علامتِ اقتباس یا واوین (” “) کسی مضمون میں موضوع کی مناسبت سے بعینہ کسی مصنف و ادیب کے قول یا کسی کتاب کے اقتباس کو نقل کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: ”شورش لکھتے ہیں: ایک نورانی جزیرہ ہے، جس میں فضیلتوں کے آبشار بہہ رہے ہیں، احد سونے کا پہاڑ ہے، اس کے دامن میں شہدا کی جھیل ہے، اس جھیل میں چاندی کا پانی بہہ رہا ہے اور سونے کی موجیں اچھل رہی ہیں۔“ ٹیپوسلطان فرماتے ہیں: ”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔“

اسی طرح جملوں کے درمیان میں، اہمیت کے پیش نظر، کسی خاص نام و مقام کو بھی واوین میں لکھاجاتا ہے۔ جیسے: ”عصری علوم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے میں ”سرسید احمد خاں“ کا اہم کردار رہا ہے جو ”علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی“ کی شکل میں آج ”ہندوستان“ میں قائم ہے“۔