تعارف ترمیم

حضوراکرمﷺ کے ہاتھوں سر زمین مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام اور اس کی جڑیں مضبوط ہونے کے بعد نو((9)ہجری کو پیغمبر اکرم ﷺ نے مدینہ کے اطراف میں بسنے والے مختلف ادیان و مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو خطوط لکھ کر انھیں دین مبین اسلام اختیار کرتے ہوئے دنیاو آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کی دعوت دینا شروع کیا۔اس سلسلے میں آپؐ نے مختلف قائل کے سرداروں ،دینی پیشواؤں اور قبائل کے اکابرین کے نام خطوط لکھے انھی خطوط میں سے ایک خط آپؐ نے ’’بنونجران‘‘  جو مسیحی  مذہب سے تعلق رکھتا تھا کے سردار کے نام بھی لکھا۔بنو نجران کے سردار کو جب آپ کا خط ملاتو اس خط کو پڑھنے کے بعد وہ غصے سے آگ بغولہ ہوااور فوراً اپنے قریبی مشیروں کو طلب کیا اور خط کے حوالے سے انھیں آگاہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ طلب کیا۔مختلف لوگوں نے الگ الگ مشرورے دیے ۔

آخر میں سردار نے مسیحیوں کے دینی پیشوا اسقف اعظم سے رائے دریافت کی تو اسقف اعظم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میرےے خیال میں ہمیں جذباتی ہونے کی بجائے ایک وفد مدینہ بھیجنا چاہیے تاکہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر سے ملاقات کرے اور صحیح صورت حال سے آگاہ کرے ۔ سردار نے اسقف اعظم کی قبول کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رائے قبول ہے بشرطیکہ اس وفد کی قیادت آپ خود کریں گے۔خلاصہ یہ کہ سردار کے حم پر اسقف اعظم کی قیادت میں چالیس مسیحی علمااور اکابرین کا ایک وفد مدینہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچاآپؐ کے حکم میں صحابہ کرام نے وفدکی خوب خدمت کی آگے روز مسجد بنوی میں اس وفد نے آپ سے ملاقات کی اور خط کے بارے میں آپ سے دریافت کیا توآپ نے ایک مرتبہ پھر انھیں عقیدہ تثلیث سے دستبردار ہوتے ہوئے  توحید کے پرچم تلے آنے کی دعوت دی مگر وہ اپنے اس غلط عقیدے پرڈٹے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کے ذریعہ آپ ؐ کے پاس وحی بھیجا کہ اے رسولﷺ تمام تر دلائل کے باوجود یہ حق بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں تو انھیں مباہلے کی دعوت دو اور ان سے مباہلہ کرو۔آپ نے جب انھیں مباہلہ کی دعوت دی تو انھوں نے قبول کیا اور آگلے دن مباہلہ طے پایا اور جب پیغمبر اکرمﷺ کی قیادت میں پنجتن پاک کو مباہلے کے لیے آتے دیکھا تو وہ مباہلے سے دستبردار ہو گئے اور حکومت اسلامی کو ٹیکس دینے پر راضی ہوئے اور یوں پیغمبر اکرم کی قیادت میں مسلمان سرخروہوئے ۔

مباہلہ کیا ہے؟ ترمیم

مباہلہ ایک قرآنی اصطلاح، دو لوگوں یا گروہوں کی خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے خداوند سے ایک دوسرے کے خلاف بد دعا کرنا۔

مباہلہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے ؟ ترمیم

مباہلہ کے لغوی معنی ترمیم

مباہلہ: کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔[1]ذیل مادہ بھل ،بھلہ اللہ یعنی اس پر اللہ کی لعنت ہو اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو۔اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بھل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں " ابتھال " تضرع اور خداوند پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔

مباہلہ کے اصطلاحی معنی ترمیم

ابتھال کے معنی میں دو اقوال ہیں:

(1)۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو،(2)۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلے کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے۔دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔[2]

آیت مباہلہ ترمیم

سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس ( حضرت عیسی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں اور اپنے نفسوں کو اور تمھارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔[3]

