ضمام بن ثعلبہ
ضمام نام، باپ کا نام ثعلبہ تھا، قبیلہ بنی سعد سے نسبی تعلق تھا۔
حضرت ضمام ؓبن ثعلبہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
شہریت | حجاز |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیماسلام سے پہلے
ترمیمضمام فطرۃً سلیم الطبع تھے؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی جب سارا عرب طرح طرح کے فواحش میں مبتلا تھا، ضماد کا دامن اخلاق ان سے محفوظ رہا۔ [1]
اسلام
ترمیم9ھ میں جب اسلام کا چرچا سارے عرب میں پھیل گیا اور دور دور کے قبائل مدینہ آنے لگے، تو ضمامہ کے قبیلہ نے انھیں تحقیق حال کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا جس وقت یہ پہنچے،اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرما تھے، ضمام مسجد کے دروازہ پر اونٹ باندھ کر اندر داخل ہوئے،آنحضرتﷺ کے گرد صحابہ کا مجمع تھا، ضمام سیدھے آپ کے پاس پہنچے اورپوچھا تم میں عبد المطلب کا پوتا کون ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا میں ہوں،ضمام نے کہا محمد!فرمایا ہاں ،اس کے بعد ضمام نے کہا اے ابن عبد المطلب! میں تم سے سختی کے ساتھ چند سوالات کروں گا ،تم آزردہ نہ ہونا، فرمایا نہیں آزردہ نہ ہوں گا، جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو، کہا میں تم سے اس خدا کا واسطہ دلاکر پوچھتا ہوں ،جو تمھارا معبود ، تمھارے اگلوں کا معبود اورتمہارے بعد آنے والوں کا معبود ہے، کیا خدا نے تم کو ہمارا رسول بناکر بھیجا ہے، فرمایا خدا کی قسم ہاں، کہا میں تم سے اس خدا واسطہ دلا کر پوچھتا ہوں جو تمھار ا معبود تمھارے اگلوں کا معبود اورتمہارے پچھلوں کا معبود ہے، کیا خدا نے تم کو یہ حکم دیا ہے کہ بلا کسی کو شریک کیے ہوئے صرف اسی کی پرستش کریں اوراس کے علاوہ ان بتوں کو چھوڑدیں جن کی ہمارے آبا واجداد پر ستش کرتے چلے آئے ہیں،فرمایا خدا کی قسم ہاں، پوچھا میں تم سے اس خدا کا واسطہ دلاکر پوچھتا ہوں جو تمھارے اگلوں کا اور تمھارے پچھلوں کا معبود ہے، کیا تم کو خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں، آنحضرتﷺ نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا، ضمام نے اسی طرح روزہ، حج اورزکوٰۃ اسلام کے تمام ارکان کے متعلق قسم دلا دلا کر سوالات کیے اورآپ ﷺ اثبات میں جواب دیتے رہے، یہ سوالات کرنے کے بعد ضمام نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور میں عنقریب ان تمام فرائض کو پورا کروں گا، اورجن جن چیزوں سے آپ نے منع کیا ہے انھیں چھوڑ دونگا اور اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی نہ کروں گا، اس اقرار کے بعد یہ لوٹ گئے،آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اگر اس گیسووں والے نے سچ کہا ہے،توجنت میں جائے گا۔ [2]
اپنے قبیلہ میں تبلیغ
ترمیمضمام شروع ہی سے فطرت سلیم رکھتے تھے،زمانہ جاہلیت میں بھی ان کا دامن آلودگیوں سے پاک رہا،اسلام نے اس میں اورجِلادیدی؛چنانچہ مدینہ سے واپسی کے بعد انھیں اپنے گمراہ قبیلہ کے اسلام کی فکر ہوئی اورسیدھے بنی سعد پہنچے،اہل قبیلہ ان کی آمد کی خبر سن کر جوق جوق حالات سننے کے لیے جمع ہوئے،یہ لوگ اس خیال میں تھے کہ ضمام کوئی اچھا اثر لے کر نہ آئے ہوں گے، مگر اپنی امیدوں کے برخلاف ضمام کی زبان سے پہلا جملہ یہ سنا ،"لات وعزیٰ کا برا ہو" محترم دیوتاؤں کی شان میں اس گستاخی پر ہر طرف سے"ضمام خاموش ضمام خاموش" تم کو خوف نہیں معلوم ہوتا کہ اس گستاخی کی پاداش میں تم کو جنون برص یا جذام ہوجائے کی صدائیں اٹھیں، ضمام نے ان تمام کا یہ جواب دیا، تم لوگوں کی حالت پر افسوس ہے،لات و عزیٰ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے، خدا نے محمد کو رسول بنا کر بھیجا ہے اوران پر ایسی کتاب اتاری ہے جو اس (گمراہی) سے نجات دلائیگی جس میں اب تک تم گھرے ہوئے ہو میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں محمد کے پاس سے تمھارے لیے ایسا پیام لایا ہوں جس میں انھوں نے بعض چیزوں کے کرنے کا حکم دیاہے اور بعض چیزوں سے منع کیا ہے، ان کی اس پرجوش تقریر کا یہ اثر ہوا کہ شام تک پورا قبیلہ اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔ [3]
فضل وکمال
ترمیممذہبی علوم میں ضمام کو کوئی خاص کمال نہ تھا، لیکن فہم وفراست ،انداز گفتگو اورنمایندگی میں بڑا ملکہ تھا خود زبان وحی الہام نے انھیں سمجھداری کی سند عطا فرمائی تھی ؛چنانچہ ایک موقع پر آپ نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ضمام سمجھدار آدمی ہیں، حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ میں نے ضمام سے بہتر اور مختصر الفاظ میں سوال کرنے والا نہیں دیکھا، (اصابہ:3/271)حضرت ابن عباسؓ فرماتے تھے کہ میں نے کسی قوم میں ضماد سے بہتر کوئی فرد نہیں پایا۔ [4]