علم تاریخ
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
علم تاریخ سے مراد گذرے ہوئے واقعات کو جاننا ہے۔حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے کشف الظنون میں جو تعریف ذکر کی ہے اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے۔
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
تاریخ انسان کی یادداشت کا وہ بیش بہا خزانہ ہے جس پر چل کر انسان اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ کسی انسان کی یادداشت کھو جائے تو وہ کسی قابل نہیں رہتا۔ بالکل اپنے ماضی سے کٹ کرگزشتہ باتوں کو بھلا کر انسان اپنی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ تاریخ صرف اور صرف انسانی ذہن کی یادوں کو محفوظ کر کے اور اس کی قوت حافظ کا تحفظ کرتے ہوئے انسان کو ایک ایسا راستہ فراہم کرتی ہے جس پر چل کر وہ اپنی منزل پالیتا ہے۔ علم تاریخ کی اپنی تاریخ بہت پرانی ہے جب سے انسان دنیا میں آیا تاریخ کا آغاز تو اس دن ہی سے ہو گیا تھا۔ تاریخ کی اہمیت اور مقصدیت کا اندازہ اس چیز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی قرآن پاک میں خودرانبیاء علیہم السلام کے واقعے جو تاریخی نوعیت کے ہیں بیان کرتا ہے۔ جس سے انبیا کے حالات اور ان کے دور کاعلم ہوجاتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے ک علم تاریخ ایک ایسا علم ہے جس کا آغاز انسان کے ساتھ ہوا اور اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں تاریخی واقعات کو بیان کیا جس سے بنی نوع انسان کو نبیوں کی گذری ہوئی زندگی اور ان اقوام کا علم ہوا جو اس میں وارد ہوئیں۔ پس علم تاریخ ایک ایساعلم ہے جو اپنے اندر ایک مقصدیت اور معنی رکھتا ہے۔ تاریخ کے بغیر کوئی قوم کوئی نسل کوئی انسان مکمل نہیں ہے بلکہ تاریخ کے بغیر دنیا کا ہر علم نا کافی ہے۔ اب ہم تاریخ کے متعلق اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ تاریخ کیا ہے اور اس کی تعریف اور مفہوم کی وضاحت ہو سکے۔
علم تاریخ ایک بہت پرانا علم ہے۔ بنیادی طور پر یہ عربی کا لفظ ہے اس کا اصل ماخذ لاطینی زبان کا ایک لفظ "ہسٹورما" ہے اور وہاں سے اس کو انگریزی میں لفظ ہسٹری میں تبد یل کر کے شامل کر لیا گیا۔ تاریخ کے لفظی معنی اطلاع اور تحقیق، معاملات کے ہیں۔ اصطلاح میں تاریخ اس وقت کے بتانے کا نام ہے جس سے زاویوں کے حالات وابستہ ہیں۔ انگریزی کے لفظ ہسٹری کے معنی بھی بالکل یہی ہیں یعنی ابتدائی تفتیش و تحقیق لیکن ابتدائی تحقیق و تفتیش کسی بھی علم میں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم صرف علم تاریخ کے متعلق ہی بات کریں گے۔
تاریخ کے مفکرین کی آراء:
مختلف مفکرین کے خیالات تاریخ کے بارے میں مختلف ہیں۔ ہر ایک نے اپنے دماغ، حالات و واقعات اور ریسرچ کے مطابق علم تاریخ کی تعریف کی ہے۔ مثلا۔۔۔
( 1 ) کارلائل:
تاریخ مختلف سوانح عمریوں کا نچوڑ ہے۔
( 2 ) کالنگ وڈ:
تاریخ تحقیق و تفتیش کا نام ہے۔ تحقیق کیسی ہو اور کس قسم کی ہونی چاہیے اس بارے میں، میں کچھ نہیں
( 3 ) برٹرینڈ رسل:
تاریخ زیادہ تر اس سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ واقعات کس طرح رونما ہوئے۔
( 4 ) شمس الدین محمدن:
تاریخ ایک علم ہے اور واقعات کی تحقیق و تفتیش کانام ہے۔
( 5 ) ایک مورخ کے مطابق
انسانی خطاپزیر شہادت و فہم کے مطابق قصہ ہائے پارینہ کا زیادہ محنت کے ساتھ بیان تاریخ کہلاتا ہے۔
( 6 ) پروفیسر ڈبلیو واش:
تاریخ کا اصل مقصد ہے لوگوں کو ان کے دور کے کردار سے دوسرے دور کے تقابلی جائزہ کی مدد سے واقف کروانا۔
تاریخ میں کئی نشیب وفراز آئے۔ کبھی اس کو قصہ کہا گیا اور کبھی سچ پھر اس میں فلسفہ شامل ہو گیا اور آہستہ آہستہ تاریخ ایک علم بن گیا اور تمام علوم پر حاوی ہو گیا کیونکہ دنیا میں روپزیر ہونے والا کوئی بھی واقعہ ایسانہیں جس کا تعلق تاریخ سے نہ ہو۔ تاریخی واقعات سے انسان گذرے ماضی کے واقعات کے مطا لعے سے جرأت مند ہو جاتا ہے اور اس جرات مندی میں بیش بہا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بر ٹرینڈرسل کہتا ہے: "تاریخ ایک دلچسپ مضمون ہے اوراس کا مطالعہ انسان کو جرات مندی کا جذبہ عطا کرتا ہے"
جس معاشرے کو اپنی تاریخ کا علم ہوگا وہی معاشرہ اپنے وجود کے بارے میں بھی آگاہ ہوگا۔ انسان جب اپنے آپ سے آگاہ ہوگا تو کچھ کرنے کے قابل ہوگا تو یہ آگاہی تاریخ فراہم کرتی ہے۔ یاداشت کے بغیر تو انسان مخبوط الحواس گردانا جاتا ہے۔ اس طرح اگر وہ تاریخ سے بے خبر ہوگا تو ظاہر ہے اپنے ماضی اپنے آپ سے بے بہرہ ہے تو کس طرح آئندہ کے بارے میں سوچے گا اور وہ بے بس ہو گا اور معاشرے کے رحم وکرم پر ہو گا وہ اس کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں۔ پروفیسر ڈبلیوواش کے مطابق دو ادوار کے موازنے سے جو بات نکلے وہ عام انسان کو سمجھانا ثقافت و تاریخ کہلاتی ہے۔ ان تمام تر معلومات کے ساتھ جب تک عربی میں لکھی ہوئی تاریخی کتب اور عبرانی سریانی لاطینی تاریخی کتب کا مطالعہ نہ کیا جائے تب تک تاریخ کا باب ادھورا رہتا ہے سب سے پہلے ان عربی کتب کو دیکھا جائے جن میں تاریخ کے حوالے سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ معلومات موجود ہے جب تک تاریخی کتب میں تحریف نہیں ہوئی تھی تب تک بہت سارے علوم تاریخ کا حصہ رہے تاریخ ہی سے سیرت کے پہلو پر کام ہوا علم الانساب و علم الرجال بھی ایک وقت تک تاریخ کا حصہ رہے سنہ 1500ء کے بعد سے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی آج جو اس تحریر کے شروع میں حوالہ جات ہیں ان سے بھی جانا جا سکتا ہے کہ تاریخ کی تحریف بہت دیر بعد شروع ہوئی تاریخ کی کتب مختلف ادوار میں مختلف قوم و ملت کے پاس رہی مگر جو عرب النسل نے اس پر کام کیا وہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو اب حاجت یے ہے کہ وقت نکال کر تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جائے تاریخ ابن خلدون ہی سے شروع کیجیے