غالب کی مشکل پسندی نفسیات کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو انسانی ذہن بہت سے پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ نظر آتا ہے۔ ان کا تجزیہ کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عام آدمی کے تجزئوں کو اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب یہی بات ہمیں کسی شاعر کی شاعری‘ مصور کے فن پارے‘یا کسی ادیب کی تحریر میں نظر اتی ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ اس نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہانسانی ذہن تک رسائی بہت مشکل ہے۔ مگر نفسیات کو سمجھنا اور اس سے فن پارہ تشکیل دے دیناخالصتا“ فن کی معراج ہے۔ اردو دان طبقہ بجا طور پر “ غالب “ کو اردو غزل کا سب سے بڑا شاعرتسلیم کرتے ہیں۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے مشکل پسند شاعر تھے۔ ان کی غزلیں ان کی اپنینفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی نے ان میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ شعر کا مضمون ہو یا الفاظ کی تراکیب‘ اسلوب بیان ہو یا بحروں کا چناؤ غالب نے نہایت آسانی سے مشکل پسندی کو برتا۔ غالب کے کلام کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ الفت ذات اور محبوب کی چاہ نے ان کے شعروں میں مشکل پسندی کے خد و خال ابھارے۔ اور وہ اپنی علمیت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ ابتدائے شاعری ہی میں شعور اور لا شعور میں پیدہ ہونے والے سوالات سے شعر کی تخلیق‘ فارسی تراکیب کا استعمال‘ غالب اپنی علمیت کا سکہ جماتے نظر آتے ہیں

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

ان کی ابتدئ شاعری میں بیدل کا رنگ نظر آتا ہے۔ مگر جب وہ عرفی اور نظیری سے ہوتے ہوئے میر کی شاعری سے متاثر ہوئے تو سادگی اور سہل پسندی کی انتہا پر پہنچ گئے۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام فارسی کلام ہے مگر جب اردو کلام میں ان کا نام ہر جگہ گونجنے لگا تو غالب کو فارسی کی مشکل پسندی سے میر کی سہل نگاری کی طرف سفر کرنا پڑا مگر رمز کا مارا دل مشکل پسندی کو ترک کر نہ سکا۔ ایک تنقید نگار کا کہنا ہے کہ غالب کی شاعری کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا۔ وہ بہت سے شاعروں سے متاثر ہوئے مگر میر کی طرف سب سے آخر میں آئے۔ غالب کی شاعری کی نمایاں خصوسیات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جس دور میں بھی تنقید کی نظر سے دیکھا گیا وہ ہر معیار پر پورا اترا۔ ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیوں پر پرکھا جدید تخلیقی تصورات بھی بہت نمایاں رہے مگر کوئے ان کی شہرت کو داغ نہ لگا سکا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کاہمیت مسلم ہے۔ غالب کے ادبی دشمن بھی ان کی عظمت اور علمیت کے معترف رہے اپنے عصر سے دور حاضر تک ان کی شہرت بڑھتی رہی کبھی کم نہ ہوئی۔ آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء میں اسد اللہ پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں شادی ہوئی خاندانی عظمت اور نسلی برتری کا احساس غالب رہا۔ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا پھر بھی آن بان سے رہے۔ مے نوشی اور جوئے کے شوقین تھے گرفتار بھی ہوئے مغل دربار سے بھی وابستہ رہے۔گھریلو زندگی ہمیشہ کبھی نہ سلجھنے اور نہ سلجھانے کا معما بنی رہی۔ جس کا اظہار ان کے لطائف اور شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ مفلوک الحال‘مقروض‘ خود پسند ‘ حسن پرست‘ نفسیاتی مسائل کو موضوع سخن بنانا‘محرومیوں کے ساتھ ساتھ زندہ دلی کی تصویر پیش کرنا اس عظیم شاعر کے مقام کو متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہر شاعر پہنچنے کا آرزومند ہے مگر یہ مقام غالب کے علاوہ کسی کو نہ مل سکا۔ ان کی شاعری میں جہاں سدگی اور موضوعات کا تنوع نظر اتا ہے وہیں خیال کی بلندی اور تراکیب کا اچھوتا پن بھی نمایاں ہے۔ ان کی مشکل پسندی میں بھی ایک سہل پرستی ہے جو ہر دور کے انسان کی زندگی کے تصورات کو منعکس کرتی ہے تبھی ہر دور کا قاری ان کا گرویدہ ہے اردو ادب کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869ء کو دار فانی سے کوچ کر گیا۔

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ ترا رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا