طبقات فقہا فقہ حنفی کے اعتبار سے فقہا کے سات طبقات (درجات) ہیں۔

مجتہد مطلق

پہلا طبقہ مجتہدین مطلق کا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو قواعد و اُصول مقرر فرماتے ہیں اور احکامِ فرعیہ کو اصولِ اربعہ سے مستنبط کرتے ہیں اور اُصول و فروع میں کسی کے تابع نہیں ہوتے۔ جنھوں نے شریعت میں اجتہاد کیا ہے، مثلاً ائمہ اربعہ اور وہ مجتہدین جو ان کی روش پر چلے ہیں اور ادلہ اربعہ،

  • (1) قرآن
  • (2) حدیث
  • (3) اجماع
  • (4) قیاس سے فروعی احکام مستنبط کیے ہیں۔

انھیں مجتہدین فی الشرع بھی کہا جاتا ہے ۔

مجتہد فی المذہب

دوسرا طبقہ مجتہدین فی المذہب کا ہے، جیسے امام ابویوسف امام محمد اور امام اعظم کے دوسرے تلامذہ جو اپنے استاد کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں ادلہ اربعہ سے احکام مستنبط کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔ ان حضرات نے اگرچہ بعض جزئیات میں اپنے استاد کی مخالفت کی ہے، مگر اصول میں وہ اپنے استاد کی پیروی کرتے ہیں۔

مجتہد فی المسائل

تیسرا طبقہ مجتہدین فی المسائل کا ہے۔ جن جزئیات میں امام اعظم اور ان کے تلامذہ سے کوئی روایت منقول نہیں یہ حضرات اپنے اجتہاد سے ان کے احکام بیان کرتے ہیں۔ مثلاــ: خصاف، طحاوی کرخی، حلوانی، سرخسی، بزدوی اور قاضی خان وغیرہ۔ یہ حضرات امام اعظم کی نہ اصول میں مخالفت کر سکتے ہیں اور نہ فروع میں۔ البتہ امام اعظم کے تجویز کردہ اصول وضوابط کو پیشِ نظر رکھ کر ان جزئیات کے احکام مستنبط کر سکتے ہیں جن کے بارے میں امام اعظم سے کوئی قول مروی نہیں ہے۔

اصحاب تخریج

چوتھا طبقہ اصحابِ تخریج کا ہے۔ یہ حضرات مقلد ہوتے ہیں۔ مثلاً جصاص رازی اور ان کے ہم رتبہ حضرات۔ ان حضرات میں اجتہاد کی صلاحیت مطلق نہیں ہوتی، مگر چونکہ یہ حضرات اصول کو اچھی طرح محفوظ کیے ہوئے ہوتے ہیں اور ان اصول کے مآخذ سے بھی واقف ہوتے ہیں اس لیے صاحبِ مذہب سے یا ان کے کسی مجتہد شاگرد سے منقول کسی ایسے قول کی جو مجمل اور ذو وجہین ہوتا ہے یا کسی ایسے حکم کی جس میں دو احتمال ہوتے ہیں، اپنی خداداد صلاحیت سے اور اپنے امام کے اصول پیشِ نظر رکھ کر اور نظائر وامثال پر قیاس کر کے تفصیل وتعیین کرسکتے ہیں۔ ہدایہ میں جو کہیں کہیں آتا ہے کہ کذا فی تخریج الکرخي اور کذا فی تخریج الرازی، اس کا یہی مطلب ہے، یعنی امام کرخی اور امام جصاص رازی نے ان مسائل کی تفصیل کی ہے۔

اصحاب ترجیح

پانچواں طبقہ اصحابِ ترجیح کا ہے۔ یہ حضرات بھی مقلد ہوتے ہیں۔ ان میں بھی اجتہاد کی مطلق صلاحیت نہیں ہوتی۔ جیسے ابو الحسن قدوری صاحبِ ہدایہ اور انہی جیسے دوسرے حضرات۔ ان فقہا کا کام مختلف روایتوں میں سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ہے۔ جس کے لیے عام طور پر یہ تعبیر اختیارکی جاتی ہے۔

  • 1: ھذا أولیٰ (یہ بہتر ہے)
  • 2: ھذا أصح روایۃ (اس کی روایت زیادہ صحیح ہے)
  • 3: ھذا أوضح (یہ دلائل کے اعتبار سے زیادہ واضح ہے)
  • 4: ھذا أوفق للقیاس (یہ قیاس سے زیادہ ہم آہنگ ہے)
  • 5: ھذا أوفق للناس (اس میں لوگوں کے لیے زیادہ سہولت ہے)

اصحاب تمیز

چھٹا طبقہ اصحابِ تمییز کا ہے۔ یہ ممیزین بھی کہلاتے ہیں یہ حضرات بھی مقلد ہوتے ہیں، مگر اقویٰ، قوی اور ضعیف کے درمیان میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ نیز ظاہرِ روایت، ظاہرِ مذہب اور روایتِ نادرہ کے درمیان میں فرق کرسکتے ہیں۔ مثلاً متونِ معتبرہ کنز، مختار، وقایہ اور مجمع کے مصنفین۔ ان حضرات کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں مردود اقوال اور ضعیف روایتیں نقل نہ کریں۔

مقلد محض

ساتواں طبقہ ان فقہا کا ہے جو مقلد محض ہوتے ہیں اور جو مختلف اقوال میں تمیز بھی نہیں کرسکتے ہیں، نہ کار آمد اور نکمے درمیان میں امتیاز کر سکتے ہیں، نہ دائیں بائیں میں فرق کرسکتے ہیں، بلکہ جو کچھ مل جاتا ہے سب اپنی کتابوں میں جمع کرلیتے ہیں۔ ان کا حال رات میں لکڑیاں چننے والے جیسا ہے اور ان لوگوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو ان کی تقلید کر تے ہیں۔[1]

حوالہ جات

  1. آپ فتوی کیسے دیں، مؤلف : مفتی سعید احمد پالنپوری- صفحہ23، مکتبہ حجاز دیوبند سہارنپور انڈیا