شرعی حکم کے لیے حکمت کے اصول کو علت کہا جاتا ہے۔ حکمت سے مراد مصلحت کی تحصیل یا اس کی تکمیل یا مفسدہ کا دفع یا اس کی تقلیل۔ گویا حکم کی مشروعیت کو جس وصف کے ساتھ وابستہ کیا جائے اسے علت کہتے ہیں۔ سبب اور حکم کے درمیان علت کا توسط ضروری ہے۔

وہ معتدد امور جو معقول معنی نہیں ہیں اور جن پر قیاس جاری نہیں ہوتا ہے۔ ان میں حکم کا مدار جس وصف پر ہوتا ہے۔ احناف اسے علت نہیں بلکہ سبب کہتے ہیں، اس لیے علت میں وصف حکم کے ساتھ ایسی مناسبت ضروری ہے جو سمجھ میں آسکے۔

شرائط علت

ترمیم

علت کی متعد شرائط میں سے چند شرائط حسب ذیل ہیں۔

  1. ظاہر ہو - یعنی علت کو ایسا واضع ہونا چاہیے جس کا ادراک ممکن ہو سکے۔ مثلأئ صغیر پر ولایت کے ثبوت کے لیے علت صغیر یا حرمت میں نشہ۔
  2. منضبط ہو - یعنی اس طرح محدود ہو کہ اشخاص، زمان اور احوال کے اختلاف سے مختلف نہ ہو۔ مثلاً مقتول کی میراث سے محرومی میں وارث کو اپنے مورث کو قتل کرنا کہ یہ مضبوط اور محدود وصف

ہے، جو قاتل اور مقتول کے اختلاف سے مختلف نہیں ہو تا ہے۔ یا حرمت خمرمیں وہ شدد جو سکر کی حد کو پہنچ جائے، وصف محدود ہے۔

  1. متعدی ہو - اصل پر مقصود نہ ہو، یعنی صحت قیاس کے لیے علت کا تعد یہ سب کے نزدیک بالاتفاق شرط ہے۔ مثلاً رمضان میں مسافر یا مریض کے لیے فطر کی اباحت کہ چونکہ اس اباحت کی

علت سفر یا مرض ہے، جو صرف مسافر یا مریض میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے جو شخص اعمال شاقہ میں مشغول ہو اسے مسافر اورمریض پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

  1. حکم میں مؤثر ہو - اس کی تعبیر اس طرح کی جاتی ہے کہ حکم کے لیے باعث اور مناسب ہو اور حکم جس مقصد کے لیے شروع ہوا ہے اس کے لیے محرک اور مقتضیٰ ہو۔
  2. نقض - کسی موقع پر علت سے حکم سے تخلف کو نقض کہتے ہیں۔ نقض سے علت باطل ہوجاتی ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ لیکن اکثر اصولین کے نزدیک کسی مانع کی وجہ سے نقض جائز ہے۔
  3. کسر - کسی حکمت کے ماتحت، نہ کہ کسی علت کی وجہ سے، حکم کے تخلف کو اصطلاحاً کسر کہتے ہیں، کسر سے علت باطل ہوتی ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ باطل نہیں ہوتی ہے۔

مثلا سفر کی حکمت مشقت ہے، یہ حکمت صنائع شاقہ میں موجود ہے، لیکن حکم رخصت موجود نہیں اور اس سے علت رخصت باطل نہ ہوگی۔

  1. ترکیب - بعض حضرات کے نزدیک علت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ ذات وصف واحد ہو۔

مثلاً تحریم خمر کی تعلیل نشہ ہے، لیکن جمہور علت کے لیے اس شرط کے قائل نہیں۔ چنانچہ محدد سے وجوب قیاس کی تعلیل قتل عمد عددان سے کی جاتی ہے اور یہ علت مجموعہ اوصاف ہے۔

مسالک علت

ترمیم

علت کی دریافت کے طریقوں کو مسالک علت کہتے ہیں۔ مسالک علت کی تعداد میں اختلاف ہے جن میں چند حسب ذیل ہیں، جو عام اصول کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اجماع، نص، ایما، مناسبت، سیروتقسیم، طر یا دوران، شبہ، تنفیح مناط۔ ان میں سے اول الذکر تین مسالک اصل یا نقلی اور باقی استنباطی ہیں۔

  1. اجماع - علت کی دریافت کایہ طریقہ ہے کہ کسی عصر میں اس پر اجماع ہو جائے کہ فلاں وصف کی علت ہے۔ مثلاً مال میں ِ صغیر پر، ولایت کے لیے صفر کا علت ہونا۔

