طفلانہ گفتگو (انگریزی: Baby talk) ایک ایسا تبادلۂ خیال ہے جو کسی بڑی عمر کے شخص کے اور ایک کم عمر کے بچے کے بیچ میں ہو۔ اسے انگریزی عناوین کی رو سے سرپرست کی گفتگو (caretaker speech)، طفل-مرکوز گفتگو ( infant-directed speech (IDS))، بچہ-مرکوز گفتگو ( child-directed speech (CDS))، بچوں کی ہدایتی زبان (child-directed language (CDL))، سرپرست کا اندراج (caregiver register)، والدانہ (parentese) یا مادرانہ (motherese) بھی کہا جاتا ہے۔[1][2][3][4][5][6]

اس زبان کی ادائیگی میں گیت گانے اور کلام کا موسیقی کی طرز پر اونچی دھن پکڑنا یا نچلی دھن پر یکایک آنا شامل ہے۔ اس میں آواز عام سے اونچی ہوتی ہے، گفتگو کی رفتار دھیمی ہوتی ہے اور جملے مختصر ہوتے ہیں۔[7] اس میں مصوتوں کو حقیقت سے کبھی کبھار بڑھا کر آواز دی جاتی ہے، جیسے کہ اَ کو آ، اِ کو ای اور اُ کو اُو۔ اس زبان میں الفاظ کو مختصر اور چھوٹا کیا جاتا ہے۔ مثلًا، دودھ کی بجائے دُدُو (تشدید کے ساتھ)، چاند کی بچائے چندا، بھائی کی بجائے بھیا (تشدید کے ساتھ)، وغیرہ۔[8] اس بات میں کچھ ثبوت موجود ہے کہ لوگ بچوں سے ہم کلامی کے لیے جو لبھاؤنی زبان استعمال کرتے ہیں، لگ بھگ وہ اسی طرح کی ہے جیسے کہ وہ پالتو جانوروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ مثلًا کوئی اپنے بیٹے سمیر کو سمو کہ کر پکارتا ہے تو وہ ممکن ہے اپنے کتے کو کُتُو یا ٹامی کہ کر پیار سے پکارے۔[9] تاہم مصوتوں پر زور دینا یا کچھ معاملوں میں انھیں زیادہ ہی راگ کی شکل میں کھینچنا ہے۔[10] ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے بچوں کی زبان، الفاظ، محاورے یا جملے کی ادائیگی، بھلے میں کس قدر مختصر کیوں نہ ہو، سکھانے، بچوں کو ایک آواز دوسری آواز میں فرق بتانے کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔ مثلًا یہ چملے:

  • مما میری گُڑیا لائی
  • پپا پتنگ لائے۔

یہاں ان جملوں میں ماں یا ممی کی جگہ پر اختصار اور زور دے کر والدہ کے لیے مما (تشدید کے ساتھ) کے لفظ کا استعمال کیا گیا ہے، جب کہ پاپا کی جگہ پر پپا (تشدید کے ساتھ) لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ بچوں کو رشتوں سے اور اشیاء سے، جیسے کہ گُڑیا اور پتنگ سے واقف کروایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مستعملہ افعال جیسے کہ لانا سے واقف کروایا جا رہا ہے۔ دھیرے دھیرے تانیث و تذکیر کے صیغے بھی کم تر شعور کے ساتھ سکھائے جا رہے ہیں، جیسے کہ لائی اور لایا یا لائے۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Pavel Kubaník (2017)۔ "BABY TALK"۔ $1 میں Petr Karlík، Marek Nekula، Jana Pleskalová۔ Nový encyklopedický slovník češtiny (بزبان چیک) 
  2. Paul Matychuk (مئی 2005)۔ "The role of child-directed speech in language acquisition: a case study"۔ Language Sciences۔ 27 (3): 301–379۔ doi:10.1016/j.langsci.2004.04.004 
  3. Adam Berey (مارچ 18, 2005)۔ "Gender Differences in Child-Directed Speech"۔ لارنس یونیورسٹی۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2021 
  4. Eisquel Herrera، Nadja Reissland، John Shepherd (جولائی 2004)۔ "Maternal touch and maternal child-directed speech: effects of depressed mood in the postnatal period" (PDF)۔ Journal of Affective Disorders۔ 81 (1): 29–39۔ PMID 15183597۔ doi:10.1016/j.jad.2003.07.001 
  5. Ghada Khattab۔ "Does child-directed speech really facilitate the emergence of phonological structure? The case of gemination in Arabic CDS" (PDF)۔ نومبر 27, 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  6. Steven Pinker (2010)۔ The Language Instinct: How The Mind Creates Language۔ Harper Collins۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-0-06-203252-2 
  7. Anne Fernald (اپریل 1985)۔ "Four-month-old infants prefer to listen to motherese"۔ Infant Behavior and Development۔ 8 (2): 181–195۔ doi:10.1016/s0163-6383(85)80005-9 
  8. C Lam، C Kitamura (2012)۔ "Mommy, speak clearly: induced hearing loss shapes vowel hyperarticulation"۔ Developmental Science۔ 15 (2): 212–221۔ PMID 22356177۔ doi:10.1111/j.1467-7687.2011.01118.x 
  9. D Burnham، C Kitamura، U Vollmer-Conna (2002)۔ "What's New, Pussycat? On Talking to Babies and Animals"۔ Science۔ 296 (5572): 1435۔ PMID 12029126۔ doi:10.1126/science.1069587 
  10. C Lam، C Kitamura (2010)۔ "Maternal interactions with a hearing and hearing impaired twin: similarities in pitch exaggeration but differences in vowel hyperarticulation"۔ Journal of Speech, Language, and Hearing Research۔ 53 (3): 543–55۔ PMID 20220028۔ doi:10.1044/1092-4388(2010/09-0126)