فانی بدایونی

فانی و ہ بلا کش ہوں غم بھی مجھے راحت ہے
میں نے غم ِ راحت کی صورت بھی نہ پہچانی

فانی یاسیت کے امام مانے جاتے ہیں۔ حزن و یاس اُن کے کلام کاجزو اعظم ہے۔ سوز و گداز جو غزل کی روح ہے اس کی جلوہ فرمائی یا تو میر کے یہاں ہے یا فانی کے یہاں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرکے غم میں ایک گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔ اور فانی کا غم لذت بخش ہے۔ میر کے یہاں نشاط ِ غم کا عنصر نمایاں ہے۔ فانی کو مرگھٹ کا شاعر یا قبرستان کا منجاور کہنا حد درجہ ناانصافی ہے۔ ہاں وہ موت کا شاعر ضرور تھا۔ مگر موت ہی اُس کے نزدیک سرچشمہ حیات بن گئی تھی۔ غم نے نشاط کا روپ اختیار کر لیا تھا۔ لذت ِ غم سے اُس کا سے نہ معمور نظر آتا ہے۔ یہ اُس کے فن کا کما ل ہے کہ انسان غم سے فرار نہیں چاہتا بلکہ غم میں ایک ابدی سکون اور سرور پاتا ہے۔ زندگی کی نامرادیوں میں وہ درد اور میر کے ہمنوا ہیں۔

میر: ع ہم نے مر مر کے زندگانی کی
درد ع ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
فانی ع زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

بقول مجنوں گورکھپوری ،
” فانی کی شاعری کو ”موت“ کی انجیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔“ بقول خواجہ احمد فاروقی،
”غم عشق اور غم روزگار نے مل کر دل کو آتش کدہ بنا دیا تھا یہی آگ کے شعلے زبان ِشعر سے نکلے ہیں اُن کی شاعر ی کا عنصر غالب غم و اندوہ ہے لیکن یہ غم روایت نہیں صداقت ہے۔“
فانی بدایونی نے 12 اگست 1941ءکو حیدرآباد میں وفات پائی۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر 62 بر س تھی اگر اُ ن کی شاعر ی پر نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی موت بہت پہلے واقع ہو چکی تھی۔ یا واقع ہونا شروع ہو چکی تھی۔ اور یہ باسٹھ سال ایک مرگ مسلسل کی طرح گذرے ہر لمحے انھیں موت کا انتظار تھا۔

فانی کی زندگی بھی کیا زندگی تھی یا رب
موت اور زندگی میں کچھ فرق چاہیے تھا

فانی کا اصل نام شوکت علی خان تھا۔ شوکت تخلص ہو سکتا تھا۔ لیکن انھوں نے فانی تخلص رکھ کر اس خواہش کی تسکین کا سامان کیا۔ جب کبھی ہم کو دامن بہار سے عالم ِیاس میں بوئے کفن آتی ہے تو فانی کی یاد آتی ہے۔ کیونکہ انھوں نے موت ہی کو ”زندگی جانا تھا اور غم کو موضوع بنایا۔ بقول آمدی،
فانی ایک زندہ جنازہ ہیں جن کو یاس و الم اپنے ماتمی کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔“
ڈاکٹر سلا م سندیلوی”اپنی کتاب”مزاج اور ماحول‘ ‘ میں فانی کی غم و یاسیت کے متعلق لکھتے ہیں،
” فانی زندگی بھر گلشن ہستی کو مغموم نگاہوں سے دیکھتے رہے او رنسترن کو کافور و کفن سمجھتے رہے۔ اُن کی شاعری کی تخلیق اشک شبنم اور خون ِحنا سے ہوئی ہے۔ وہ زندگی بھر آہیں بھر تے رہے۔ اور مرتے دم تک سسکیاں لیتے رہے۔ فانی کو محض غم و یاس کی بدولت رفعت و عظمت حاصل ہوئی ہے اسی وجہ سے اُن کو یاسیت کا امام کہاجاتاہے۔“