واقعہ مباہلہ ترمیم

مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ نبی (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور ص کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔اس آیت کے نزول کے بعد نبی ص اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ اور داماد حضرت علی کو لے کر گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اور اکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔

دعوت مباہلہ ترمیم

مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے ۔

مباہلہ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سو فی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتا دیتا ہے ۔

کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔

یہ مسلّم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے، کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا ۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کیے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔

اسلامی روایات میں ہے کہ: مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی بارے میں بتاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شور و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور و غل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (ع) کو گود میں لیے حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو ہمراہ لیے آ پہنچے ہیں اور انھیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو، تم آمین کہنا ۔

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔

فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمھارے پاس پہنچا ہے، کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انھیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے۔

بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔

اس آیت میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا، اس لیے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خارجی اثر پیش نظر تھا ۔

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تا کہ سب کے سامنے واضح ہو جائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام (ص) نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلہ کرنے سے اجتناب کیا، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی : فاطمہ زہراء (س)، اپنے داماد امام علی (ع)، اپنے نواسوں حسن (ع) اور حسین (ع)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انھیں آپ (ص) کی صداقت کا یقین ہوا اور یوں رسول اللہ (ص) اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔

نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے [ یعنی دعوت اسلام ] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سن 9 ہجری کو رونما ہوا اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

روز مباہلہ ترمیم

شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے یعنی سن 9 ہجری قمری قرار دیا ہے۔[4]نصاری کے ساتھ رسول خدا (ص) اور عیسائیوں کے درمیان واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا۔[5]صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذو الحجہ کو واقع ہوا ہے۔[6]شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔[7]

مباہلے میں شامل افراد ترمیم

یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علما کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ (ص) جن لوگوں کو مباہلہ کے لیے ساتھ لائے تھے وہ امیر المؤمنین (ع)، حضرت فاطمہ (س)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) تھے، تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہ (ص) کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہ (ص) کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔

واقعہ مباہلہ

روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم (ص) امیر المؤمنین علی (ع) کے گھر تشریف فرما ہوئے، امام حسن (ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین (ع) کو گود میں اٹھایا اور حضرت امیر (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔

جب نصارا نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد (ص) کے ساتھ آئے ہیں ؟ جواب ملا کہ: وہ جو ان کے آگے آگے آ رہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، وہ دو دو بچے ان کے فرزند ہیں، ان کی بیٹی سے اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو خلق خدا میں ان کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

آنحضرت (ص) مباہلے کے لیے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب ( جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے ) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لیے روانہ ہوئے۔

ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم ! محمد (ص) کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیا (ع) مباہلے کے لیے بیٹھا کرتے تھے اور پھر پلٹ گیا۔

سید نے کہا: کہاں جا رہے ہو ؟

ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد (ص) بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرات نہ کرتے اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گزرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بے شک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔

اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:

اے ابا القاسم ! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ہم ادا کر سکیں۔ چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انھیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہیے، نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انھیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپ (ص) خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہوں گے۔ اس طرح آنحضرت (ص) نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔

رسول اللہ (ص) نے بعد ازاں فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بے شک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہو جاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لیے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہو جاتے۔[8]

حوالہ جات ترمیم

  1. اسماعیل بن حماد الجوھری۔ الصحا 
  2. الطبرسی۔ تفسیر مجمع البیان ج۲،ص۷۶۱۔۷۶۲ 
  3. القرآن الکریم ،سورہ آل عمران،آیت۶۱ 
  4. مفید شیخ۔ الارشاد،ج۱،ص۱۶۶۔۱۷۱ 
  5. ابن شھر آشوب۔ ج۳،ص۱۴۴ 
  6. میبدی۔ کشف الاسرار وعدة الابرار، ج۲،ص۱۴۷ 
  7. شیخ اعظم مرتضیٰ انصاری۔ کتاب الطهارة، ج3، صص48-49 
  8. الطبرسی۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310