عائشہ گل (پولیس آفیسر)
عائشہ گل خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے پختون گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور ایک ریٹائرڈ ایئر فورس آفیسر کی بیٹی ہیں۔ چھ بہن بھائیوں میں عائشہ کا نمبر پانچواں ہے۔ والد کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ انھوں نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی اور اسلام آباد کی نسٹ یونیورسٹی سے ایم ایس کیا۔ عائشہ گل کہتی ہیں کہ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈیڑھ سال تک سٹیٹ بینک میں ملازمت کی۔ اسی دوران انھیں سی ایس ایس مقابلے کے امتحان میں شرکت کا خیال آیا۔عائشہ نے مقابلے کا امتحان پاس کرکے پولیس گروپ میں شمولیت اختیار کی اور وہ پانچ سال تک اسلام آباد میں اے ایس پی مارگلہ، اے ایس پی کوہسار، اے ایس پی ٹریفک کے علاوہ اے ڈی او ایف سی کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں[1] حال ہی میں گریڈ 18 میں ترقی کے بعد ان کی خدمات خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے کی گئی جہاں اے آئی جی جینڈر ایکوالٹی کی آسامی تخلیق کرکے انھیں اس عہدے کے لیے موزوں سمجھا گیا۔ وہ اس وقت سینٹرل پولیس افس پشاور میں تعینات ہیں[2]
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد اور صنفی امتیاز میں گذشتہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دو سال کے عرصے کے دوران خواتین کو لگ بھگ دگنے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پشاور کی ایک سماجی تنظیم کے سربراہ قمر نسیم کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر گھریلو تشدد میں 53 فیصد جبکہ صوبے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع اور دیہاتی علاقوں میں گھریلو تشدد کی شرح 66 فیصد تک بڑھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف وہ کیسز ہیں جن میں بیویوں کو شوہروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ باپ، بھائی اور دیگر رشتوں کی طرف سے مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل میں کیا جانے والا تشدد اس رپورٹ کا حصہ نہیں۔ اگر اسے بھی شامل کر لیا جائے تو یہ شرح مزید تجاوز کر جائے گی۔ خیبر پختونخوا میں جنس کی بنیاد پر خواجہ سراں کو بھی منفی رویوں کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 2015ء سے اب تک 75 سے زیادہ خواجہ سرا قتل ہوئے جبکہ سینکڑوں پرتشدد واقعات کا شکار ہو چکے ہیں۔ آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق صنفی امتیاز برتنے کی سب سے بڑی وجہ آگاہی کا فقدان ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ پولیس معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہے لہذا ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ انتہائی ضروری تھا کہ ایک ایسا عہدہ موجود ہو جو عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ محکمہ پولیس کے اندر بھی صنفی امتیاز کے خاتمے یا پھر کم از کم ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موجود ہو۔ان کے مطابق انھیں یہی محسوس ہوا کہ جینڈر ایکوالٹی کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے کسی خاتون سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا[3]
اے آئی جی عائشہ گل کا کہنا ہے کہ بطور جینڈر ایکوالٹی آفیسر انھیں ایک سے زیادہ ٹاسک دیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ پولیس فورس میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو لانے کی راہ ہموار کریں گی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ عالمی معیار کے مطابق پولیس فورس میں دس فیصد خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے تاہم خیبر پختونخوا میں یہ تعداد محض ایک فیصد ہے۔ اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی آئی جی خیبر پختونخوا کی ہدایت پر عائشہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کانسٹیبل کے لیے 191 اسامیاں مشتہر کرنے جا رہی ہیں جن میں تعلیم کی حد مڈل (آٹھ جماعت پاس) رکھنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ صنفی امتیاز روکنے کے لیے عائشہ گل نے محکمہ پولیس کے اندر تمام سطحوں پر آگاہی دینا شروع کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر پولیس ڈپارٹمنٹ کے گیٹ پر تعینات سنتری اور محرر سے لے کر اعلی انتظامی افسران کو بھی روشناس کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر وہ شخص جو اپنی فریاد اور مسئلہ رپورٹ کرنے پولیس تک آتا ہے وہ کسی قسم کی بدسلوکی سے بددل ہو کر اپنے کیس سے پیچھے ہٹنے کا نہ سوچے۔ عائشہ گل ایسے زیر التوا کیسز کو بھی نمٹانا چاہتی ہیں۔ تیسری بڑی ذمہ داری جو عائشہ بطور جینڈر ایکوالٹی آفیسر نبھائیں گی وہ کمیونٹی ریچ ہے۔ یعنی وہ سماجی حلقوں میں خواتین سمیت دیگر پِسے ہوئے طبقات کے حقوق کو اجاگر کرتے ہوئے انھیں معاشرے میں صحیح مقام دلوانے کے علاوہ یہ آگاہی بھی دیں گی کہ کسی بھی مسئلے کے لیے کہاں رجوع کرنا چاہیے[4]
جینڈر ایکوالٹی آفیسر عائشہ گل کہتی ہیں یہ ان کی خوش قسمتی رہی ہے کہ بطور خاتون وہ صنفی امتیاز اور نامساعد حالات سے کبھی نہیں گزریں جن کا سامنا عموما خواتین کو دوران تعلیم یا ملازمت کرنا پڑتا ہے۔ ہاں مگر پولیس ڈپارٹمنٹ جوائن کرتے وقت کافی تشویش میں مبتلا تھی کیونکہ آپ کو اس محکمے میں خواتین کے ساتھ سلوک یا صنفی امتیاز کے حوالے سے جو سننے کو ملتا ہے وہ زیادہ مثبت نہیں ہوتا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ میرے گھر والوں کو بھی یہی لگتا تھا کہ کچھ دن کا شوق ہے پورا ہو گا یا تنگ ہو گئی تو اس نوکری سے بھاگ جائے گی۔ مگر دوران ملازمت سینئرز کے بہترین برتا اور تعاون نے ان کے خدشات دور کر دیے اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں شمولیت ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ وہ رول ماڈل بن کر پولیس کے محکمے میں صنف کی بنیاد پر ہونے والے امتیاز کو بھی مٹنانا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی سب سے بڑی کامیابی اس دن کو قرار دیں گی کہ جب پولیس کے پاس آنے والا کوئی سائل اپنے کیس کے بہتر طریقے سے درج ہونے اور پولیس کے حسن سلوک کی تعریف کرے اور اس پر انھیں یہ پتا چلے جس آفیسر کی تعریف کی جا رہی ہے وہ ان کی جینڈر ایکولٹی تربیتی کلاس کا حصہ رہا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://en.dailypakistan.com.pk/30-Sep-2022/ayesha-gul-first-female-officer-appointed-in-kp-police-s-investigation-wing
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60487347
- ↑ https://tribune.com.pk/story/2344712/ayesha-gul-becomes-k-ps-first-woman-aig
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 27 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2023