آزادی اظہار[1] دو ٹوک اور صاف کہا جائے تو آزادی اظہار رائے کا یہی مفہوم نکلتا ہے کہ ”دنیا کے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار لکھ کر یا بول کر ببانگ دہل کر سکتا ہے۔“ اس کے جزیات میں جائے بغیر اگر ہم سرسری سا اس پر غور کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہر شخص کو حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے کا اختیار ہے۔ آغاز میں آزادی اظہار رائے کی تحریک دراصل حکومت سے مخاصمت کا ہی نتیجہ تھی، حکومتیں اپنے معاملات کو ہمیشہ پوشیدہ رکھنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اخبارات اکثر حکومتوں کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑ دیا کرتے تھے۔ پریس کی مقبولیت کی وجہ سے حکومتیں اکثر دباؤمیں رہتی تھیں، اسی کے پیش نظر 1966ءمیں ایک قانون امریکا کو منظور کرنا پڑا، جس کے تحت عوام الناس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی ادارے سے کسی بھی نوعیت کی معلومات حاصل کر سکتا ہے تاہم اس قانون میں چند چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ یہ وہ اطلاعات ہے جو حکومت ملک کے تحفظ کی خاطر خفیہ رکھ سکتی ہے۔ یعنی قومی سلامتی، ادارے کے اندرونی قوائد، اطلاعات جو وفاقی قوانین کے تحت متنثیٰ ہیں، کاروباری راز، ذاتی خلوت، قانون نافظ کرنے والے اداروں کے ریکارڈ، بنک کی رپورٹس، تیل اور گیس کے کنوؤں کے نقشے۔

لیکن موجودہ دور میں آزادی اظہار راے کے نام پر کچھ لوگوں نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ بلیک میلنگ کا گھناؤنا کھیل بھی اس کے بعد شروع ہوا۔ صحافت کو مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس شعبے میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو گئے، جنہوں نے خلوت اور جلوت جیسے الفاظوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آزادی اظہار راے کا بہت غلط استعمال ہوا۔ جس نے معاشرے میں پاکیزگی جیسے الفاظ کو مجروح کیا۔ جن مقاصد کے لیے آزادی اظہار رائے کی جنگ لڑی گئی وہ پس پشت ڈال کر میڈیا نے اپنے اہداف تبدیل کر ڈالے۔ ان معاملات میں حکومتوں کا رویہ بھی متضاد رہا۔ حکومت کو صرف اس چیز سے غرض تھی کہ اس کے معاملات منظر عام پر نہ آئے۔ حکومت سے لوگ برگشتہ نہ ہو۔ پریس نے حکومت کی ان خواہشوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر وہ کارہاے نمایاں سرانجام دیے کہ الامان والحفیظ۔

صحافت میں اگر آزادی اظہار پر قدغن لگا دی جائے تو صحافت کا عظیم مقصد فوت ہو جائے گا۔ جھوٹ اور افتراءپردازی معاشرے کو حقیقت آشکارا ہونے پر انارکی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ معاشرے کے طاقتور طبقوں کے خلاف زبان نہ کھولنا آزادی اظہار رائے کو کند چھری سے ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ خیر گزرے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا خصوصاً پاکستان کے میڈیا کو بالغ نظروں سے اپنے اصل اہداف کی طرف نظر رکھنی ہو گی۔

امریکا میں کسی شخص کی توہین اور اس کو نقصان پہنچانے والے معاملات پر گرفت کے لیے ہتک عزت کا قانون بنایا گیا ہے۔ یہ فرد کے تحفظ کے لیے ضروری تھا۔ میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے ایک عام آدمی اپنی ذاتی زندگی میں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگا تھا۔ اس کی نجی زندگی پر ضرب پڑ رہی تھی۔ اس مسئلے کے تدارک کے لیے ہتک عزت کا قانون بنایا گیا ہے۔

ہتک عزت کی عموماً دو اقسام ہوتی ہے۔ زبانی اہانت اور تحریری اہانت۔ زبان سے کسی فرد کے متلق ایسی بات کہی جائے جو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچائے تو یہ ہتک عزت میں شامل ہے۔ لیکن زبان کا پیغام کم افراد تک اپنی بات پہنچاتا تھا اس لیے اس کی سزا زیادہ سنگین نہیں ہوتی تھی۔ لیکن تحریری اہانت سے فرد کی ساکھ اس کی عزت کو نقصان پہنچنے کی صورت میں فرد کے خلاف زیادہ جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے لیکن میڈیا اب اس قدر منہ زور ہو چکا ہے کہ وہ ہتک عزت کے ان قوانین کو اہمیت نہیں دیتا۔ خصوصاً پاکستان میں صورت حال کافی سنگین ہے، ہتک عزت کے قانون کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ الیکٹرانک میڈیا کو آزادی ملنے کے بعد کچھ مرحلے تک میڈیا درست مسائل کی جانب نشاندہی کر دیا کر تا تھا۔ مگر اب ریٹنگ کے چکر میں کسی بھی شخص، سیاستدان کی عزت کو سرعام اچھالا جاتا ہے۔ اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو آزادی اظہار رائے پر پابندی کے حامیوں کا لیبل چسپاں کرکے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

(انتخاب:محمد شعیب اعوان) www.facebook.com/Shoaib172 Muhammad Shoaib Awan Friday, November 01, 2013

  1. آزادی اظہار