[حوالہ درکار]

علی احمد سعید اسیر (انگریزی: Ali Ahmad Said Esber) شام کے شاعر، مضمون نگار اور مترجم، ان کو ادونیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1930ء یکم جنوری کو شمالی شام میں پیدا ہوئے۔ اسکول کی ابتدائی جماتیں ترٹوس اور لتاکیا ( Latakia) میں پڑھی۔ جامعہ دمشق سے گریجیوشن کیا۔ سیاسی بے چینی ان کی شاعری میں تخلیقی تحریک ثابت ہوئی۔ شام کی سوشل نشنلستٹ پارٹی سے تعلق رہا۔ 1955ء میں چار سال پابند سلاسل بھی رہے۔ 1956ء میں وہ سیاسی وجوہات کی بنا پرلبنان چلے گے۔ عرب دنیا کی معاشرتی اور فکری تحریکوں پران کی تحریروں کا گہرا اثر ہے۔ علی احمد نے وہاں یوسف اکہال کی معاونت میں "مجالت شعر" جاری کیا۔ اس کے بعد انھوں نے "مواکف" نامی پرچہ نکالا۔ ان کی اہم کتابوں میں " ہوا میں پتے"، آئینوں کا اسٹیج" قابل ذکر ہیں۔ انہون نے کلاسیکی شاعری کی دو جلدیں شائع کیں۔ ان کی کتاب "ادونیس کا خون" کا ترجمہ انگریزی کے شاعر سیمویل ہاروے نے کیا۔ فرانسسیی میں ان کی شاعری کا سب سے زیادہ ترجمہ ہوا۔ بارہ (12) سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔1971ء میں نیویارک کی سیاحت کے دوران ان کی لکھی ہوئی نظم " نیویارک کا تابوت" نے بہت شہرت پائی۔ سے کئی بار ادب کے نوبل انعام کی مختصر فہرست میں ان کا نام تھا۔ وہ تشدد اور جنگ شکن نطریات کے حامی ہیں۔ انھوں نے اگست 2011 میں کویت کے اخبار " الری"(AL RAI)، میں ایک مصاحبے میں شام کے صدر بشیر السد کو صدرات کا چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ خانہ جنگی کے سبب ملک تباہ ہو رہا تھا۔ وہ افہام و تفہیم اور بات چیت سے اس مسئلے کو حل کرنے کے حامی ہیں۔ ( تحریر: احمد سہیل) :::

نمونہ کلام

ترمیم

خوابوں کی نظمیں

۔ "چڑیا"

علی احمد سعید اسیر

ترجمہ:احمد سہیل

میں نے ایک چڑیا کو چہکتے سنا

ضنین کی چوٹی پر
وہ گائے جا رہی تھی
خاموشی پھیلنے سے پہلے
یہ مدھر گیت تھے
ایک چھری کی دھار پر
وہ زخم کھا رہی تھی اور رو رہی تھی، کسی آواز کے بغیر،

ایک افسردہ شہر

  • مکالمہ
ترجمہ:احمد سھیل

میری محبت کو

چوڑی یا انگوٹھی مت کہو
میری محبت اصرار ہے
یہ بہادر ہے، خود سر ہے
سفر پر جانے والی موت کو کون ڈھونڈے گا
یہ مت کہو کہ میری محبت
ایک چاند ہے
میری محبت ایک پھٹنے والی چنگاری ہے
  • مسجد کا مینارہ
ترجمہ: احمد سھیل

مسجد کا مینارہ آنسو بہتا ہے

جب اجنبی آتا ہے
اسے خریدتا ہے
اور اس پر چمنی بناتا ہے