عبدالواحد آریسر
عبد الواحد آریسر سندھ کے ایک دانشور، لکھاری، ادیب، اسکالر، رسرچر اور آزادی پسند سیاست دان تھے۔
عبد الواحد آریسر | |
معلومات شخصیت | |
---|---|
پیدائش | کتوبر ١٩٤٩ع میں گاؤں واھوڑی انڑ آباد ھاسی سر ریلوے اسٹیشن کے قریب ضلع عمرکوٹ |
وفات | 3 مٸی 2015ع کراچی |
شہریت | پاکستانی، سندھی |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان، مسلم فلسفی، عالم |
پیداٸش اور عمر
11 اکتوبر 1949ء میں گاؤں واھوڑی انڑ آباد ھاسی سر ریلوے اسٹیشن کے قریب ضلع عمرکوٹ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ھوٸے۔ ابتداٸی تعلیم سابھو بھینڈو شریف میں جب کے آگے کی تعلیم مدرسہ ھاشمیہ سجاول، مدرسہ مفتاح العلوم حیدرآباد، شاھ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد اور اورینٹیٸل کالج حیدرآباد میں حاصل کی۔
ایک ادیب کے طور پر
وہ 1990ء سے وفات تک سندھ کی آزادی پسند جماعت ” جیٸے سندھ قومی معاذ آریسر“ کے قاٸم مقام چیٸرپرسن رہے۔ ان کی ایک بیٹی”محترمه اندرا“ محترمہ قیصر میں سے ھوٸی۔ جس کا نام انھوں نے بھارت کی پالیٹشن محترمہ اندرا گاندھی کی قاٸدانہ صلاحیتوں سے متاثر ھوکر رکھا۔ عبد الواحد آریسر سندھ میں اپنے چاھنے والوں میں بھت سے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ جیسے آریسرصاحب، مولوی عبد الواحد آریسر، مسلم اسکالر، سندھی قومپرست اور آزادی پسند اور امن کا سفیر۔ ان کی علم، حکمت اور داناٸی کے سبب جی۔ ایم سید نے انھیں” چوتھی دنیا کا دانشور“ قرار دیا تھا۔ ويسے تو انھیں سیاست دان کے طور پر پورا سندھ جانتا ہے، پر ان کے سیاسی کیریٸر کے علاوہ ان کے پڑھنے والوں کا بھی ایک وسیح حلقہ ہے جو انھیں لفظوں کا جادوگر بلاتا ہے۔عبد الواحد آریسر کی لفظوں کی اداٸگی بھی کمال ہے جو پڑھنے والوں کو سحر انگیز کردیتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں پوری دنیا کے حوالے شامل ھوتے ہیں۔ وہ کسی بھی نکتے کو ثابت کرنے کے لٸے منطقی، عقلی، مذہبی اور ساٸنسی دلیل دے سکتے تھے۔ جو قدرت کی طرف سے ان کو ایک دین تھی۔ عبد الواحد آریسر کے بارے میں سندھی کالم نگار نصیر مرزا کے رمارکس قابل غور ہیں کہ” آريسر صاحب اور شیخ ایاز کو جدید سندھی نثر کا بانی کھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے نثر میں جو تسلسل ہوتا ہے وہ ھر لکھاری کے بس کی بات نہیں۔ اس وقت تک ان کی ٣٥ سے زاٸد کتابیں چھپ چکی ہی۔ جس میں ان کی جیل ڈاٸریاں بھی ہیں۔
ادبی خدمات
جس میں پرھ جو پيغام
صدين جون صدائون
سر ۾ سانجهي وير
وريا واهيرو
مٽيء ھاڻا ماڻھو
ٽھڪي نڪتا ٽوھ
ترم ياترا جيل ڊائري
ماڙين ماريس ڪينڪي
سنڌي سماج جو جائزو
جي ايم سيد شخصيت ۽ فڪر
ٿي نه محبت مات
مجيب ۽ ڀٽو Bhuttu and Mujib
ربيع اول جا چار چنڊ
ويراڳي جي وڃڻا هئا
ڇا ته شخص هو
ڳچي ڳانا لوھ جا
قومي تحريڪ ۾ رڪاوٽون
ورق ورق تاريخ
باک جو آواز
چانڊوڪيون ۽ چيٽ
Assasination of hope اميد جو قتل About Madame Benezir Bhutto
نئين دور جا نوان چار درويش
ماڻھو ميگھ ملهار
وطن پرستي
ٿي نه محبت مات
اسان جيان جيئي ڪو(ٽارچر سيل ڪٿا)
سر جي صدا سر ۾
سچ وڏو ڏوهاري آھي(مخدوم بلال بابت)
روح جا ريلا
روئداد هڪ رات جي
زندگي آزادي ۽ محبت
ڪنڌيء ٽڙن ڪنول
کٽڻھار کڙيا
تاريخ جي جهروڪي مان
مولانا ابو الڪلام آزاد
شيخ اياز نياز همايوني ۽ تنوير عباسي
سيد ۽ آئون
اس کے علاوہ انھوں نے ماھوار پیغام رسالے کے کتنے ہی پرچے شایع کیے جن پر پابندی لگاٸی گٸی۔
سیاسی کیریٸر اور گرفتاریاں
1986ء میں وہ افغان صدر کامریڈ نجیب سے ملے۔ بعد میں جب کامریڈ کو اپنے ہی لوگوں نے بیدردی سے قتل کیا تو انھیں بڑا دکھ ھٸا۔ ٣ مٸی ٢٠١٥ع کو ان کی موت ھوٸی۔ عالمی سیاست میں بھی وہ کسی تعریف کے محتاج نہیں۔ انھیں دنیا کے بڑے قومپرست اور سوشلسٹ دانشوروں اور سیاست دانوں سے ملنے کا موقعا ملا۔ سندھ کے ترقی پسند انھیں سندھ کا ھوگو شاویز کھتے تھے۔ 25 اکتوبر 1992ء کو کاوش اخبار میں محترم عبد الواحد آریسر کے بارے میں سندھ کے لکھاری اور دانشور منظور سولنگی کا ایک کالم چھپا تھا جب آریسر صاحب کو ریاستی اداروں نے رات کے وقت ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ” پتا نہیں یہ عظیم اور درویش انسان کھاں اور کس حال میں ھوگا اور اس پر کس قسم کے ٹارچر کیے جارھے ھونگے۔ یہ تو سب جانتے ہیں ان پر کسی دھشتگردی یا تخریبکاری کا کوٸی کیس نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ ان کا شخصی اور سیاسی کردار شیشے کی طرح شفاف ہے۔ پر ھو سکتا ہے بیوروکریسی کے ٹب میں پلے سانپ ان کے لٸے کوٸی جھوٹا کیس بنا بھی لیں۔ اگر کیس نہ بھی بنا تو انھیں سزا سنانے کے لٸے یہ کیس بھی کافی ہے کہ آریسر کا قصور یہ ہے کہ وہ اندرا نامی ایک بچی کا باپ ہے اور اندرا ایک پاکستان دشمن ملک ھندوستان کی سابقہ وزیر اعظم تھی۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ۔ https://thebalochistanpost.com/2020/07/یہی-میری-جیت-ہے-عبدالواحد-آریسر-محمد/ مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت);