عبد المجید سندھی قریشی نور اللہ مرقدہ فاضلِ دیوبند، حکیم، استاذ العلماء، شاعر، فقیہ، نحوی عالم، مفسر القرآن، مصنف، (پیدائش: 1902ء –16 نومبر 1973ء) تحریک آزادی ہند کے کارکن تھے۔[1]

پیدائش ترمیم

عبد المجید بن محمد صادق بن حافظ بھلے ڈنو قریشی 1902ء میں گاؤں ٹوپا تعلقہ گھوٹکی میں پیدا ہوئے۔آپ بزرگ حافظ بھلے ڈنو قریشی رحمہ اللہ روھڑی والے کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ کے بھائی لال شاھ قریشی رحمہ اللہ روھڑی کے شہر میں مدفون ہیں۔ جو بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ کے والد کا بچپن میں ہی سایہ اٹھ گیا تھا جس کے بعد آپ کی پرورش آپ کے ماموں محمد بچل نے کی۔ بچپن میں آپ رحمہ اللہ کو قطب الاقطاب مولانا سید تاج محمود امروٹی قدس سرہ کی خدمت میں آپ کے ماموں نے آپ کو دعا کرانے کے لیے لائے تو حضرت امروٹی رحمہ اللہ نے آپ رحمہ اللہ کو اپنا روحانی اولاد کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انگریز کا غلام نہیں بنے گا یہ تو وقت کا بہت بڑا جید عالم بنیگا اس کے علم کا چرچا سندھ سے لے کر پنجاب تک پہنچے گا۔ مولانا رحمہ اللہ دادلغاری کے پرائمری اسکول سے 1921ع میں فائنل پاس کرکے ماسٹری کی نوکری کی۔

خلافت تحریک ترمیم

آپ رحمہ اللہ خلافت تحریک کے دوران مولانا سید تاج محمود امروٹی قدس سرہ سے بیعت ہونے کے بعد نوکری چھوڑ کر دینی تعلیم کی طرف دھیان دیا۔ انگریز حکومت کے خلاف خلافت تحریک میں اپنے مرشد کامل مولانا تاج محمود امروٹی قدس سرہ کے ساتھ ڈٹ کر کر کھڑے رہے۔ اور ہر محاذ پر تعاون کیا۔ حضرت امروٹی رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند کے اساتذہ کو خط لکھا تھا کہ میرا روحانی بیٹا مولانا عبد المجید قریشی رحمہ اللہ آپ کے پاس مدرسہ دار العلوم دیوبند میں پڑھنے کے لیے آئیگا اسے ایسا عالم بنا کر بھیجنا کہ وقت کے علما کرام بھی اس سے مستفید ہوں۔[2]

تعلیم ترمیم

مولانا رحمہ اللہ دادلغاری کے پرائمری اسکول سے 1921ع میں فائنل پاس کیا۔ دینی تعلیم میں میاں نور محمد سومرو رحمہ اللہ کے پاس قرآن شریف پڑھا۔ عربی اور فارسی کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیر جھنڈے، داد لغاری اور گھوٹکی گئے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع ملتان، مظفر گڑھ، میانوالی، گجرات، گجرانوالا اور لاہور میں بھی پڑھے وہاں اساتذہ میں مولانا عبد الرزاق رحمہ اللہ، مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ اور مولانا غلام رسول گجراتی رحمہ اللہ تھے۔ سندھ میں مولانا نور محمد رحمہ اللہ اور مولانا محمد ھاشم لغاری رحمہ اللہ اساتذہ تھے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند گئے۔ آپ رحمہ اللہ جب دار العلوم دیوبند میں داخلا لیا تو اساتذہ حضرت امروٹی قدس سرہ کی وجہ سے آپ سے بہت پیار کرتے تھے اور اکثر شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ اپنے ساتھ بیٹھاتے تھے۔[3]

اساتذہ ترمیم

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ (شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند)

مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ (مھتمم دار العلوم دیوبند)

مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ (دار العلوم دیوبند)

مولانا محمد ابراھیم بلیاوی رحمہ اللہ (دار العلوم دیوبند)

مولانا سید اصغر حسین رحمہ اللہ (دار العلوم دیوبند)

مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ (پنجاب)

مولانا غلام رسول گجراتی رحمہ اللہ (پنجاب)

مولانا عبد الرزاق رحمہ اللہ (پنجاب)

مولانا نور محمد رحمہ اللہ (سندھ)

مولانا محمد ھاشم لغاری رحمہ اللہ (سندھ)[4]

فراغت دیوبند ترمیم

آپ رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند سے فراغت سند 1351ھ / 1932ء میں حاصل کی۔[5]