چمن سے رخصت فانی قریب ہے شائد
کچھ آج بوئے کفن دامن ِ بہار میں ہے

فانی غم ہی کو زندگی تصور کرتے تھے۔ اور فانی اس طرح زندگی گزارنے پر مجبو رتھے۔ جو اُن کی تمنائوں سے ہم آہنگ نہ تھی ان کی شخصیت چیختی تھی، دماغ احتجاج کرتا تھا۔ دل بغاوت کرتا تھا۔ ہڈیاں چٹختی تھی لیکن زمانے کی گرفت ڈھیلی نہ ہوتی تھی۔ کون جانتا ہے کہ فانی کو اپنی حالات نے جبر کا قائل بنا دیا ہے۔ اسزندگی سے صرف موت ہی نجات دلا سکتی تھی۔

ہر نفس عمر گذشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

آج روز وصال ِ فانی ہے
موت سے ہو رہے ہیں راز و نیاز

جب دیکھیے جی رہا ہے فانی
اللہ رے اس کی سخت جانی

اور اس کے سے نکڑو ں اشعار زندگی کو موت میں تبدیل کر لینا زندگی کو موت سمجھنا، مرنے سے پہلے مر جانا۔ یہ سب اُس خواہش مرگ کے پہلو ہیں اس وجہ سے فانی کا غم گہرا اور فلسفیانہ ہے۔

موت، کفن، قبر اور میت:۔

ترمیم

فانی کی شاعر ی جس چیز کے بارے میں مشہور ہے اور جوان کی پہچان بن گئی ہے۔ و ہ فانی کی شاعری میں موت، کفن، قبر اور میت کااستعمال ہے۔ فانی ان ڈرائونی چیزوں کو بہت بے جگری کے ساتھ دل میں لپیٹ لیتے ہیں۔ اور موت، کفن، قبر اور میت کو ایک خوبصورت چیز بنا دیتے ہیں وہ اس میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ان کے درمیا ن سکون و اطمینان تصور کرتے ہیں۔ بقول درد گورکھپوری: ”فانی موت اور حیات کے درمیان ہمیشہ ٹھوکر یں کھاتے رہے موت نے جب آنکھیں دکھائیں تو حیا ت کی طرف پلٹے اور جب حیات نے پریشان کیا تو موت کو آواز دی۔“

چلے بھی آؤ وہ ہے قبر ِ فانی دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

دیکھ فانی وہ تری تدبیر کی میت نہ ہو
اک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے

شب فرقت کٹی یا عمر فانی
اجل کے ساتھ آمد ہے سحر کی

فانی کا غم:۔

ترمیم

فانی کی حیات کا مطالعہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے ساری عمر مصیبت میں گزاری۔ فانی نے دل سے جن لوگوں کو عزیز جانا تھا۔ وہ لوگ اُن کی آنکھوں کے سامنے مرتے چلے گئے۔ اس کے بعد د و سال کے اندر اندر والد اور والدہ کا انتقال، دوستوں میں کشن پرشاد اور ان کی بیٹی اور اخر میں ان کی بیوی کا انتقال اُن پر کافی اثر انداز ہو۔ جو انسان اتنے سارے جنازوں کو دیکھ رہا ہو۔ اُن کے غم کا اندازہ لگانا مشکل ہے ایک خط میں لکھتے ہیں،
”اس دور میں اتنے جنازے اُٹھائے لگتا ہے کہ جب میں مرجائوں تو اُٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔“
فانی نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ فسادات کا دور تھا۔ جنگیں تھیں تو اس دور میں ایک مزاج تھا۔ جس نے ان کو غم برتنے پر مجبور کر دیا۔ تو اُن کی حسیات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور پھر سب سے بڑھ کر اُن کا اپنا مزاج تھا۔ جس نے ا ن کے غم برتنے پر مجبور کر دے ا۔ انہی حالات و واقعات نے غم کا برتنے پر مجبورکر دیا۔ انہی حالات و واقعات نے غم کا ایک مکمل فلسفہ پیش کیا۔
غالب کے ہاں غم اور زندگی لازم و ملزوم ہیں میر کے ہاں غم ہی غم تھا لیکن فانی کے ہاں غم کے عناصر اتنے بڑھ گئے کہ لگتا ہے کہ فانی غم کو زندگی قرار دے رہے ہیں۔

میں غم نصیب وہ مجبور ِ شوق ہوں فانی
جو نامراد جیے اور امے دوار رہے

مختصر قصہ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
غم نے دل کو دل بنا یا ورنہ کیاتھا کچھ نہ تھا

