عبد العزیز باسندی نے ٢٢٣؁ ھجری میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک پہاڑی مقام پر فریب کا جال بچھایا۔ وہ موضع باسند، علاقہ صفانیان کا رہنے والا تھا۔

شعبدہ باز نبی

ترمیم

اکثر جھوٹے مدعیان نبوت نے کم علم اور کمزور ایمان والے افراد کو شعبدے کے سہارے ہی ایمان کی دولت سے محروم کیا ہے۔ چنانچہ عبد العزیز باسندی نے بھی اسی کا سہارا لیا۔ وہ بہت بڑا شعبدے باز تھے لیکن جس شعبدے سے اس نے لوگوں کو اپنا معتقد بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اپنا ہاتھ پانی کے حوض میں ڈالتا اور سرخ دینار سے مٹھی بھر کر باہر نکالتا۔ اس شعبدے کو دیکھ کر لوگ دیوانہ وار اس کے معتقد ہونے لگے۔ علمائے حق نے بہت کوشش کی کہ اس شعبدے کے جال میں کوئی ایمان والا مسلمان نہ آئے لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے ان کی بات سنی بھی اور جھوٹے نبی کے فتنے سے محفوظ رہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں نے اپنا ایمان اور اپنی زندگی عبد العزیز باسندی کے حوالے کر دیا۔

اہل ایمان کا قتل

ترمیم

عبد العزیز باسندی کے معتقدین کی تعداد میں جب خوب اضافہ ہو گیا تو اس نے ایک فوج بھی بنائی اور اہل ایمان پر ظلم و ستم کی انتہا کی اور بہت سے ایمان والے کو قتل بھی کیا

آخر کار

ترمیم

جب عبد العزیز باسندی کے ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی تو وہاں کے حاکم وقت ابو علی بن محمد بن مظفر نے اس کی سرکوبی کا ارادہ کیا کیونکہ اس کی حرکتوں سے حکومت کو بھی خطرہ تھا اور مذہب تو خطرے میں تھا ہی۔ چنانچہ ابو علی نے ایک فوج روانہ کی تاکہ اس فتنے کا خاتمہ ہو۔ جب اس فوج کی اطلاع عبد العزیز باسندی کو ملی تو وہ اپنے معتقدین کے ساتھ پہاڑ پر محصور ہو گیا۔ مسلمانوں نے بھی محاصرہ کیے رکھا۔ آخر ایک دن، جب سامان رسد ختم ہو گیا اور مسلمانوں نے بھی جرأت کا مظاہرہ کر کے پہاڑ کی بلندی پر قدم رکھ دیا تو ایک خطر ناک جنگ ہوئی جس میں باالآخر سپہ سالار کے ہاتھ سے عبد العزیز قتل ہوا۔ قتل کے بعد اس کا سر ابو علی کے پاس بھیج دیا گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ مرنے کے بعد وہ پھر واپس آئے گا۔ چنانچہ اس کے کچھ بچے ہوئے معتقدین اس کا انتظار کرتے رہے اور پھر دھیرے دھیرے اسلام میں مدغم ہو گئے۔

حوالہ جات

ترمیم

[1]

  1. جھوٹے نبی، ٧٥٢؃