صفوان بن محرز
صفوان بن محرزؒ تابعین میں سے ہیں۔
صفوان بن محرزؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
رہائش | بصرہ |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمصفوان نام،نسبی تعلق قبیلہ بنی تمیم کی شاخ بنی مازن سے تھا، بصرہ کے عابد وزاہد تابعین میں تھے۔
فضل وکمال
ترمیمعلم میں کوئی امتیازی حیثیت نہ رکھتے تھے،تاہم اس سے بالکل تہی دامن بھی نہ تھے،بصرہ کے علما با عمل میں شمار تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کان لہ فضل وورع حافظ ذہبی لکھتے ہیں صفوان بن محرز المازنی احد العلماء العاملین [1] حدیث میں انھوں نے عبد اللہ بن عمرؓ، ابن مسعودؓ،ابن عباسؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ عمران بن حصینؓ اورحکیم بن حزام وغیرہ اکابر صحابہ سے استفادہ کیا تھا۔ ابو حمزہ،جامع بن شداد،خالد بن عبد اللہ الاشیخ،عاصم الاحول،قتادہ،محمد بن واسع اور علی بن زید بن جدعان وغیرہ آپ کے زمرۂ تلامذہ میں تھے۔ [2]
عمل کا درجہ
ترمیمصفوان کے نزدیک تنہا علم کی کوئی حیثیت نہ تھی جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو،فرماتے تھے کہ ہم کو علم سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، جب تک اس پر عمل نہ کریں، کاش میں کچھ نہ جانتا ہوتا۔ [3]
زہد وعبادت
ترمیمان کی پوری زندگی اس اصول کا عملی نمونہ تھی،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے عابد تابعین میں تھے۔ [4]
گداز قلب
ترمیمروح کاآئینہ زنگار اشک سے جلا پاتا ہے اور دل کی کھیتی آنسوؤں کی آبیاری سے ہری ہوتی ہے،صفوان کی آنکھیں شمع ہوزان تھیں، انھوں نے ایک کنج یا غار بنالیا تھا، جس میں بیٹھ کر رویا کرتے تھے اورصرف نماز کے اوقات میں اس سے باہر نکلتے تھے،نماز پڑھنے کے بعد پھر فوراً اسی میں چلے جاتے تھے۔ [5]
ذکر وشغل
ترمیمآپ کا ذکر وشغل حدیث خوانی تھا،جریر کا بیان ہے کہ صفوان اوران کے بھائی مذاکرہ حدیث کے لیے جمع ہوتے تھے، اس حلقہ میں جب کیفیت اوررقتِ قلب محسوس نہ ہوتی تو حاضرین ان سے حدیث بیان کرنے کی درخواست کرتے،ان کی زبان سے جیسے ہی الحمد للہ نکلتا حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ،اورمشکیزہ کے منہ کی طرح ان کے آنکھوں سے آنسو پھوٹ نکلتے۔ [6]
قیام لیل
ترمیمآپ کی عباست کا خاص وقت شب کا تھا، تہجد پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے۔ [7]
دنیا سے کنارہ کشی
ترمیمدنیا اوراس کی نعمتوں سے کبھی دامن آلودہ نہ ہوا،فرماتے تھے،اگر مجھے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا جس سے توانائی قائم رہ سکے اور پینے کے لیے پانی کا ایک کوزہ مل جائے تو پھر مجھے دنیا اوراہل دنیا کی ضرورت نہیں۔ [8]
دنیا کو کارواں سے زیادہ نہ سمجھتے تھے؛چنانچہ مستقل گھر نہیں بنایا،رہنے کے لیے ایک چھپر تھا،اس کی مرمت تک نہ کراتے تھے،ایک مرتبہ اس کی ایک لکڑی ٹوٹ گئی،لوگوں نے کہا اس کو درست کرلیجئے،فرمایا کل مرنا ہے،اگر گھر کا حقیقی مالک اس میں زیادہ ٹھہرنے کا موقع دیتا تو درست کرلیتا۔ [9]
خانہ خدا کا احترام
ترمیمخانہ خدا میں ہنگامہ آرائی مسجد کے احترام کے خلاف سمجھتے تھے اور ایسے مواقع پر مسجد سے چلے جاتے تھے ایک مرتبہ کچھ لوگ مسجد میں لڑ رہے تھے،آپ یہ کہہ کر وہاں سے ہٹ گئے کہ تم لوگ جنگجو ہو۔ [10]
فرمان رسول کا پاس
ترمیمفرمان رسول کا مرتے دم تک پاس رہا، مرض الموت میں گھر والوں سے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان پیش نظر رہے کہ چلا کر بین کرنے والا سر نوچنے والا اورکپڑے پھاڑنے والا ہماری جماعت میں نہیں ہے۔ [11] [12]
وفات
ترمیماس مرض میں وفات پائی، سنہ وفات معین طور پر نہیں بتایا جا سکتا،ابن جان نے 174 ھ لکھا ہے لیکن یہ قابل اعتبار نہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (تہذیب التہذیب:4/230)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/430)
- ↑ (صفوۃ الصفوۃ:159)
- ↑ (ایضاً:591،وتہذیب التہذیب:4/430)
- ↑ (ابن سعد،ج 7،ق اول،ص 107)
- ↑ (ابن سعد ایضاً)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/430)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً)
- ↑ (ابن سعد،ج 7،ق اول،ص 108)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (نسائی، شَقُّ الْجُيُوبِ،حدیث نمبر:1842)