غم جاناں:۔

ترمیم

اس میں وہی پرانے عناصر ہیں جس میں محبوب ظالم ہے جس میں محبوب عاشق کے حالت زار پر ترس نہیں کھاتا۔ چونکہ فانی نے خود پے درپے عشق بازیاں کیں اور اُن کی زندگی میں گوہر جانیں او ر نور جانیں آئیں۔ شائد اُن کے غم جاناں کو تابانی بخشنے میں اُن طوائفوں کا ہاتھ تھا جن کے ساتھ فانی نے اپنے غم کی کچھ گھڑیاں سرور و راحت میں تبدیل کیں تھیں اور بعد میں بچھڑنا غم برتنے کا سبب بنی وہ محبوب کو ظالم دکھاتا ہے۔

سنے جاتے نہ تھے تم سے میرے دن رات کے شکوے
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نا ں تماشا میر ے غم خانے کا

غم دوراں:۔

ترمیم

فانی کے یہاں غم کی جو دوسری کیفیت ملتی ہے وہ غم دوراں ہیں یہ وہ غم ہے جو آلام روزگار کی دین ہے یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے حالات نے اُن کی طبیعت کو متاثر کیا۔ لیکن وہ اس کو زیادہ نہ پھیلا سکے۔ کیونکہ اُن کا غم نقطہ نظر اور تھا۔ کہ وہ ترقی پسند نہ تھے اور ان چیزوں سے اُن کو کوئی لگائو نہ تھا۔ فانی کا غم دوراں دوسری کیفیت سے تعلق رکھتا ہے کہ جہاں اُس پراثر پڑا انھوں نے احتجاج کیا۔

ہر شام شا م گور ہے ہر صبح صبح حشر
کیا دن دکھائے گردش لیل و نہار نے

ہر گھڑی انقلاب میں گذری
زندگی کس عذاب میں گذری

زندگی کس عذاب میں گذری، میں وہ جس عذاب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ معاشرے کی مادی ترقی ہے اور تیز رفتاری ہے۔ جس کا بحیثیت شاعر فانی ساتھ نہیں دے سکتا اور مادی ترقی شاعر کو پیچھے دھکے ل دیتا ہے پھر اُس دور کا جو بڑا مسئلہ تھا جس سے فرد متاثر ہو رہا تھا۔ وہ وہ محبت اور اقدا ر کا تیزی سے فقدان تھا۔ پہلے محبت کی قدردانی تھی پہلے بے وفائی کا تعلق شرافت سے تھا آج کل مادی ترقی میں بے وفائی کا مسئلہ مادی ترقی ہے کہ انسان بدل رہا ہے۔ شاعر کو دکھ اس بات کا ہے کہ محبتیں مٹ رہی ہیں۔

دیار مہر میں آپ کہتے مہر ہے فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا

وطن کا غم:۔

ترمیم

بعض لوگوں کی طبیعت یہ بات گوارا نہیں کرتی کہ اُن کو اپنے وطن سے دور رکھا جائے۔ فانی کا یہ غم بھی بہت شدید ہے فانی کو وطن چھوڑنے کا سخت غم تھا۔ وہ آخری ایام میں بدایون کو بہت یاد کرتے تھے۔ انھوں نے حیدرآباد میں اپنے ایک شاگرد ماہر سے کہا، ” ماہر میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح بدایون پہنچ جائوں اور وہیں جا کر مر جائوں۔“

فانی ہم تو جیتے جی و ہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

وہ وطن واپس آنا چاہتے تھے اس لیے ان کے کچھ اشعار میں ”غربت “ کا لفظ آ رہا ہے۔

غربت میں سنگ راہ کچھ آسانیاں بھی تھیں
کھاتی ہے ٹھوکریں میری مشکل جگہ جگہ

چھوڑو یہ بات کہ ملے یہ زحم کہا سے

IU زندگی تو بس اتنا بتا کہ سفر کتنا باقی ہیں؟

غم ہستی:۔

ترمیم

فانی کے یہاں غم کی چوتھی صورت ”غم ہستی “ کے رنگ میں نظرآتی ہے۔ یہ غم آفاقی اور کائناتی ہے۔ اس غم کوفانی نے ایک فلسفہ کی حیثیت سے پیش کیا وہ غالب کی طرح غم ہستی کے قائل ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ

