عائشہ زہری
عائشہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے[1] وہ بلوچوں کے معروف قبیلے زہری سے تعلق رکھتی ہیں۔سول سیکریٹریٹ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد ان کی تقرری اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے طور پر ہوئی۔ مستونگ میں فرائض سر انجام دینے کے بعد وہ اسسٹنٹ کمشنر مچھ تعینات ہوئیں[2]
عائشہ زہری نے ایف ایس سی تک تعلیم خضدار سے حاصل کی اور اس کے بعد انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار سے ڈگری حاصل کی۔ ان کے بقول انھوں نے تمام امتحانات اعزازی نمبروں سے پاس کیے اور انجنیئرنگ یونیورسٹی سے انھوں نے دو مرتبہ طلائی تمغا حاصل کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدوہ واپڈا میں بطور ایس ڈی او بھرتی ہوئیں۔ ’جب میں ایس ڈی او بھرتی ہوئی تو میرے خاندان کے لوگوں نے مجھے کہا کہ اب آپ بجلی کے کھمبوں پر چڑھیں گی؟‘ پھر انھوں نے پی سی ایس کرنے کا سوچا کیونکہ ان کے بقول ’انتظامی شعبے میں ملازمت ایسی ہے کہ انسان اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے[3]‘انھوں نے پی سی ایس کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا اور اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ان کی پہلی تقرری خضدار میں کمشنر قلات کے دفتر میں سٹاف آفیسر کی حیثیت سے ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد ان کی تعیناتی اسسٹنٹ کمشنر دالبندین کی حیثیت سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ سیکریٹریٹ میں تعینات رہیں جس کے بعد ان کی تقرری مختلف عہدوں پر ہوئی۔
25 اور 26 اگست کو پورے ملک سمیت طوفانی بارشوں کا سلسلہ جب اندازہً 30 گھنٹے بعد تھما تو ’ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔‘ بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر انجینیئر عائشہ زہری نے بتایا کہ ’جب سیلاب ٍمیں پھنسی بھوکی خواتین اور اُن کے بچوں کے لیے کھانا لایا گیا تو جن ماﺅں کے دودھ پینے والے بچے تھے انھوں نے التجا کہ انھیں بیشک کھانا مت دیا جائے مگر اُن کے بچوں کے لیے دودھ کا فی الفور انتظام کیا جائے کیونکہ وہ بھوک سے نڈھال ہیں۔‘میں بچوں کو بلکتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے ان کے لیے دودھ کا انتظام کیا گیا اور دودھ کا انتظام کرنے میں سب نے مدد کی۔‘
عائشہ زہری نے لیویز فورس کے اہلکاروں کے ہمراہ نہ صرف درہ بولان کے دشوار گزار علاقوں میں پھنسے ہزاروں لوگوں اور مسافروں کو ریسکیو کیا بلکہ ریلیف کیمپوں میں سیلاب زدگان کے لیے خاطر خواہ انتظامات کو بھی یقینی بنایا۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف جب گذشتہ دنوں ضلع کچھی کے دورے پر آئے تو انھوں نے خاتون افسر عائشہ زہری کی سیلاب متاثرین کے لیے خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے ملاقات بھی کی۔ مچھ اور بولان میں بارش کے پانی کی نکاسی کے بڑے قدرتی راستے موجود ہیں اس لیے وہاں کے ندی نالوں میں طغیانی کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی لیکن بہت زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں کچے گھر منہدم ہو چکے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ ’قرب و جوار کے علاقوں میں نکلے تو وہاں کچے مکانوں کو زمین بوس دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس علاقے میں شدید بمباری ہوئی ہے۔‘ ’چھتیں گرنے کی وجہ سے بعض لوگ زخمی تھے جبکہ بعض لوگوں کے گھروں کے سامنے ملبے میں دب کر ہلاک ہونے والوں کی لاشیں پڑی تھیں۔‘ ’مچھ ایک پہاڑی علاقے ہے۔ اس کے دونوں اطراف موجود پل سیلابی پانی سے متاثر ہوئے تھے، اس لیے لوگوں کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی میتوں کو کس طرح وہاں سے نکال کر تدفین کے لیے لے جائیں۔‘