فارسی نثر نگاری کی مختصر تاریخ

فارسی نثر کی تاریخ

نثر کا لفظی مطلب منتشر کرنا ہے اور اصطلاح میں یہ شاعری کے برعکس ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سادہ اور واضح بات جس کے ذریعے انسان تقریر اورتحریر میں اپنے ارادے کو پورا کرتا ہے نثر کے نام سے موسوم ہے۔[1] نثر ارتقائی سفر میں سادگی و صاف گوئی سے لے کر پیچیدگی اور مصنوعیت سے گذرتا ہوا ایسے اسلوب کے مقام تک بھی پہنچا ہے، جہاں الفاظ کی سجاوٹ اور مخصوص شعری صنعتوں کے اطلاق کی وجہ سے مصنف کا اصل ہدف، صراحت و سلاست کے دایرے سے نکل کرفنی و ہنری میدان کارزار میں طاقت آزمائی کا جوہر دکھانے لگتا ہے۔[2]

فارسی نثرکے تاریخی ادوار ترمیم

اسلوب اور طرز کے اعتبار سے فارسی نثر کو کئی تاریخی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
1- سامانی دور: جو تقریباً 300ہ۔ق سے شروع ہوکر450 ہجری تک جاری رہا۔ اس دور کے نثری اسلوب کے نمونے، جو سادگی، جامعیت، بناوٹ اور سجاوٹ سے مبرا ہیں، تاریخ بلعمی میں دیکھے جا سکتے ہے۔
2۔غزنوی اورسلجوقیوں کا پہلا دور: جو450 سے 550 ہجری تک محیط تھا اور اس دور میں فارسی نثرمیں عربی کے بہت سے الفاظ کا استعمال نظر آتا، جیسے تاریخ بیہقی اور کلیلہ و دمنہ وغیرہ۔
3- خوارزمشاہیان اور سلجوقیوں کا دوسرا دور: جو 550 سے600 ہجری تک محیط ہے۔ اس دور میں مسجع اور مرصع نثر نظر آتا ہے جن میں متعدد ادبی صنائع کا بھر پور استعمال ہوا ہے، جیسے: مقامات حمیدی * اور مرزبان نامہ *۔
4- مسجع نثراور ناول نگاری کا دور: جو600 ہجری سے شروع ہوا اور 1200 ہجری تک جاری رہا۔ محمد اوفی کی لب الالباب اور عطاملك جويني کی تاریخ جھانگشا اس قسم کے نثر کے عمدہ نمونے ہیں۔
5- کلاسیکل ادبیات کی طرف بازگشت کادور: جو 1200 اور 1300 ہجری کے درمیان میں تشکیل پایا تھا جس میں گلستان اور تاریخ بیہہقی کے طرز کے نمونے پائے جاتے ہیں، جیسے منشآت قائم مقام وغیرہ۔
6- نثرسادہ کا دور: جو 1300 ھ میں شروع ہوا۔ ملکم کے مضامین اور حاجی بابا اصفہانی کے ترجمے اس دور کے نثر کی نمائندگی کرتے ہیں۔[3]

