طلعت صدیقی ایک پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ تھیں۔وہ 1939 کو انڈیا کے شہر شملہ میں پیدا ہوئیں اصل نام ادیبہ نذیر تھا ۔ والد نذیر احمد سرکاری ملازم تھے۔ ادیبہ نے امتیازی نمبروں کے ساتھFAکاامتحان پاس کیا ان کے والد دمہ کے دائمی مریض تھے جس کی وجہ سے ادیبہ کی شادی پندرہ سال کی عمر میں والد کے دوست جس کا نام بشیر احمد صدیقی تھا کے ساتھ ہوئی۔ جن سے ان کی دو بیٹیاں ناہید صدیقی اور عارفہ صدیقی ہیں۔ 1945ء میں یہ خاندان کراچی آ گیا۔یہاں آ کر طلعت صدیقی کے شوہر پہ مختلف اور سنگین نوعیت کے کیس بن گئے ۔ جس کی وجہ سے اُ س کو جیل ہو گئی۔ شوہر کے جیل چلے جانے کی وجہ سے طلعت صدیقیی بچوں کی کفالت کے لیے گھر سے باہر نکلیں۔ انھوں نے ریڈیو اسٹیشن کراچی کا رُخ کیا۔ اُس کی آواز بہت اچھی تھی اور اُس نے آڈیشن دیا اور منتخب ہوگئیں۔ یوں ان کے ریڈیو کرئیر کا آغاز بطور صداکارہ اور گلوکارہ ہوا۔ اس کے بعد وہ ٹیلی ویژن میں بھی آ گئیں۔ پھر 1963ء میں فلوں میں قدم رکھا۔ ان کی پہلی فلم ہمیں بھی جینے دو تھی۔ جس میں اس نے اداکاری اور گلوکاری کی۔طلعت صدیقی نے 70 کے قریب فلموں میں کام کیا لیکن انھوں نے اس دور کی روایتی ہیروئن کی طرح کوئی کردار نہیں نبھایا۔ جذباتی کردار میں طلعت صدیقی کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔1965 میں فلم عشق ِحبیب کو ریلیزکیا گیاطلعت صدیقی کی کسی فلم میں یہ پہلی انٹری تھی اس میں ان کا ایک چھوٹا سا کردار تھا جس میں ان کے ناقابل یقین شوہر کی وفادار اور متقی بیوی کے کردارکو بے حدسراہا گیا شوہرکا کردار ابراہیم نفیس نے ادا کیا تھا۔طلعت صدیقی نے اس فلم میں ایک وفاشعار بیوی کے روپ میں اپنی قربانیوں اور مستقل دعاؤں اور ثابت قدمی کی طاقت سے آخر کار بگڑے ہوئے اپنے شوہر کو راہ ِراست میں لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس فلم میں غلام فرید مقبول صابری کی سپر ہٹ قوالی بھر دے جولی میری یا محمد ﷺ نے دھوم مچادی۔ فلم کون کسی کا (1966) میں طلعت صدیقی ، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک لوری گاتی ہیں جو فلم کے آخر میں بچھڑے ہوؤں کو ملا دیتی ہے۔ مسعودرانا اور نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ دوگانا تھا: دے گا نہ کوئی سہارا ، ان بے درد فضاؤں میں ، سو جا غم کی چھاؤں میں۔حبیب جالب کا لکھا ہوا اور موسیقار ایم اشرف کا کمپوز کیا ہوا یہ گیت کمال اور طلعت صدیقی پر فلمایا گیا تھا۔

طلعت صدیقی نے بہت سی فلموں میں بڑے یادگار اور سبق آموز کردار ادا کیے تھے۔ ایسے چند کرداروں میں فلم لوری (1966) میں سنتوش کی بیوی کا ایک کردار تھا جو ایک بچی کی ماں ہے جس کی وجہ سے اس کے اچانک انتقال پر اس کی بہن زیبا کو اپنے بہنوئی سے شادی کرنا پڑتی ہے حالانکہ محبت وہ ، محمدعلی سے کرتی ہے۔ اس فلم میں طلعت صدیقی پر فلمائی ہوئی ثریا حیدرآبادی نامی ایک گمنام گلوکارہ کی لوری بڑی پسند کی گئی تھی "چندا کے پٹولے میں ، اڑن کھٹولے میں۔۔" اسی لوری کو میڈم نورجہاں نے بھی گایا تھا لیکن سننے والوں کو متاثر نہیں کر سکی تھیں۔ ایسی ہی ایک یادگار فلم یارمار (1967) میں طلعت صدیقی کا ایک شریف النفس بیٹی کا کردار تھا جسے اوباش جاگیردار باپ ، بڑے فخر سے اپنی ہی قبیل کے ایک امیرزادے سے بیاہ دیتا ہے لیکن پھر اسے اپنی اولاد کے دکھ و کرب سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسانی معاشرت میں اخلاقی اقدار کیوں ضروری ہوتی ہیں۔ فلم چاچا جی (1967) کی کہانی بھی بڑی دلگداز تھی جس میں طلعت صدیقی اپنے منگیتر علاؤ الدین سے اس وقت تک بیاہ نہیں کرسکتی جب تک اس کا لاڈلا بھتیجا جوان نہیں ہو جاتا اور جب طویل انتطار کے بعد شادی کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹا ہوتا ہے تو اسے بھی انوکھے بھتیجے پر قربان کرنا پڑتا ہے۔ فلم پھر صبح ہوگی (1967) میں پوری فلم پر طلعت صدیقی چھائی ہوئی ہوتی ہیں جو بڑی ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مشکلات پر قابو پا لیتی ہیں۔ اس فلم میں مسعودرانا کا یہ انتہائی بامقصد تھیم سانگ پوری فلم میں پس منظر میں چلتا ہے اور فلم بینوں پر بڑا گہرا اثر چھوڑتا ہے: پھر صبح ہو گی ، اندھیرے نہیں رکنے والے ، ان اندھیروں سے اجالے ہیں نکلنے والے۔ جمیل مرزا کی فلم میرے بچے میری آنکھیں (1967) میں بھی طلعت صدیقی نے فلم بینوں کو رلا دیا تھا جب وہ اپنی آنکھیں قربان کر کے اپنے بیٹے کی دنیا روشن کرتی ہیں۔ فلم ماں باپ (1967) تو جذباتی اداکاری میں ایک لاجواب فلم تھی جس میں طلعت صدیقی نے علاؤ الدین کے ساتھ اس فلم کا ٹائٹل رول کیا تھا۔ ایسے ماں باپ جو اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا گھر بار تک داؤ پر لگا دیتے ہیں لیکن وہ بے فیض نکلتا ہے۔ اس فلم میں بھی مسعودرانا کا یہ تھیم سانگ بڑا متاثر کن تھا: کوئی یہاں پر عیش منائے ، کوئی پھرے مجبور ، دیکھو دنیا کا دستور۔ فلم بہن بھائی (1968) جیسی ملٹی کاسٹ فلم کی کہانی بھی طلعت صدیقی کے گرد گھومتی تھی جس میں ایک ہنستا بستا گھر تقسیم ملک کے نتیجے میں بکھر جاتا ہے اور پھر فلم کے آخر میں بڑے ڈرامائی انداز میں مل جاتا ہے۔ اس فلم میں مالا اور مہدی حسن کا کورس گیت "اے بے کسوں کے والی ، دے دے ہمیں سہارا۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا۔لاڈلا کی ہمیشہ پیار کرنے والی والدہ بھی اپنی چمک کبھی نہیں کھو سکتی ہیں۔ طلعت صدیقی کی دیگر مشہور فلموں میں فلم ’’میخانہ‘‘(1964) پھر صبح ہوگی ، خون دا بدلہ خون ’دل نشین‘، ’حیدر سلطان‘ ’کالیا‘حکمت ،"چھوٹی بیگم " ، لوری ، بندگی ، پروفیسر، بھائی بہن اور خصوصاً امراؤ جان ادا میں تاریخی کردار شامل ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں کرئیر کے عروج پر فلمی کرئیر چھوڑ دیا۔82 برس کی عمر میں 2021ء میں 27 سویں رمضان المبارک 8 مئی بروز ہفتے کی شب کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ان کی چھوٹی بہن ریحانہ صدیقی نے بھی اداکاری کی ۔ کئی فلموں میں معاون اداکارہ کے طو پر نظر آئی۔ وہ ، ایک اور نامور اداکار اورنگزیب کی بیوی تھی جو خود ایک اور اداکار سلطان کا بھائی تھا۔ جن کی بیٹی فریحہ پرویز بھی ایک مشہور پاکستانی گلوکارہ، اداکارہ اور میزبان ہیں۔جس کی شادی گلوکارنعمان علی سے ہوئی تھی مگر طلاق ہو گئی۔ اس کے علاوہ ان کی بیٹی ناہید صدیقی کی شادی ایک بہت مشہور پاکستانی اداکار، میزبان ، پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر ضیاء محی الدین سے ہوئی اور دوسری بیٹی یعنی عارفہ سدیقی کی پہلی شادی سہیل انجنیئر سے ہوئی جس سے طلاق کے بعد اس نے استاد نذر حسین سے شادی کی اور اس کی وفات کے بعد اس نے تعبیر علی نامی گلوکار سے شادی کی۔عارفہ صدیقی نے فلم شاہ زمان (1986) میں مسعودرانا کے ساتھ ایک کورس گیت بھی گایا تھا "دل میرا ہر ویلے تینوں ای پکاردا ، نئیں ٹٹنا اے ناتا تیرے میرے پیار دا ۔