صحافت کی مختصرتاریخ (کتاب)

صحافت کی مختصرتاریخ‘ قوانین و ضابطہ اخلاق سیدبدر سعید کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔اس کتاب میں برصغیر میں صحافت کی تاریخ کو جوز1780 میں ’ ہکی بنگال گزٹ‘نامی انگریزی اخبار سے شروع ہوئی سے لے کر آج یعنی 236 سالوں کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔اس کتاب کی ضخامت 300 صفحات ہے۔ اس کتاب کا آغاز پہلے معلوم قلمی اخبار ’ اکٹا ڈیورنا‘ سے ہوتی ہوئی برصغیر میں چھاپے خانے کی آمد تک آتی ہے۔ اس کتاب میں دنیا کے مختلف حصوں میں صحافت کے سفر کو بھی مختصراً بیان کیا گیاہے۔ اس کتاب میں برصغیر کے پہلے ایڈیٹر جیمز آگسٹس ہکی، اس خطے کے پہلے شہید صحافی’ مولوی محمد باقر‘ کا بھی ذکر ہے۔ مولوی محمد باقر ،مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور ’دہلی اخبار‘ کے مدیر تھے، بعد ازاں اس اخبار کا نام تبدیل کرکے ’دہلی اردو اخبار‘ کر دیا گیا تھا۔ مولوی باقر 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔اس کتاب میں سرسید احمد خان کے سیدالاخبار کا بھی ذکر ہے۔ کتاب میں ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن کے قیام سے آنے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور صحافت اور سیاست کے درمیان ہونے والی معرکہ آرائیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب میں مختلف ادوار میں ہونے والے قانون سازی اور ضابطہ اخلاق کا بھی ذکر ہے۔ اس کتاب میں صحافت کے جدید ترین دور یعنی آن لائن صحافت پر بھی بات کی گئی ہے۔بدر سعید نے کتاب میں سائبر کرائم بل 2015 کو جسے حکومت کی جانب سے ایکٹ کا درجہ دیا گیا ہے کا بھی احاطہ کیا گیاہے۔

مصنف کے بارے میں

ترمیم

سید بدر سعید ما س کمیونی کیشن میں ایم فل ہیں۔وہ زمانہ طالب علمی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ اس عرصے میں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور مختلف ٹی وی چینلز کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔بدر سعید اب تک سینکڑوں کی تعداد میں کالم تحریر کرچکے ہیں اور ا ے آروائی نیوز سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کے لیے کئی کرائم شوز کی اقساط تحریر کرتے رہیں، جبکہ ریڈیو پاکستان سے بھی بطورااسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے ایف سی کالج سے بی اے آنرز کے دوران ہی ایک کتاب ’خودکش بمبار کے تعاقب میں‘ لکھی۔2012 میں اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کالجز اور لائبریریز کے لیے منظور کیا۔صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین و ضابطہ اخلاق ان کی دوسری کتاب ہے [1]۔

حوالہ جات

ترمیم