غیر روایتی طرز زندگی
غیر روایتی طرز زندگی (انگریزی: Bohemianism) روایات اور قدیم دور سے مسلمہ طرز زندگی سے واضح طور پر اختلاف اور نئی روایات اور اقدار کو قائم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کئی بار ایک فرد کی انفرادی کوشش سے زیادہ ہم خیال افراد اور چند طے شدہ لوگوں کا اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔ اس میں موسیقی، مختلف شعبوں کی فن کاری، ادبی سخن کے مختلف پیرائے یا پھر روحانی جستجو بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس سیاق و سباق میں غیر روایتی طرز زندگی کی راہ پر گام زن آوارہ راہ رو، مہم جو یا در در رواں رہنے والے لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔
اردو ادب کی اگر مثال لی جائے جو سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی جیسی شخصیات نے ان موضوعات کی گفتگو برسر عام کی جس سے کہ روایتی مصنفین بچتے ہیں یا برسر سبیل تذکرہ کہیں مبہم انداز میں ذکر کرتے آئے ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کچھ با اثر لوگوں مختلف تقاریر اور تحریرات میں یہ خیال کا اظہار کیا ہے کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنا ضروری ہے۔ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اسلاف کے روایتی طرز زندگی کو دوبارہ اپنانا چاہیے، جس میں انھوں نے اپنے ماحول اور فطرت کے مطابق زندگی گزاری۔ [1]
جب کہ غیر روایتی کئی دوسرے کام مثبت بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ پلاسٹک کے خلاف مہم۔ اسی طرح سے کئی ماحولیاتی مہمیں۔
دنیا میں جنسی اقلیتوں کی بھی مہمیں رواں ہیں جو ایل جی بی ٹی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
جگہ اور مقام کے روایات مختلف ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ایک مغربی دنیا کے ایک شخص نے کوریا میں مشاہدہ کیا تھا۔ برطانوی شہری جویل بینیٹ کو پہلی مرتبہ غلط لفظ کے استعمال کا احساس اس وقت ہوا جب انھوں نے جنوبی کوریا کے اپنے پہلے دورے کے دوران ایک ریستوران مالک کو اچھے کھانے پر شکریہ ادا کیا۔ ریستوران کی مالک ایک 60 برس کی خاتون تھیں اور اس وقت بینیٹ کی عمر 23 برس تھی۔ بینٹ نے شکریہ ادا کرنے کے لیے ’گوماؤ‘ کہا جس کا انگریزی زبان میں مطلب ہلکے پھلکے انداز میں ’شکریہ‘ ادا کرنا تھا۔ وہ اپنی طرف سے ایسا احتراماً کہہ رہے تھے۔ تاہم اس وقت بینیٹ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے ریستوران کی مالک کو ’غیر روایتی انداز‘ میں شکریہ کہہ دیا ہے اور اگر وہ کوریائی ہوتے تو اس بات کو بدتمیزی کے زمرے میں لیا جاتا۔ کیوں کہ یہاں کا طرز زندگی الگ ہے۔ [2]