قدیم اور وسطی ادوار کے فارسی ادب میں نثر کے موضوعات ترمیم

طول تاریخ میں، درج ذیل موضوعات کے اظہار کے لیے فارسی نثر کا استعمال ہوتا رہا ہے۔:1- قومی داستانیں اور بہادری کے قصے، جو چوتھی صدی ہجری میں شاہناموں کی شکل میں نظرآتے ہیں، خاص طور پر شاہ نامہ فردوسی/ شاہ نامہ موئدی، شاہ نامہ ابومنصوری وغیرہ
عشقیہ یا مہم جوئی کی داستانیں: عام طور پراسطرح کے موضوعات میں عشقیہ یا بہادری و مہم جوئی پر مبنی داستانیں شامل ہیں جو کبھی نظم اور کبھی نثر کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں۔ 585 ہجری میں سماک عیار کے نام سے فرامرز بن خداد کی لکھی گئی کہانیاں اور بختیارنامہ وغیرہ کا اس حوالے سے تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ تراجم اور رجال کی کتابیں: جو 5 ویں صدی ہجری میں بہت مقبول تھے۔ ان میں شاعروں، محققین اور بزرگان دین کے حالات زندگی پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔ پانچویں صدی ہجری کے وسط میں اسحاق ابن ابراہیم نیشاپوری کی تحریر کردہ قصص انبياء۔ عطار نيشابوري کی تذکرۃ الاولیا، نظامي عروضي کا چہار مقالہ، [4] ابوعلي محمد بلعمي کی تالیف ترجمہ تاریخ طبری، رشيدالدين فضل‌اللہ همداني کی جامع التواريخ اور از ابوالفضل بيهقي ( ق470) کی تاريخ بيهقي شامل ہیں۔[5] مشروطیت کے دور میں فارسی نثر: جمہوری حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی، مجموعی طور پر، سادگی اور روانی کے علاوہ فارسی نثر کی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ مواد اور مطالب کے بیان کے اسلوب میں ایک گہری اور بے مثال تبدیلی سامنے ا ٓگئی اور اس کے نتیجے میں ادب کی نئی اصناف جنم لینے لگیں جو آہستہ آہستہ مقبول عام ہوتی گئیں۔
اس دور کے نثری ا ٓثارکو کئی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: روزنامہ نگاری اور طنزنگاری: اس دورمیں، صحافت گذشتہ ادوار کی نسبت زیادہ مقبول ہونے لگی تھی۔ آئینی حکومت کے اخبارات میں سیاسی، سماجی اور بعض اوقات سائنسی امور پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس دور کے نمائندہ نمونوں میں مشہوراخبار؛ صور اسرافیل اور طنز و مزاح پر مشتمل ـ نسیم شمال، نیز بہار اور دانشکدہ کے نام سے چھپنے والے مجلے * شامل ہیں۔[6]

ناول نگاری ترمیم

اس دور میں، بیشتر تاریخی ناول لکھے گئے تھے۔جمهوری عہد کے ممتاز ناول نگاروں میں، شمس و تطغرا کے مصنف، (1328 ہجری) محمد باقر مرزا خسروی، عشق و سلطنت اور سائرس عظیم کے فتوحات (1334 ھ) کے تخلیق کار شیخ موسی کبودر آهنگی، داستان باستان اورسرگذشت کورش کے مصنف مرزا حسن خان بدیع (1299 ہجری) شامل ہیں۔ اور * چرواہوں کی داستانیں، مزداک کے انتقام جو(1299 ہجری) اور مانی نقاش کی داستان(1305 ہجری) [7]کے مصنف عبد الحسین صنعتی زادہ کرمانی کے نام شامل ہیں۔

ڈراما نویسی ترمیم

جمہوری دور میں ڈرامائی ادب کی واحد مثال تین ڈرامے: حاکم عربستان حاکم اشرف خان کی سرگزشت، زمان خان بروجردی کا طرز حکومت اور شاہ قلی خان کے سفر کربلا کی داستان شامل ہیں جنہیں مرزا آغا تبریزی نے 1287 ھ کے دوران میں لکھی ہے اور ان میں سے کچھ عصر حاضر میں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ترجمے: جمہوری دور کے بیشتر ایرانی مترجمین نے الیگزینڈر ڈوماس کے تاریخی اور بعض اوقات سائنسی ناولوں کے ترجمے کی طرف توجہ دی۔ لیکن اس دور کا سب سے مشہور فارسی ترجمہ حاجی بابا اصفہانی کی کہانی ہے[8]
دورہ بغاوت میں نثر(13201300-شمسی ہجری): موجودہ صدی کے پہلے دو دہائیوں میں، ادب کی کئی اقسام جیسے: مختصر کہانیاں، معاشرتی ناول، ادبی تحقیق اور ادبی تنقید جیسے فارسی نثری نمونے سامنے آئے۔[9] ان کے علاوہ، ان دو دہائیوں کے نثر میں جمہوری ادوار کی ادبی اصناف میں بھی روز بروز وسعت اور ترقی ہوتی رہی۔ افسانہ نگاری کی پہلی نسل کے ممتاز نمائندوں میں محمدعلی جمال زادہ * مرتضی مشفق کاظمی* صادق ہدایت *، صادق چوبک * محمد حجازی * اور بزرگ علوی * شامل ہیں۔ افسانہ نگاری کے علاوہ، اس دور میں بہت سارے ادبی و تاریخی تحقیقات و نقد نگاری پر مبنی مقالات اوردیگرتحریروں کو ایران کے عظیم ادیبوں نے کتابوں کی شکل میں فارسی نثری ادب کا حصہ بنایا۔ محمد تقی بہار کی اسلوب شناسی *عبد العظیم قریب کی تصحیح کردہ گلستان سعدی۔ بديع‌الزمان فروزانفرکی تصحیح کردہ؛ كليات شمس و كتاب سخن و سخنوران، محمد علی فروغی کی آئين سخنوري و سيرحكمت در اروپا، مشيرالدولہ پيرنيا کی تاريخ ايران، احمد كسروي کی خوزستان کی پانچ سو سالہ تاریخ، حسن تقی زادہ کی مانی اور اس کا دین اور ابراھیم پور داود کی اوستا دورسے متعلق تحریریں شامل ہیں۔ [10]

