غلام رسول (تیلگو صحافی)

غلام رسول ایک صحافی تھے جو تیلگو روزنامہ اخبار اودیم کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ افواہیں گشت کر رہی تھی کہ وہ نکسلیت پسند ہیں یا پھر نکسلیت پسند گروہوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔ اس وجہ وہ سابقہ غیر منقسم ریاست آندھرا پردیش کی حکومت اور پولیس کی کڑی نظروں میں رہا کرتے تھے۔ 1992ء میں ریاستی پولیس نے یہ دعوٰی پیش کیا کہ وہ ایک انکاؤنٹر میں ہلاک ہو گئے تھے۔ [1]

واقعہ

ترمیم

آندھرا پریش پولیس کے مطابق غلام رسول ایک کٹر نکسلیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کافی فعالیت کے ساتھ اس تحریک کی سرگرمیوں سے جڑے تھے۔ غلام کی گہری دوستی وجے پرساد راؤ سے تھی، جن کے بارے میں پولیس کا یہی دعوٰی ہے۔ پس منظر کے پیش نظر آندھرا پردیش پولیس کا یہ بیان ہے کہ ان دونوں کی ہلاکت ایک انکاؤنٹر کے دوران ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ سانحہ اس وقت ہوا جب یہ دونوں ایک رنگا ریڈی ضلع کے مسجد گوڑہ گاؤں میں ایک ویران گھر میں ملاقات کر رہے تھے۔[1]

شکوک و شبہات

ترمیم

پولیس کے ان دعووں پر ریاست کے صحافیوں نے اپنا ایک بالکلیہ دوسرا ہی نظریہ پیش کیا۔ ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ غلام رسول اور وجے پرساد راؤ، دونوں کو کچھ پولیس افسروں نے گرفتار کیا تھا۔ ان دونوں کو ایک جیپ میں ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ اس کے بعد ان دونوں کو پوچھ تاجھ کے لیے کافی غیر انسانی زد و کوب کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی دوران یہ دونوں ہلاک ہو گئے تھے۔[1]

ارندھتی رائے کا خراج عقیدت

ترمیم

غلام رسول کی یاد میں دیے جانے والے اپنے ایک لیکچر کے دوران ارندھتی رائے نے 1996ء میں کہا تھا کہ غلام رسول اور وجے پرساد راؤ کا فرضی انکاؤنٹر میں قتل کیا جانا در حقیقت غیر مسلح شہریوں کو بڑے پیمانے پر انتہا پسندی پر قاپو پانے کے نام پر مار ڈالنے کا حصہ ہے۔ بوکر انعام یافتہ اور اپنی کتاب دی گاڈ آف اسمال تھنگز سے عالمی شہرت پانے والی اس مصنفہ نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ اپنی تقریر میں موجود حاضرین سے یہ کہا کہ صرف ایک سال، یعنی 1991ء میں ان انکاؤنٹروں میں 106 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "Crying foul"۔ India Today۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 15, 2013 
  2. "SURVIVAL AND RIGHT TO INFORMATION"۔ mkss.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 14, 2013