طہارت (اسلام)
طہارت پاک ہونے اور پاکیزہ رہنے اور صفائی کو کہا جاتا ہے۔
طَہارت طِہارت اور طُہارت میں فرق
ترمیم- طَہارت نجاست معنوی (بے وضو بے غسل)یا نجاست ظاہری دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے
- طِہارت سے مراد آلہ طہارت مثلاً لوٹا وغیرہ
- طُہارت سے مراد طہارت کا پانی ہوتا ہے[1]
دو طرح کی طہارت
ترمیمطہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے۔
عمومی اقسام طہارت
ترمیم- (1) اعتقادات کی طہارت جیسے اللہ رسول اور قیامت کے ساتھ وہ اعتقاد رکھنا جوقرآن اورحدیث کے مطابق ہو
- (2) مال کی طہارة جیسے مال کی زکوة دینا
- (3) بدن کی طہارة جیسے وضو کرنا، غسل کرنا۔ کپڑے کی طھارة جیسے کپڑے کو پاک کرنا۔ چونکہ بہت سے طہارتوں کو بیان کرنا ہے اس لیے مصنف نے طہارات جمع کا صیغہ لایا ۔[2]
ایمان کا حصہ
ترمیماَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ(صفائی ایمان کا حصہ ہے)[3]
صفائی اور پاکیزگی میں فرق
ترمیمصفائی اور پاکیزگی میں فرق ہے۔ اگر کسی چیز پر میل کچیل نہ ہو تو اسے صاف کہتے ہیں مگر عین ممکن ہے کہ وہ شرع کے نقطہ نظر سے پاکیزہ نہ ہو۔ پاکیزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں سے پاک ہو۔
طہارت کی اقسام
ترمیمطہارت کی تین قسمیں ہیں
حدث سے طہارت
ترمیمجن حالتوں میں غسل یا وضو واجب ہے، ان حالتوں میں غسل یا وضو کر کے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا
ظاہری نجاست سے طہارت
ترمیمظاہری نجاست اور پلیدگی سے جسم، لباس اور جگہ کو پاک و صاف کرنا
جسم کے حصوں کی طہارت
ترمیمجسم کے مختلف حصوں میں جو گندگیاں اور میل پیدا ہوتا رہتا ہے، اس کی صفائی کرنا۔ جیسے ناک، دانتوں، ناخنوں اور زائد بالوں کی صفائی۔[4]