آپ رحمہ اللہ نے دارالشفا و طبیہ آف دار العلوم دیوبند کے شعبہ فن طب میں بھی تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد آپ کو دار العلوم کی طرف سے فن طب حکمت کا بھی سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔

دیوبند کے ہمعصر ترمیم

مولانا معراج الحق دیوبندی رحمہ اللہ(سابق نائب مھتمم دار العلوم دیوبند)

شیخ الحدیث مولانا محمد نعیم دیوبندی رحمہ اللہ (شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند)

مولانا عبد المجید اعظمی رحمہ اللہ (اعظم گڑھ)

مولانا عبد الحق حقانی رحمہ اللہ (بانی دار العلوم حقانیہ)

مولانا مختار احمد شیر کوٹی رحمہ اللہ

مولانا عبد العزیز سندھی بھانڈوی رحمہ اللہ

مولانا نور محمد جھنگوی رحمہ اللہ

مولانا فضل الرحمان ہزاروی رحمہ اللہ

مولانا نور اللہ سہارنپوری رحمہ اللہ

مولانا اسلام الدین بجنوری رحمہ اللہ

مولانا عبد الحق بلیاوی رحمہ اللہ[6]

درس و تدریس ترمیم

آپ رحمہ اللہ دار العلوم دیوبند سے واپس آکر داد لغاری میں مدرسہ نورالاسلام داد لغاری کی بنیاد رکھی۔ جب آپ نے مدرسہ نورالاسلام میں پڑھانا شروع کیا تو اکثر انگریز حکومت کے ایجنٹون نے آپ کے درس میں بھیس بدل کر پڑھنے کے لیے آتے اور کہتے کہ حضرت ہمیں بھی پڑھنے کا موقع دیں آپ ان کو کچھ نہ کہتے آپ رحمہ اللہ کا درس سن کر اتنے متاثر ہوجاتے کہ توبہ تائب ہو جاتے اور آپ سے معافی مانگتے۔ آپ رحمہ اللہ کے درس میں جنات بھی بیٹھتے تھے۔جنات کو قرآن شریف پڑھانے اور درس دینے کا وقت مقرر کیا تھا۔ ان جنات کو اکثر سفید پوشاک میں آپ کے درس میں دیکھا جاتا تھا۔ پھر آپ نے ان کے لیے جدا وقت مقرر کیا۔ وہ جنات آپ کے گھر، مدرسہ، مسجد کی بھی دیکھ بھال کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ 25 سال تک پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ 10 سال سندھ کے دیگر شہروں گھوٹکی، سکھر اور سانگھڑ میں تعلیم دیتے رہے۔ کافی عرصہ پنجاب کے دینی مدارس میں کام کرتے رہے جہاں وہ استاد سندھی کے نام سے مشہور تھے۔ وہیں تصنیف و تعلیف کا کام شروع کیا جن میں عربی، فارسی اور اردو کتاب آجاتی ہیں۔ کچھ کتاب پنجاب میں بھی چھپوائیں۔

تصانیف ترمیم

آپ رحمہ اللہ کو علم صرف و نحو، فارسی، منطق اور تفسیر القرآن میں عبور حاصل تھا۔ آپ کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔

1 صرف و نحو۔ عربی زبان میں لکھی ہوئی یہ کتاب 1930ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔

2 فارسی میں قانون سہ حرفی پر حاشیہ۔ یہ کتاب 1935ء میں ملتان سے چھپی۔

3 اردو میں صرف و نحو۔ 1967ء میں صادق آباد میں چھپی۔[7]

4 تفسیر مجیدی قرآن کی تفسیر ہے جو ابھی تک قلمی نسخے میں موجود ہے۔

5 قانون چہ شاہ جمالی فارسی قلمی نسخا موجود ہے۔

6 حکمت کی تین کتابیں اردو اور سندھی میں لکھی ہیں۔ان کے علاوہ بہت سی عربی کتب پر حواشی لکھے۔

تلمیذ خاص ترمیم

مولانا عبد القادر لغاری رحمہ اللہ

مولانا غلام قادر لغاری رحمہ اللہ

مولانا محمد ابراھيم لغاری رحمہ اللہ

مولانا عبد الحی گھوٽو رحمہ اللہ (فاضل دیوبند)،

مولانا نور محمد ٽانوری رحمہ اللہ

مولانا عبد اللہ آزاد رحمہ اللہ (گھوٹکی ملوکوالی)

مولانا محمد طيب لغاری رحمہ اللہ

شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعيل چاچڑ رحمہ اللہ

مولانا حافظ دوست علی لکھن رحمہ اللہ

مولانا عبد الحق چنہ رحمہ اللہ

شھيد مفتي عبداللـطيف پٹھان رحمہ اللہ

فقیہ سندھ مفتي عبد الوھاب چاچـڑ مدظلہ العالی

انجنيئر نذيـر احمـــد کوسـو رحمہ اللہ[8]

