صدیق نقوی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
صدیق نقوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانے پہچانی والی شخصیت کانام محمد صدیق نقوی اور تخلص نقویؔ فرماتے ہیں۔ آپ کی پیدائش ضلع کرنول کے شہر ادونی میں یکم جولائی1962 ء کو ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم ادونی میں حاصل کرنے کے بعد ایم۔ کی سند ایس۔ وی یونیورسٹی سے حاصل کی مزید اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایس۔ وی۔ یونیورسٹی سے بعنوان’’1980 ء کے بعد اردو نظم میں عصرحیثیت ‘‘ کا مقالہ لکھ کر سنہ2010ء میں آپ نے ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی۔
شاعری
ترمیمصدیق نقوی ایک ہمہ حہت فنکار ہیں۔ وہ شاعر، ادیب، نقاد، محقق بھی ہیں۔ ان کی شاعری بنیادی طور پر غزل اور نظم کی طرف اشارہ کرتی ہے مگر وہ حمد و ثنا کرتے ہوئے رب کا جلوہ’’حمد ‘‘ کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے مجموعے میں ایک حمد ہے جس میں تلمیحات اور مناجات کو انھوں نے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ کوہ طور پر جب موسیٰ خدا کو دیکھنے کی ضد کیے تو رب کے نور سے پہاڑ کا سرمہ بن جانا اور فرعون کا دریا میں غرق ہونا، مکہ میں ’’ابابیل‘‘ کے واقع کو بڑی ہی ہنر مندی سے آپ نے اپنے حمد یہ کلام میں پیش کیا ہے، حمد و ثنا کے ساتھ تلمیحات، مناجات اور واقعات کا جُز اُن کی ایک ہی حمد میں مل جاتے ہیں، اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
” | زماں ہے تجھ سے مکاں ہے تجھ سے
فلک کا ہر ایک شباب تیرتا |
“ |
” | پہاڑ جل کر ہوا ہے سرمہ
اٹھا جو رُخ سے نقاب تیرا |
“ |
صدیق نقوی بنیادی طور پر غزل اور نظم گو شاعر ہیں اس کے باوجود انھوں نے نعت گوئی اور حمدیہ شاعری کہہ کر اپنے فکارانہ صلاحیت کو اجاگرکیا ہے۔ ہر مومن کی طرح صدیق نقوی نے بھی دیدار مصطفیؐ کی خواہش رکھتے ہیں ان کی ایک نعت جو ان کے مجموعہ کلام میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے اس میں دیدار کی تمنا اور مناجات اور زادۂ آخرت کا سرمایا جیسے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
” | چہرۂ پُر نور دکھلا دیجیے
خواب ہی میں کم سے کم یا مصطفیؐ |
“ |
” | کوئی دن مجھ کو بھی ایسا ہو نصیب
آپ کی چوموں قدم یا مصطفیؐ |
“ |