یوسف زئی کی ایک ذیلی شاخ ہے ، طاہر خان کی نام سے ہی اِس قبیلے کا نام طاہر خیلی پڑا جو آج کل کھڑی، گندگر اور ہرو کے وسیع علاقے میں آبا د ہے۔(مذکورہ بالا روایت پر تاریخی طور پر شدید اختلافاف پائے جاتے ہیں، تاریخ کی مستند کتب میں درج ہے کہ اتمان زئی، طاہر خیلی جس کی ایک ذیلی شاخ ہیں شہنشاہِ اکبر کے زمانے (1556-1605)ء میں گجروں کی دعوت پر تنولیوں کے خلاف اُن کی مدد کے لیے اِس علاقے میں آئے رفتہ رفتہ اِس علاقے میں قابض اقوام، دلزاک، بلغادری اور خود گجروں کو بے دخل کر کے خود اِس علاقے پر قابض ہو گئے۔اِن واقعات سے کم و بیش دو صدیاں بعد میں احمد شاہ ابدالی ہندوستان آیا، تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ احمد شاہ کی آمد سے کچھ عرصہ قبل ہی طاہر خان ہزارہ اور چھچھ کے درمیانی علاقے پر قابض ہو چکا تھا۔اور پانی پت کی مشہور جنگ میں احمد شاہ کا ساتھ طاہر خان کے بیٹے بلند خان اور پوتے فتح خان نے نہایت جوانمردی سے دیا جس سے خوش ہو کر احمد شاہ ابدالی نے ناصرف اُن کی جاگیر برقرار رکھی بلکہ بلند خان کو سرہند کا صوبیدار بھی بنا دیا۔) طاہر خان نے اِس علاقے میں نہایت ٹھاٹھ سے سکونت کی۔ ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک دن ایک طاہر خیلی خان اپنے ہیڈ کواٹر میں اخروٹوں کے ایک کھیل میں مشغو ل تھا کہ انھیں ڈپٹی کمشنر کی طرف سے پروانہ ملا کہ “بعض نہایت ضروری امور پر بات چیت کے لیے حسن ابدال تشریف لایئے”مگر خان نے کھیل چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اور واپس جواب دیا کہ ہم آنے سے معذور ہیں ہم نے وہ تمام علاقہ آج سے چھوڑ دیا۔ چنانچہ اس کے بعد حسن ابدال کے گرد و نواح کے دیہات خان کے تصرف سے نکل کر حکومت کے پاس چلے گئے۔طاہر خان کی وفات کے بعد یہ جائداد اُس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