فانی غم ہستی نے زندہ ہی مجھے سمجھا
جب تک میرے مرنے میں تاخیر نظرآئی

فانی کی ذات سے غم ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفتر ِ غم کا بکھر گیا

فانی نے غم ہستی کی تشریح مندرجہ ذیل شعر میں بھی کی ہے اس میں انھوں نے غم کو اصل کائنات تصور کیاہے۔

غم اصل کائنات ہے دل جوہر حیات
دل غم سے غم ہے دل سے مقابل جگہ جگہ

فانی غم ہستی کو درد کا خزانہ سمجھتے ہیں،

خدا کی دین نہیں ظرف خلق پر موقوف
یہ دل بھی کیا ہے جسے درد کا خزانہ ملا

غرض یہ کہ فانیغم ہستی کی تشریح مختلف طریقے سے کرتے ہیں اس طرح و ہ غالب کی سرحد میں داخل ہو جاتے ہیں

فانی کی شاعری میں مراجعت کا رجحان:۔

ترمیم

ماہر نفسیات نے مراجعت اس ذہنیت کا نام رکھا ہے جس کا سہارا لے کر انسان اپنے طفلی عہد میں واپس جاتا ہے۔ چونکہ عہد طفلی پر سکوں ہوتا ہے اس لیے انسان مراجعت کے ذریعے سکون ِ دل حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے چونکہ انسان مراجعت کے ذریعے عہد طفلی میں واپس جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ مصائب کے مو قع پر گریہ زاری سے مجبور ہے۔ فانی نے بھی اپنی شاعری میں مراجعت کا اظہار کیا ہے۔
اُن کے بہت سے اشعار میں گریہ و زاری اور اشکباری کا عالم نظرآتا ہے۔ فانی نے مندرجہ ذیل غزل میں گریہ و زاری سے کام لیا ہے۔

کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
دشمن بھی چیخ اُٹھا، بے اختیار رویا

کیا اُس کو بے قراری یاد آگئی ہماری
مل مل کے بجلیوں سے ابر بہار، رویا

فانی کو یہ جنوں ہے یا تیری آرزو ہے
کل نام لے کے تیرا بے اختیار رویا

انقطاع کا رجحان:۔

ترمیم

فانی چونکہ غم و الم کے ستائے ہوئے تھے اس لیے ان میں انقطاع پسندی کا رجحان پیدا ہو گیا تھا۔ جب کسی انسان کی اس قسم کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تو وہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ وہ سماج سے اپنے تعلقات منقطع کر لیتا ہے۔ اس کے بعدوہ گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس قسم کا رجحان کانام نفسیات نے ”شیزو فرینیا“ رکھا اگرچہ فانی جسمانی طور پر دنیا سے کنارہ کش نہیں ہوئے تھے۔ مگر ذہنی طور پر اُن کے دماغ میں یہ رجحان موجود تھا جس کا اظہار انھوں نے مندرجہ ذیل اشعار میں کیا۔

دنیا کے رنج و راحت کچھ ہوں تری بلا سے
دنیا کی ہر اد ا سے منہ پھیر کر گذر جا

اس عمر بیکراں میں ساحل کی جستجوکیا
کشتی کی جستجو کیا ڈوب اور پار کر جا

آذار پسندی:۔

ترمیم

چونکہ فانی ہمیشہ غم سے ٹکراتے رہے ہیں اس لیے وہ آذارپسند ہو گئے اور ان کو اذیت میں لطف آنے لگا۔ اس رجحان کو نفسیات میں آذار پسند ی کا رجحان کہتے ہیں۔ فانی کے کلام میں آذار پسندی کے بہت سے اشعار ملتے ہیں۔ مثلاً فانی غم برداشت کرنے کو تیار ہے مگر اس شرط پر،

جتنے غم چاہیے دے جا مجھے یا رب لیکن
ہر نئے غم کے لیے تازہ جگر پیدا کر

فانی نے اپنا مذاق اور شیوہ حیات بھی واضح کر دیا،

مذاق تلخ پسندی نہ پوچھ اس دل کا
بغیر مرگ جسے زیست کا مزہ نہ ملا

فانی کے غم کا یہ عالم ہے کہ وہ عمر گذشتہ کے ہرنفس کو میت تصور کرتے ہیں۔

ہر نفس عمرگزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

غرض کہ فانی نے ساری زندگی غم برداشت کیے اس غم کا انجام کیا ہوا یہ بھی فانی کی زبانی سن لیجئے

