عُتبہ بن عبد سُلمی صحابی رسول اور اصحاب صفہ میں شمار ہوتے ہیں۔
نام عتبہ ، کنیت ابو الولید، والد کانام عبد، قبیلۂ بنو سلیم سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ابوسعیدا بن الأعرابی اور علامہ ابو نعیم اصبہانی نے حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ کو اصحابِ صفہ میں شمار کیا ہے ۔[1] عتبہ بن عبد خود ہی اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ ہم قبیلۂ بنو سلیم کے نوافراد تھے ، ہم میں سب سے بڑے عرباض بن ساریہ تھے ، ہم لوگ ایک ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ،(2) پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام پوچھا، میں نے عرض کیا’’ نشبہ‘‘ ایک روایت میں ’’عَتَلۃ‘‘ ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا: بلکہ تو ’’عتبہ ‘‘ ہے اور اس وقت میں نوعمر تھا عرباض اور عتبہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا گردانتے تھے ۔ عتبۃ عرباض سے کہا کرتے تھے کہ آپ مجھ سے بہترہیں اور عرباض کہتے کہ آپ مجھ سے بہتر ہیں ، کیونکہ آپ مجھ سے ایک سال پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِِ اقدس میں حاضر ہوکر اسلام لائے ہیں ۔[2] عن عتبۃ بن عبد قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم قریظہ: من أدخل الحصن سہماوجبت لہ الجنۃ، فأدخلت ثلاثۃ أسہم۔ ترجمہ: عتبہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے محاصرہ کے دن ارشاد فرمایا: جس نے قلعہ کے اندر ایک تیرپہنچا دی اس کے لیے جنت واجب ہے ۔ میں نے اس دن قلعہ کے اندر تین تیر پہنچا دیے ۔[3]

عتبہ بن عبد سلمی
معلومات شخصیت

وفات

ترمیم

عتبہ ملکِ شام کے ’’ حمص‘‘ کے علاقہ میں منتقل ہو گئے اور وہیں سکونت پزیر ہو گئے ۔ علامہ واقدی کہتے ہیں کہ ’’شام‘‘ میں سب سے اخیر میں وفات پانے والے صحابی عتبہ بن عبدسلمی ہیں اوران کی وفات 87ھ میں ہوئی ہے ۔

شاگردان

ترمیم

عتبہ بن عبد کے فیض یافتگان میں خود ان کے لڑ کے یحیٰ بن عتبہ، خالد بن معدان اور راشد بن سعد وغیرہ ہیں ۔ [4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حلیۃ الأولیاء: 2/15
  2. اسد الغابہ 3/459
  3. : المعجم الكبير طبرانی
  4. سیر اعلام النبلاء3/417