عمر ماروی
عمر اور ماروی کی لوک داستان شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں بھی بیان کی ہے جو سب سے مستند سمجھی جاتی ہے۔ یہ داستان کچھ یوں ہے کہ ماروی نامی حسین و جمیل لڑکی تھرپارکر کے گاﺅں ملیر کی رہائشی تھی جس کی گاﺅں ہی کے ایک رشتدار لڑکے کھیت (Khet) سے منگنی ہو جاتی ہے۔ گاﺅں ہی کا ایک اور لڑکا بھی اس کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ ماروی کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ انکار کر دیتی ہے۔ حسد کا مارا یہ شخص اس وقت کے حکمران ’عمر سومرو‘ کے دربار میں چلا جاتا ہے جس سے شہر عمرکوٹ منسوب ہے اور پھر اسے شاعرانہ انداز میں ماروی کے حسن کے متعلق بتاتا ہے۔ بادشاہ عمر سومرو اس شخص کی زبانی ماروی کے حسن کا قصہ سن کر اسے دیکھنے کے لیے اس کے ملیر میں گاﺅں بھالوا چلا آتا ہے۔ جب بادشاہ گاﺅں میں آتا ہے، اس وقت ماروی ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہوتی ہے۔ بادشاہ اس حسنِ بلاخیز پر نظر پڑتے ہی مبہوت ہو جاتا ہے۔ ماروی اسے اس قدر پسند آتی ہے کہ وہ وہیں اسے شادی کی پیشکش کرتا ہے، لیکن وہ اسے بھی انکار کر دیتی ہے۔ بادشاہ اسے ہیرے جواہرات اور شاہی زندگی کا لالچ دیتا ہے مگر وہ پھر بھی نہیں مانتی۔ اس پر وہ اسے پکڑلیتا ہے اور ساتھ عمر کوٹ لیجا کر محل میں قید کر دیتا ہے۔ماروی، جو صحرا کے ریتلے ٹیلوں اور کھلے نیلگوں آسمان کی عادی تھی، اس مقید زندگی پر دن رات زاروقطار روتی رہی۔ ہر روز بادشاہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے شادی پر رضامند کرنے کی کوشش کرتا تاہم وہ مسلسل انکار کرتی رہتی۔ بالآخر گھر کی یاد ماروی کو اس قدر تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے اور شدید بیمار پڑجاتی ہے۔ جب عمر کو اس کی بیماری کی اطلاع ملتی ہے تو وہ دوبارہ اس کے پاس آتا ہے اور شادی کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ اس پر ماروی اسے جواب دیتی ہے کہ ”اگر میں اپنے وطن کی یاد میں دم توڑ دوں تو میرا جسدِ خاکی میرے گھر لیجانا، تاکہ میں صحرا کی ریت میں آرام کر سکوں۔مرنے کے بعد ہی سہی، اگر میری ہڈیاں ملیر پہنچ گئیں تو میں پھر سے زندہ ہو جاﺅں گی۔“ عمر ماروی کی وطن سے محبت کا یہ عالم دیکھ کر بالآخر ایک سال کی قید کے بعد رہائی دے دیتا ہے۔ اس کے آدمی ماروی کو عزت و تکریم کے ساتھ اس کے گاﺅں لے کر جاتے ہیں۔ بادشاہ کے آدمی گاﺅں والوں کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ’ماروی کو جس حالت میں لیجایا گیا تھا یہ اسی حالت میں واپس آئی ہے۔‘ لیکن اس پیغام کے باوجود جب ماروی اپنے گاﺅں پہنچتی ہے تو گاﺅں کے عمائدین اس کی پاکدامنی پر شک کرتے ہیں لیکن اس کا منگیتر کھیٹ اسے واپس لے جاتا ہے اور ان کی شادی کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ شادی کی رات جب وہ حجلہ¿ عروسی میں اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، وہ سوچ رہی ہوتی ہے کہ اگر اس کے شوہر نے اس کی پاکدامنی کے متعلق سوال کیا تو وہ کیا جواب دے گی۔ یہ خیال اس کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا، اس نے آخری سانس لی اور وہیں دم توڑ گئی۔ یہاں ماروی کی کہانی تو ختم ہو گئی لیکن اس کا نام آج بھی زندہ ہے اور اس کا نام امرہونے کا حوالہ اس کی عمر سے محبت نہیں بلکہ اپنے وطن سے لازوال محبت ہے۔ اسے آج بھی سندھی تاریخ کی سب سے بہادر خاتون قرار دیا جاتا ہے۔ننگرپارکر بنیادی طور پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو عمر کوٹ سے 200کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں وہ کنواں آج بھی موجود ہے لیکن اب اس کے گرد ایک کمپلیکس بنا دیا گیا ہے جس کا نام ’ماروی کلچرل کمپلیکس‘ ہے۔اس کمپلیکس میں عمر اور ماروی کی اور بھی بہت سی یادگاریں رکھی گئی ہیں۔ان میں ماروی، اس کی سہیلیوں اور بادشاہ عمر سومرو کے مجسمے میں شامل ہیں۔ یہاں ماروی کی چوڑیاں، ملبوسات اور دیگر اس کی استعمال کی ہوئی چیزیں بھی شیشے کے فریموں میں رکھی گئی ہیں۔