روحانی تعلق ترمیم

آپ رحمہ اللہ اکثر ھالیجی شریف تشریف لے جاتے تھے۔ جب آپ رحمہ اللہ مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی میں پڑھاتے تھے تو اکثر جمع کی نماز ھالیجی شریف میں پڑھنے جاتے تھے وہاں اپنے پیر و مرشد کے ساتھ ملتے تو وہ آپ رحمہ اللہ کو فاضل دار العلوم دیوبند اور حضرت امروٹی قدس سرہ کے روحانی تعلق کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ اکثر عشاء کی نماز کے بعد رات کی وقت اپنے مرشد مولانا ھالیجوی رح سے ملتے مولانا ھالیجوی رح آپ کو بیٹھاتے اور دین اسلام کی باتیں کرتے۔ ایک دفعا آپ رحمہ اللہ کو کہا کہ مولانا صاحب کچھ فارسی میں اشعار سنائیں آپ رحمہ اللہ اپنے مرشد کے سامنے عشق الاہی کے ایسے اشعار پڑھے کہ مولانا ھالیجوی رحمہ اللہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ جب مولانا ھالیجوی رحمہ اللہ دادلغاری آتے تو آپ رحمہ اللہ سے ضرور ملتے آپ رحمہ اللہ اکثر آپ کو گھر کے صحن میں بٹھاتے تھے جہاں ھالیجوی قدس سرہ سے دین اسلام کی باتیں ہوتی تھیں۔ دونوں بزرگان دین آپس میں علم و کمال کے موتی لٹاتے تھے۔ سکھر کے ایک بڑے آفیسر انجنیئر نذیر احمد کوسو جب مولانا حماد اللہ ھالیجوی قدس سرہ کے ہاتھوں پر دست بیعت ہوئے تو مولانا حماد اللہ ھالیجوی رحمہ اللہ نے ان کو آپ رحمہ اللہ کے پاس قرآن شریف پڑھنے کے لیے بھیجا۔ آپ رحمہ اللہ نے اس کی ایسی دینی تربیت کی کہ وہ ایک موحد بن گیا۔ اور پھر اس نے علما دین کی بہت خدمت کی۔ آپ رحمہ اللہ کو انجنیئر صاحب نے میرپور ماتھیلو کی طرف ہجرت کرنے کے لیے کہا اور حضرت ھالیجوی رحمہ اللہ کا ذکر بھی کیا۔ اس کے بعد مولانا رح میرپور ماتھیلو تشریف لے گئے جہاں آپ نے حکمت کا دوا خانہ کھولا۔ جب آپ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا محمد ابراھیم لغاری رحمہ اللہ کو خبر ہوئی کہ استاد محترم میرپور ماتھیلو میں تشریف لائیں ہیں تو وہ حضرت مولانا کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے کہ آپ میرے مدرسہ انوارالعلوم قاسمیہ میرپور ماتھیلو میں تشریف لائے اور ہمارے مدرسے کے شاگردوں کو اپنے علم سے مستفید فرمائیں آپ رحمہ اللہ نے کچھ عرصہ مدرسہ انوارالعلوم قاسمیہ میرپور ماتھیلو میں بھی پڑھایا۔

