غسل کعبہ کعبہ شریف کو دھونے کی تقریب جو حج کے موقع پر (8 ذی الحجہ کو) منعقد ہوتی ہے۔[1]

غسل کعبہ ترمیم

خانہ کعبہ کو غسل دینے کی تقریب سال میں دو مرتبہ ہوتی ہے۔ پہلی مرتبہ ماہ رمضان سے قبل اور دوسری مرتبہ نئے ہجری سال کے آغاز پر خانہ کعبہ کو غسل دیا جاتا ہے جبکہ غلاف کعبہ ہر سال نو ذوالحجہ کو یوم عرفہ کے موقع پر تبدیل کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں خانہ کعبہ کو پاک کرنے کا حکم دو جگہ پر ہے اصل پاک تو بتوں ،شرک کی ناپاکی اور گناہ کے کاموں سے پاک کرنے کا ہے اس سے یہ بھی لازم ہوا کہ اسے ہر حالت میں پاک اور صاف ستھرا بھی ہونا چاہیے

قرآن کا حکم ترمیم

وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [2] اور ہم نے تاکید کی تھی ابراہیم اور اسماعیل کو (اس بات کی) کہ پاک رکھنا تم میرے گھر کو، طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أن لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ) [3]. اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس گھر یعنی خانہ کعبہ کی نشان دہی کردی تھی اس کے حکم کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہرانا اور پاک رکھنا میرے گھر کو اس کے گرد طواف کرنے والوں قیام کرنے والوں اور رکوع وسجود کی عبادات بجا لانے والوں کے لیے

حدیث میں حکم ترمیم

أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عام الفتح أخرج الأصنام من الكعبة المشرفة وطهرها من آثار المشركين وأرجاسهم وغسل الكعبة،[4] نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن بتوں کو کعبہ سے نکالااور مشرکین کے تمام نشانات اور گندگیاں ختم کیں اور کعبہ کو غسل دیا
عن عائشة -رضي الله عنها-، أنها قالت: طيبوا البيت فإن ذلك من تطهيره.[5] حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتیں بیت اللہ کو خوشبو لگاؤ یہ اس کا پاک کرنا ہے بعض روايات ميں تصريح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاوير کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دينے کا حکم ديا تھا ۔ (( ان النبي صلي اللہ عليہ وسلم امر بغسل الکعبۃ بعد ما کسر الاصنام وطمس التصاوير [6]

حوالہ جات ترمیم

  1. http://urdulughat.info/words/20326-%D8%BA%D8%B3%D9%84-%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81[مردہ ربط]
  2. البقرة: 125
  3. الحج: 26
  4. ابن أبي شيبة في مصنفه 36919، والفاكهي في أخبار مكة 5/ 221
  5. الأزرقي 1/ 257
  6. تاريخ الکعبۃ المعظمہ ص 327