عبداللہ بن بدیل
حضرت عبد اللہ بن بدیل ؓ صحابی رسول تھے۔
حضرت عبد اللہ بن بدیل ؓ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام وفات | جنگِ صفین |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعبد اللہ نام، باپ کا نام بدیل تھا، نسب نامہ یہ ہے،عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء ابن عبدالعزیٰ خزاعی،عبد اللہ کے والد بدیل قبیلۂ خزاعہ کے سردار تھے۔
اسلام و غزوات
ترمیمفتح مکہ سے پہلے اپنے والد بدیل کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے، فتح مکہ حنین طائف اور تبوک وغیرہ غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے۔ [1]
عہدِ فاروقی
ترمیمعبد اللہ نہایت حوصلہ مند بہادر تھے،حضرت عمرؓ کے عہد میں انھوں نے بڑے بڑے کارنامے کیے 23ھ میں جب حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ قم وقاشان کی مہموں میں مصروف تھے تو حضرت عمرؓ نے عبد اللہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا کہ وہ اصفہان کی مہم اپنے ہاتھ میں لے کر ابو موسیٰ اشعریؓ کا بار ہلکا کریں؛ چنانچہ اسی سنہ میں عبد اللہ نے اصفہان کے علاقہ میں پیش قدمی کی اور "جی" نامی قریہ پر حملہ کرکے یہاں کے باشندوں کو مطیع بناکر ان سے جزیہ وصول کیا "جی" کے بعد اصفہان کا رخ کیا، یہاں کے حکمران فادوسفان نے شہر چھوڑ کر نکل جانا چاہا، مگر عبد اللہ نے اس کا موقع نہ دیا اور آگے بڑھ کر اسے روک لیا، فادوسفان کے ساتھ تیس منتخب بہادر تھے اس نے عبد اللہ سے کہا بے کار جانوں کو ضائع کرنے سے کیا فائدہ آؤ تنہا ہم تم نپٹ لیں، عبد اللہ نے منظور کر لیا، دونوں کا مقابلہ ہوا، عبد اللہ نے نہایت پھرتی سے وار کیا، فادوسفان نے خالی دیا، اوراس کے گھوڑے کی زین کو کاٹتا ہوا نکل گیا،فادو سفان نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا کہ تم ایسے عقلمند بہادر کو قتل کرنے کو دل نہیں چاہتا، میں اس شرط پر شہر حوالہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہاں کے باشندوں کو اس امر کی آزادی دیجائے کہ ان میں جس کا دل چاہے وہ جزیہ دیکر رہے اورجس کا دل چاہے شہر چھوڑ کر چلا جائے،عبد اللہ نے یہ درخواست منظور کرلی اورفادوسفان نے شہر حوالہ کر دیا، اصفہان پر قبضہ کرنے کے بعداس کے قرب و جوار کے علاقوں کی طرف بڑھے اورچند دنوں میں پورا علاقہ بہ شمول کوہستان وزرعی اضلاع زیر نگیں کر لیا۔ [2]
عہد عثمانی
ترمیم28ھ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کرمان کی مہم پر مامور کیا،عبد اللہ نے طبس اورکرین دو قلعے فتح کیے،ان قلعوں کی تسخیر سے خراسان کا راستہ صاف ہو گیا [3] جسے بعد میں عبد اللہ بن عامر نے فتح کیا۔
عہد مرتضوی
ترمیمحضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ اورامیر معاویہ کے اختلاف میں عبد اللہ معاویہ کے شدید مخالف اورحضرت علیؓ کے پر جوش حامیوں میں تھے،جب دونوں میں اختلاف شروع ہوا تو عبد اللہ نے حضرت علیؓ کے حامیوں کے سامنے یہ تقریر کی: اما بعد لوگو:معاویہ نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں ہیں، وہ اس دعویٰ میں ایسے شخص سے جھگڑا کر رہے ہین جو یقیناً اس کا زیادہ مستحق ہے،امیر معاویہ اوراس شخص کا کوئی مقابلہ نہیں ،معاویہ باطل کو لے کر اٹھے ہیں تاکہ حق کو ڈگمگادیں ،لوگو! انھوں نے قبائل اور اعراب کو گمراہی میں مبتلا کر دیا ہے اوران کے دلوں میں فتنہ و فساد کا بیچ بو کر ان سے حق و باطل کی تمیز اٹھا دی ہے، خدا کی قسم ! تم لوگ یقینا ً حق پر ہو، خدا کا نور اوربرہان تمھارے ساتھ ہے، سرکشوں اورظالموں کے مقابلہ کے لیے تیار ہوجاؤ اور ان سے جنگ کرو، خدا تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب کا مزہ چکھائیگا۔ قاتلو الفۃ الباغیۃ الذین فازعوا الامراھلہ ترجمہ: لوگو باغی گروہ سے لڑو جنھوں نے ایک امر کے اہل ومستحق سے جھگڑا کیا ہے۔ تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسے لوگوں سے جہاد کیا ہے، خدا کی قسم اس بارہ میں ان کی نیت پاک اور اچھی نہیں ہے، اس لیے اپنے اورخدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھو، خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا۔ [4] جنگ صفین کے درمیانی التوا کے بعد محرم الحرام کے اختتام کے بعد جب دوبارہ جنگ شروع ہوئی تو حضرت علیؓ نے عبد اللہ کو پیدل فوج کا کماندار بنایا۔
شہادت
ترمیمجنگِ صفین کا سلسلہ مدتوں جاری رہا، پوری فوجیں میدان میں بہت کم اترتی تھیں عموماً چھوٹے چھوٹے دستے ایک دوسرے کے مقابلہ میں آتے تھے، ایک دن عبد اللہ بن بدیل اپنا دستہ لے کر اترے، شامیوں کی طرف سے ابو اعور سلمی ان کے مقابلہ میں آیا، صبح سے شام تک نہایت پر زور مقابلہ ہوتا رہا، عبد اللہ اس بہادری سے لڑتے تھے کہ جدھر رخ کرتے تھے شامی لشکری کائی کی طرح چھٹ جاتے تھے، یہ شیر دل مجاہد خلیفہ راشد امیر المومنین کے دفاع میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے ایک حملہ میں زور میں بڑھتے ہوئے گورنر شام، معاویہ کے علم تک پہنچ گئے، معاویہ نے حکم دیا کہ ان پر پتھر برساؤ، اس حکم پر چاروں طرف سے پتھر برسنے لگے اور خلیفۃ المسلمین علی مرتضی کا یہ جان نثار، بہادر صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پتھروں کی بارش سے مظلومیت کے ساتھ شہید ہو گیا۔[5]