مولانا عبد اللہ گنگوہی ،1298ھ میں پیدا ہوئے آپ اپنے دور کے نیک صالح لوگوں میں سے تھے، صاحب علم و عمل آدمی تھے، ابتدا دور میں عربی کی طرف راغب نہ تھے، حضرت مولانا یحیی صاحب کاندھلوی نے جواس وقت گنگوہ میں مقیم تھے ان کی پابندی نماز کی وجہ سے ان سے تعلق قائم کیا اور ان کو عربی پڑھنے کا شوق دلایا اور خود ہی پڑھایا، رفتہ رفتہ شوق بڑھتا چلا گیا کہ یہاں تک کہ عربی علوم کی تعلیم تین سال میں مکمل کر لی۔

تدریس میں مہارت

ترمیم

ابتدائی تعلیم مولانایحییٰ صاحب کاندھلوی کی اس درجہ مؤثر تھی کہ ان کے یہاں ہدایة النحو پڑھنے والا طالب علم ہدایہ کی عربی صحیح کرنے کی قابلیت پیدا کرلیتا تھا،مولانا عبد اللہ صاحب فراغت کے بعد خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں نوروپئے ماہوار پر مدرس ہوئے ساتھ ہی تجارت کتب کا سلسلہ بھی رکھا ، حضرت تھانوی نے اپنے مواعظ قلم بند کرنے کا کام بھی آپ کے سپرد کیا تھا ۔

بیعت و خلافت کاتعلق

ترمیم

حضرت مولانا نے باطنی علوم ومعارف شیخ العرب والعجم حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے حاصل کیے ،آپ کے مجاز وخلیفہ بھی تھے، آپ کے ہی حکم سے اتما م النعم ترجمہ تجریب الحکم کی شرح لکھی، جو علم تصوف میں اہل اللہ کے یہاں ایک عمدہ رسالہ ہے اوربڑامقبول ہے، اس کا شارح نے خود تذکرہ فرمایا ہے ۔