حضرت عمروؓبن مرہ صحابی رسول تھے۔ غزوات میں اُن کی شرکت کی تفصیلات نہیں ملتیں۔

حضرت عمروؓبن مرہ
معلومات شخصیت
کنیت ابو مریم

نام ونسب

ترمیم

عمرونام،ابو مریم کنیت ،نسب نامہ یہ ہے،عمرو بن مرہ بن عبس بن مالک بن حارث بن مازن بن سعد بن مالک بن رفاعہ بن نصر بن مالک بن غطفان بن قیس بن جھینہ جھنی۔

اسلام

ترمیم

عمرو صحابہ کے اس زمرہ میں ہیں جنھوں نے اس وقت اسلام کی دعوت کو لبیک کہا جب عرب کے در و دیوار سے اس کی مخالفت کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، اسلام کی دعوت سن کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ،میں اس تمام حلال وحرام پر ایمان لاتا ہوں جو آپ خدا کے پاس سے لائے ہیں،اگرچہ تمام قوم کی جانب سے اس کی مخالفت کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ [1]

اشاعتِ اسلام

ترمیم

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاذ بن جبل ؓ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ،حصول تعلیم کے بعد اشاعتِ اسلام کے لیے اپنے قبیلہ واپس گئے،چند دنوں میں ان کی مخلصانہ کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ مشرف باسلام ہو گیا۔ [2]

غزوات

ترمیم

غزوات میں اُن کی شرکت کی تفصیلات نہیں ملتیں،مگر اس قدر مسلم ہے کہ اس شرف سے محروم نہ رہے تھے۔ [3]

شام کا قیام اور اوامر ونواہی کی تبلیغ

ترمیم

جب بہت سے صحابہ نے شام کی سکونت اختیار کی تو عمرو بھی وہیں متوطن ہو گئے اورایک گوشہ میں بیٹھ کر اوامر ونواہی کی تبلیغ کا فرض انجام دینے لگے،ان کی تبلیغ غرباء کے جھونپڑوں سے لے کر امراو سلاطین کے قصور ومحلات تک یکساں ہوتی تھی، ایک مرتبہ امیر معاویہ سے جاکر کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں ،دوستوں اورمحتاجوں کے لیے اپنا دروازہ بند کریگا تو خدا اس کی حاجتوں اس کی احتیاجوں اوراس کے سوالوں کے لیے آسمان کے دروازے بند کردیگا ،اس دن سے امیر معاویہ نے عوام کی حاجت روائی کے لیے ایک خاص شخص متعین کر دیا۔ [4]

وفات

ترمیم

عبد الملک کے زمانہ میں وفات پائی۔

فضل وکمال

ترمیم

حضرت معاذ بن جبل ؓ سے قرآن اورسنت کی تعلیم حاصل کی تھی،کبھی کبھی شاعری بھی کرتے تھے،اس کا نمونہ یہ ہے۔ انی شرعت الان فی حوض التقی وخرجت من عقد الحیاۃ سلیما ترجمہ:میں اب تقویٰ کے حوض میں تیرا اورمشکلات سے صحیح وسالم نکل آیا وبست اثواب الحلیم فاصبحت ام الخوایۃ من ھوای عقیما ترجمہ:میں نے حلیم کا لباس پہن لیا اور گمراہیوں کی ماں میری خواہش سے نا امید ہو گئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. (اسد الغابہ:4/131)
  2. (اصابہ:5/12)
  3. (ابن سعد،جلد4،ق2،صفحہ:68)
  4. (اصابہ:5/16)