سید عبد القادر المتخلص عقیل جامد کی پیدائش 10 جولائی 1947ء میں ہوئی آپ ایک ریٹائرڈ تحصیل دار ہیں۔ آپ کو شاعری کا ذوق بچپن ہی سے رہا ہے آپ ایک منفرد سوچ کے مالک ہیں۔

تصانیف ترمیم

جدید شاعر عقیل جامد کے کُل تین مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں۔ دو اشتراکی مجموعے جو ’’لہجے‘‘ اور ’’انتسللہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے جس کی وجہ سے ادبی دنیا میں ان کی الگ پہچان بنی۔ تیسرا مجموعہ ’’گل دیگر شگفت‘‘ کے نام سے شائع ہو کر قارئین و ادبا سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ انھوں نے شروع میں ساغر جیدی سے علم و عروض اور شاعری کے فنی لوازمات سے آگاہی حاصل کی اور پھر انھیں کی توسط سے مولانا تسخیر فہمی جیسے استاد شاعر سے روابط پیدا کیے۔

اسلوب ترمیم

عقیل جامد ابتدا ہی سے جدت پسند ہیں موصوف نے اپنے دامن کو رجعت پسندی سے محفوظ رکھا ہے ان کے تینوں مجموعہ کلام ان کی جدت طرازی، جدید اسلوب اور خیال کی آزادی کے غماز ہیں جدیدیت کے تمام فنی لوازمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے موصوف نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خوف، تنہائی، یگانگی، یاسیت، اظہار بیان کی آزادی اور وجودیت ان کی شاعری کی اہم خصوصیات ہیں علاوہ ازیں شاعری میں راست گفتگو اور مکالمہ کا رنگ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس طرز کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

جامد! مرا وجود ہے ملبہ بنا ہوا

اک خوف سر اٹھاتا ہے دیوار دیکھ

پھر رہا ہوں اداس جنگل میں

کم ہے جینے کی آس جنگل میں

بارشیں پیار سے ان کو نہلائیں گی

گرد سے جب بھی اٹ جائیں گے جنگلات

جدید شاعری کا ایک اہم پہلو کیڑوں، مکوڑوں اور پرندوں کے نام کو علامتی و استعاراتی انداز میں استعمال کرنا ہے ان رجحانات کو بڑے فن کارانہ انداز میں اپنی شاعری میں استعمال کر کے عقیل جامد نے ادبی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے موصوف نے اپنی شاعری میں مچھلی، تتلی، سانپ، کبوتر، کوے، بلبلیں، لال کوے، ہرے کوے، ہنس، گھوڑے، مرغیاں، بکریاں، اونٹ، قاز، جھینگے، بگلا، توتی، مگرمچھ، مرغ، چوزے، کتا، الو، تیندوا، خرگوش، مکوڑے، کنکجھورے، مکھی، بچھو، گرگٹ، چھپکلی، مینڈک جیسے چرند پرند کا تذکرہ جدید طرز سے کیا ہے۔ اس نوعیت کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

خیالوں میں گم سن ہے رانی بطخ

نہ مانگے ہے دانہ نہ پانی بطخ

ہار مانی نہ کوئلوں سے کبھی

اپنی بولی پہ مر مٹے کوے

ظلم انتہا پر بھی ہاے بے زباں گرگٹ

دیکھتے رہے پیہم سوئے آسماں گرگٹ

علامت نگاری ترمیم

عقیل جامد کی شاعری میں نئے علائم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لال کوے، ہرے کوے، شریر مرغ، غریب چوزے، کانی بطخ، بہرے قاز وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال موصوف نے بڑی فن کاری سے کیا ہے:

شریر مرغ کی آوارگی تھی اپنی جگہ

لکھتی رہتی ہیں بلبلیں غزلیں

شریر مرغ کی آوارگی تھی اپنی جگہ

غریب چوزے پہ لیکن پڑوس کی بلی

لکھتی رہتی ہیں بلبلیں غزلیں

بڑھتے رہتے ہیں مرثیے کوے

ہاتھ جامد جو آنہیں سکتی

استعاراً اسے کہیں تتلی

عقیل جامد نے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے اپنی شاعری میں جدید اسلوب کو اپنا کر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی کا مقالہ “ شعرائے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات“ سے لیا گیا ہے صفہ 71 تا 73