باطن بینی کا دور ترمیم

باطن بینی کا دور (1332 ـ 1357 شمسی ہجری): یہ دور ادبی اصناف کے لحاظ سے پر بار اور متنوع تھا۔ اس سے پہلے کے ادوار کی ادبی اصناف کے علاوہ، اس عہد کے نثر میں ادبی فیلمی اسکرپٹ، ذہنی داستانیں/ ذهنی بہاؤ ۔۔ اور بچوں اور نوجوانوں کا ادب جیسی نئی صنفیں سامنے آئیں، جن میں سے ہر ایک صنف اپنے ارتقا کی طرف سفر طے کرتی رہی۔ اس دور کے نثر میں، افسانوی ادب، خاص طور پر جدید ناول نگاری اور مختصر کہانیوں کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔[11] سمین دانشور کا مشہور ناول سووشون (1348شمسی ہجری)، جلال الاحمد کا اسکول کا پرنسپل (1337 شمسی ہجری) ابراہیم گلستان کا مجموعہ داستان شکار سایہ (1334 شمسی ہجری)، محمود اعتمادزادہ کا سانپ کا مہرہ (1344 شمسی ہجری) اور شہر خدا(1349 شمسی ہجری)، رسول پرویزی کی لکھی ہوئی پیوند لگی پتلون(1336 شمسی ہجری) اس دور کے مشہورناولوں اور افسانوں میں شامل ہیں۔ علی محمد افغانی [12] *، ‌غلامحسين ساعدي*، ‌ايرج پزشكزاد، هوشنگ گلشيري* جمال مير صادقي، بهرام صادقي و محمود دولت‌آبادي بھی اس دور کے نمائندہ افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں شامل ہیں۔[13] ان کے علاوہ، دوسرے ادیبوں کا ایک گروپ بھی اس دور میں نمودار ہوا اور فارسی افسانہ اور ڈرامے کو ایک نئی فضا مہیا کی۔ ان میں احمد محمود، نادر ابراهيمي‌، امين فقيري‌، بهمن فرسي‌، گلي ترقي‌، عباس نعلبنديان، فريدون تنكابني‌، اكبر رادي‌، تقي مدرسي‌، ‌شهرنوش پارسي‌پور، ابراهيم رهبر‌، ناصر تقوايي‌، عدنان غريفي وغیرہ شامل ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس دور کی افسانوی نثرنگاری زیادہ تر منظرکشی اورفضا کی تخلیق کے حوالے سے مشہورتھی۔ اس دور کے اکثر ادیب فرنگي و عربي‌الفاظ انتخاب کرنے کی بجائے اپنی تخلیقات میں فارسی الفاظ اور اصطلاحات سے استفادہ کرتے تھے۔[14] اس دور میں داستانی ادب کے ساتھ ساتھ، نقد نگاری اور تاریخی و ادبی تحقیقات کے میدان میں استادانہ مہارت اور نئی فکر رکھنے والے ادیب سرگرم عمل ہوئے اور فارسی نثر کو بیش بہا تحریروں سے نوازا۔
پرويز ناتل خانلري*، محمد معين*، ذبيح‌اللہ صفا*، عبدالحسين زرين كوب*‌، ‌غلامحسين يوسفي*، ‌محمد ابراهيم باستاني پاريزي، اس دور کے نمائندہ ادیب ہیں۔[15] اس دور کے آخری نسل سے تعلق رکھنے والے نمائندہ ادیبوں میں ؛ محمدرضا شفيعي كدكني، حسن سادات ناصري مصحح آتشكدہ آذر*، ‌رضا براهني، سيروس شميسا، عبدالحسين نوايي مصحح حديقةالشعرا*، محمد جعفر محجوب، عبّاس زرياب خويي و جلال کا ذکر کرسکتے ہیں۔[16]

