عمر حیات محل
عمر حیات محل (عمر حیات لائبریری) گلزار منزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان کے شہر چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی ایک اعلی قسم کی عمارت ہے۔ یہ ایک پانچ منزلہ عمارت ہے۔ بدقسمتی سے اس کی اوپر والی دو منزلیں 1993ء میں گر گئیں۔ گرنے کی وجہ شدید طوفان اور بارش تھی جس نے ساری منزل کو کافی حد تک نقصان پہنچایا۔ هر سال سینکڑوں کی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
تاریخ
ترمیماٹھارھویں صدی عیسویں کے اواخر اور انیسویں صدی عیسویں کی شروعات میں شیخ خاندان کے کئی افراد نے کلکتہ سے چنیوٹ ہجرت کی۔ شیخ عمر حیات جو کلکتہ کا ایک کامیاب تاجر تھا بھی انہی افراد میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک شاندار عمارت بنوانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ عمر حیات نے سید حسن شاه کو اس شاندار عمارت بنانے پر مامور کیا۔ سید حسن شاہ کے ساتھ مختلف مقامات کے مشہور فنکار بھی مامور تھے جنھوں نے دس سال تک اس کام کے لیے دن رات محنت کی۔ رحیم بخش پرجھا اور الہی بخش پرجھا جو ماہر منبت کار تھے انھوں نے لکڑی پر شاندار نقوش بنائے۔1929ء کے ایک مشہور اخبار میں لکھا تھا"شیخ عمر حیات کی بنائی گئی عمارت اپنے علاقے کی ایک شاندار عمارت ہے جسے بنانے میں چار لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ عمارت کا رقبہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے"۔ تعمیر کا کام 1935ء میں ختم ہوا۔ اسی سال اس کی تعمیر مکمل ہونے سے صرف دو ماہ قبل عمر حیات وفات پاگیا۔ عمر حیات کا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام گلزار محمد تھا۔ گلزار محمد نے 1938ء میں شادی کی۔ گلزار محمد کی شادی کے بالکل اگلے دن ان کی موت ہو گئی۔ اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر گلزار محمد کی والدہ کو ایک بڑا صدمہ لگا جسے وه برداشت نہ کر سکیں اور جلد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ گلزار محمد اور ان کو والدہ دونوں کو ایک ساتھ عمارت کے برآمدے میں دفن کیا گیا ہے۔ شیخ خاندان کے لوگ یہ سوچ کر یہاں سے چلے گئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔ اسی دوران میں ان کے ملازمین دو سال یہیں رہتے رہے اور جلد ہی یہاں کا حصہ بن گئے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں نے اسے یتیم خانہ میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اسے اس کی تاریخی فقدان کے بعد خالی کروایاگیا۔ اس کے بعد یہ قبضہ گروپ کے ہاتھ لگ گئی جنھوں نے اس عمارت کے اردگرد دکانیں اور مکانات بنا لیے۔
فن تعمیر
ترمیمشہر کے وسط میں بنی یہ عمارت مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ دروازوں پر بنے نایاب نقش و نگار اور خوبصورت رنگوں والی کھڑکیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے علاوہ عمارت کے اندرونی حصے میں بنی چھتیں، بالکونیاں، چبوترا اور سیڑھیاں شاندار فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہیں۔ عمارت کا کافی حصہ چمکدار سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ عمارت کے سامنے والے حصے پر لگایا گیا فانوس عمارت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
موجودہ صورت حال
ترمیماس جگہ پر کئی عرصہ تک قبضہ مافیہ گروپ نے قبضہ کیے رکھا اور عمارت کو کافی نقصان پہنچایا۔ اسی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی تاریخی اہمیت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ ساری صورت حال دیکھتے ہوئے 1989ء میں اس وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر (deputy commissioner) محمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو اپنی حفاظت میں لیتے یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور ازسرنو تعمیر کے لیے 1700000 لاکھ روپے خرچ کیے۔ اس وقت اسے ایک نجی میونسپل (municipal committee) نے سنبھال رکھا ہے۔ عمارت کو بایک وقت لائبریری، ثقافتی مرکز اور ایک میوزیم ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ عمارت میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ 7 جون 1990ء میں اسے عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ عمارت کو چنیوٹ کی لائبریری اور ثقافتی مرکز بنایاجائے گا۔ گلزار منزل میں واقع لائبریری کا نام شیخ عمر حیات لائبریری رکھا گیا۔ 1997ء میں میونسپل کمیٹی (municipal committee ) نے عمارت پر مزید رقم لگانے سے انکار کر دیا۔ بدقسمتی سے اس وقت عمارت کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔ عمارت کی بیرونی دیواروں میں دراڑیں آچکی ہیں۔ بارش کی وجہ سے لکڑیاں اپنا رنگ بھی کھوچکی ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عمارت کی بالائی منازل آہستہ آہستہ گر رہی ہیں۔