علی بن مسہر کوفی
حضرت علی بن مسہر کوفیؒ شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔
حضرت علی بن مسہر کوفیؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام علی،کنیت ابو الحسن اوروالد کا اسم گرامی مسہر تھا، ولاء قرشی اور وطناً کوفی کہلاتے ہیں۔ [1]
فضل وکمال
ترمیمانھیں تمغۂ امتیاز حاصل تھا؛چنانچہ حافظ ذہبی نے الامام الحافظ لکھ کر اس کا اعتراف کیا ہے۔ [2]
حدیث
ترمیمحدیثِ نبوی میں ان کی معرفت اورعمق مسلم تھا جن شیوعِ حدیث سے انھوں نے سماع کا شرف حاصل کیا تھا،ان میں ہشام ابن عروہ سلیمان الاعمش،یحییٰ بن سعید الانصاری،اسماعیل بن ابی خالد، عاصم الاحول ،زکریا بن ابی زائدہ، سعید بن ابی عروبہ، عبد اللہ بن عطاءاورابو مالک الاشجعی کے نام لائق ذکر ہیں اور ابوبکر بن ابی شیبہ،زکریا بن عدی، بشر بن آدم، خالد بن مخلد، علی بن حجر، ہناد بن السری اورعثمان بن ابی شیبہ، ان کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں۔ [3]
فقہ
ترمیمفقہ سے بھی انھیں بہرہ وافر نصیب تھا،احمد العجلی بیان کرتے ہیں کہ علی بن مسہر حدیث وفقہ دونوں کے جامع تھے۔ [4]
ثقاہت
ترمیمان کی عدالت وثقاہت ناقدین فن کے نزدیک متفق علیہ ہے ؛چنانچہ علامہ نووی نے لکھا ہے کہ 'اتفقوا علی توثیقہ'[5] امام احمد کا بیان ہے کہ وہ صالح الحدیث اورابو معاویہ الفریز سے زیادہ ثقہ وثبت تھے [6]عثمان الدارمی کہتے ہیں کہ " میں نے شہرہ آفاق محدث اورماہر رجال یحییٰ بن معین سے دریافت کیا کہ آپ علی بن مسہر کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا ابو خالد الاحمر کو؟فرمایا علی بن مسہر کو !میں نے پھر پوچھا،اچھا یہ بتلائیے کہ علی بن مسہر اوراسحاق بن ازرق میں سے کس کو محبوب رکھتے ہیں؟فرمایا وہ دونوں ہی ثقہ ہیں۔ [7] مزید برآں امام بخاری اورامام مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان کی روایات کی تخریج کی ہے۔ [8]
قضاءت
ترمیماپنی غیر معمولی مہارت فقہی کے باعث موصل (عراق)کے منصب قضاء پر بھی فائز ہوئے [9] لیکن افسوس ہے کہ یہاں وہ ایک نہایت المناک واقعہ سے دوچار ہوئے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ اپنے عہدۂ قضا کے دوران ابن مسہر آشوبِ چشم میں مبتلا ہوئے اور علاج کی غرض سے ایک ماہر چشم طبیب کے پاس گئے،ابن مسہر سے قبل جو شخص اس مقام کا قاضی رہ چکا تھا،اس نے ازراہ حسد وکینہ پروری اس معالج کو مال وزر کی حرص دلا کر کہا کہ ابن مسہر کی بینائی زائل کردو؛چنانچہ وہ طبیب طمع میں آکر ایسا ہی کر گذرا اور پھر ابن مسہر نابینا ہوکر بصد حسرت ویاس اپنے وطن مالوُف کوفہ واپس آگئے۔ [10] علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ ابن مسہر آرمینیہ کے قاضی تھے اور نابینائی کا واقعہ وہیں پیش آیا،لیکن دوسرے تذکروں میں صرف موصل ہی کا ذکر ملتا ہے،ممکن ہے دونوں ہی جگہ یکے بعد دیگرے منصبِ قضا کو عزت دی ہو۔
قوتِ حافظہ
ترمیمابن مسہر کی قوتِ حافظہ کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ بصارت زائل ہونے کے بعد بھی ان کا چشمۂ فیض جاری رہا،اوروہ محض اپنے حافظہ کی بنیاد پر احادیث روایت فرمایا کرتے تھے،امام احمد کا قول ہے: کان قد ذھب بصرہُ فکان یحدثھم من حفظہ [11] ان کی بینائی زائل ہو گئی تھی تو اپنے حافظہ سے حدیث روایت کرتے تھے۔
وفات
ترمیم189ھ میں ان کا انتقال ہوا[12]علما نے بالاتفاق لکھا ہے کہ ان کی تدفین کے ساتھ فقہ میں تبحر ومہارت فن کا ایک دور ختم ہو گیا۔ [13]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (طبقات ابن سعد:7/27)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/265)
- ↑ (تہذیب التہذیب:7/383)
- ↑ (شذرات الذہب:1/325،والعبر فی خبر من غبر:1/303)
- ↑ (تہذیب الاسماء واللغات:1/351)
- ↑ (العبر:1/303)
- ↑ (تہذیب التہذیب:7/383)
- ↑ (تہذیب الاسماء واللغات:1/351)
- ↑ (اخبار القضاۃ:3/325)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/265)
- ↑ (تہذیب التہذیب:7/383)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/303)
- ↑ (تہذیب :7/383)