مال سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
بھڑک اُٹھی ہے شمع زندگانی دیکھتے جاؤ

شدت احساس:۔

ترمیم

فانی کی زندگی غم و الم کا مجموعہ رہی ہے اس لیے اُن کی شاعری میں شدت ِاحساس موجود ہے۔ فانی زندگی سے اس قدر اکتا گئے ہیں کہ وہ بار بار موت کو یاد کرتے ہیں اور اس انتظار میں زندگی کے دن گزارتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں

تو کہاں تھی اے اجل اے نامرادوں کی امید
مرنے والے راہ تیری عمر بھر دیکھاکئے

مگر موت تاخیر کر رہی ہے۔

ظہور جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا

فانی کو موت کی کتنی حسرت ہے ملاحظہ فرمائیے،

چمن سے رخصتِ فانی قریب ہے شائد
کچھ اب کے بوئے کفن دامن بہار میں ہے

فانی اپنی زندگی سے عاجز ہیں اس لیے اُن کو زہر کی تلاش ہے،

دبی زباں سے مرا حال چارہ ساز نہ پوچھ
بس اب تو زہر ہی دے زہر میں دوا نہ ملا

انفرادیت:۔

ترمیم

فانی کی انفرادیت کے بارے میں نقاد قاضی عبد الغفار فرماتے ہیں، ” فانی کی شاعری یکسر فانی ہی کی روح ہے اس شاعری کو فانی کی روح سے الگ کر لیجئے یا فانی کی روح کو اس شاعری سے خارج کر دیجیے ( گو کہ یہ دونوں باتیں ممکن نہیں) تو رہ کیا جاتا ہے ان اوراق میں سوائے وحشت ذدہ اور ویران خلا کے ۔“
قنوطیت ان کی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصو صیت ان کی انفرادیت ہے۔ فانی نے جو کچھ کہا وہ گویا اس کی اپنی بات ہے اس کی اپنی واردات ہے آپ بیتی ہے۔

خاک فانی کی قسم ہے تجھے اے دشت جنوں
کس سے سیکھا تیرے ذروں نے بیاباں ہونا

بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
دم تو نکلا مگرآزردہ احساں نکلا

بقول قاضی عبد الغفار ،
” میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر فلسفہ غم سے فانی کے افکار اس قد ر متاثر نہ ہوئے ہوتے تو شائد ان کی انفرادیت اس مقام تک نہ پہنچ سکتی جہاں اس کو ہم دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ مردانہ وار مرنے کی عظمت کے قائل ہیں۔“

ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کر جا
مردانہ وار جی اور مردانہ وار مرجا

اہل دنیا مجھے سمجھ لیں گے
دل کسی دن ذرا لہو تو کریں

دو گھڑی کے لیے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے

مجموعی جائزہ:۔

ترمیم

بقول فراق گورکھپوری،
” فانی نے غم اور قنوطیت کو نیا مزاج دیا ایک کلچر دیا، انھوں نے غم کو ایک نئی چمکار دی اُسے نرم اور لچک دار اُنگلیوں سے رچایا اور نکھارا اسے نئی لوریاں سنائیں اسے اپنی آواز کے ایک خاص لوچ سے سلایا اور جگایا، زندگی کے اندر نئی روک تھام نئی تھر تھری پیدا کی۔ نئی چٹکیاں، نئی گدگدی، نئی لرزشیں، نئی سرن اُن کے ہاتھوں سے غم کی دکھی ہوئی رگوں کو ملیں۔“ بقول عطا:
” میر کی روح نے غالب کے قالب میں دوبارہ جنم لے کر فانی نام پایا۔“
بقول جوش:
” جب ہم فانی کا کلام پڑھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنسوئوں کی ندی کے ساحل پر سنگ موسیٰ کا ایک بڑا مندر ہے جس کے وسط میں غم کی دیوی کا ایک بت رکھا ہوا ہے۔ اور ایک سیاہ پوش برہمن ہے جو دھڑکتے ہوئے دل کی گھنٹی بجا بجا کر پوجا کر رہا ہے۔“

ہمیں ابھی تیرے اشعار یا د ہیں فانی
تیرا نشاں نہ رہا اور بے نشاں نہ ہوا