دورہ انقلاب اسلامي کے نمائندہ ادیب و شعرا ترمیم

اس دور میں بہت سارے ادیبوں نے اپنے قلم کے ذریعے داستان نویسی، مقالہ نگاری اور روزنامہ نگاری کے ذریعے بہت سے ادبی شاہکار تخلیق کیے، جن میں؛ "دھوپ کی رات میں ملاقات(1376 شمسی ہجری) و "ظهور (1378 شمسی ہجری) نویسندہ علی موذنی، " میں اور وہ(1378 شمسی ہجری) اور "یہاں سے وہاں تک (1380 شمسی ہجری) نویسندہ رضا امیرخانی، "دوہرا منظر (1363 شمسی ہجری) اور" ادریسیوں کا گھر (1371 شمسی ہجری) نويسندہ غزالہ عليزادہ، "نمايش اورمهتا کا غبارہ (1368شمسی ہجری) نويسندہ ‌جعفر مدرس صادقي، "غار کے سائے (1368 شمسی ہجری) و "زمین کاآٹھوان دن (1371 شمسی ہجری) نويسندہ ‌شهريار مندنيپور، "پہاڑنے مجھے آواز دی (1372شمسی ہجری) نویسندہ محمدرضا بایرامی، " بیگم کا آخری کھیل (1384 شمسی ہجری) نویسندہ بلقیس سلیمانی، "شب بخیر آرام (1384شمسی ہجری) نویسندہ راضیہ تجار، "جانے دو (شمسی ہجری 1383) نویسندہ بهنازعلی پور، "لنگر انداز کشتی (1368 شمسی ہجری) نویسندہ سیدمهدی شجاعی، "چار آدمیوں کی بٹالین (1375 شمسی ہجری) نویسندہ احمد دهقان و "پتھر کا شہر (1384 شمسی ہجری)نویسندہ زهرا پورقربان اور دیگر ادبی آثار شامل ہیں۔[17] و [18]

حوالہ جات ترمیم

  1. 1. داد، ‌سيما۔ فرهنگ اصطلاحات ادبي۔ ويرايش جديد، ‌ تهران: مرواريد، چ 1، 1378، ص 458.
  2. 2. ایضا، ص 459.
  3. 3. بهار(ملك‌الشعرا)، محمدتقي۔ سبك شناسي۔ ‌تهران: كتابهاي پرستو، ‌چ 4، 1356 ش، ج 2، ص 5.
  4. 6. همان، ص 31، 33، 37، 39، 41، 45، 47 (بہ اختصار)۔
  5. 7. همان، ص 48، 49، 50 ، 51 ، 53، 54، 58، 59، 60، 61، 70، 78، 84، 93، 98، 107 (بہ اختصار)۔
  6. 8. رحيميان، ‌هرمز۔ ادوار نثر فارسي از مشروطيت تا سقوط سلطنت۔ تهران: سمت، ‌چ 1، 1380 ش، ص 17ـ 18، 37، 38، 40.
  7. 9. قبادي، ‌حسينعلي۔ بنيادهاي نثر معاصر فارسي۔ تهران: پژوهشكدة علوم انساني و اجتماعي جهاد دانشگاهي، چ 1، 1383 ش، ص
  8. 10. همان، ص 52، 53، 56، 57، 58 (بہ اختصار)۔
  9. 11. همان، ص 79.
  10. 13. رحيميان، ‌هرمز۔ همان، ص 613 ـ 615 (بہ اختصار)۔
  11. 14. همان، ص 217، 225.
  12. 15. عبداللهيان، حميد۔ كارنامة نثر معاصر۔ ‌تهران: پايا، چ 1، 1379 ش، ص 72 ، 75 ، 76،‌ 79، 80 ، ‌83 ، ‌85 (بہ اختصار)۔
  13. 16. رحيميان، ‌هرمز۔ همان، ‌ص 237، 239 ، 243 ، 245 ، 246 ، 247 ، 250 (بہ اختصار)۔
  14. 17. دستغيب، عبدالعلي۔ گرايشهاي متضاد در ادبيات معاصر ايران۔ تهران: نشر خنيا، چ 1، 1371 ش، ص 153 ـ 154.
  15. 18. رستگار فسايي، ‌منصور۔ انواع نثر فارسي۔ تهران: سمت، چ 1، 1380 ش، ص 615 ـ 617 (بہ اختصار)۔
  16. 19. همان، ص 617ـ 618 ، 622 (بہ اختصار)۔
  17. 20. اکبری، فریدون، درآمدی بر ادبیات داستانی پس از پیروزی انقلاب اسلامی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تهران 1382
  18. http://www.fardanews.com/fa/news[مردہ ربط]