عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک آفاقی تحریک

عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک آفاقی تحریک ہندوستان کے مایہ ناز مصنف ڈاکٹر دھر میندر ناتھ کی تصنیف ہے۔ جس میں فاضل مصنف نے دنیا بھر میں عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام پر سیر حاصل تجزیہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر دھرمیندرکے خاندان میں کئی پشتوں سے محمد ﷺو آل محمد علیہم السلام سے عقیدت کی روایت ہے۔آپ نے بھی اپنی خاندانی روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حمد، نعت، مناقب، قصائد، سلام و مراثی کے ذریعے خدائے پاک، رسول اکرمﷺ و ائمہ اطہار علیہم السلام کی خدمت میں نذرانے پیش کیے۔اخبارات و رسائل میں کلام اور ان موضوعات پر مضامین شائع ہوئے۔دہلی اور بیرون دہلی ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسالموں، مقاصدوں اور مجالس میں کلام پیش کیا۔آل انڈیاریڈیواور درشن پر بھی منظوم اور نثری نذرانہ عقیدت پیش کیا۔[1] زیر نظر کتاب میں فاضل نے دنیا بھر میں منعقد ہونے والی عزاداری امام حسین علیہ السلام کا جائزہ لیا ہے کہ کہاں کس طرح سے عزاداری منائی جاتی ہے۔کتاب کی افادیت اور اہمیت کے پیش نظر یہاں پر ایک تعارف پیش کیاجارہا ہے کہ کس طرح ایک غیر مسلم مصنف نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام بالخصوص سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے زیر نظر مقالے میں بعض ابواب کے مختصر اقتباسات پیش کیے جائیں گے۔

پہلا باب:معانی و تصورات عزاداری

ترمیم

حسین ابن علی کو سلام کرتا ہوں۔۔۔۔اور اس سے کسب فیض دوام کرتا ہوں
نہیں ہے مصلحت اندیش اعتقاد مرا۔۔۔۔۔پئے طہارت دل اہتمام کرتا ہوں(گوپی ناتھ امن لکھنوی
سانحہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، انداز جدا ہو سکتے ہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ تحریک و مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔ [2]

دوسراباب:جواز عزاداری

ترمیم

اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن قریم میں متعددجگہ گریہ کے متعلق ذکر ہے[3] اور اس کا درجہ بلند باتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ انسان کامل تھے ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے اور طریق زندگی سنت۔آنحضرت نے بھی گریہ فرمایا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا ء علیہم السلام جسیے حجرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرماگئے تھے یہی معلول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی، زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپ کا لقب نوح ہو گیا۔یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا، حضرت ابراہیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے۔

تیسراباب: اہمیت عزاداری

ترمیم

تیسرے باب میں عزاداری امام حسیم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ لکھتے ہیں کہ’’ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو یاد و ماتم حسین پابندی سے بار بار کرنے کی تاکید کی ہے۔عزاداری کے لیے یہ اصرار صرف گریہ کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے کئی پہلو ہیں ۔

اجر رسالت

ترمیم

قرآن حکیم میں خدائے برحق نے اپنے پیغمبر سے ارشاد فرمایا ہے کہ ’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اجر طلب نہیں کرتا بجز اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو[4]

شہید کے ساتھ ارتباط

ترمیم

عزاداری ہمارے اور شہدائے کربلا کے درمیان ایک رابطہ پیدا کرتاہے۔صدقدلی سے جب انھیں یاد کرتے ہیں،گریہ کرتے ہیں تو عزادار اور امام حسین (ع) کے درمیان ایک تعلق پیدا کرتا ہے جو جذباتی اور دلی ہوتا ہے ہم یاد کیے جانے والے کی پسند ناپسند کو اختیار کرلیتے ہیں۔استاد علامہ شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں :’’عزاداری میں گریہ کرنے سے ظلم اور ظالم کے خلاف بیزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان لوگوں اور طاقتوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے جنھوں نے مام حسین کو شہید کیا۔گریہ اور مجالس میں مصائب بیان کرنے کے سبب یزید سفاکی اور بربریت کی علامت بن گیا ابن زیاد ،شمر یزید وغیرہ سے لوگ نفتے کرتے ہیں ۔‘‘[5]

جذبہ ایثار و قربانی

ترمیم

عزاداروں کو جذبہ ایثار و قربانی برائے حق کی تعلیم واقعہ کربلا سے ملتی ہے۔علامہ مطیہری فرماتے ہیں،دوسرا سبق جو معاشرے کو لینا چاہیے یہ ہے کہ دوبارہ معاشرہ میں ایسی زمین ہموار کرنا چاہیے جو شہادت کو قبول کرسکے اور اس کی آواز پر لبیک کہہ سکے۔اس نظریہ کی بنیاد پر ایسے عظیم کارنامے جو شہید سے متعلق ہیں اور بغیر کسی دباوکے اس نے جن اقدام کو سوچ سمجھ کر منتخب کیا ہے ،بابار بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کے احساسات و جذبات شہید کے احساسات و جذبات کے ساتھ ہم رنگ و ہم آہنگ ہوجائیں ۔‘‘

حوالہ جات

ترمیم
  1. عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک آفاقی تحریک، ڈاکٹر دھرمیندر تاتھ، نئی دہلی، رایزنی فرہنگی سفارت جمہوریہ اسلامی ایران
  2. ایضا، ص35
  3. سورہ مریم آیت58،سورہ المائدہ آیت83،سورہ نبی اسرائیل آیت 109،سورہ النجم آیت 35،
  4. سورہ شوری آیت 23
  5. شہید از علامہ مرتضی مطہری،(بحوالہ عزاداری از حکیم سید امتیاز حسین ،عزاداری حضرت حسین،ص122