غازی دلاسہ خان
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
غازی دلاسہ خان صوبہ سرحد کے مجاہد اعظم کہلاتے ہیں۔ دلاسہ خان 1777ء کے لگ بھگ مسمی خٹک خان کے ہاں داود شاہ کشر ضلع بنوں میں پیدا ہوئے۔ داود شاہ دلاسہ خان کا جد امجد تھا۔ کشر (چھوٹا) (احمد خان) کے ایک بیٹے کا نام گلہ تھا جس کے ساتھ غازی دلاسہ خان کا سلسلہ نسب ملتا ہے اس حوالہ سے دلاسہ خان کا قبیلہ گلا خیل کہلاتا ہے ان کے گاؤں کا نام بھی گلہ خیل مشہور ہے۔ ایڈورڈ جو بنوں کا نگران اعلیٰ اسٹنسٹ ریزیڈنٹ 1847ء میں مقرر ہوا تھا اس نے دلاسہ خان کا جو سراپا کھینچا ہے انھیں کے الفاظ میں پیش خدمت ہے۔
جب میں پہلی بار مارچ 1847ء میں بنوں وارد ہوا تو جنڈو خیل کے مقام پر تقریبا سارے ملک اظہار اطاعت کے طور پر حاضر ہوئے تھے سوائے دلاسہ خان کے۔ دلاسہ خان مطیع نہ ہوا یہ واحد ملک تھا جو توجہ خاص کا مستحق تھا وہ تپہ داود شاہ کے 1/4حصہ کا مالک تھا۔ مگر ان کی جرات کردار کی پختی اور قہرمانہ مزاج کے طفیل سب ملکوں میں ممتاز تھا وہ اپنے ہمسروں اور ہم عصروں پر حاوی تھا۔ دلاسہ خان سکھ سپاہ اور سکھ سرداروں کا خوف ناک دشمن تھا وہ سکھوں کے لیے خوف کی علامت اور موت کا پیغام تھا۔ ایک دفعہ تارا سنگھ نے آٹھ ہزار سپاہ معہ 12 توپیں دلاسہ خان کے گاؤں پر حملہ کیا تھا مگر وہ دلاسہ خان کے قلعہ پر حملہ کیا تھا۔ مگر وہ قلعہ زیر کرنے میں ناکام رہا۔ سوچیت سنگھ خود بھی ایک بہادر سکھ سردار تھا وہ بھی ان کے گاؤں پر حملہ آور ہوا اور ان کا محاصرہ کیا۔ دلاسہ خان نے تنہا رات کی تاریکی میں ان لوگوں کے محاصرے کو ختم کر دیا اور زندہ نکلنے میں کامیاب رہا۔ دلاسہ خان عمر بھر سکھ سپاہ کے خلاف جنگ کرتا رہا ان کے ہوتے ہوئے کبھی بھی سکھ سپاہ خوف کے بغیر بنوں میں داخل نہ ہوئے۔ اور ہر بار یادگار مقابلہ میں لاشیں چھوڑ کر ناکام واپس لوٹتے تھے۔
بعد میں انگریزوں کے دور میں اس نے ایڈورڈ کے ساتھ مفاہمت نہیں کی اور علاقہ غیر کی جانب فرار ہوا۔ اس نے کئی مرتبہ بنوں پر لشکر کشی کی کوشش کی لیکن اپنے ہی لوگوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ بعد میں میجر ٹیلر نے دلاسہ خان کو بنوں آنے کی اجازت دے دی۔ اس وقت دلاسہ خان صاحب فراش ہو چکے تھے علیل اور کمزور تھے اب بنوں کے جملہ قعلہ جات مسمار ہو چکے تھے بنوں تسخیر ہو چکا تھا بنویان غلام بن چکے تھے آزادی جس کی خاطر وہ زندگی بھر لڑتے رہے تھے سلب ہو گئی تھی۔ بنوں کا یہ نظارہ یقینا دلاسہ خان کے لیے روح فرسا ہوگا۔ میجر ٹیلر کے بقول کہ دلاسہ خان کے لیے سب سے درناک سزا بنوں کا موجودہ نظارہ ہے۔ دلاسہ خان اس نظارہ کی تاب نہ لا سکے وہ فوت ہوئے ایک نگینہ تھا جو ٹوٹ گیا۔