عبدالقادر آزاد
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد عبد القادر آزاد 1939ء کو برصغیر پاک و ہند کی مشہور مجذوب شخصیت اور پیر حضرت سید محمد سعید احمد شاہ پیرزادہ عرف پیر پٹھان، پیر افغانی کے ہاں پیدا ہوئے، ولادت کے بعد آپ کا نام سید عبد القادر آزاد تجویز کیا گیا۔ جونہی یہ بچہ گود میں آیا تو خاندان کے ہر فرد نے آپ کے بارے پیران پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے سلسلہ تصوف کا وارث بننے کی نوید دی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت مولانا پیر سید محمد سعیداحمد شاہ پیرزادہ سے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مدرسہ قاسم العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل کی۔ مولانا ڈاکٹر سید محمد عبد القادر آزاد زندگی بھر علم و حکمت کے حصول میں منہمک رہے۔ آپ نے’’ حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی بحیثیت مفسر قران ‘‘میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ریاست بہاولپور میں آپ نے مرکزی درس گاہ اسلامی مشن سے تدریسی خدمات کی ابتدا کی۔ آپ اس ادارہ کے مہتمم اور پرنسپل کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔ 1970 ء میں آپ لاہور تشریف لاے اور مشہور عالمگیری بادشاہی مسجد کی خطابت کے فرائض آپ کے سپرد کیے گئے۔ یاد رہے جب سے بادشاہی مسجد لاہور اور جامع مسجد دہلی مغل بادشاہوں نے تعمیر کیں تب سے مغل بادشاہوں نے یہ دونوں مساجد پیر پٹھان پیر افغانی کبیروالا شریف کے حوالے کر دیں کیونکہ پچھلے چودہ سو سالوں سے اس خاندان کی دین اسلام کے لیے خدمات قابل قدر تھیں۔ عالمگیری بادشاہی مسجد کی امامت و خطابت سب سے زیادہ ڈاکٹر حضرت محمد عبد القادر آزاد کی ممد و معاون ثابت ہوئی وہ ان کی بے نیازی سرچشمی اور استغناء تھا۔ انھوں نے دین کی خدمت کے لیے اعلیٰ طبقوں اور جدید تعلیم یافتہ حضرات میں تبلیغ و اصلاح دین کو اپنا نصب العین بنایا ۔ مولانا آزاد ایک محنتی اورا نتھک انسان تھے‘ بیکار بیٹھنا ان کے لیے امر محال تھا۔مولانا آزاد سادگی ‘ نفاست ،پاکیزگی متانت کا مزاج رکھتے تھے ۔ آپ کا انداز گفتگو دلکش ‘ خندہ جبیں اور زبان میں میٹھاس تھی۔ ضرورت مند وں کا مجمع رہائش گاہ پر ہر وقت موجود رہتا ،دسترخواں ہر وقت بچھا رہتا۔کوئی سائل کوئی سفارشی سب کو جیب میں ہاتھ ڈال کر جو نکلتا مٹھی بند کر کے دے دیتے ۔ جُبہ اور دستار والے بھی آپ کے پاس آتے اور شرٹ پتلون والے سب کے ساتھ محبت کا سلوک فرماتے ۔
1974ء میں جب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تو بادشاہی مسجد میں عالم اسلام کے سربرہان مملکت کی امامت کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی۔شاہ فیصل مرحوم کی طرف سے آپ کو یہ اعزاز حاصل رہا آپ ہر سال فریضہ حج کے لیے ساتھیوں سمیت حجاز مقدس حاضری دیتے۔آپ نے تحفظ ناموس رسالت کی ہر تحریک میں حصہ لیا۔ 1977ء میں جب تحریک نظام مصطفیؐ چلی مولانا آزاد نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور محراب ومنبر سے حق کی آواز کو بلند کر کے محبت رسول اللہ ؐ کا پیغام دیا۔
مولانا آزاد دینی علوم کے ساتھ ساتھ روحانی و سیاسی بصیرت کے بھی حامل رہے ہیں۔ اسلام کی حقانیت اور تمام ادیان پر برتری دلائل سے ثابت کرتے ۔ انھوں نے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمود اور مولانا عبد اللہ درخواستی مولانا غلام غوث ہزاروی سے سیاسی اورمولانا خان محمد کندیاں شریف والے اور اپنے والد گرامی حضرت پیر سید سعید سے دینی و روحا نی فیض حاصل کیا۔ مولانا آزاد دنیا کے اکثر ممالک میں اشاعت اسلام کے لیے تشریف لے جاتے رہے جن میں امریکا‘ برطانیہ‘ ناروے‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ انڈونیشائ‘ ملیشیا‘ سعودی عرب‘ کویت‘ عراق‘ ایران‘ سوڈان‘ برونائی‘ دارالسلام مصر‘ لیبیا چاڈ وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ جب بھی فارغ وقت ہوتا کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوتے اور ان کی تصنیفی مصروفیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کم از کم 100 کتابیں ان کی تصنیفات ہیں اور انھوں نے ہر عنوان پر لکھا ۔ بیرونی ممالک میں ان کے مقالات عربی ،اُردو اور انگلش میں شائع ہوتے رہے۔۔14 جنوری 2003ء کہ یہ علم و عمل کا سورج غروب ہو گیا