حکمت ترمیم

آپ رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند سے فراغت سند کے ساتھ دارالشفا و طبیہ آف دار العلوم دیوبند کے شعبہ فن طب میں بھی تعلیم حاصل کی۔ جہاں آپ کو فن طب میں علمی و عملی تعلیم دی جاتی تھی۔ فراغت کے بعد آپ کو فن طب ڈاکٹریٹ کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔ اس طرح آپ ایک عالم کے ساتھ حکیم بھی بنے۔ جب آپ رحمہ اللہ کا سندھ اور پنجاب دونوں صوبہ کے مختلف مدارس میں تقرر ہوتا تو وہاں آپ درس کے ساتھ ساتھ حکمت کے بھی کمال دکھاتے۔ آپ رحمہ اللہ کو حکمت میں اتنا تجربہ تھا کہ دور سے دیکھ کر مریض کو بتاتے کہ آپ کو فلاں فلاں مرض ہے۔ مرض کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہی آپ کو مریض اور مرض کی تمام کیفیتیں منکشف ہوجاتی تھیں۔ آپ کی نبض شناسی کی عجیب و غریب واقعات سننے میں آئے ہیں۔ تشخیص مرض اور تجویز دونوں میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ لوگوں کا علاج یونانی کے ساتھ انگریزی طرز کے ذریعے بھی کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ کے مطب کی بہت شہرت ہوا کرتی تھی۔ مطب میں بے پناہ ہجوم کے باوجود آپ مدرسہ میں درس دینے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ کے پاس دور دراز سے لوگ علاج کرانے آتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ نے پنجاب کے علاؤہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں رشیدیہ دوا خانہ کے نام سے ہسپتال کھولا۔ وہاں آپ مولانا حکیم عبد المجید قریشی کے نام سے مشہور ہوئے۔ حکمت میں اتنے مشہور ہوئے کہ اکثر قطب الاقطاب مولانا حماد اللہ ھالیجوی قدس سرہ آپ رحمہ اللہ کو بلاتے اور اپنے بتائے ہوئے نسخوں کے تحت بھی کچھ دوائیاں بنانے کو کہتے جو اکثر آپ کی خدمت اقدس میں پیش کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنی حکمت کی لکھی ہوئی کتابوں میں اکثر مولانا حماد اللہ ھالیجوی قدس سرہ کے بتائے ہوئے نسخوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا بھی ہے۔ گھوٹکی کے علاؤہ آپ رحمہ اللہ نے اپنے آبائی شہر دادلغاری میں بھی مطب کھولا۔ آپ کو مطب میں سے جتنی رقم حاصل ہوتی وہ رقم آپ اپنے مدرسہ نورالاسلام دادلغاری اور گھر پر خرچ کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ کے پاس طلبہ فن طب سیکھنے بھی آتے تھے۔ آپ سے طب سیکھنے والے طلبہ اپنے دور کے بہت بڑے حکیم بنے۔ آپ رحمہ اللہ اکثر علما و صلحاء اور فقہا کا مفت علاج کرتے تھے۔ان سے کوئی بھی قیمت وصول نہیں کرتے تھے۔

شاعری ترمیم

آپ رح عالم کے ساتھ بہت بڑے شاعر بھی تھے دار العلوم دیوبند ہندستان سے فاضل ہونے سے پہلے آپ رح نے 1930ء میں شاعری کرنا شروع کردی تھی جو عربی، فارسی، اردو اور سندھی میں ہوتی تھی۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کو مولانا رح نے ایک عربی میں قصیدہ لکھ کر بھیجا تھا جسے پڑھ کر سعودیہ کے شاہ فیصل بادشاہ بہت متاثر ہوئے شاہ فیصل نے آپ رح کو سعودیہ عرب آنے کے لیے کہا اور اقامہ دینے کے لیے خط لکھا۔ لیکن آپ رح سعودی عرب نہیں جا سکے۔ مولانا رح کی بہت سی شاعری گم ہو گئی تھی۔شاعری میں آپ رح کا تخلص "عبد" تھا۔ مولانا رحمہ اللہ کی شاعری میں ایک نظم ہے جو "تجارت" کے نام سے مشہور ہے۔

مبارک صد مبارک ہو تمـہیں اے زمرہ مسـلم

کہ پھر زندہ کیا تم نے تجارت حرفـت مسلم

ہمارے پیشـوا کامـل نبی مرسل کا شـیوا تـھـا

دلائی یـاد پـھـر تــم نے ہمیں یہ سنـت مسلـم

غلامیی اور کھیتی میں سمجھتے ہیں فخر اپنا

اسس میں گم ہوئی عزت بدل گئـی ھمت مسلم

الاہی "عـبـد" اور عاجـز تیرے در کـا سـوالی ہے

کہ دنیا میـں رہے قائـم وہ پھـر رفــعـت مسـلم

مولانا رحمہ اللہ کچھ عرصے خلو دماغ کے پیش نظر تدریس سے علاحدہ ہو گئے تھے۔ لیکن اس کے بعد دوبارہ مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گھوٹکی میں غالبا 1962–1963 میں پڑھانے آئے۔[9]

وفات ترمیم

مولانا رح کی وفات 16 نومبر 1973ء میں ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ کو اپنے آبائی شہر داد لغاری کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔[10]

حوالہ جات ترمیم

  1. اساسنامه تصدی تجارتی اردو۔ Afghanistan Centre at Kabul University۔ 1986 
  2. سوانح شریعت ماہنامہ۔ سکھر۔ 1981 
  3. گھوٹکی جا گھوٹ 
  4. سوانح شریعت ماہنامہ۔ سکھر۔ 1981ء 
  5. تعلیمی ریکارڈ دارالعلوم دیوبند 
  6. تعلیمی ریکارڈ دار العلوم دیوبند 1351ھ
  7. سوانح شریعت ماہنامہ۔ سکھر۔ 1981ء 
  8. گھوٹکی جا گھوٹ 
  9. سوانح شریعت ماہنامہ۔ سجھر۔ 1981ء 
  10. گھوٹکی جا گھوٹ