رومی افسر کے نوکر کی شفا یابی
ایک دفعہ جب یسوع مسیح پہاڑ سے نیچے اتر رہے تھے تو ان کے اترتے ہی چند معزز یہودی ایک رومی افسر کے بیمار نوکر کی شفا کی درخواست لے کر آئے۔ یہ افسر ان رومی فوجیوں کا کپتان اور کفر نحوم میں امن عامہ کا ذمہ دار تھا۔ یہ گلیل کے صوبہ کے بادشاہ ہیرودیس انتپاس کے ماتحت تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بت پرست تھا اور ابھی علانیہ حقیقی خدائے واحد کی پرستش نہیں کرتا تھا۔ یہودی بزرگوں نے اس کی درخواست سیدنا یسوع مسیح کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا:
"وہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے عبادت خانہ کو اسی نے بنوایا"[1]
اس رومی افسر کا نوکر کسی مہلک بیماری سے مرنے کے قریب تھا۔ افسر کی درخواست سے ظاہر ہے کہ اسے سیدنا یسوع مسیح پر اعتماد تھا کہ آپ قریب المرگ کو شفا دے سکتے ہیں۔ جب آپ یہودی بزرگوں کے ہمراہ اس کے گھر کی طرف تشریف لے جا رہے تھے جو غالباً شہر سے باہر تھا تو اس کے چند دوست یہ پیغام لے کر آپ کے پاس پہنچے کہ
"اے خداوند! تکلیف نہ کر کیونکہ میں اس لائق نہیں کہ تو میری چھت کے نیچے آئے۔ اسی سبب سے میں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائق نہ سمجھا بلکہ زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پائے گا۔ کیونکہ میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں۔ اور جب ایک سے کہتا ہوں جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے آتو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔[2]
اس افسر کو احساس ہونے لگا تھا کہ اس کا گھر بت پرستی کے باعث ناپاک ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھر کی خواتین اب تک بتوں کے سامنے بخور جلاتی اور سجدہ بھی کرتی ہوں! یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتا تھا کہ سیدنا یسوع سے ملاقات کرے تاہم اسے آپ کی ذات پر کامل یقین تھا۔ افسر کے اعتماد کے مطابق ہی ہوا۔ جب اس کے دوست پیغام پہنچا کر واپس آئے تو نوکر شفا پاچکا تھا۔ سیدنا یسوع المسیح نے اپنے گرد جمع شدہ حاضرین کے سامنے اس واقعہ پر یوں تبصرہ فرمایا:
"میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آکر ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے۔"[3]
تفسیر
ترمیمابدی زندگی کا دروازہ تمام قوموں اور قبلیوں کے لیے کھلا ہے۔ خدا ہر اس شخص کو خوش آمدید کہتا ہے۔ جو ایمان سے اس کا طالب ہو جائے۔ یہ بات تنگ نظر اور متعصب قائدین دین نے بڑی مشکل سے سیکھی۔ یہ سبق سیدنا یسوع المسیح نے ایک ایسے شخص کو شفا دینے سے سکھایا جو خدا کی امت کا فرد ہی نہ تھا۔[4]