علامہ اقبالؒ کے تمام ملازموں میں علی بخش نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ جس تن دہی اور خلوص سے اس نے علامہ کا ساتھ نبھایا وہ ناپید ہے

علی بخش اٹل گڑھ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا۔ گورنمنٹ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں علامہ اقبالؒ بھاٹی دروازہ کے اندر رہتے تھے۔ اس مکان کے سامنے ہی اسلامیہ کالج کے پرنسپل مولوی حاکم علی رہائش پزیر تھے۔ علی بخش تلاش ملازمت میں لاہور میں ایک رشتہ دار کے پاس آیا تو اسے مولوی صاحب کے ہاں چار روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی ابھی اس ملازمت میں تین یا چار مہینے گذرے تھے کہ ایک دن مولوی حاکم علی نے علی بخش کے ہاتھ علامہ اقبالؒ کے لیے ایک دستی رقعہ بجھوایا اس پہلی ملاقات میں نہ جانے علامہ اقبالؒ کو علی بخش کی کون سی ادا پسند آ گئی کہ انھوں نے اسے اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کی جسے اس نے قبول کر لیا۔ علی بخش نے اپنے گاؤں سے ایک اور آدمی بلایا اور اسے مولوی صاحب کے پاس ملازم رکھوا دیا اور خود علامہ اقبالؒ کے پاس رہنے لگا۔ اس سے پہلے علامہ سیالکوٹ سے اپنے ساتھ کوئی نوکر لائے تھے لیکن وہ بددیانت نکلا۔ ڈاکٹر صاحب پہلے تو بہتری کی امید میں اس کی بددیانتی کو برداشت کرتے رہے لیکن جب پانی سر سے گذر چکا تو اسے چھٹی دے دی۔

علامہ اقبالؒ جب اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانے لگے تو علی بخش کو اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس بھیج دیا۔ علی بخش کا وہاں دل نہ لگا اور وہ ملازمت چھوڑ کر واپس آ گیا پہلے اسلامیہ کالج میں ملازم ہوا پھر مشن کالج میں نوکری کر لی۔ ایک دن علامہ اقبالؒ کے استاد مولوی میر حسن کے صاحبزادے سید تقی شاہ کی علی بخش سے اچانک ملاقات ہو گئی انھوں نے اسے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے انگلستان سے لکھا ہے کہ علی بخش جہاں کہیں بھی ہو اسے تلاش کر کے میری ملازمت پر آمادہ کرو چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب دوبارہ لاہور میں سکونت پزیر ہوئے تو علی بخش نے دوبارہ ملازمت اختیار کر لی۔ علی بخش نے شادی کی تھی لیکن بیوی مر گئی تھی چنانچہ دوسری شادی کے بارے میں علامہ اقبالؒ سے مشورہ طلب کیا تو آپ نے جواب دیا شادی سے پہلے کھانے پینے کا انتظام کرو چنانچہ اس کے بعد اس نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ علی بخش چودہ سال کی عمر میں علامہ اقبالؒ کے ہاں ملازم ہوا تھا۔ اس نے کوئی اڑتیس‘ چالیس سال علامہ اقبالؒ کی خدمت کی۔ علی بخش نے علامہ اقبالؒ کی ملازمت میں جس جانثاری کا ثبوت دیا۔ نذیر نیازی صاحب نے علی بخش کی خدمات کو ان الفاظ میں سراہا ہے۔ ’’آفرین ہے علی بخش پر ابھی حضرت علامہ کے تکیے ٹھیک کر رہا ہے ابھی ان کے پاؤں اور پنڈلیاں داب رہا ہے۔ کبھی کپڑا اوڑھا رہا ہے کبھی چلم بدل رہا ہے۔ کبھی فکر ہے کہ وقت پر دوا دے دی جائے۔ باتیں بھی کرتا جاتا ہے دعائیں بھی دے رہا ہے۔ پورے گھر بار کا خیال ہے علی بخش ہے کہ تھکتا ہی نہیں‘‘۔ نذیر نیازی صاحب نے ملازمین کے سلسلے میں علامہؒ کے تین نوکروں کے نام لکھے ہیں۔ ’’دیوان علی‘ رحما اور علی بخش‘‘ رحما کی ملازمت کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ایک دفعہ علی بخش چھٹی لے کر گھر گیا اور علی بخش اپنی جگہ رحما کو رکھوا گیا جب وہ واپس آیا تو رحما نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اب میں کہاں جاؤں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ ’’چلو تم بھی میرے ہاں کام کرو‘‘ اس کے بعد ایک دفعہ رحما کسی کام کے سلسلے میں چھٹی پر گیا تو اپنی جگہ دیوان علی کو رکھوا گیا جب رحما واپس آیا تو دیوان علی نے بھی پریشانی کا اظہار کیا علامہ نے اس کی ملازمت بھی پکی کر دی۔ علامہ اقبالؒ سے کہا بھی گیا کہ تین نوکروں کا بیک وقت ملازم رکھنا فضول خرچی ہے لیکن آپ نے اعتراض کرنے والے کی بات سنی ان سنی کر دی۔ یوں یہ تینوں ملازم آخر وقت تک علامہؒ کے ساتھ رہے۔

علی بخش کا انتقال 2 جنوری 1969ء کو چک جھمرہ میں ہوا،

حوالہ جات ترمیم