جمہور اصلین اجماع کو مسالک علت مانتے ہیں۔ اجماع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ قطعی ہو، ظنی اجماع بھی مسالک علت ہو سکتا ہے۔

  1. نص صریح - نص صریح کی علت کی دلالت کی دو صورتیں ہیں۔
  • نص صریح ایسے الفاظ پر مشتمل ہو، جو صرف علت کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور جن میں علت کے سوا کوئی احتمال نہ ہو۔ مثلاً لعلۃ کذا، لسبب کذا، لاضل یا من اجل کذا، کی، اذن۔
  • نص میں ایسے الفاظ ہو ں جو صرف علیت کے لیے وضع نہیں کیے گئے ہوں اور ان میں علت کے سوا دوسرا احتمال بھی ہو۔ مثلاً لام، باء،فاء، وغیرہ۔
  • نص کی دونوں صورتوں میں پہلی صورت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور جمہور اصولین انھیں مانتے ہیں۔
  1. ایما - احناف اسے مستقل مسلک علت نہیں مانتے ہیں بلکہ اس مسلک نص کے تحت درج کرتے ہیں۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں جنہیں جمہور اصولین تقریباً تسلیم کرتے ہیں اور اسے علت کی دلالت پرایک مستقل مسالک سمجھتے ہیں۔
  2. مناسبت - فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ نص (حکم) کے تمام اوصاف کا حکم میں اثر نہیں ہوتا ہے اور نص میں جتنے اوصاف ہیں وہ کل کے کل علت نہیں بنتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ نے کوئی بات کسی ااعرابی سے فرمائی تو وصف اعرابی کا حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
  3. سیر و تقسیم - اوصاف کا وصف یہ تقسیم کہلاتا ہے اور ان اوصاف کو پرکھنا کہ ان میں سے جن اوصاف میں علت بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے، انھیں دلائل سے باطل کیا جاتا ہے اور جو وصف باقی

رہے جاتا ہے وہ علت کے لیے متعین ہوجاتا ہے۔

  1. طرد اور دوران - وجود وصف سے وجود حکم طرد ہے اور انتفاء وصف سے انتفاء حکم عکس ہے اور دوران طرد و عکس کا دوسرا نام ہے۔

مثلاً خمر جب سکر ہو تو حرام ہوتی ہے اور جب اس کا اثر زائل ہو جائے تو یعنی کے سرکہ بن جائے تو یہ حرام نہیں رہتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ تحریم وجود و عدم سکر کے ساتھ دائر ہے۔

  1. شبہ - شبہ اس وصف کو کہتے ہیں جو مناسب لذاتہ نہیں، لیکن اس میں مناسبت کا وہم ہوتا ہے۔
  2. تحقیق، تنقیح اور تخریج مناط - یعنی علت پر تین طرح سے نظرڈالی جائے۔ اس کی تحقیق میں، اس کی تنقیح میں، اس کی تخریج میں۔ مثلاً اعرابی کا قصہ، وقاع کہ اگرچہ نص علت کی طرف ایسا کرتا

ہے، لیکن غیر معتبر اوصاف کے حذف کے ذریعہ علت معینہ کی دریافت رائے اجتہاد کی محتاج ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اس حکم میں متعدد اوصاف سامنے رکھے جائیں، اس کا اعرابی ہونا، اس کا شخص معین ہونا، اس زمانہ یا اس مقام یا اس خاص دن میں ہونا، موطوعتہ کا ذوجہ یا معین عورت ہونا۔ ان تمام اوصاف کا تاثیر میں کوئی دخل نہیں لہذا نہار رمضان میں وقاع یہ وصف موثر ہوگا۔

تحقیق مناط

ترمیم

نص یا اجماع استنباط سے علت معلوم ہو جانے بعد آحاد صور یعنی جزیات میں وجود علت کی معارفت کی کوشش کرنے کو تحقیق مناط کہتے ہیں۔ مثلاً تحریم شرب خمر کے لیے، شدت مطربہ کے وصف علت کے لیے، اثباط یا محدد میں وجوب قصاص کے لیے، قتل عمد عددان کا علت ہونا۔

تنقیح مناط

ترمیم

وصف کے ساتھ مختلط غیر معتبر اوصاف کے حذف و الغاء کے ذریعہ اس وصف کی تعیین میں نظر جس کے علت ہونے پر تعیین کے بغیر نص دلالت کرتا ہے۔

تخریج مناط

ترمیم

نص یا اجماع کسی حکم پر دلالت کریں تو اس حکم کی علت کے اسباب میں نظر و اجتہاد تخریج مناط کہلاتا ہے۔