ اور فتوحاتِ مکیّہفتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو مشابہات کے بے شمار مقامات اور چند اہم امور سامنے آتے ہیں۔ بہشت و دوزخ کے خاکے اور مدارج و مناظر، افراد کی حرکات و سکنات کا انداز، واردات و واقعاتِ سفر، رموز و کنایات وغیرہ جیسی متعدد مطابقتیں نظر آتی ہیں۔ دانتے اور ابن عربی، دونوں کی تمثیلوں میں سفر ایک علامت ہے۔ ابن عربی کی تمثیل میں مسافر دو ہیں، ایک فلسفی دوسرا صوفی۔ دانتے نے ورجل کی ذات میں فلسفی اور صوفی دونوں پہلو شامل کردیے ہیں۔ دونوں کے یہاں فلسفی کو مسائلِ فلسفہ و طبیعات اور صوفی کو مسائل دینیات و الٰہیات کے متعدد پہلو مختلف مقامات پر نظر آتے ہیں۔ ابن عربی اور دانتے دونوں کے ہاں سماوی سیاحت کا آغاز ایک پہاڑ کے قریب سے ہوتا ہے۔ابن عربی نے دوزخ کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں دوزخ کے سات حلقے یا پرتیں ہیں جو الگ الگ گناہوں کی سزا کے لیے ہیں۔ ہر حلقہ یا پرت میں ایک سو ذیلی حلقے یا پرتیں ہیں جن میں الگ الگ مسکن یا قید خانے بنے ہوئے ہیں۔ ابن عربی کے نزدیک دوزخ ایک ایسی کھائی ہے جو جیسے جیسے گہری ہوتی جاتی ہے نیچے سے اس کا قطر کم ہوتا جاتا ہے۔۱۶؎ دانتے کے نزدیک دوزخ کی پرتوں کی تعداد دس ہے اور سزاؤں کی تفصیلات میں بھی ابن عربی اور دانتے کے یہاں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔۱۷؎ دانتے کے دوزخ میں سزا سرمدی ہے جس کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اسلامی روایتوں میں جنت کو ایک درخت بھی کہا گیا ہے۔ ابن عربی کی جنت میں فلک دائم الحرکت میں ایک درخت ہے جس کی شاخیں ساتوں افلاک تک پھیلی ہوئی ہیں اور جنت کے ہر انفرادی مسکن میں ایک شاخ موجود ہے۔ یہ شجرۂ رضوان ہے جو کسی گلاب کا تاثر دیتا ہے۔۱۸؎ افلاکِ ہیئت کا دانتے کا تصور ایک عظیم درخت جیسا ہے جس کی جڑیں علیین میں ہیں اور جس کی شاخیں تمام افلاک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دانتے اس تصور کو اس وقت پیش کرتا ہے جب وہ فلک مشتری پر پہنچتا ہے۔۱۹؎ دانتے نے اپنی نظم میں جنت کے حوالے سے محصور باغ، سلطنت جس پر حضرت عیسیٰں اور حضرت مریم ں حکومت کرتے ہیں اور ایک پہاڑی جس پر مصطفین یکجا ہوکر نورِ الٰہی کا مراقبہ کرتے ہیں اور ایسے ہی دوسرے الفاظ و استعاروں کا استعمال کیا ہے۲۰؎ جو ابن عربی کے ہاں موجود ہیں کہ جنت ایک عظیم باغ ہے جس کے سات حصے ہیں، نور کی سات دیواروں نے یہ تقسیم کی ہے۔ جنت عدن میں ایک سفید براق پہاڑی ہے جہاں ذاتِ الٰہی کا مراقبہ کرنے والے جمع ہوتے ہیں۔۲۱؎ آسایشِ جنت اور اخلاقی ڈھانچا میں دونوں تخلیق کاروں کا ایک جیسا رویہ ہے۔ دونوں کہتے ہیں کہ ہر عمل خیر کا بدلہ جنت میں موجود ہے۔۲۲؎ ابن عربی کی جنت میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور ایمان پر فوت ہوئے۔ دوسرے وہ جو اسلام سے قبل فوت ہوئے مگر الہامی مذاہب پر عمل کرتے رہے۔ دانتے کی نظم میں بھی اس طرح کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں۔ اسی طرح ابن عربی نے جنت نشینوں کے مدارج کی جس طرح تقسیم کی ہے ویسے ہی عرش، کرسی اور مدارج نشست کے الفاظ دانتے کے یہاں بھی ہیں۔ ابن عربی نے حضرت آدمں کے ساتھ آنحضرت ا کو دکھایا ہے جبکہ دانتے نے حضرت آدمں کے ساتھ سینٹ پیٹر کو۔ یہ مقام دونوں واقعات میں ایک ہی دائرہ میں ہے۔۲۳؎ بہشت والے اپنے مقامِ علیین سے نکل کر مختلف افلاک کی صورتوں میں دانتے کے سامنے آتے ہیں جو اس کا استقبال کرتے ہیں یا خلا میں حظ کی مختلف کیفیتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ دوبارہ وہ علیین میں چلے جاتے ہیں جہاں دانتے کو سبھی ایک مجمع کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ابن عربی کی تمثیل میں بھی یہ حصہ موجود ہے۔ اس کی ملاقات مختلف انبیا سے مختلف افلاک میں ہوتی ہے جو اس کا خیر مقدم کرنے آتے ہیں بعد میں یہ سبھی انبیا فلکِ نجوم میں ایک مجمع کی صورت میں موجود رہتے ہیں اور حضرت آدمں اور حضرت ابراہیمں عرشِ الٰہی کے پاس ہیں حالانکہ ان سے ابن عربی کی ملاقات فلکِ اوّل اور فلکِ ہفتم میں ہوچکی ہے۔ابن عربی نے فتوحاتِ مکیّہ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ’’یوم زیارت‘‘ انبیا ، اولیا اور عامتہ الناس کس طرح جمالِ الٰہی کا دیدار کریں گے۔ پلاسیوس کہتے ہیں کہ ابن عربی نے حظیرۃ القدس کے ہالۂ نور کو جس طرح بیان کیا ہے اس میں دانتے کی طربیہ کے ’’جمالِ خداوندی‘‘ میں مماثلت فکروفن دونوں لحاظ سے ہے۔۲۴؎ ابن عربی اور دانتے دونوں کے خیال میں سعید روحیں نورالٰہی کے نقطہ پر اپنی نگاہوں کو مرکوز کر دیں گی۔۲۵؎ دیدار کی کیفیت دانتے کے ہاں محبت اور ابن عربی کے ہاں معرفت پر منحصر ہوگی۔ پلاسیوس کہتے ہیں کہ صرف جمال الٰہی کے دیدار سے متعلق پانچ باتوں میں ابن عربی اور دانتے کا موقف یکساں ہے۔۲۶؎ دانتے اور ابن عربی میں ایک مشترک چیز اور بھی ہے۔ دانتے نے اپنی نظم میں تثلیث کے راز کو جیومیٹری کے دائرہ جاتی رمز کے ذریعے سمجھایا ہے۔۲۷؎ دانتے شناس کہتے ہیں کہ اس تثلیت میں خدا کے مظاہرثلاثہ یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس کو پیش کیا گیا ہے۔ابن عربی نے متحد المرکز، مختلف المرکز،قاطع اور منحرف‘ الغرض ہر طرح کے دائروں کو ذات، صفات، اسمائ، علائق اور ظہور خداوندی یا فیضانِ الٰہی کے تصورات کو پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔۲۸؎ دانتے نے روحوں کو جس طرح مختلف مقامات پر دکھایا ہے اس کے پیچھے ہیئت اور اخلاق کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ نجات پانے والے فلک یا ستارہ میں نمودار ہوتے ہیں اور جیسی ان کی زندگی تھی اسی کے مطابق ان کے مقام کی اونچائی ہوتی ہے۔ ابن عربی کی تمثیل میں بھی یہی اصول کارفرما ہیں۔ انبیا کا ظہور کسی ابجدی ترتیب میں نہیں ہے۔ حضرت آدمں فلک اوّل میں تو حضرت ابراہیمں فلکِ ہفتم میں۔ حضرت عیسیٰں کو حضرت آدمں کے قریب رکھا گیا ہے۔ حضرت موسیٰں اور حضرت ہارونں الگ الگ افلاک میں ہیں۔ عظمت اور اخلاقی کمال اس تقسیم کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر حسن اور پاکیزگی کے لیے مشہور حضرت یوسفں کو فلکِ زحل میں دکھایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰں کو فلکِ مشتری میں جگہ دی گئی ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کو شریعت دی اور فرعون کو زیر کیا۔ مشتری کا فلک جابروں کی تباہی کا کام کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰں کو عطارد میں دکھایا گیا ہے۔ ابن عربی نے فلسفہ کو نیات، طریقت اور دوسرے موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اس تمثیل کا سہارا لیا تھا۔ دانتے نے بھی متعدد موضوعات پر اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے اس تمثیل کو اپنایا۔ پلاسیوس کے نزدیک یہ بھی مماثلت کا ایک پہلو ہے۔۲۹؎ حیات بعد الممات کی حقیقتوں کا تجسس، دانتے اور ابن عربی کا مشترکہ موضوع ہے۔ دونوں نے سات ستاروں کی سیر سے گزر کر بہشت و دوزخ اور اعراف کا نقشہ کھینچا ہے اور اُن کو اسی طرح تصور کیا ہے جس طرح ان کا بیان احادیثِ معراج میں ہوا ہے مگر معنوی اعتبار سے دونوں کی جہتیں الگ الگ ہیں۔ فتوحات عرفانی مشاہدات کی حامل ہے اور ڈیوائن کامیڈی علمی، ادبی اور سیاسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ تاہم افراد کے اذہان اور اخلاق کی شائستگی دونوں کا نصب العین ہے۔ابن عربی بتاتے ہیں کہ شیطان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ برف میں جما ہوا گل رہا ہے۔ چونکہ وہ آتشی مخلوق ہے اس لیے اس کے لیے اس سے سخت سزا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ڈیوائن کامیڈی کے جہنم میں دانتے بھی شیطان کو برف میں دھنسا اور گلتا ہوا دکھاتا ہے۔نظریات کے اعتبار سے بھی بعض اہم امور پر ابن عربی اور دانتے کی ہم آہنگی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ابن عربی اور دانتے دونوں جہنم اور فردوس کے سفر کو اس دنیا میں روح کے سفر کی تمثیل سمجھتے ہیں۔ دونوں کا عقیدہ ہے کہ خالق حقیقی نے اس دنیا میں روح کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اس مقصد اعلیٰ اور آخرکی تیاری کرے اور وہ مقصد دیدارِ خداوندی ہے اور اس سے کامل مسرت کوئی اور نہیں ہے۔ابن عربی اور دانتے میں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ تائید غیبی اور شریعت کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ انسان اس مقصد کو حاصل کرسکے۔ عقل، جس کی علامت ڈیوائن کامیڈی میں ورجل ہے، دور تک ساتھ نہیں دے سکتی۔ڈیوائن کامیڈی اور فتوحاتِ مکیّہ کا اسلوبِ بیان اور بیشتر تفصیلات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ خاص طور پر ڈیوائن کامیڈی کا حصہ بہشت تو فتوحاتِ مکیّہ سے بے حد متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ فتوحاتِ مکیّہ کی طرح ڈیوائن کامیڈی کا لب و لہجہ بھی بعض مقامات پر بڑا پراسرار ہوجاتا ہے۔ یقینی امر ہے کہ دانتے پر شیخ اکبر ابن عربی کا بے حد اثر ہے۔ اسی طرح دانتے کی کتب Convito اور Concionero کے ادبی پیکر ابن عربی کی ترجمان الاشواق اور ذخائر الاعلاق جیسے ہیں۔ خصوصاً Convito اور ترجمان الاشواق سوانحی نظمیں ہیں اور دونوں کے مقدموں میں مشترک باتیں ہیں۔۳۰؎ دانتے اور ابن عربی میں دوسری متعدد باتوں کے اشتراک میں ایک یہ بھی ہے کہ دانتے نے متعدد معانی اور پیکروں کو حیاتِ نو (Vita Nuova) میں تجسیمی پیکر میں دکھایا ہے۔ ابن عربی بارہا یہ کام فتوحاتِ مکیّہ میں کرتے ہیں۔ دانتے نے خواب میں خدا کو ’انسان‘ کی شکل میں دیکھا اور باتیں بھی کیں۔ ابن عربی نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا بلکہ ایک حدیث کے مطابق آنحضرت ا نے بھی خدا کو اسی حال میں دیکھا۔۳۱؎ دانتے کے ان نقادوں اور قارئین کے لیے جنہوں نے فتوحاتِ مکیّہ کا بھی مطالعہ کیا ہے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ منازلِ، مناظرِ واقعات اور کیفیات و مشاہدات کی ترتیب ایک طرح سے ڈیوائن کامیڈی میں فتوحات کے چربے ہیں۔ بقول آسن پلاسیوس:مسلم مفکرین میں ابن عربی وہ شخص ہیں جنہوں نے تصورِ آخرت کے سلسلے میں دانتے کو امکانی طور پر اثاثہ فراہم کیا۔ دوزخ کے حلقے، ہیئتِ فلک، گلابِ روحانی کے دائرے، حظیرۃ القدس کے گرد فرشتوں کے زمزمے، تثلیث کی تمثیل میں تین دائروں کی تشکیل جیسے تصورات دانتے نے بالکل اسی طرح پیش کیے ہیں جو ابن عربی کے یہاں ملتے ہیں… معاملے کو اتفاق کہہ کر ٹال دینا ممکن نہیں ہے جبکہ تاریخی حقائق اس طرح ہوں۔ تیرہویں صدی میں فلورنس کے شاعر کی پیدائش سے پچیس سال پہلے ابن عربی نے اپنی فتوحات میں آخرت کے نقشے پیش کیے جو دائرہ جاتی یا کروی نوعیت کے ہیں۔ اسی (۸۰) برس کے بعد دانتے آخرت کا انتہائی عمدہ شاعرانہ بیان پیش کرتا ہے جس کی کچھ جغرافیائی باریکیوں کو دانتے کے شارحین نے گراف اور جیومیٹری کے نقشوں کے ذریعے واضح کیا۔ یہ نقشے بالکل ان نقشوں کی طرح ہیں جن کو بہت پہلے ابن عربی پیش کرچکے تھے۔ اگر معاملے کو اس طرح نہ سلجھایا جائے کہ دانتے نے نقل کیا تھا تو موجود مماثلت کو یا تو ناقابلِ حل راز ماننا پڑے گا یا پھر اصالت کا معجزہ۔۳۲؎ فتوحاتِ مکیّہ کے مصنف ابن عربی خود صوفی اور صاحب حال تھے۔ فتوحاتِ مکیّہ اُن کے اپنے مکاشفات، واردات اور روحانی تصرفات کا عکس و آئینہ ہے۔ اس کی بنیاد محض تخیل یا فن پر نہیں رکھی گئی۔ اس کے برعکس ایک عظیم ادبی شاہکار کے اعتبار سے شاید ڈیوائن کامیڈی کا مرتبہ فتوحاتِ مکیّہ سے برتر ہے اور اس کے اثرات کا دائرہ بھی اتنا وسیع نہیں جتنا کہ ڈیوائن کامیڈی کا ہے۔ اس کی بھی چند اہم وجوہات تھیں جنہیں ڈاکٹر عبدالمغنی نے یوں بیان کیا ہے:عیسائیوں کے نزدیک سولہویں صدی میں اس کارنامے کی اہمیت خاص اس لیے تھی کہ وہ اسلامی تصورِ حیات، نظامِ معاشرت اور علوم و فنون سے اس وقت تک بہت مرعوب تھے، گرچہ ان کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا تھے۔ لہٰذا جب دانتے نے دنیا و آخرت کے معاملات و شخصیات کی ایک ایسی تخیلی تعبیر پیش کی جس سے عیسائیت کے عقائد و اقدار کی حقانیت و فوقیت ظاہر ہوتی تھی تو مسیحی دنیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی تعریف میں اتنا مبالغہ کیا کہ جس چیز کو، خود اس نے محض ایک کامیڈی قرار دیا تھا اسے ڈیوائن بنادیا۔۳۳؎ اس تناظر میں پروفیسر آسن نے لکھا کہ:The share due to Ibn Arabi a Spaniard, although a Muslim,in the literary glory achieved by Dante Alighieri in his immortal poem can no longer be ignored.دانتے کی ادبی عظمت میں ہسپانوی عرب شیخ ابن عربی کا جو حصہ ہے اس کو مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۳۴؎ دانتے کی پیدائش سے پچیس سال پہلے ابن عربی کا انتقال ہوچکا تھا۔ یوں ابن عربی اور دانتے کے درمیان صرف ۸۰ برس کا زمانہ حائل ہے اس عرصے میں ابن عربی کی شہرت دور تک پھیل چکی تھی اور دانتے اس سے یقینا بے خبر نہ تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانتے جو عربی سے ناآشنا تھا اس کی رسائی ابن عربی کی تصانیف تک کیوں کر ممکن ہوسکی۔ مستشرقین اور محققین نے اس سلسلے میں بتایا ہے کہ اس زمانے میں فلورنس ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ عرب تاجراطالیہ تک پہنچ چکے تھے۔ عربی فتوحات اور علم و دانش کا شہرہ ساری دنیا میں تھا۔ فریڈرک نے نیپلز میں ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں عربی مسودات کا ترجمہ ہورہا تھا طلیطلہ کے شاہ الفانسو کے عہد میں تو خاص طور پر کئی اہم عربی کتابوں کا ترجمہ ہوا- اس زمانے میں یورپ بھر میں فارابی، امام غزالی اور ابن رشد کو وہی مقامِ توقیر حاصل تھا جو قدیم یونانی حکما کو تھا۔ معراج نبوی کی روایات سپین کے عیسائیوں میں پھیل چکی تھیں۔ (دانتے کا استاد) برونتولاتی۔نی بہت بڑا سفارت کار، سیاست دان اور عالم و شاعر تھا۔ ۱۶۶۰ء میں وہ فلورنس کا سفیر بن کر شاہ طلیطلہ الفانسو کے دربار میں گیا جہاں یقینی طور پر وہ ابن عربی سے متعارف ہوا اور اس عظیم استاد کے توسط سے ابن عربی کے خیالات دانتے تک پہنچے۔۳۵؎ علاوہ بریں اس زمانے میں داستانیں اور واقعات بھی عرب اور غیر عرب تاجروں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک جایا کرتے تھے۔مغرب کے عہدِ وسطیٰ کی نشاۃ ثانیہ عربی اسلامی علوم و فنون کو یورپی زبانوں میں منتقل کرنے کی مرہونِ منت رہی ہے اور یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔ ہسپانیہ میں طلیطلہ اور صیقلیہ میں پالرمو (عربی مصادر میں ’بلرم‘) کے ادارہ ہائے ترجمہ کی کاوشیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ترجمہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اطالیہ اور صقلیہ کے مسیحی فضلا کی تھی اور اس خیال سفر میں دانتے کی ملاقات ایسے متعدد فضلا سے ہوتی ہے۔ دانتے کے مربی دوست اور استاد برونتولاتی۔نی (۱۲۲۰ئ۔۱۲۹۵ئ) عربی جانتا تھا۔ اس کی کتاب ذخیرہ میں پیغمبرِ اسلام اکی سوانح عمری اور اسلام کے بعض عقائد درج ہیں۔ یورپ کی متعدد کلاسیکی تواریخ جیسے طلیطلہ کے پادری Roderigo jimenez de Rada کی Historia Arabum اور شاہ الفانسو کی Estoria de Espana یا Cronica General اور سینٹ پیٹرپاسکال کی Impunacion dela seta Mahomad میں اسلام کا واقعہ معراج درج ہے۔ اس عہد میں قرآن حکیم کے ترجمے لاطینی زبان میںہوچکے تھے۔ مثال کے طور پر پامپ لونا کے پادری رابرٹ آف ریڈنگ نے ۱۱۴۳ء میں لاطینی میں قرآن حکیم کا ترجمہ کیا تھا۔دانتے کا خاکۂ جنت، دوزخ و برزخ وہی ہے جو شیخ ابن عربی کی الفتوحاتِ المکیّہ اور کتاب الاسرار میں ہے، دانتے نے جس ہیئت کا سہارا اس خیالی سفر میں لیا ہے وہ خود مسیحی فضلا کی صراحت کے مطابق الفرغانی (ابوالعباس احمد، مصنف جو امع علم النجوم والحرکات السماویہ و الکامل فی الاسطرلاب وغیرہ) سے ماخوذ ہے۔ دانتے نے کونویویو میں الفرغانی کا حوالہ بھی دیا ہے۔ خود اسلامی شخصیتوں کا حوالہ طربیہ میں موجود ہے۔ جیسے آنحضرت ا، حضرت علیؓ، ابن رشد، ابن سینا، اور صلاح الدین ایوبی۔ اس کے علاوہ، سراسینوں اور دجلہ و فرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب بنیادی سوال اس طرح قائم ہوتا ہے کہ کیا دانتے اسلام کے واقعہ معراج سے واقف نہ تھا؟ کیا اس نے طربیہ میں معراج اور اس کی دوسری تمثیلات کا چربہ نہیں اُتارا؟ دانتے پرستوں کا کلاسیکی جواب نفی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں تصورِ آخرت کی متعدد اساطیر موجود تھیں جیسے اسطورۂ تندال، راہبانِ ثلاثہ یا سینٹ مکاریوس کی داستان، خواب البریک، سینٹ برانڈن کی داستان، سینٹ پیٹرک کی داستان، خواب ترچل، ادہ کا نغمۂ شمس وغیرہ۔ مگر یہ جواب تشفی بخش اس لیے نہیں کہ عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں تصورِ آخرت سے متعلق جو اساطیر پائی جاتی تھیں ان کا سرچشمہ خود مغربی فضلا کے نزدیک کلی یا جزئی طور پر اسلام اور مشرق ہے۔۳۶؎ فرانسسکو غابریلی (Francisco Gabrielli) نے ایک رسالہ بعنوان Interno alle fonti orientali della Divina Comedia اس موضوع پر تصنیف کیا اس کے خیال میں ترسیل کے دو ممکنہ ذرائع ہوسکتے ہیں۔ ایک ہسپانوی فرانسسکن راہب ریمونڈلل اور دوسرا فلورنس کا دوومینکی راہب Ricolda de Monte Croce۔ ریمونڈلل اسلامی مصادر سے بخوبی واقف تھا اور ابن عربی کے خیالات کو اپنی کتابوں میں برت چکا تھا۔ ۱۲۸۷ء اور ۱۲۹۶ء کے درمیان وہ بار بار اطالیہ آیا اور دوسال تک روم، جنیوا، پسا اور نیپلس میں قیام کیا۔ ریکولدو کا معاملہ اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ ۱۲۸۸ء سے ۱۳۰۱ء تک وہ مشرق میں رہا اور شام ایران اور ترکستان میں انجیل کی اشاعت کی۔ ۱۳۰۱ء میں وہ فلورنس کی خانقاہ ’Santa Maria Novella‘ واپس لوٹا جہاں ۱۳۲۰ء میں چوہتر سال کی عمر میں اس کی موت ہوئی۔ اپنی مشہور کتاب Contra Legen Sarracenorum یا Improbatio Alchorani کے چودہویں باب میں اس نے واقعہ معراج پر بحث کی ہے۔ سانتا ماریا نولا کے دومینکی راہبوں سے دانتے کے معاملات ثابت ہیں بلکہ اپنی جوانی میں وہ راہبوں کے ان اسکولوں میں تعلیم بھی پاچکا تھا۔ ان اسکولوں میں عوام کو ادبیات اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔۳۷؎ ۱۹۴۰ء میں دالورنی (M.T.d'Alverney) نے معراج کے موضوع پر بارہویں صدی کے رسالہ حی بن یقظان (ابن سینا) کے ایک لاطینی ترجمہ مخطوطہ کو ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ ۱۹۴۹ء میں انریکوسیرولی (Enrico Cerulli) نے تصورِ آخرت کے موضوع پر متعدد ترجموں کو یکجا کرکے شائع کردیا۔ یہ ترجمے اطالیہ میں چودھویں صدی عیسوی میں معروف تھے۔ ایک ترجمہ طبیب ابراہم الفقین کا تھا جو اشبیلیہ میں شاہ الفانسو کے دربار سے وابستہ تھا۔ ۱۲۶۴ء کے آس پاس یہ ترجمہ مکمل ہوا۔ ابراہم الفقین نے اصلاً واقعہ معراج کا قشتالوی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اب یہ ترجمہ معدوم ہے۔ البتہ ہسپانوی متن کا ترجمہ لاطینی اور فرانسیسی میں لاطینی فاضل بونا و نتور (۱۲۲۱ئ۔۱۲۷۴ئ) نے کیا جو آکسفورڈ پیرس اور ویٹی کن میں موجود ہے۔ یہ ترجمے اطالیہ کے علمی حلقوں میں معروف تھے اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یورپ اس دور میں اسلام کے تصورِ آخرت سے واقف تھا۔۳۸؎ پلاسیوس کے علاوہ اطالوی دانتے شناس و تیریو روسی (Vittorio Rossi) نے بھی مشاہدات دانتے کا مشاہداتِ معراج سے موازنہ کرکے یکسانیت کے نکات بیان کیے ہیں۔۳۹؎ تاریخ کے اس تناظر میں یہی بنیادی سوال اُٹھتا ہے کہ دانتے کا یہ خیالی سفر اپنے فکروفن میں کس حد تک اس کی اپنی تخلیقی انفرادیت ہے؟طربیہ اور جاویدنامہمعراج النبی ا کے پورے چھے سو سال بعد دانتے نے ڈیوائن کامیڈی لکھی اور اس کے پورے چھے سو سال بعد علامہ اقبال نے جاویدنامہ لکھا۔ ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ کے سلسلے میں یہ امر بھی یقینا دلچسپ اور موجب حیرت ہے کہ ان کے تخلیق کاروں نے جو مفکر بھی تھے، موجودہ سائنسی انکشاف سے بہت پہلے اپنے تخیل کی ہمہ گیری اور جدت کے طفیل خلا میں پرواز کا یہ تجربہ خالص وجدانی سطح پر کیا۔ طربیہ خداوندی اور جاویدنامہ، دونوں اس صنفِ ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں جسے Vision Literatureکہا جاسکتا ہے۔۴۰؎ برصغیر پاک و ہند میں اردو اور فارسی شاعری اور بالخصوص کلامِ اقبال سے دلچسپی رکھنے والوں کا عام خیال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جاویدنامہ کے تانے بانے کا تصور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی سے مستعارلیا ہے۔ علامہ نے خواجہ ایف ایم شجاع کے نام ۱۹۳۱ء کے شروع میں، جب جاویدنامہ تکمیل کی منزلوں میں تھا، ایک خط لکھا جس میں جاویدنامہ اور ڈیوائن کامیڈی کی مشابہت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ملتا ہے۔ اس میں وہ جاویدنامہ کو ڈیوائن کامیڈی کے برابر کا درجہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:آخری نظم جاویدنامہ جس کے دو ہزار شعر ہوں گے ابھی ختم نہیں ہوئی ممکن ہے مارچ تک ختم ہوجائے۔ یہ ایک قسم کی ڈیوائن کامیڈی ہے اور مثنوی مولانا روم کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ اس کا دیباچہ بہت دلچسپ ہوگا اور اس میں غالباً ہندو ایران بلکہ تمام دنیائے اسلام کے لیے نئی باتیں ہوں گی۔ ایرانیوں میں حسین بن منصور حلاج، قرۃ العین، ناصر خسروعلوی وغیرہ کا نظم میں ذکر آئے گا۔ جمال الدین افغانی کا پیغام مملکتِ روس کے نام ہوگا۔۴۱؎ اسی حوالے سے علامہ، جاویدنامہ کا تعارف یوں کراتے ہیں:میری تازہ تصنیف، جاویدنامہ… حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف سیاروں کی سیر کرتا ہوا مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے، پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دورِ حاضر کے تمام جماعتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیرِ بحث آگئے ہیں۔ ۴۲؎ یہ خطوط اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ ڈیوائن کامیڈی کو دیکھ کر علامہ اقبال کو جاویدنامہ لکھنے کا خیال آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معراجِ محمدی ا کے اسرار و حقائق کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا خیال علامہ کے دل میں ایک مدت سے تھا۔ ممکن ہے جاویدنامہ ایک تمثیلی نظم کی صورت اختیار نہ کرتی لیکن انہی دنوں میں ٹی، ایس ایلیٹ کا مقالہ Essay on Dante منظرِ عام پر آیا جس کی بدولت دانتے کے بارے میں کالرج اور نارٹن کی تحریروں کی طرف ایک بار پھر اہل نظرمتوجہ ہوئے اور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا غلغلہ نئے سرے سے ادبی دنیا میں بلند ہوا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ ان تحریروں نے علامہ اقبال کو اپنی طرف متوجہ نہ کیا ہو اور بالخصوص جب وہ معراجِ محمدی ا کے بارے میں لکھنے کا خیال کررہے تھے اس لیے بقول جگن ناتھ آزاد :اگر جاویدنامہ کا تصور اقبال نے ڈیوائن کامیڈی سے لیا بھی ہو تو اقبال کی شاعرانہ یا مفکرانہ عظمت پر کوئی حرف نہیں آیا کیونکہ جاویدنامہ، ڈیوائن کامیڈی کا چربہ نہیں بلکہ ایک ایسا اوریجنل شاہکار ہے جس میں اقبال کی علمیت، مشاہدات، تجربات اور وارداتِ قلبی بڑے فنکارانہ اور انوکھے انداز سے بیان ہوئے ہیں۔ نظم کا تانا بانا اپنی جگہ پر اقبال کی عظمت کی دلیل ہے۔۴۳؎ ڈاکٹر سید عبداللہ، جاویدنامہ کو ڈیوائن کامیڈی کی طرح کی ہمہ پہلو تصنیف قرار دیتے ہیں:جاویدنامہ، ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی (طربیہ خداوندی) کی طرح ایک کثیرالالوان کتاب ہے۔ اس میں مکالمہ بھی ہے اور بیانِ واقعات بھی، فضا بھی اور صوت بھی، صدا بھی اور ادا بھی، اشارت بھی ہے اور عبارت بھی، یہ ایک تمثیل ہے مگر مثالی دنیا کی۔ یہ مثالی دنیا کی روداد ہے مگر حقیقی دنیا کے دامن سے وابستہ۔ اس میں حقیقی شخصیتیں بھی ہیں اور افسانوی بھی، خیالی کردار بھی ہیں اور مثالی بھی، اس میں غزل کے پیوند بھی نظر آتے ہیں اور قطعہ بندی بھی ہے۔ غرض تخیلی اور واقعاتی رنگ باہم شیروشکر ہیں۔ اس میں حقائقِ فکری بھی اور جذبات قلبی بھی، اس میں وہ تاریخ بھی ہے جس کے نقوش ماضی کے اوراق میں ثبت ہیں اور وہ تاریخ بھی جس کی تصویریں شاعر کے وژن (Vision) میں ہیں۔ غرض ایک مرقع ہے جس میں فکر و خیال کا ہر رنگ پیوستہ اور باہم وابستہ ہے اور اہلِ نقد و نظر کا خیال ہے کہ یہ الیڈ اور ڈیوائن کامیڈی کی طرح عجائباتِ ادب میں سے ہے۔ ۴۴؎ ڈیوائن کامیڈی کی طرزِ نگارش میں رمز و ایما اور اشارات و کنایات ہیں اور یہ تمثیلی مظاہرات سے معمور ہے۔ لیکن اس میں ابہام بہت زیادہ ہے۔ دانتے کے برعکس اقبال نے منظر کشی کے بجائے حقائق نگاری اور نکات آفرینی پر توجہ دی اس کے باوجود جاویدنامہ محاکات کے محاسن سے خالی نہیں۔ استعارات و کنایات کے باوصف، ان کا مفہوم متعین کرنا اتنا مشکل نہیں۔دانتے کے یہاں خبث، دغا، تشدد، ہوس اور نفس پرستی جیسی سفلی صفات کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے جبکہ اقبال کے ہاں غیب و حضور، زمین کی بے نوری، غوغائے حیات، عقل، عشق، ذات و صفات، صعودِ آدم، خلوت و جلوت، موجود ونا موجود، محمود و نامحمود، شعور، معراج، جبر و اختیار، زمان و مکان، جان و تن، جذب و سرور وغیرہ جیسی علوی صفات بطور علامت استعمال ہوئی ہیں۔دانتے نے اعمالِ شر، جمود، کذب وریا، طمع وغیرہ جیسے سفلی جذبات کی نشاندہی کرکے انسان کو صفاتِ خیر کی جانب اکسایا ہے جب کہ علامہ کے یہاں فعالیت، حرکت اور حریت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کے ذریعے اپنی محبوبہ بیاترچے کو زندہ جاوید کردیا۔ اقبال کے سامنے بنی نوع انسان سے محبت، مسلم اقوام کی نشاۃ ثانیہ اور عشقِ الٰہی جیسے آفاقی موضوعات تھے۔ انھوں نے اسلام کا قرآنی مفہوم کے مطابق اخلاقی، سیاسی اور عمرانی نظام پیش کیا ہے۔دانتے کیتھولک مسلک کے معروف عیسائی فلسفی تھامس ایکوئنس (Thomas Aquinas) کے فکروفلسفہ سے بہت متاثر تھا جس کا پورا نظام فکر ابن رشد سے ماخوذ ہے۔ اقبال کے سامنے مولانا روم ایک آئیڈیل اسلامی شخصیت تھے جنہیں وہ اپنا روحانی مرشد تسلیم کرتے ہیں۔دانتے کے سیرِ افلاک کے دوران میں چار مختلف اشخاص رہنما بنتے ہیں۔ سب سے پہلے ورجل (عقلِ انسانی کا استعارہ) ہے جو بجائے خود ایک لادینی شاعر تھا، پہلی دو منزلوں میں جہاں گناہ کی اصلیت تمام کراہتوں، نفرتوں اور گراوٹوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے، دانتے کا رہنما ہے۔ اس کے بعد رہنمائی کا یہ فرض باغِ عدن کی خوش گل نگہبان میٹلڈا کے سپرد ہوتا ہے۔ میٹلڈا معصوم زندگی کی علامت ہے۔ دانتے کا تیسرا رہنما اس کی محبوبہ بیاترچے ہے جو عشقِ ایزدی اور الہام کی علامت ہے اور حق و صداقت کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ آخری رہنما سینٹ برنارڈ ہے جو رہنمائی کا فرض اس وقت سرانجام دیتا ہے جب مشاہدۂ ذات کی منزل آتی ہے۔ برنارڈ وجدان کی علامت ہے۔ اقبال اپنی سیر صرف مرشدِ رومی کی معیت میں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک مذکورہ بالا تمام خوبیاں ایک ہی شخصیت میں مرکوز ہوگئی ہیں۔ورجل جسے دانتے اپنا معنوی استاد اور مرشد تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بارے اپنے خیالات کا اظہار ڈیوائن کامیڈی میں یوں کرتا ہے:Glory and lights of poets; now may that zeal And loves apprenticeship that I pourd out On your heroic verses ser-us me well For you are my true master and first author The soul maken from whom I drew the breath of that sweet style whose measures have brought me honour(شاعروں کے وقار، اے سخن کی ضیا!!میں نے تیرے سخن کی طلب میں، تیرے اشعار کی جستجو میں جو محبت، عقیدت دکھائی ہے اب تک وہ محبت میری ہم عناں ہو، وہ عقیدت میری رہنما ہومیرا آقا ہے تو، میرا مولا ہے تومیرا پہلا ہی محبوب شاعر ہے تومیرے نغموں میں نرمی تیرے ذکر کیمرے سانسوں میں گرمی تیرے فکر کیتو امیرِ ادب، تاجدار سخنتو جہان معنی کا سردار ہےمیں تیری خاکِ پاکے سوا کچھ بھی نہیںاورتو…!میرا آقا ہے تو، میرا مولا ہے تو، میرا محبوب فن کار ہےمیرے فن کو جہاں میں جو عزت ملی، تیری تقلید سے ملی ۴۵؎ اور یہ ہے مولائے روم کی شبیہ سازی:شام گہری ہوجاتی ہے، چاند افق پر نمودار ہوتا ہے کہ اس سرمئی اندھیرے میں پہاڑ کے اس پار سے روحِ رومی پردوں کو چاک کرتی ہوئی ظاہر ہوتی ہے۔ ؎روحِ رومی پردہہا را بردریداز پسِ کوہ پارۂ آمد پدید!شام نے جو ستارہ آسمان پر روشن کیا ہے، یہ روح رومی کا اشارہ ہے جو پہاڑ کی اوٹ سے نمودار ہوکر دریا کے کنارے چہل قدمی کرتے شاعر کے پاس آتی ہے۔ شاعر، رومی کا درخشندہ اور روشن چہرہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ دانش و حکمت کا حسین امتزاج تھا: ؎طلعتش رخشندہ مثلِ آفتابشیبِ او فرخندہ چوں عہدِ شبابپیکرِ روشن ز نورِ سرمدیدر سراپایش سرورِ سرمدیبرلبِ او سِرّ پنہان وجودبند ہائے حرف و صوت از خود کشودحرفِ او آئینۂ آویختہعلم با سوزِ دروں آمیختہ(اس کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا۔ بڑھاپے میں بھی جوانی کی سی آب و تاب تھی۔ اس کا پیکر نورِ سرمدی سے منور تھا، نہیں بلکہ وہ سراپا نورِ سرمدی تھا۔ اس کے لبوں پر وجود کے پوشیدہ راز (کا بیان) تھا۔ اس نے الفاظ و آواز کے بندھن کھولے۔ اس کے الفاظ یوں تھے جیسے سامنے آئینہ آویزاں ہو اور اس میں علم کے ساتھ سوزدروں کی آمیزش تھی (نہ الفاظ تھے نہ آواز، مگر معانی سامنے نظر آرہے تھے۔) ۴۶؎ دانتے نے زندگی کے مسائل سے کم تعرض کیا ہے۔ اس کے سامنے حیات بعدالممات ہے جبکہ اقبال کے سامنے حیاتِ موجود، عبدو معبود، عشق و عقل اور دین و تقدیر جیسے بنیادی مسائل ہیں۔ڈیوائن کامیڈی میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیری مواد، قدیم یونانی دیو مالائی اور مافوق الفطرت عناصر اور اوہام و خرافات کا غلبہ ہے۔ جبکہ اقبال کے سامنے تواریخِ عالم کا اعلیٰ نظامِ فکر اور نظریۂ کائنات تھا چنانچہ جاویدنامہ میں اساطیری حوالے کم سے کم اور بقدر ضرورت ہیں اور حقائق نگاری اختصار اور جامعیت لیے ہوئے ہے۔ دانتے نے تاریخی واقعات کو اپنے حسن بیان کے پسِ منظر کے طور پہ استعمال کیا ہے جبکہ اقبال نے محض تاریخ ہی نہیں بلکہ تاریخ کی تعبیر نو کو اپنی شاعری کا جزو بناکر آدمِ نو کے ظہور کا مژدہ سنایا ہے۔ڈیوائن کامیڈی میں اگرچہ مذہبی مسائل پر بحث کی گئی ہے تاہم کسی بھی مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰں کے شاگرد پطرس اور اس کے جانشین کے مابین یہ مکالمہ کہ ’’خدا کی مشیت اور انسانی اختیار میں کیسے مطابقت پیدا ہوسکتی ہے؟‘‘ تو اس نے اس کے جواب میں کہا: ’’آپ مجھ سے ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جس کا جواب میں کیا، عارفین بھی نہیں دے سکتے۔‘‘جاویدنامہ میں زندگی اور کائنات کے حوالے سے انسانی مسائل اور حقائق کے ساتھ ساتھ ایک اور جہان (جہانِ دیگرے) کے مابعد الطبیعاتی معارف و حقائق سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں دینی فلسفہ کے اسرار و رموز کے مفاہیم بڑے لطیف اور بلیغ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں۔ عشقِ الٰہی، مقام محمدی ا کی معرفت، سعی مسلسل، زندگی کے اعلیٰ مقاصد جیسے موضوعات کے علاوہ حکومتِ الٰہیہ کے تمدنی اور سیاسی نظام کا خاکہ بھی دیا گیا ہے۔فلسفیانہ مزاج رکھنے کے باوجود دانتے کے یہاں بنی آدم کے لیے کوئی خاص پیغام نہیں ہے جبکہ اقبال بجائے خود فلسفی شاعر اور مستقل فلسفہ (فلسفۂ خودی) کے بانی تھے۔ جاویدنامہ میں انھوں نے بنی آدم کے ہر نو جوان کے لیے ایک دستور العمل پیش کیا ہے۔دانتے کا سفر جہاں ختم ہوتا ہے وہاں علامہ اقبالؒ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ دانتے کے سفر کا مقصد اپنی ناآسودگی اور اضطراب کی تطہیر کی خاطر اپنے آپ کو تزکیۂ نفس کے ذریعے مشاہدۂ حق کے قابل بنانا تھا۔ اضطراب اگرچہ اقبالؒ کے ہاں بھی ہے مگر ان کی سیاحت علوی کا مقصد تسخیر زمان و مکان تھا گویا دانتے کے سامنے محض اپنی ذات تھی جبکہ اقبال کے سامنے پوری کائنات تھی۔ڈیوائن کامیڈی کے آغاز میں افسردگی کی کیفیت ہے اور یہی افسردگی جاویدنامہ کے شروع میں بھی پائی جاتی ہے تاہم جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ جاویدنامہ کی ابتدا مناجات سے ہوتی ہے جو دراصل شکوہ ہی کی ایک ایسی صورت ہے جو نہ صرف درد و داغ، سوزوگداز اور تلاش و جستجو کی تڑپ سے لبریز ہے بلکہ مسلسل تنہائی اور دشت ودر کے سناٹے نے مایوسی کی جگہ اشتیاقِ دید کی کیفیت پیدا کردی ہے اور یہی اشتیاق دید سیاحتِ علوی کا سبب بنا ہے:عصرِ حاضر را خرد زنجیرِ پاستجانِ بے تابے کہ من دارم کجاست؟عمر ہا برخویش می پیچد وجودتایکے بے تاب جان آید فرودزیستم تا زیستم اندر فراقوانماآن سوئے این نیلی رواقماترا جوئیم و تو از دیدہ دورنے غلط، ما کور و تو اندر حضوریاکشا این پردۂ اسرار رایابگیر این جانِ بے دیدار رانخلِ فکرم ناامید از برگ و بریا تبر بفرست یا بادِ سحرمنزلے بخش این دلِ آوارہ رابازدِہ باماہ این مہ پارہ را(دور حاضر کے لیے خرد پاؤں کی زنجیر بن چکی ہے۔ جانِ بے تاب جو میں رکھتا ہوں وہ کہاں ہے؟ حیات مدتوں پیچ و تاب کھاتی ہے تب کہیں جاکر ایک جانِ بے تاب ظہور میں آتی ہے۔ میں جب تک جیا فراق ہی میں جیا، مجھے دکھایئے کہ اس نیلے آسماں کے پرے کیا ہے؟ ہم آپ کو ڈھونڈتے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں، نہیں یہ بات نہیں آپ سامنے ہیں مگر ہم اندھے ہیں۔ یا اس پردۂ اسرار کو ہٹا دیجئے، یا دیدار سے محروم اس جان کو واپس لے لیجیے۔ میرے فکر کا درخت برگ وبار سے ناامید ہے، یا اسے کلہاڑے کی نذر کیجیے یا اسے بادِ سحر سے نوازیے۔ اس دلِ آوارہ کو منزل عطا فرمایئے، اس ماہ پارے کو دوبارہ چاند سے ملادیجئے۔)دانتے اس طرح کی کسی مناجات سے نظم کی ابتدا نہیں کرتا بلکہ اس کی ابتدایوں ہوتی ہے کہ بے مصرف اور لاحاصل سفرِ زندگی کے دوران میں دانتے راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے اور اپنے آپ کو جرم و خطا کے گھنے جنگل (دنیاداری) میں پاتا ہے۔ اسی جنگل میں پوری رات ایک کرب اور عذاب کے عالم میں گزارتا ہے۔ جونہی اسے اپنی گمراہی کا احساس ہوتا ہے اسے مشرق میں سپیدۂ سحری نظر آتا ہے۔ سورج، ربانی تجلی (Divine Illumination) کی علامت ہے۔ اس سپیدۂ سحری کی تجلی سے ایک چھوٹی سی پہاڑی کوہِ شادمانی (Mount of joy) کی چوٹی جگمگا اُٹھتی ہے۔ یہ ایسٹر کا موسم ہے اور حضرت عیسیٰں کی حیاتِ نو (Resurrection) کے جشن کا وقت ہے۔ سورج اعتدالِ لیل و نہار (Equinoctional rebirth) کے قریب ہے۔ ان تمام مسرت آمیز علامتوں کے اس پہلو بہ پہلو نظر آنے سے دانتے کا دل ایک امید افزا کیفیت سے لبریز ہوجاتا ہے اور وہ فوراً کوہِ شادمانی پر چڑھنے کا ارادہ کرلیتا ہے لیکن اچانک ہی دنیاداری کے تین درندے اس کا راستہ روک لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے خبث اور دغا کا چیتا، دوسرا ہے تشدد اور ہوس کا شیرِ ببر اور تیسرا ہے نفس پرستی کا بھیڑیا۔ یہ درندے بالخصوص بھیڑیا دانتے کو پھرنا امیدی کا شکار بنانے کے لیے سہوو خطا کے اندھیرے میں دھکیلتے ہیں لیکن عین اس وقت جب کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دیتا ہے ایک شخصیت نمودار ہوتی ہے۔ یہ ورجل کا عکس ہے۔ ورجل جو دانتے کے لیے عقلِ انسانی (Human Reason) کی علامت ہے۔ ورجل اپنے آپ کو دانتے کی رہنمائی کے لیے پیش کرتا ہے لیکن صرف وہیں تک جہاں تک عقلِ انسانی جاسکتی ہے۔ قطعی صعود کے لیے رہبری کا فرض ایک اور رہنما ’’بیاترچے‘‘ سرانجام دیتی ہے جوعشقِ ایزدی کی علامت ہے۔ڈیوائن کامیڈی میں مختلف منازل کے لیے دانتے کے مختلف رہنما ہیں۔ ورجل (عقلِ انسانی) پہلی دو منزلوں میں جہاں گناہ کی اصلیت تمام کراہتوں، نفرتوں اور گراوٹوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے، دانتے کا رہنما ہے۔ اس کے بعد رہنمائی کا یہ فرض باغِ عدن کی خوش گل نگہبان مٹیلڈا کے سپرد ہوتا ہے۔ مٹیلڈا معصوم زندگی کی علامت ہے۔ دانتے کا تیسرا رہنما اس کی محبوبہ بیاترچے ہے جو عشقِ ایزدی یا الہام کی علامت ہے۔ بیاترچے حق و صداقت کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ آخری رہنما اس سلسلے میں سینٹ برنارڈ ہے جو وجدان کی علامت ہے۔ اور دانتے کی نظر میں وجدان کا مقام عقلِ انسانی بلکہ الہام و انکشاف (Revelation) سے بھی کہیں بلند ہے۔ اقبال نے اپنی سیاحت علوی کی ابتدا میں دانتے کی طرح خبث، دغا، تشدد، ہوس اور نفس پرستی کی علامتوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ غیب و حضور، زمین کی بے نوری، غوغائے حیات، عقل، عشق، ذات، صفات، صعودِ آدم، خلوت و جلوت، موجود و ناموجود، محمود و نامحمود، شعورِ خویشتن، شعورِ دیگرے، شعورِ ذاتِ حق، معراج، مجبوری، اختیار، زمان و مکان، جان و تن، جذب و سرور وغیرہ کی طرح کے سوالات و مسائل کا حل تلاش کرنے کی تڑپ ان کے اس سفر کی تحریک کا باعث ہوئی۔پہاڑ کا تصور اقبال کے یہاں بھی موجود ہے جس کے پیچھے سے روحِ رومی نمودار ہوتی ہے۔ اقبال کی رہنمائی تمام افلاک کے سفر میں رومی ہی کرتے ہیں۔اقبال کی سیاحتِ علوی کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے:عشق شور انگیز بے پروائے شہرشعلۂ او میرد از غوغائے شہرخلوتے جوید بدشت و کوہساریالبِ دریائے نا پیدا کنارمن کہ دریاراں ندیدم محرمےبرلبِ دریا بیا سودم دمےبحر و ہنگامِ غروبِ آفتابنیلگوں آب از شفق لعلِ مذابکور را ذوقِ نظر بخشد غروبشام را رنگِ سحر بخشد غروب!بادلِ خود گفتگوہا داشتمآرزو ہا جستجو ہا داشتمآنی و از جاودانی بے نصیب!زندہ و از زندگانی بے نصیب!تشنہ و دور از کنار چشمہ سارمی سرودم این غزل بے اختیار(عشق شورانگیز جنونِ شہر سے بے نیاز ہے۔ شہر کے شوروغل میں اس کا شعلہ بجھ جاتا ہے۔ وہ یا تو دشت و کوہسار میں خلوت ڈھونڈتا ہے یا بحرِ بیکراں کے ساحل پر۔ جب میں نے احباب میں کوئی محرمِ راز نہ دیکھا، میں تھوڑی دیر ذہنی سکون کے لیے دریا کے کنارے چلا گیا۔ دریا اور غروبِ آفتاب کا منظر، نیلگوں پانی شفق کے رنگ سے لعلِ سیال بنا ہوا تھا۔ غروب کا منظر اندھوں کو بھی ذوقِ نظر اور شام کو رنگِ سحر عطا کردیتا ہے۔ میں اپنے دل سے باتیں کررہا تھا، میرے اندر آرزوئیں اور امنگیں مچل رہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ میری زندگی پل بھر کی ہے، مجھے حیاتِ جاودانی نصیب نہیں، اگرچہ میں زندہ ہوں مگر زندگانی سے بے نصیب!)اور اس منظر اور امیجری کا تو جواب ہی نہیں:از متاعش پارۂ دزدیدہ شامکوکبے چوں شاہدے بالائے بام(شام نے غروب ہوتے ہوئے سورج کی متاع سے ایک پارہ اُڑا کر اسے آسمان دنیا کے کنارے پر ستارہ بنا کر یوں روشن کردیا جیسے کوئی محبوبہ لب بام سے جلوہ ارزانی کرتی ہے)دانتے، جہنم، اعراف اور بہشت کے مختلف مراحل و مدارج سے گزرتا ہوا سوئے افلاک روانہ ہوتا ہے جبکہ اقبال کے ہاں یہ تینوں مراحل نہیں ہیں۔ دانتے اور بیاترچے سب سے پہلے فلکِ قمر پہ پہنچتے ہیں۔ جو سب سے نچلا سیارہ ہونے کی وجہ سے زمین کے نزدیک ترین ہے:یہ قمر ہے۔ مجھے ایسا دکھائی دیا کہ ایک پر سکون دبیز، ٹھوس اور روشن بادل نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا جو ہیرے کی طرح سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ اور اس ابدی موتی نے مجھے اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا جیسے پانی سورج کی کرنوں کو جذب کرلیتا ہے اور اس میں ایک لہر بھی نہیں اُٹھتی۔اس فلک پر دکھائی جانے والی ارواح میں جرا ت کا فقدان ہے۔ یہاں دانتے نے کچھ غیر واضح اور پژمردہ چہرے دیکھے۔ پیکاردانامی راہبہ اور صیقلیہ کے بادشاہ فریڈرک دوم کی ماں ایمپریس کانسٹینس۔ بیاترچے، دانتے کو بتاتی ہے کہ یہاں اُن روحوں کا قیام ہے جنہوں نے دنیا میں خدا کی جانب بے توجہی کی اور مادیت کی طرف راغب تھیں۔اور یہ ہے اقبال کا فلکِ قمر:ایں زمین و آسمان ملکِ خداستاین مہ و پروین ہمہ میراثِ ماست!ہم سفر با اختران بودن خوش استدر سفر یک دم نیا سودن خوش استتاشدم اندر فضاہا پے سپرآنچہ بالا بود، زیر آمد نظرتیرہ خاکے برتر از قندیلِ شب!سایۂ من برسرِ من اے عجب!ہر زمان نزدیک تر نزدیک ترتا نمایاں شد کہستانِ قمرگفت رومی ’’از گمانہا پاک شوخوگرِ رسم و رہِ افلاک شوماہ از ما دور و باما آشناستایں نخستیں منزل اندر راہِ ماستدیر و زودِ روزگارش دیدنی استغارہائے کوہسارش دیدنی است‘‘آن سکوت، آں کوہسارِ ہولناکاندرون پُرسوز و بیرون چاک چاکصد جبل از خافطین و یلدرمبر دہانش دود و نار اندر شکماز درونش سبزۂ سر بر نزدطائرے اندر فضایش پر نزدابرہا بے نم، ہوا ہاتند و تیزبازمینِ مردۂ اندر ستیزعالمے فرسودۂ بے رنگ و صوتنے نشانِ زندگی دروے نہ موت!(ستاروں کا ہم سفر ہونا اور سفر میں ذرا آرام نہ کرنا باعثِ مسرت ہے۔ جب میں فضاؤں میں مصروفِ سفر ہوا تو جو کچھ بالا تھا وہ نیچے نظر آیا۔ تاریک خاک (زمین) رات کی قندیل سے برتر (دکھائی دی) اے عجب! میرا سایہ میرے سر پر تھا۔ ہم ہر لحظہ فلکِ قمر سے نزدیک ہوتے گئے، یہاں تک کہ اس کے پہاڑ نظر آنے لگے۔ رومیؒ نے کہا: اب ہر قسم کے وہم و گمان کو دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو عالمِ بالا کی زندگی کا عادی بنالو۔ اب ہم کرہ ارض سے نکل کر کرہ قمر میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ غار قابلِ دید ہیں۔ یہ خافطین اور یلدرم ہیں (فرضی نام)۔ یہاں دھواں ہے اور آگ نہ سبزہ ہے نہ پرندے۔ خشک بادل ہیں اور تندوتیز ہوائیں۔ یہاں نہ رنگ ہیں نہ ہوائیں، نہ زندگی نہ موت۔ بس خشک اور ویران پہاڑ اور زمین مردہ سی!)اس فلک پر ہندو سادھو و شوامتر (جہاں دوست) کے علاوہ گوتم بدھ، زرتشت، حضرت مسیحؑ اور حضرت محمد ا کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی ملتی ہے۔دوسرے فلک عطارد کی صفتِ خاص ’’انصاف‘‘ ہے۔ یہاں دانتے نے مقرب فرشتوں کے علاوہ فعال زندگی کی متمنی ارواح کو دکھایا ہے جن میں زیادہ تر رومی اور یونانی شخصیات ہیں۔ رومی شخصیات میں رومی شہنشاہ جسٹینین (Justanian) کو دکھایا ہے۔ اس شہنشاہ کا عہد ۵۲۷ء تا۵۶۵ء کا ہے۔ اس نے سلطنتِ روما کو ایک نیا قانون دیا۔ سلطنت کو زوال و انتشار سے بچایا اور قانون و انصاف کی حکمرانی قائم کی۔ اس بادشاہ کو دانتے نے شاہین کا روپ دے کر لاہوتی، انصاف کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ دانتے اُس سے سوال کرتا ہے کہ ’’خدا باپ‘‘ مجسم کیوں ہوا؟ جسٹینین اس کا مفصل جواب دیتا ہے:جب تک خدا انسان کو مفت معافی نہ دیتا، دونوں میں اتحادِ روحانی کی کوئی صورت نہ تھی۔ پس خدا خود مجسم ہوکر دنیا میں آیا اور ابنائے آدم کے گناہوں کے بدلے میں مصلوب ہوگیا۔ اس نے گناہوں کا فدیہ ادا کرکے اتحاد کا راستہ ہموار کردیا۔رومیو (Romeo) کا عہد ۱۱۷۰ء سے ۱۲۵۰ء تک کا ہے۔ وہ کاؤنٹ ریمانڈ بیرینگر چہارم کا ایک دیانتدار اور مخلص وزیر تھا۔اِن ارواح سے رخصت ہونے کے بعد دانتے کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، مثلاً حشرِ اجساد کے بارے میں اور یہ کہ عیسائیوں کے گناہوں کی تلافی کا کیا مفہوم ہے؟ جواب میں بیاترچے کہتی ہے کہ عیسیٰؑ کی مصلوبیت کی وجہ سے اُن کی اُمت کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ حشرِ اجساد کے بارے میں بیاترچے دانتے کو بتاتی:"The angels, brother, and the pure clear country where you are now, may be said to be created just as they are, in their entire being. But the elements which you have named to me and all the things that are compounded from them receive their forms from some created power."(فرشتے، سماوی کرے اور حیاتِ انسانی براہ راست دستِ قدرت کی لافانی تخلیق ہیں لیکن عناصر اور مرکبات جو اس کائنات میں پائے جاتے ہیں براہ راست دستِ قدرت سے تخلیق نہیں ہوتے۔)علامہ اقبال کے فلک عطارد میں صحرا ودریا، بحروبر تو ہیں مگر زندگی کے آثار نہیں۔ اس فلک پر علامہ اقبالؒ نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح سے ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔ ان سے گفتگو کے دوران دین و وطن کی آویزش، اشتراکیت و ملوکیت کا سحرِ فرنگ اور قرآن کی محکم تعلیمات جیسے موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں۔فلکِ سوم ’’زہرہ‘‘ جو کہ اعتدال کی علامت ہے اور یونانیوں اور رومیوں کے نزدیک حسن و جمال کی دیوی ہے۔ یہ ناہید، اناہید اور انابیتا وغیرہ جیسے بہت سے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ناہید سے دو فرشتوں کے عشق کے افسانے بھی عام ہیں۔ نغمہ و سرودکی فضا نے اس سیارے میں طلسماتی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس مناسبت سے دانتے نے اس سیارے پر عشق و سرمستی میں سرگرداں اور انصاف کے فقدان کی ارواح کو دکھایا ہے۔ ان میں چارلس مارٹل جو کہ دانتے کا عزیز ترین دوست تھا، چونیز امارسیلز کا فول قوار، جیسے عشاق کے ساتھ ساتھ ری فیئس اور ٹراجن جیسے نصرانی ملحد بھی شامل ہیں۔علامہ اقبال نے اس فلک پہ ظلمت اور تاریکی کا منظر پیش کیا ہے۔ یہ عالم، آب و خاک سے مرکب ہے، سیاہ غلاف میں ملفوف اس کی فضا تاریک ہے۔ چاروں طرف کہر و دھند چھایا ہوا ہے۔ اس خطہ میں خدایانِ کہن قیام پذیر ہیں۔ میں ان سب کو پہچانتا ہوں بعل، مردوخ، یعوق، نسروفسر وغیرہ۔ ان قدیم خداؤں میں سے ہر ایک اپنے ازسرِنو زندہ ہوجانے کے امکان پر ثبوت لارہا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین قوم فنیقیوں کا سب سے بڑا معبود ’’بعل‘‘ جو دنیا کا قدیم ترین دیوتا بھی ہے، اسے علامہ اقبالؒ نے سب باطل خداؤں کا نمائندہ بنایا ہے چنانچہ وہ تمام اقوام کے خداؤں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ عہد بے خلیل اور بے بُت شکن ہے۔ یقین کی جگہ افکارِ پریشاں اور تشکیک نے لے لی ہے۔ مسلمانوں کی وحدتِ ملی پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ہمیں اسلام سے اب کوئی اندیشہ نہیں رہا۔علامہ اقبالؒ دنیا کے دو فرعونوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصر کارعمیسس، جس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نیست و نابود کرنا چاہا لیکن خود بحرِ قلزم کی طوفانی موجوں کا شکار ہوگیا۔ دوسرا فرعون برطانوی استبداد کا نمائندہ لارڈ کشز (کچز) تھا جس نے سوڈانی مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ان کی روحوں کو زہرہ کے ایک دریا کی تہہ میں دکھایا گیا ہے، دونوں کا انجام سمندر میں غرقابی تھا۔فلکِ چہارم ’’شمس‘‘ جو کہ عظمت و جلالِ خداوندی کا مظہر ہے اور تحمل جس کی صفت ہے۔ اس سیارے پر مذہبی رہنما، اساتذہ اور مورخین کی ارواح کو دکھایا گیا ہے۔ ان شخصیات میں البرٹ، پیٹرلو مبارو، دائیونی سیس، بی تھیس، بیڈ، ہسپانیہ کا پیٹر، حضرت سلیمانؑ، تھامس ایکوئنس، سینٹ بوناومیثورا وغیرہ شامل ہیں۔یہاں حکمت، شجاعت، انصاف اور عفت کی روحیں محورِ قص تھیں۔ انھوں نے شاعر اور اس کی محبوبہ کو خوش آمدید کہا اور ان کے گرد حلقہ باندھ کر رقص کیا اور انھیں ایک آسمانی گیت سنایا۔ رقص و سرود کے اختتام پر تھامس ایکوئنس کی روح نے اپنے متابعین کی اخلاقی اور روحانی پستی کا ماتم کیا۔ اس کے بعد ان کی ملاقات سینٹ فرانسس سے ہوئی۔ آخر میں ان دونوں نے حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضری دی۔ سلام و دعا کے بعد شاعر نے اُن سے دریافت کیا کہ ’’حشر میں جب ارواح واپس اپنے اجسام میں لوٹیں گی تو کیا اُن کی قوت محدود نہیں ہوجائے گی؟‘‘ جناب سلیمانؑ نے جواب دیا:’’جسم اور روح دونہیں ہیں۔ جسم بھی روح ہی کی ایک شکل ہے۔‘‘بیاترچے حضرت سلیمانؑ سے ان ستاروں کے درجاتِ تنویر کے متعلق سوال کرتی ہے جو انھیں موت کے بعد حاصل ہوئے ہیں، تو حضرت سلیمانؑ عنایت، مشاہدہ، پیار اور تابانی کا باہمی تعلق اس پر واضح فرماتے ہیں۔ اسی اثنا میں روشنی کا ایک دائرہ سیاروں کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی دانتے اپنی محبوبہ کے ساتھ مریخ پر پہنچ جاتے ہیں۔علامہ کے ہاں فلکِ شمس کے بارے میں خاموشی ہے۔دانتے کا فلک پنجم ’’مریخ‘‘ قوتِ خداوندی کا مظہر ہے اور حوصلہ جس کی صفت ہے۔ اس فلک پر ماہرینِ حرب دکھائے گئے ہیں جن میں جوشوا، شارلی مان رولینڈ، ولیم آف اوریخ کے علاوہ ۱۱۵۲ء کے زمانہ میں صلیبی جنگ میں ہلاک ہونے والے اشخاص کی ارواح کو دکھایا گیا ہے۔علامہ اقبال کے فلک مریخ کے شب و روز کرہِ ارض سے یکسر مختلف ہیں:اس کا عالم بھی ہمارے جہاں کی طرح ہے۔ یہاں بھی شہرودیار اور کاخ وکو ہیں۔ یہاں کے باشندے ہم سے زیادہ عقل مند اور ماہر فنون ہیں۔ زمین کے باشندوں پر تومادیت غالب ہے مگر یہاں کے باشندوں پر مادیت کے بجائے روحانیت کا غلبہ ہے۔ اس لیے یہ لوگ عناصر (مادیت) پر حکمران ہیں۔ زمین کے باشندوں کا وجود جان و تن سے مرکب ہے مگر مریخی یک اندیش ہیں یعنی ان کا تن ان کی روح کے تابع ہے۔ اہلِ مریخ موت و حیات کی حقیقتوں سے واقف ہیں، چنانچہ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو وہ ایک دو روز پہلے ہی اپنی موت کا اعلان کردیتا ہے اور مرتے وقت اپنے جسم کو اپنی روح میں جذب کرلیتا ہے۔اس فلک پر علامہ کی ملاقات حکیم مریخی سے ہوتی ہے اور دیگر باتوں کے علاوہ جبروقدر(تقدیر اور تدبیر) پر مکالمہ ہوتا ہے۔ یہاں علامہ نے ’’مرغدینِ برخیا‘‘ کے ایک خیالی خطہ کی تفصیل بیان کی ہے جس کی سیر کے دوران میں انھوں نے دیکھا کہ اس شہر کی عمارات بہت بلند ہیں۔ اس کے باشندے خوبرو، نرم خو، سادہ پوش اور شیریں مقال ہیں۔ وہ آفتاب کے نور سے کیمیا سازی کے ذریعے حسب ضرورت زرومال حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کے ہاں علم و فن کا مقصد دولت کا حصول نہیں بلکہ تمام لوگوں کی خدمت ہے۔ وہ درہم و دینار کے پجاری ہیں نہ مشینوں کے غلام۔ وہاں کوئی جاگیردار ہے نہ ہی سرمایہدار۔ کسان مسروروشادمان ہیں۔ وہاں پولیس، افواج، اسلحہ، جنگ وجدل، کذب و دروغ پہ مبنی ادب و صحافت، بیکاری و عریانی، سوال و سائل، حاکم و محکوم، آقا و غلام سب عنقا ہیں۔ غرضیکہ اقتصادی، سیاسی، سماجی اعتبار سے مرغدین کا معاشرہ بھی برطانوی ادیب ’’تھامس مور‘‘ (المقتول، ۱۵۳۵ئ) کے سفر نامے یوٹوپیا کاسا ایک یوٹوپیائی، مثالی اور آئیڈیل معاشرہ ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایک فلاحی اسلامی ریاست کا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے جس کی تصویر کشی مرغدینی معاشرے کی صورت میں کی گئی ہے۔اس فلک پر دو شیزۂ مریخ کو دکھایا گیا ہے جو درحقیقت مغربی عورت کی تمثیل ہے۔ اقبالؒ نے ایک تجرد پسند عورت کی زبان سے جو ’’نبیۂ مریخی‘‘ ہونے کی دعوے دار ہے، یورپ کی عورتوں کی بے راہروی پر تنقید کی ہے۔دانتے کا چھٹا فلک ’’مشتری‘‘ جبروت کا مظہر ہے اور اس کی صفت انصاف ہے۔ یونانی اور رومی اسے رب الارباب کی حیثیت دیتے ہیں۔ یہاں دانتے کی ملاقات اُن شخصیات سے ہوئی جنہوں نے دنیا میں انصاف کا بول بالا کیا۔ ان میں حضرت سلیمانؑ اور اُن کے والد حضرت داؤدؑ، حزیقیہ تراجن، کانسٹینٹائن، ولیم آف سسلی اور رے پی آس ہیں۔ جنابِ داؤدؑ اور جناب سلیمانؑ بڑے اُولوالعزم پیغمبر تھے۔ تراجن (پ:۵۲ئ) ۹۸ء سے ۱۱۷ء تک روم کا ہر دلعزیز حکمران رہا۔ اسی طرح انصاف و عدل برقرار رکھنے والا ایک اور حکمران کانسٹینٹائن (۲۷۲ء تا ۳۳۷ئ)، جسے قسطنطین بھی کہتے ہیں اور جو قسطنطنیہ یا استنبول کا بانی ہے۔ اس کا عہد ۳۰۶ء سے ۳۳۷ء تک کا ہے۔ ولیم صیقلیہ (سسلی) اور نیپلز کا ۱۱۶۶ء تا ۱۲۰۹ء تک حکمران رہا۔ رعایا نے اُسے ’’نیک‘‘ کا لقب دے رکھا تھا۔ اسی طرح رے پی آس ٹرائے کا ہیروتھا جو ایک محاصرے کے دوران مارا گیا۔ حضرت داؤدؑ کو شاہین کی صورت میں دکھایا گیا ہے اور دیگر مذکورہ بالا حکمرانوں کو آپؐ کی آنکھ پرابرو کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔علامہ کا فلکِ مشتری ایک ناتمام خاکدان ہے۔ اس کے گرد قمرطواف کرتے ہیں ؎آں جہاں آں خاکدانے ناتمامدر طوافِ اُو قمر ہا تیز گاموہاں ان کی ملاقات اسلام کی تین ایسی جلیل القدر ’’ملحدین اور زندیقین‘‘ ہستیوں سے ہوتی ہے جو اپنے آدرشوںمیں سچی اور کھری تھیں۔ انھوں نے سرخ عبائیں پہن رکھی تھیں۔ سوزدروں سے ان کے چہرے تابناک تھے اور ان کے سینوں میں فروزاں آگ زندگی کی علامت تھی۔ شہید صداقت ہوکر عشق کو لازوال روحانیت بخشنے والی یہ عظیم ہستیاں تھیں، حسین بن منصور حلاج، غالب اور قراۃ العین طاہرہ ؎غالب و حلاج و خاتونِ عجمشور ہا افگندہ در جانِ حرماین نواہا روح را بخشد ثباتگرمیِ اُو از درونِ کائناتفلکِ مشتری سعادت کی وجہ سے ’’السعد الاکبر‘‘ کہلاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ان تین عاشقانِ جلیل کو بود و نبود، تقدیر، انبیا اور ابلیس کے عمیق ترین اسرار و رموز کے بارے میں گفتگو کرتے دکھایا ہے جس میں زیادہ تر گفتگو حلاج کی زبانی ہے۔ علامہ کی نظر میں ہرسہ افراد کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا اس لیے انھوں نے ان کی ارواح کو ’’ارواحِ جلیلہ‘‘ کا لقب دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کی ارواح نے جنت میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ’’گردشِ جاویدان‘‘ اختیار کی۔دانتے اپنی رہنما کے ساتھ ساتویں سیارے زحل میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں مفکرین اور راہبوں کی ارواح رہتی ہیں جو روشنی کے روپ میں ایک سنہری زینہ جسے ’’زینۂ یعقوب‘‘ بھی لکھا گیا ہے، کے گرد اکٹھی ہیں۔ یہ ارواح پیٹروامیان، بیبڈکٹ، مارکریس اور روموالڈوس وغیرہ کی ہیں۔ ان ارواح کا تعارف ڈور تھی سیرز (Dorothysayers) کے الفاظ میں یوں کرایا جارہا ہے:And the most brilliant and magnificent of those bright pearls came forward from its cluster to make constant my wish concerning it. Here is Macarius, here is Romualdus. Here are my brothers who kept steadfast heart and planted their feet with in the cloister walls.اسی فلک پر دانتے نے غدارانِ ملت، موقع پرست، ابن الوقت اور غدار لوگوں کو دیکھا ہے۔ ان کے بارے میں وہ لکھتا ہے:The high creator scourged them from Heaven for its perfect beauty, and Hell will not receive them since the wicked, might feel some glory over them, "And I: "Master, what gnaws at them so hideously their lamentation turns the very air?" "They have no hope of death," he answered me, and in their blind and unattaining state their miserable lives have sunk so low that they must envy every other fate. No word of them survives their living season, Mercy and justice deny them even a Name, Let us not speak of them: look, and pass on.(Translation: John Gardi)عقوبت کا یہ عالم تھا کہ خلاقِ ازل نے ان کو جنت کے قریب ہوکر گزرنے کی اجازت بھی نہ دی، کہاں جنت کا حسن روح پرور اور کہاں بدصورتی وہ جونہاں ان کے عمل میں تھی،دوزخ نے بھی ان روحوں کو لینے سے انکار کیا کہ ان کے واسطے اس کا بھی دامن تنگ ہی نکلا، یہ پوچھا میں نے مرشد سے، میرے آقا! یہ کیسا گھن ہے جو ان کی روح کو لگتا ہے ا ور ان کو مائلِ فریاد کرتا ہے، اور پھر فریاد بھی ایسی کہ جس سے ہے فضا میں چار جانب کپکپی طاری، تو مرشد نے فرمایا کہ یہ روحیں وہ روحیں ہیں، جنہیں لینے سے عزرائیل بھی انکار کرتا ہے، یہ روحیں زندگانی سے تو تھیں مایوس پہلے ہی مگر اب موت سے بھی ان کو یکسرنا امیدی ہے،یہ ابن الوقت یہ موقع پرستانِ ازل، اس طرح اندھے ہیں،گرے ہیں ایسی پستی میں کہ اس عالم میں بھی ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں اور ان کی آرزویہ ہے کہ،حق ایک دوسرے کا مارلیں گر بس چلے ان کا،زمانے کا بس یہی فیصلہ ہے ان کے بارے میں کہ ان کا نام تک بھی دہر میں باقی نہ رہ جائے،حقارت رحم کو ان سے، ہے نفرت عدل کو ان سے،تقاضا اس لیے دونوں کا، علم و عقل کا یہ ہے کہان کا نام تک، ان کا نشان تک ختم ہوجائےمناسب اس لیے یہ ہے کہہم بھی بات کو بدلیںان ارواحِ رذیلہ کے بیان کو چھوڑ دیں ہم بھی، وہ دیکھو سامنے، آگے بڑھو!فلکِ زحل کے بارے میں پیرِ رومی، زندہ رود (علامہ اقبال) سے کہتے ہیں:یہ نہایت منحوس فلک ہے۔ یہاں نیکی بھی بدی میں بدل جاتی ہے۔ یہاں رحمت کے بجائے ہر وقت خدا کا قہرنازل ہوتا رہتا ہے یہ فلک اُن ارواحِ رذیلہ کا مسکن ہے جنہیں دوزخ نے بھی قبول نہیں کیا۔فلکِ زحل کو ستارہ شناس نحسِ اکبر بتاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی یہاں غدارانِ وطن کو مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔آنچہ دیدم می نگنجد در بیانتن زسہمش بے خبر گردد زجاں!من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم زخوں!قلزمے، طوفاں بروں، طوفاں دروں!در ہوا ماراں چو در قلزم نہنگکفچہ شب گوں بال و پر سیماب رنگ!موجہا درّندہ مانندِ پلنگ!از نہیبش مردہ بر ساحل نہنگ!بحرِ ساحل را اماں یک دم ندادہر زماں کُہ پارۂ در خوں فتادموجِ خوں باموجِ خوں اندر ستیزدرمیانش ز ورقے در اُفت و خیز!اندراں ز ورق دو مردِ زرد روےزرد رُو، عریاں بدن، آشفتہ موے!(میں نے جو دیکھا، وہ بیان نہیں ہوسکتا۔ اس کے خوف سے جسم روح سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ دیکھا کیا؟ ایک خون بھر اسمندر۔ اس کے اندر اور باہر بھی طوفان۔ اس کی فضا میں سانپ ایسے ہی تھے جیسے سمندر میں مگر مچھ ہوتے ہیں۔ ان پرواز کرتے سانپوں کے بازو سیاہ اور پرسفید تھے۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی سی درندگی لیے ہوئے تھیں کہ ان کے خوف سے مگر مچھ ساحل پر ہی دم توڑ دیں۔ ساحل، سمندر سے مل گیا تھا اور ہر لخطہ چٹانیں سمندر میں جاگرتی تھیں۔ اس خون آلود سمندر کی موجیں متصادم تھیں اور ان کے بیچ ایک کشتی اُفت و خیز میں مبتلا تھی۔ اس کشتی میں دو شخص بیٹھے ہوئے تھے، اُن کے چہرے زرد، جسم عریاں اور بال پریشان تھے۔)یہ تھے میر جعفر اور میر صادق۔ میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے بے وفائی کی اور میر صادق نے ٹیپو سلطان سے۔ ان دو طاغوتوں کی وجہ سے ایک قوم فنا ہوگئی۔ ان کا وجود آدم، دین اور وطن کے لیے بلاشبہ باعث شرم ہے۔ ؎جعفر از بنگال و صادق از دکنننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطنپھر روح ہندوستان ایک حسین اور خوش لباس حور کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اپنی غلامی پر نوحہ و فریاد کرتی ہے کہ اہلِ ہند جذبۂ حب الوطنی سے بے بہرہ ہیں۔ وہ رسوم و قیود میں جکڑے ہوئے ہیں اور ملی غیرت و خودی سے عاری ہیں۔ وہ تمام غداروں کی دہائی دیتی ہے ؎الاماں از روحِ جعفر الاماںالاماں از جعفرانِ ایں زماںیہ فریاد اتنی درد ناک ہے کہ جہنم بھی ان غداروں کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے چنانچہ یہ غدار روحیں مایوسی و نااُمیدی کے عالم میں کہتی ہیں ؎ایں جہاں بے ابتدا بے انتہا ستبندۂ غدار را مولا کُجا ستگرچہ ہے بے ابتدا، بے انتہا اپنا جہاں! لیکن اس میں بندۂ غدار کا مولا کہاں؟اس کے بعد یکایک اس قلزم خونی میں ایک ہولناک طوفان برپا ہوتا ہے اور وہ کشتی اس میں غرق ہوجاتی ہے۔ دونوں شعرا ستم شعاروں اور متشدد لوگوں سے نفرت کرتے تھے تاہم نظام معاشرہ اور طرز سیاست میں دونوں میں واضح تضاد ہے۔ دانتے ملوکیت کا حامی تھا جبکہ اقبالؒ اس طرزِ حکومت کے سخت ناقد تھے۔دانتے کا اس سے اگلا مقام ثوابت کا ہے جو ثباتِ خداوندی کا مظہر اور اعتدال کی صفت سے موصوف ہے۔ جہاں مسیحؑ کے علاوہ حضرت مریم ؑ، حضرت آدمؑ، حضرت یحییٰؑ، سینٹ پیٹر، سینٹ جیمز وغیرہ کی ارواح ہیں۔ اس مقام کی آخری سیڑھی پر جناب یسوع مسیحؑ اور حضرت مریم ؑ براجمان تھے۔ ان دونوں نے پیٹر، جیمز اور جان کو حکم دیا کہ وہ شاعر کا امتحان لیں۔ چنانچہ انھوں نے ایمان، اُمید اور محبت کے متعلق چند سوالات کیے جن کے شاعر نے تسلی بخش جواب دیے چنانچہ یسوع مسیحؑ نے اُن کے لیے دعائے برکت کی۔نویں منزل پہ عشقِ خداوندی کے مظہر فرشتہ سیرافیم سے دانتے کی ملاقات ہوتی ہے۔دانتے کی آخری منزل فلک الافلاک ہے۔ یہ عالمِ لاہوت ہے۔ زمان و مکان کی قیود سے آزاد اس مقام پر بیاترچے جلالِ ایزدی کی فضا میں چلی جاتی ہے اور روحانی فراست و وجدان کا مظہر سینٹ برنارڈ، بیاترچے کی جگہ لے لیتا ہے۔ دانتے یہاں مسیحؑ اور مریمؑ کے دیدار سے بہرہ یاب ہوتا ہے اور آخر پہ دیدار خداوندی سے مستنیر ہوتا ہے۔ جب وہ اُلوہیت کی تجلی دیکھتا ہے تو پہلی بار دور سے اسے خدا ایک درخشاں نقطہ دکھائی دیتا ہے، جس سے ایسی تیز روشن کرنیں پھیلتی ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور انھیں بند کرنا پڑتا ہے اور اس نقطۂ درخشاں کے گرد ایک منور دائرہ اتنی تیزی سے گردش کررہا ہے کہ جس کی رفتار کی پیمائش ناممکن ہے:Except that then my mind was struck by lighteningThrough which my longing was at last fulfilled.Here powers failed my high imagination But by now my desire and will were turned,Like a balanced wheel rotated evenly.By the love that moves the sun and the other stars.دانتے جب تجلی جلال و جمال کو نزدیک سے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے:’’اے لامتناہی الطافِ الٰہی!جس کی وجہ سے میں نے اس ابدی جمال سے آنکھیں سینکیں،اتنی دیر تک کہ گویا میری بصارت جاتی رہیاور اس کی گہرائیوںمیں، میں نے دنیا کے بکھرے ہوئے شیرازوں کو ایک جلد میں مجلد دیکھا،جوہر اور عرض اور ان کی خصوصیتیں اس طرح ایک دوسرے سے گھل مل گئیں کہ دیکھنے میں واحد شعلہ نظر آتا تھا۔‘‘علامہ اقبال کی آخری منزل آنسوئے افلاک ہے۔ یہی اعراف بھی ہے اور بہشت بھی اور یہی عالم لاہوت بھی ہے، زمان و مکان کی قیود سے آزاد۔ دانتے کے برعکس اقبال ذاتِ واجب الوجود کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمکالمہ کرتے ہیں اور مختلف مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں، کہتے ہیں:میں جنت سے تنہا روانہ ہوا اور میں نے اللہ کا نام لے کر اپنی جان کی کشتی نور کے سمندر میں ڈال دی۔ میں جمالِ ذات کے تماشہ میں مستغرق ہوگیا۔ جو ہرزمان در انقلاب اور لایزال ہے۔ کارکنانِ قضاوقدر نے میری جان کے سامنے ایک آئینہ آویزاں کردیا۔ اپنا ہی دیدار کرنے کے بعد مجھ پر حیرت و یقین کی کیفیت طاری ہوگئی۔پیشِ جاں آئینۂ آویختندحیرتے را بایقیں آمیختنداور مجھ پہ یہ حقیقت بھی منکشف ہوگئی کہ دراصل حق تمام حجابات کے باوجود ظاہر ہورہا ہے اور میری نگاہ سے اپنا دیدار کررہا ہے۔حق ہویدا باہمہ اسرار خویشبانگاہِ من، کند دیدار خویشاقبال کہتے ہیں کہ جب میں دیدار سے مشرف ہوچکا تو بارگاہِ ایزدی میں عرض کی:اے خدا! تیرے وجود سے ہی دونوں عالم (ارضی و فلکی) منور ہیں۔ ذرا اس دنیا کے حالِ زار پر بھی ایک نگاہ کر! تیری یہ دنیا تیرے بندوں کے لیے قطعاً ناساز گار ہے کیوں کہ اس کے گل سنبل سے کانٹے اُگے۔ دنیا کے غالب اور امیر لوگ عیش و عشرت میں محو ہیں اور مغلوب و غریب دن رات گن گن کر کاٹ رہے ہیں۔ خدایا! ملوکیت نے تیرے جہان کو خراب کردیا اور آفتاب کے نور کے باوجود یہاں تاریک رات ہی ہے۔ مغربی علوم اور سائنس سراپا غارت گری ہیں۔ حیدرؓ کے وجود کے فقدان سے بت خانے خیبر بنے ہوئے ہیں۔ لا الہ الا اللہ کہنے والا زار و بدحال ہے۔ نفاق اور لامرکزیت سے اس کی فکر پر اگندہ ہورہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ چار قسم کی اموات اس سخت جاں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں، سود خوار، حکمران، جامد مُلا اور جاہل پیر۔ذات حق کی بارگاہ سے جواب ملتا ہے:ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیستنزد ما جز کافر و زندیق نیستہر وہ شخص جس میں نئی دنیا پیدا کرنے کی قوت نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک کافر اور زندیق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔زندہ رود عرض کرتا ہے کہ مسلمانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی صورت کیا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ اگر مسلمان توحید پر عمل کریں تو احیا ہوسکتا ہے۔ زندہ رود سوال کرتا ہے کہ:میں کون ہوں؟ تو کون ہے؟ یہ عالم کہاں ہے؟ تیرے میرے بیچ دوری کیوں ہے؟ میں پابندِ تقدیر ہوں، تو لافانی اور میں فانی ہوں ذرا بتا تو سہی!بارِ گاہ ایزدی سے جواب ملتا ہے:جو شخص کائنات میں غرق ہوجاتا ہے۔ انجامِ کار مرجاتا ہے۔ اگر تو حیاتِ ابدی کا آرزو مند ہے تو اپنی خودی کو مستحکم کرلے تو کائنات تجھ میں سما جائے گی اور جب تو زمان و مکاں پہ غالب آجائے گا تو دیکھے گا کہ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔اب زندہ رود خدا سے آخری التجا کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے میری اور شرق و غرب کی تقدیر سے آگاہ کر دے۔ اس التجا کے جواب میں جلالِ ایزدی کی تجلی ہوتی ہے۔ زندہ رود غش کھاکر گرپڑتا ہے اور اسے بس اتنا ہی معلوم ہوسکا کہ وہ زیرِ فلک اپنی ہی زمین پر ہے، عالم سرخ اور تابناک ہورہا تھا اور اس کے ضمیر سے ایک ’’نوائے سوزناک‘‘ سنائی دے رہی تھی کہ ؎بگذر از خاور و افسونیِ افرنگ مشوکہ نیر زد بجوئے این ہمہ دیرینہ و نوآن نگینے کہ تو با اہر منان باختہٖہم بجبریلِ امینے نتوان کرد گرو!زندگی انجمن آرا و نگہبان خود استاے کہ در قافلۂ بے ہمہ شو باہمہ روتو فرد زندہ تر از مہرِ منیر آمدہٖآنچنان زی کہ بہرِ ذرّہ رسانی پر تو!چون پرکاہ کہ در رہگذر باد فتادرفت اسکندر و دارا و قباد و خسرواز تنک جامی تو میکدہ رسوا گردیدشیشہ گیر و حکیمانہ بیا شام و برو!(مشرق سے گزرجا اور فرنگیوں کے جادو کا اثر بھی نہ لے کیونکہ یہ دونوں پرانے اور نئے ایک جَو کے برابر قیمت نہیں رکھتے۔ اس نگینے (دل) کو جسے تو شیطانوں سے ہارچکا ہے جبریل امین کے پاس بھی گروی نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ تو اپنے بل بوتے پر سب کے ساتھ وابستہ رہ کے اس طرح زندگی گزار کہ دوسروں کا دستِ نگر نہ بن بلکہ اپنی ضروریات اپنے قوتِ بازو سے حاصل کر، یہی گویا تیری تقدیر ہے۔ تو روشن اور روشنی دینے والے سورج سے بھی زیادہ روشن ہے۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تو ہر ذرہ تک اپنی روشنی پہنچائے۔ اس تنکے کی مانند جو ہوا کے راستے میں پڑا ہو یونان کا سکندر بادشاہ اور ایران کے دارا، قباد اور خسروبادشاہ (بادِ فناسے) اُڑ گئے۔ میرے پیالے کی تنگی سے مے خانہ کی رسوائی ہوگئی۔ مٹکا اُٹھا اور عقل مندوں کی طرح پی جا۔)جاویدنامہ میں اقبال نے سات سیارگان میں سے چھے کی سیاحت پر ہی اکتفا کی اور دوزخ اور اعراف کے قریب بھی نہیں گئے۔ اقبال ساتویں سیارے میں جانے کی بجائے ’’آنسوئے افلاک‘‘ پہ جانکلتے ہیں اس سے مقصود جنت اور حضور و تجلی کے نئے تصورات و معانی کو پیش کرنا ہے۔ دانتے کا ’’کاخِ بریں‘‘ اور اقبال کا ’’آنسوئے افلاک‘‘ ایک ہی صورت کے دو پر تو ہیں۔ابلیس، دانتے اور اقبال دونوں کے سفرِ علوی کی راہ میں آتا ہے۔ دانتے کے یہاں دوزخ میں اور اقبال کے ہاں دوزخ کے بغیر، مگر ہر دو شعرا کا نظریۂ ابلیس الگ الگ ہے۔ دانتے کا ابلیس ایک مہیب، وحشت انگیز، بدنما اور مکروہ صورت لیے جہنم کے مرکز میں معصیت کے تمام دریاؤں کے دھارے میں کمرتک برف میں دھنسا ہوا ہے۔ اس کے تین مختلف روپ ہیں اور وہ گنہگاروں کو پکڑ کر چیرے پھاڑے چلا جارہا ہے ابلیس کی یہ بھیانک تصویر دانتے کے ترجمے کی صورت میں جان کیارڈی نے ان الفاظ میں پیش کی ہے:"On march the banners of the king of Hell" My master said, "Towards us look straight ahead, can you make him out at the core of the frozen shell?" Like a whirling windmill seen a far at twilight, Or when a mist has risen from the ground just such an engine rose upon my sightStirring up such a wind and bitter windI covered for shelter at my master's back,their beeing on other windbreak I could find when we had gone so far across the ice that it pleased my guide to show me the foul creature which once had worn the grace of Paradise.تاج دار جہنم کے پرچم ہماری طرف بڑھ رہے ہیں،نظر سامنے رکھو اپنی اگر تاجدارِ جہنم کو پہچاننا ہے،جس طرح سانس لیتی ہوئی دھند اُٹھے زمین سے اور یا جھٹپٹے میںتند جھونکوں سے چلتی ہوئی لمبے لمبے پروں کا سہارا لیے کوئی چکی کہیں دور سے اپنی صورت دکھائے، اسی طرح سے ایک پیکرِ مہیب اور بھیانک مرے روبرو تھااس کے پروں کی بدولت جو پھڑپھڑاہٹ کے عالم میں تھےہوا اس قدر تیز اور کاٹتی چل رہی تھی کہ میں کوئی ٹھکانہ نہ پاکر معاً چھپ گیا پشت مرشد کے پیچھے جب اس برف سے دور میں اور میرا مرشد ایک ایسی جگہ آگئےجہاں میرے مرشد نے مجھ کو بتایا کہ وہ دیکھ گندا، نجس، نفرت انگیز پیکرجو کبھی صاف ستھرا تھا، اُجلا تھا، بے عیب تھا، خوش آئند تھا، خوش نما تھا، حسین تھا۔اقبالؒ کا ابلیس ایک باعمل شخصیت ہے جو قوتِ محرکہ سے لبریز، جدوجہد کا مظہر، روشنی، گرمی اور حرکت میں غلطاں، سراپا شعلہ اور خواجۂ اہلِ فراق ہے۔ اور دانتے کی نسبت ابلیس کا یہ تصور بہت انوکھا اور منفرد ہے۔ اقبال نے ابلیس کو ’’خواجہ اہلِ فراق‘‘ کا نام دیا ہے۔ خواجہ اہلِ فراق کوئی طنزی یا تحقیری لقب نہیں ہے بلکہ اقبال کے دل میں اس ’’کافر ثابت قدم اور شائق سوزِ فراق‘‘ سے بہت ہمدردی ہے۔ انھوں نے اسے فلسفہ فراق کا مبلغ بناکر اس لیے پیش کیا ہے کہ خودی کے قیام کے لیے خدا کی ذات سے انسان کا فراق تا ابد ضروری ہے۔ ابلیس کی گفتگو میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریۂ ارتقا کا اہم جزو ہیں۔فلکِ مشتری پر جہاں رومی اور اقبال کی ملاقات حلاج، غالب اور قراۃ العین سے ہوتی ہے اور اقبال حلاج کے روبرو اپنے دل کی تڑپ بیان کرتے ہوئے عبدہ‘، دیدارِ رسولؐ، دیدارِ حق، فرقِ زاہد وعاشق اور معرفت کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو اسی دوران وہ ابلیس کے متعلق حلاج سے کہتے ہیں:کچھ اس کے حال سے مجھے آشنا کر جس نے اپنے آپ کو آدم سے بہتر قرار دیا اور جس کے جام و خم میں اب نہ مے باقی ہے اور نہ تلچھٹ۔ ہم انسانوں کی مشتِ خاک تو گردوں آشنا ہوگئی ہے اس بے سرو و ساماں کی آگ کس عالم میں ہے؟تو حلاج جواب دیتا ہے:کم بگو زاں خواجۂ اہلِ فراقتشنہ کام و از ازل خونیں ایاقما جہول او عارف بود نبودکفر او ایں راز را بر ما کشوداز فتادن لذّتِ برخاستنعیش افرزودن ز درد کاستنعاشقی در نارِ او وا سوختنسوختن بے نارِ او ناسوختنزانکہ او در عشق و خدمت اقدم استآدم از اسرار او نا محرم استچاک کن پیراہنِ تقلید راتا بیا موزی از و توحید را(اس خواجہ اہلِ فراق کی بات نہ کر۔ وہ ازل سے تشنہ کام ہے اگرچہ اس کا پیالہ خونیں شراب سے پُر ہے۔ ہم جاہل ہیں اور وہ ہستی و نیستی سے واقف ہے۔ اس کے انکار نے ہم پر یہ راز واضح کیا۔ اُٹھنے کی لذت گرنے ہی سے ہے۔ بڑھنے کا لطف کھودینے کے درد ہی سے ہے۔ اس کی آگ میں جلنا عاشقی ہے اور اس کی آگ کے بغیر جلنا نہ جلنے کے برابر ہے۔ کیونکہ وہ عشق اور عبادت میں آدم سے قدیم تر ہے اس لیے آدم اس کے اسرار سے نامحرم ہے۔ تقلید کا پیرہن چاک کرتا کہ اس سے توحید سیکھ سکے۔)رومیؒ کی زبانی علامہ نے ابلیس کا سراپا یوں بیان کیا ہے:کہنۂ، کم خندۂ، اندک سخنچشم اُو بینندۂ جاں در بدن!رند و ملا و حکیم و خرقہ پوشدرعمل چوں زاہدانِ سخت کوشفطرتش بیگانۂ ذوقِ وصالزہدِ او ترکِ جمالِ لا یزال!تا گسستن از جمال آساں نبودکار پیش افگند از ترکِ سجوداندکے در وارداتِ او نگرمشکلات او ثباتِ او نگر!غرق اندر رزمِ خیر و شر ہنوزصد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز(وہ بوڑھا، سنجیدہ اور کم سخن تھا مگر اس کی نظر بدن میں روح میں دیکھنے والی تھی۔ وہ رند، ملا، حکیم و فلسفی، خرقہ پوش، صوفی اور عمل و عبادت میں سخت کوش زاہدوں کا سا تھا۔ اس کی فطرت ذوق وصال سے ناآشنا تھی۔ جمال لایزال سے فراق اختیار کرنا اس کا زہد تھا۔ چونکہ جمالِ ایزدی سے انفصال ممکن نہ تھا اس نے انکارِ سجدہ سے اسے طے کیا۔ ذرا اس کی وارداتوں کو دیکھ۔ اس کی مشکلوں اور اس کی ثابت قدمی کو دیکھ۔ وہ اب بھی خیروشر کے معرکے میں مصروف ہے۔ صدہا پیغمبر دیکھے اور اب بھی کافر ہے۔)۴۷؎ دانتے کے ہاں جابجا منظر نگاری کا کمال نظر آتا ہے۔ اقبال کے ہاں منظر نگاری کی مثالیں مقابلتاً کم ہیں لیکن جس قدر ہیں اپنی مثال آپ ہیں۔ لارڈ کچز اور فرعون کی دریائے زہرہ میں موجودگی فلکِ زہرہ پر خون کے دریا میں جعفر و صادق کی حالتِ زار اور آنسوئے افلاک، شاہانِ مشرق کے جاہ و جلال کا منظر اس نوع کی چند مثالیں ہیں۔ اقبال نے منظر نگاری کے بجائے اپنی توجہ زیادہ تر حقائق نگاری پر مبذول رکھی ہے لیکن اس کے باوجود جاویدنامہ محاکات کے محاسن سے خالی نہیں۔اقبال جن لوگوں کو جہنم میں دکھانا چاہتے تھے انھیں فلک زحل کے ایک قلزم خونیں میں مبتلائے عذاب دکھاتے ہیں۔ اور وہ لوگ فی الواقع اس عذاب کے مستحق تھے۔ جن لوگوں سے دانتے کو نفرت تھی انھیں اس نے دوزخ میں دکھایا ہے۔ اور اس میں اس کی واضح عصبیت جھلکتی ہے۔ ہومر سے لے کر ابن رشد تک اس کا ہر ناپسندیدہ فلسفی اور شاعر اور سیزر سے لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی تک ہر سپہ سالار جہنمی ہے۔ جب وہ جہنم کی ڈھلوانوں سے گزرتا ہے تو اس نے ایک ایسے گروہ کو دیکھا جو عزت و وقار میں بلند تھا۔ ورجل، دانتے کو بتاتا ہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں دنیا میں جن کے شرف و جلال کی شہرت بلند ہوکر عرش پر صدائے بازگشت کی طرح پہنچتی تھی۔ عرش پر ان کے کارناموں کا چرچا ہوتا تھا۔‘‘ دانتے لکھتا ہے:میرے کانوں میں آواز آئی کہ اس شاعر کی عزت کرو جو تم سے دیر میں رخصت ہوا تھا اور اب اس کی روح واپس آرہی ہے… یہ شاعر ’’ہومر‘‘ ملک الشعرا ہے۔ اس کے بعد ’’فلیکس‘‘ ہے جو ہجو کا استاد ہے۔ تیسرا ’’ناسو‘‘ ہے، آخر میں ’’لوکن‘‘ ہے… پس اس طرح میں نے ان شاعروں کو یکجا دیکھا جو ’’ملک الشعرا‘‘ کی جماعت کے تھے۔ ان کا کلام اعلیٰ و ارفع تھا اور دوسروں کے کلام سے اتنا بلند تھا جیسے کہ عقاب ہوا میں اونچا اڑتا نظر آئے…انھوں نے مجھے اپنی جماعت کا شاعر سمجھا اور میرا درجہ ان میں چھٹا رکھا گیا۔وہ تمام لوگ ایک عالیشان قصر کے پاس آئے جس کے گرد سات فصیلیں تھیں اور ایک پرفضا دریا اس کے گرد بہہ کر اس کی حفاظت کررہا تھا۔ سات دروازوں سے گزر کر وہ ایک میدان میں آئے جس میں ہر طرف سبزہ اور تازگی تھی:اس سبزہ زار کے فرشِ زمر دیں پر مجھ کو وہ بزرگ روحیں دکھائی گئیں جن کو دیکھ کر خود اپنی نظروں میں میری قدر بڑھی۔ یہاں میں نے الکڑا کو اور لوگوں کے ساتھ دیکھا جن میں ہیکتر کو میں پہچانتا تھا اور ان کی سیس کے فرزند سعید کو بھی میں جانتا تھا اور سیزر کو جس کی نظر شکرے کی سی تھی اور سر سے پاؤں تک وہ مسلح تھا، اور کامیلا کے ساتھ میں نے پٹتھی سیلیا کو دیکھا۔ دوسری جانب بُڈھے بادشاہ لاتینوس کو دیکھا کہ اپنی نو عمر بیٹی لادینیا کے ساتھ بیٹھا ہے، اور اس بروٹس کو بھی دیکھا جس نے تارکوین کا تعاقب کیا تھا۔ لکریتیا اور کیٹولی بیوی مارسیا مع جولیا اور کورمیلیا کے بیٹھی نظر آئیںاور تنہا ایک طرف کو سلطان صلاح الدین اعظم، جس کے چہرے پر رُعب تھا، بیٹھا ہے اور جب میں نے کسی قدر نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ارباب فضل و دانش اور ان کا سردار حکما کے اس گروہ میں بیٹھا ہے اور اس کی سب تعریف کرتے ہیں اور سب اس کی تعظیم و تکریم میں مصروف ہیں۔ یہاں سقراط اور افلاطون کو میں نے دیکھا اور ان سے مرتبے میں قریب دیماقطریس کو دیکھا جس نے اتفاق کو کائنات کی علت العلل سمجھا تھا۔ دیوجانس، سقراط کے ساتھ اور ہر قلیطوس اور ایمپی دوکلیز اور اتاثا غوریاس اور ثالیس حکیم، زینو اور وابوسکوریدس جو فطرت کے مخفی دفتروں کو خوب پڑھ چکے تھے، موجود ہیں اور فیوس، لونس اور ٹلی اور علم الاخلاق کے استاد سنیکا، اقلیدس، بطلیموس، بقراط، جالینوس اور بوعلی سینا اور اس کو بھی دیکھا جس نے حکمتِ ارسطو کی شرح کی تھی، یعنی ابنِ رشد کو۔ ان سب کا مفصل حال لکھنا سعی عبث ہوگا۔کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی حتیٰ کہ اس نے اپنے استاد تک کو نہیں بخشا۔ جہنم کے ساتویں طبقے کے تیسرے درجے میں انھیں روحوں کا ایک غول ملا، دانتے لکھتا ہے:اس غول میں جتنی روحیں تھیں انھوں نے مجھ کو اس طرح دیکھنا شروع کیا جیسے کوئی نئے چاند کو نکلتا دیکھے یا کوئی بُڈھا درزی دھاگہ پرونے کے لیے سوئی کے ناکے کو غور سے دیکھے۔ جب اس غول کی روحیں ہم کو اس طرح غور سے دیکھ چکیں تو ان میں سے ایک روح نے مجھے پہچان لیا اور میرا دامن پکڑ کر کہنے لگی: ’’یہ ہم کیسی عجیب صورت حال یہاں دیکھ رہے ہیں!‘‘ جب اس نے میرا دامن پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس کی جھلسی ہوئی صورت اور آنکھوں کو غور سے دیکھا گو اس کی آنکھیں گرمی اور آگ کے اثر سے متغیر تھیں مگر میں نے اس کو بہرکیف پہچان لیا۔ اب مجھ کو یہ صورت خوب یاد آگئی اور میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاکر کہا ’’سربرونیتو! کیا یہ آپ ہیں؟۴۸؎ دانتے ایک کٹر اور متعصب عیسائی تھا۔ طربیہ میں عیسائیت کا خاصہ پرچار ہے اور اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر تثلیت کو پیشِ نظر رکھا۔ تین کا ہندسہ اس کے لیے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ دوزخ کے بغیر باقی دونوں حصے ۳۳ کینٹوز پر مشتمل ہیں۔ دوزخ کو وہ تثلیت کے حوالے سے دیکھنے کا آرزو مند تھا ہی نہیں۔ ہر کینٹو کی بحر بھی ’’ثلاثی‘‘ یعنی تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ بہشت میں صرف تین انبیا علیہم السلام حضرت داؤد، حضرت سلیمانؑ اور حضرت مسیحؑ کا ذکر کیا ہے۔وہ اسلام کے بارے میں بھی خاص قسم کے تحفظات رکھتا تھا۔ معراج کی اسلامی روایات سے بھرپور استفادہ کے باوصف اس نے اس کا کہیں حوالہ دیا اور نہ ہی اعتراف کیا ہے جو اس کی ادبی بدیانتی کا ثبوت ہے۔ اس نے غیر عیسائی شخصیات کا ذکر نہایت تنگ نظری سے کیا ہے۔ حضرت محمد ا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ذکر اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ادب عالیہ میں اس قسم کی تنگ نظری اور تعصب کسی طور سے روا نہیں۔ اس کے برعکس جاویدنامہ میں گوتم بدھ اور زرتشت کو پیغمبروں کے زمرے میں دکھایا گیا ہے جبکہ وشوامتر اور بھرتری ہری جیسی ہندو شخصیات، نیٹشے اور طاہرہ جیسے ملحدین کو نہ صرف اطرافِ بہشت میں دکھایا ہے بلکہ ان کے فضائل کا بھی اعتراف کیا ہے، اسی طرح کارل مارکس اور ٹالسٹائی جیسی غیر اسلامی شخصیات کا ذکر عقیدت و احترام سے کیا ہے۔ اقبال کی دیگر تصانیف میں بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ دانتے اور اقبال کے اندازِ فکر کا یہ ایک نمایاں پہلو ہے جسے کوئی بھی حق شناس قاری اور مورّخ فراموش نہیں کرسکتا۔جاویدنامہ نہ تو ڈیوائن کامیڈی کی طرح کا کوئی چربہ ہے اور نہ ہی اس قسم کی تصانیف کی کوئی تقلیدی کوشش یا صدائے بازگشت ہے۔ دونوں میں کہیں کہیں تواردات و تشابہات ضرور ہیں مگر دونوں کے مقاصد و اہداف الگ ہیں۔اتنی کمزوریوں کے باوجود مغربی ناقدین ادب اگر ڈیوائن کامیڈیکے کینوس کو وسیع قرار دیتے ہیں اور دنیائے شعر میں اسے آرٹ کا درجہ دیتے ہیں تو جاویدنامہ کی قدروقیمت بھی اس سے کسی طور کم نہیں۔ ==حوالہ جات==حوالے و حواشی۱- شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد بن عبداللہ بن حاتم طائی المعروف بہ ابن عربی دو شنبہ(پیر)، ۱۷ رمضان المبارک ۵۶۰ھ بمطابق ۲۸جولائی ۱۱۶۵ء کو اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ ۹۰ کے قریب نامور اور اعلیٰ مقام اساتذہ اور شیوخ سے اکتساب فیض کیا۔ تمام علوم متداولہ مثلاً قرأت، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، طب، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت اور دیگر علوم عقلیہ میں کامل دسترس حاصل کی۔ تالیفات وتصنیفات کی کثرت کے اعتبار سے پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی مصنف ایسا نہیں گزرا جس نے اپنے بعد اتنا بڑا عظیم الشان ذخیرۂ علمی اپنی یاد گار چھوڑا ہو۔ انھوں نے مختلف اسلامی موضوعات اور بالخصوص تصوف پر اپنی تصانیف کا جو عظیم الشان ذخیرہ چھوڑا ہے وہ ان کے زمانے کے تمام علوم اسلامی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عثمان یحییٰ نے اپنی تحقیقات اور تنقیحات کی بنا پر شیخ اکبر کی ۸۴۸ کتابوں اور رسالوں کا ذکر کیا ہے۔(Osman Yahiya: Histoire Et Classification de I' oeuvre d' Ibn Arabi, Damas, 1964.)ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی تالیف، محی الدین ابن عربی، حیات و آثار (ص۹۳تا ۱۱۹) میں ابن عربی کی ۵۱۱ کتب کی تفصیل لکھی ہے۔ تصوف کی دُنیا میں ’’شیخ الاکبر‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ ۷۵ برس کی عمر میں ۲۲ ربیع الثانی ۶۳۸ھ/ ۹نومبر۱۲۴۰ء کو وفات پائی۔۲- محی الدین ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد اوّل، مترجم، صائم چشتی، علی برادران فیصل آباد، ۱۴۱۲ھ ،ص۸۵۳- ڈاکٹر سید حسین نصر، تین مسلمان فیلسوف مترجم،پروفیسر مرزا محمد منور، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۷ئ،ص۹۱۴- محی الدین ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۴، تحقیق، عثمان یحییٰ، مطبوعہ، قاہرہ، مصر، ۱۳۹۲ھ،ص۷۷5- Asin, Palacios M, La Escatologia musulmana en la Divana Comedia, seguida de la Historiay Ctritica de una polemica. Eng. Tr. as Islam and the Divine Comedy by H. Sunderland, London, 1926.۶- دانتے کا شمار قرونِ وسطیٰ کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ ایک سپاہی، سیاست دان، مثالی عاشق اور مفکر تھا۔ وہ مئی ۱۲۶۵ء کے آخری ہفتے کی کسی تاریخ کو اطالیہ کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا جس کے لفظی معنی ’’پھولوں کا شہر‘‘ کے ہیں۔ فلورنس اس وقت علم و حکمت، فنونِ لطیفہ اور شاعری کے ساتھ ساتھ دولت و حشمت میں بھی اطالیہ کے تمام شہروں سے آگے تھا۔ دانتے کا پورا نام دیورانتے الغائری (Durante Alghieri) تھا۔ دانتے دراصل دیورانتے کا مخفف ہے اورالغائری اس کا خاندانی نام ہے۔ اس کا باپ الیغائروڈی بیلنکوں المیغائری ایک معمولی منشی تھا۔ وہ ابھی گھٹنوں ہی چلتا تھا کہ اس کی والدہ مونابیلا کا انتقال ہوگیا۔ اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی یوں وہ شفقتِ پدری سے بھی محروم ہوگیا۔ والدین کے پیار کی یہ محرومی ڈیوائن کامیڈی میں بھی جھلکتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی برونیتولاتی نی (Brunetto Latini) سے حاصل کی جو اطالوی زبان کا استاد، شاعر اور اپنے دور کا ایک بڑا سیاست دان تھا۔ دانتے نے فلسفہ کی تعلیم کے حصول کے لیے بلوگونا اور پیڈوا یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس سلسلے میں یونانی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔ دینیات کی تعلیم پیرس میں حاصل کی۔ دانتے کے ایک شارح ڈی کیمرون کے مطابق دانتے انگلینڈ بھی گیا۔ دانتے، تھامس ایکوئنس کے فکروفلسفہ سے بہت متاثر ہوا اور وہ اس کی عظیم اور ضخیم کتاب الٰہیات کے حصار سے تادمِ مرگ نہ نکل سکا۔ ایک زمانے (۱۲۸۹ئ) میں دانتے نے فلورنس کی فوج میں بھی اہم خدمات سرانجام دیں اور کئی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہا۔ وہ ایک تنہائی پسند روح تھی۔ اُس نے ایسی زندگی گزاری جو بے حد کر بناک اور مخالفتوں اور رقابتوں سے بھری ہوئی تھی۔ ۱۳۱۲ء میں سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے دانتے کو فلورنس سے جلاوطن کردیا گیا۔ اس کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔ اس کے بعد دانتے کو پھر کبھی اپنے پیارے شہر فلورنس میں آنا نصیب نہ ہوا۔ حکومتِ وقت نے دانتے کو پکڑ کر زندہ جلادینے کا حکم جاری کردیا۔ دنیا کا یہ عظیم شاعر اب آوارہ گرد اور بے خانماں تھا۔ وہ شمالی اور وسطی اطالیہ میں تنہائی اور مفلسی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اسی جلاوطنی کے دوران میں اُس نے ڈیوائن کامیڈی لکھی۔ عمر کے آخری ایام اس نے راوینا (Ravenna) شہر میں گزارے اور یہیں اس نے ۱۴ ستمبر۱۳۲۱ء کو انتقال کیا۔دانتے کی چھپن سالہ زندگی میں دو واقعات انتہائی اہم ہیں۔ ایک اوائل عمری میں نوسالہ بیاترچے سے مجنونانہ محبت اور دوسرا کمپالدی نو (Campaldino) کی لڑائی جس میں اس نے بھرپور حصہ لیا۔ڈیوائن کامیڈی کے علاوہ دانتے کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ان میں اس کی پہلی تصنیف عوام کی شاعری (De vulgari Eloquentia) ۱۳۰۴ء میں لکھی گئی۔ اس میں اطالوی شاعری کے محاسن اور اس کی تدریجی ترقی پر مدلل بحث ہے۔ دوسری کتاب دعوت (Convivo) ادب و فلسفہ کے بارے میں تھی۔ اس کی آپ بیتی Lavita Nouua (حیاتِ نو) کے نام سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب بیاترچے (Beatrice) سے اُس کے انوکھے اور لازوال عشق کی داستان ہے۔7- Carlyle, Thomas, On Heroes and Hero Worship, Everyman's Library, London, 1965,p-330.۸- دانتے، جہنم، مترجم، مولوی عنایت اللہ، بک ہوم، لاہور، جنوری، ۲۰۰۴ئ،ص۱۴۳9- On Heroes and Hero Worship, p-49-5110- Islam and Divine Comedy, p-55-67۱۱- چودھری محمد حسین، جاویدنامہ،نیرنگِ خیال، لاہور،اقبال نمبر، ۱۹۳۲ئ،ص۱۴۳12- Islam and the Divine Comedy, p-5-613- Ibid,p- 83-84۱۴- دانتے ، طربیہ ، کنیٹو۳۱؍۱۰۲، کنیٹو۳۵:۱۳۸15- Ibid, p-53-54۱۶-ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۔۱،ص۳۸۷۔۳۹۶، جلد۔۲، ص۶۷۹، ۶۸۱،۸۰۹، جلد۔۳، ص ۵۵۷، ۵۵۸، ۵۷۵، ۵۷۷،۲۲۷17- Islam and the Divine Comedy, p-105-115۱۸- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۔۳،ص۵۵۴۱۹- دانتے، طربیہ خداوندی، جنت: کینٹو۱۸/۲۸۔۳۳۲۰- ایضاً، جنت، کینٹو۳۱/۹۷، کینٹو۳۲/۲۰،۳۹۲۱- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلدا، ص۴۱۶وجلد۳ ، ص۵۷۷۲۲- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۱/۴۱۵، دانتے: طربیہ، جنت، ۳۲/۴۰۔۵۲۲۳-ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۲/۱۱۳، طربیہ: جنت: ۳۲/۱۱۸24- Islam and the Divine Comedy, p-160۲۵- دانتے، جنت: ۳۱/۲۷، ۳۳، ۴۳، ۵۰،۵۲،۷۹،۹۷26- Islam and the Divine Comedy, p- 176۲۷- دانتے، طربیہ خداوندی، جنت، ۳۳/۱۱۵۲۸- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ ، جلد۳/۵۲۳29- Islam and the Divine Comedy, p-53,54۳۰- ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ۲۰۰۲،ص۲۱۷۳۱- فتوحات جلد۲، ص۴۲۹، سیوطی، الآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، جلد۱،ص۱۵،۱۷32- Islam and the Divine Comedy, p-172۳۳- ڈاکٹر عبدالمغنی، اقبال اور عالمی ادب،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع دوم، ۱۹۹۰ئ،ص۲۹34- Islam and the Divine Comedy, p-277۳۵- ستار طاہر، دنیا کی سو عظیم کتابیں، کاروانِ ادب، ملتان، بارسوم، ۱۹۹۳ئ،ص۲۱۴،۲۱۵۳۶- ڈاکٹرمحمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ۲۰۰۲،ص۲۰،۲۱37-Francisco Gabrielli, Interno alle fonti orientali della Divina Comedia, in Arcadia III, Rome, 1919,p- 55-61بحوالہ، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر، ص۲۱۱۳۸- ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ص۱۹39- Vittorio Rossi, Storia della Litteratura italina per uso dei licei, Vol-I,II medio evo, 5th Edition, Milan, Vallardi, 1911, p-146. بحوالہ کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر، ص۲۱۱۴۰- اسلوب احمد انصاری، مطالعہ اقبال کے چند پہلو، کاروانِ ادب، ملتان، ۱۹۸۶ئ،ص۱۲۸۴۱- شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، جلد دوم ، شیخ محمد اشرف، لاہور، طبع ۱۹۵۱ئ،ص۳۷۷۴۲- ڈاکٹر محمد رفیق افضل، گفتارِ اقبال، لاہور، ۱۹۶۹ئ،ص۲۳۳۴۳-جگن ناتھ آزاد، اقبال اور مغربی مفکرین، مکتبۂ عالیہ لاہور، س ن،ص۱۲۸۴۴-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، منظوم اردو ترجمہ، رفیق خاور، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل ۱۹۷۶ئ، ص۔ف ۴۵- اقبال اور دانتے، مشمولہ اقبال اور مغربی مفکرین،ص۱۳۵ تا ۱۳۸۴۶-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ،مترجم، میاں عبدالرشید، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۹۲ئ،ص۳۳۴۷-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، تحقیق و توضیح، ڈاکٹر محمد ریاض، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۸۸ئ، ص۱۳۶،۱۳۷۴۸۔ دانتے، جہنم، مترجم، مولوی عنایت اللہ،ص۹۳،۹۴۴۹۔ ڈاکٹر عبدالمغنی، اقبال اور عالمی ادب،ص۵۷۲دیگر مآخذ۱- ڈاکٹر اسلم انصاری، ادبیاتِ عالم میں سیرِ افلاک کی روایت، کتابی سلسلہ مکالمہ ۷، کراچی،۲۰۰۳ء۲- اردو(اقبال نمبر) ،انجمن ترقی اردو، دہلی، طبع جدید، ۱۹۴۰ء۳- کلیم الدین احمد، اقبال۔ ایک مطالعہ،دہلی ، ۱۹۷۹ء۴- فرمان فتح پوری ، اقبال سب کے لیے،الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء۵- رفیق خاور،اقبال کا فارسی کلام: ایک مطالعہ،بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۸۶- ڈاکٹر عبدالشکور احسن، اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۷ء۷- علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع ہفتم، جون،۱۹۷۸ء۸- اشرف حسینی، دانتے کا طربیہ خداوندی اور جاویدنامۂ اقبال، مشمولہ اقبال، بزم اقبال لاہور، جلد۲۹، شمارہ۲، اپریل۱۹۸۲ء۹- جیلانی کامران، دوشیزۂ مریخ اور عورت کی آزادی،مشمولہ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، جولائی۱۹۸۸ء۱۰- طربیۂ خداوندی ،اطالوی سے منثور اردو ترجمہ، عزیز احمد، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی، ۱۹۴۳ء۱۱- طربیۂ خداوندی ،منظوم اردو ترجمہ، شوکت واسطی، ادارہ علم و فن، پاکستان،۱۹۸۲ء۱۲- یوسف سلیم چشتی، شرح جاویدنامہ، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، س ن ندارد۱۳- مظفر حسین برنی، کلیاتِ مکاتیبِ اقبال، اردو اکادمی، دہلی، اشاعت چہارم،۱۹۹۳ء۱۴- ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ، لاہور، (اقبال نمبر)، اپریل،۱۹۷۷ء۱۵- اکبر حسین قریشی، مطالعہ تلمیحات و اشاراتِ اقبال، اقبال اکادمی، پاکستان، لاہور،۱۹۸۶ء۱۶- محمود نظامی، ملفوظاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء۱۷- ڈاکٹر محسن جہانگیری، محی الدین ابن عربی: حیات و آثار،مترجم، احمد جاوید، محمد سہیل عمر، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، طبع دوم ،اکتوبر، ۱۹۹۹ء۱۸- احمد بن محمد المقری، نفح الطیب، جلد دوم، مصر، ۱۳۶۷ھ۱۹- نیرنگِ خیال،اقبال نمبر، مرتب حکیم یوسف حسن، لاہور، ۱۹۳۲ء 20- Arthur Arberry, Javid Nama, Eng. Tr., London, 1966.21- Dante Alighieri, The Divine Commedy, Translated by James Finn Cotter, Stony Brook, NY, 11794-3358-USA, 2004.22- Microsoft Corporation, Encarta Encyclopaedia, 2004.٭٭٭٭٭ی رکاوٹ ہے جسے جذبہ محبت سے ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔۶) کائنات ایک وحدت ہے۔ اس کی ہرچیز ایک دوسرے سے باہم منسلک ہے۔۷) نبوت ارتقا کائنات کا لازمی عنصر ہے۔۸) ختم نبوت نوع انسانی کے مماثل ہے۔ خودشعوری اب نوع انسانی سے ہی منزل پائے گی اس طرح آخری نبی کی تعلیمات بھی قیامت تک کے لیے حجت قرار پائی ہیں۔۹) انسان خودشعوری کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر جبریت اور قدریت سے آزاد ہوجاتا ہے اور ابلیس بے بس ہوجاتا ہے۔۱۰) انسان کی خودشعوری موت سے اپنا سفر ترک نہیں کرتی کیونکہ موت جسم پر وارد ہوتی ہے خودشعوری پر نہیں اور خودشعوری بالآخر کامیاب ہوگی۔حوالے و حواشی۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں جموں (جموں کشمیر) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جموں میں ہی حاصل کی۔ ۱۹۲۹ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا۔ سری پرتاب سنگھ کالج سری نگر اور پرنس آف ویلز کالج جموں میں بطور پروفیسر اور سری کرن سنگھ کالج میر پور (حال آزاد کشمیر) میں بطو رپرنسپل خدمات سرنجام دیں۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگاہوں میں کالج کی بندش پر لاہور منتقل ہوئے۔ ۱۹۶۳ء میں اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں سے ۱۹۶۵ء میں ریٹائر ہوئے اور ’’آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس‘‘ کی لاہور میں بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد چودھری مظفر حسین اس کانگریس کے ایڈمنسٹریٹو ڈائریکٹر مقرر ہوئے چودھری صاحب یہی خدمات انجام دیتے ہوئے ۲۰۰۳ء میں وفات پاچکے ہیں۔ رفیعالدین کے سوانحی خاکے کو چودھری مظفر حسین نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اُن کے مطابق رفیع الدین اپنی زندگی میں ہی عالمی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن ندوی اُن کے قدر دانوں میں شامل تھے۔ ایک امریکن یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر ضیاء الدین سردار رفیع الدین کو علامہ اقبال کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں حالانکہ خود رفیع الدین نے ہمیشہ اپنے آپ کو فکر اقبال کا طالب علم قرار دیا۔ ۲۹نومبر ۱۹۶۹ء کو کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ مزید تفصیلات کے لیے مظفر حسین کی کتاب پاکستان، اقبال اور نفاذِ سلام ملاحظہ ہو۔۲۔ مولانا راغب الطباخ ، تاریخ افکار علومِ اسلامی، ترجمہ افتخار احمد بلخی، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۹۷۳۔ عبدالرحمن ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون، جلد دوم، مترجم: مولانا راغب رحمانی دہلوی، نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۷۷ئ، ص۳۶۵۴۔ مولاناشبلی نعمانی، علم الکلام والکلام، نفیس اکیڈمی ،کراچی، ۱۹۷۹ء ، ص۸۸۵۔ ……ایضاً…… ص۱۶۱۶۔ اشرف علی تھانوی،مولانا ، اسلام اورعقلیات، ادارہ اشرفیہ، لاہور، س ن، ص۴۴۷۔ مولانا محمد حنیف ندوی ، مسلمانوں کے عقائد اور افکار، ترجمہ مقالات الاسلامیہ، علامہ ابوالحسن اشعری، ۲۰۰۱، ص۶۱۸۔ ڈاکٹر، محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۹۴ء ،ص۲۹۔ ……ایضاً…… ص۸۵۱۰۔ مولانا شبلی نعمانی ، علم الکلام والکلام، ص۱۲۴۱۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۸۲۱۲۔……ایضاً…… ص۸۶۱۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۱ء ، ص۶۸۱۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور ۱۹۵۹ء ، ص۱۷۳۱۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۹۱۱۶۔ ……ایضاً…… ص۹۵۱۷۔ ……ایضاً…… ص۹۵۱۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اقبال کا فلسفہ، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۰ئ، ص۶۷۱۹۔ ……ایضاً…… ص۹۷۲۰۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۱ئ، ص۵۹۲۱۔ ……ایضاً…… ص۷۶۲۲۔ ……ایضاً…… ص۷۶۲۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، صحیح فلسفہ کیا ہے؟ قرآنی کی راہنمائی میں، اقبال ریویو، جولائی۱۹۴۶ئ، ص۱۱۸۲۴۔ ……ایضاً…… ص۱۴۰۲۵۔ ……ایضاً…… ص۲۲۷۲۶۔ ……ایضاً…… ص۳۳۵۲۷۔ ……ایضاً…… ص۳۰۳۲۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۶۸۲۹۔ ……ایضاً…… ص۱۳۲۳۰۔ ……ایضاً…… ص۱۱۱-۱۱۳۳۱۔ ……ایضاً…… ص۱۱۶۳۲۔ ……ایضاً…… ص۱۴۹۳۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۴۹-۱۵۱۳۴۔ ……ایضاً…… ص۱۶۱-۱۶۳۳۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۲۷۳۶۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۴۴۳۷۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۰۷۳۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، مینی فسٹو آف اسلام، دعوۃ اکیڈمی ،اسلام آباد، ۱۹۹۰ئ، ص۱۸۳۹۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۶۹۴۰۔ ……ایضاً…… ص۶۹۴۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، مینی فیسٹو آف اسلام، ص۱۲۸۴۲۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۵۶۴۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۹۳۴۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۱۵۴-۱۵۶۴۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، عشق و آزادی، اسلامی تعلیم (دو ماہی لاہور)، جلد۲، شمارہ۵، ستمبر اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص۵۶۴۶۔ ……ایضاً…… ص۷۴۷۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۳۱۸۴۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین،قرآن اور علم جدید، ص۳۲۸۴۹۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین،عشق و آزادی، اسلامی تعلیم(دو ماہی لاہور)، جلد۲، شمارہ۵، ستمبر اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص۹۵۰۔ ……ایضاً…… ص۱۰۵۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۳۲۹۵۲۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، آئیڈیالوجی آف دی فیوچر، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ۱۹۹۰ئ، ص۲۲۷