فری میسن ہال
فری میسن ہال کراچی تقسیم سے پہلے، جس کو ہوپ لاج بھی کہا جاتا ہے۔ سوسائٹی کے سب پروگرام اس میں ہوتے تھے۔ جہاں پر شام کو بڑی ہلچل لگی رہتی تھی، عمارت کے سامنے سفید وکٹوریہ گاڑیوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ اس وقت ان کے میمبر 500 سؤ تھے۔ ان میں سے کچھ خاص نام جام میر ایوب عالمانی کراچی میں سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی حوالے سے بڑا نام تھے۔
تقسیم کے بعد اس عمارت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فری میسن یہودیوں کی ایک سوچی سمجھی تنظیم ہے۔ جن کو یہودی مالی مدد کرتے ہیں۔ اور جن کا نشان یہودیوں کا اسٹار آف ڈیوڈ (Star of David) یعنی آٹھ کونوں والہ ستارہ ہے۔ مشہور محقق اختر بلوچ کہتے ہیں کہ ، تقسیم سے پہلے حقیقت کچھہ مختلف تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تنظیم میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد مسلمان بھی شامل تھے۔ یہودیوں کا ابھی اسٹار آف ڈیوڈ اور فری میسن کے لوگو کا ایک ہونا اسی بات کے پروپگنڈے کا حصہ ہے۔ ان دونوں نشانوں میں زمیں آسان کا فرق ہے۔ فری میسن ہال کے لوگو اور اسٹار آف ڈیوڈ الگ نشان ہے۔
اسٹار آف ڈیوڈ کراچی میں کتنی ہی عمارتیں اور یہودیوں کی قبریں نظر آتی ہیں۔ ایسے باتیں سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے 1972ء میں ذو الفقار علی بھٹو کے دؤر میں فری میسن کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا۔ آگے چل کر 18جولاء 1973ء پر بھٹو حکومت " فری میسن ہال" اپنے کنٹرول میں لے کر، ان کا پورا رکوڈ اپنے قبضے میں لیا۔ 19 جولاء کو ڈان اخبار کی ایک خبر موجب "واء ایم سی کے قریب لوکل ہال کو سندھ حکومت علائقے کے مجسٹریٹ کی سربراہی میں سیل کر کے رکارڈ اپنے قبضے میں لیا ہے" خبروں میں اور بتایہ گیا کہ سرکار ایسا کام عوامی مطالبہ اور فری میسن ہال ایک باغی گروپ کے مطابے پر لیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ فری میسن یہودیوں کی ایک تنظیم ہے۔ اور وہ اسلامی نظریات کے خلاف ہے۔ پورے پاکستان میں ان کے 1750میمبر ہیں۔ جن میں 700 کراچی کے ہیڈ کواٹر کے میمبر ہیں۔ خبروں کے مطابق " کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاہور، ملتان، راولپنڈی، تربیلا، کوئٹہ اور پشاور میں فری میسن لاج ہال موجود ہیں۔ فری میسن ہال کا رکارڈ قبضے میں لینے کے بعد، اب یہ رکارڈ کہاں ہے یہ کسی کو نہیں پتہ لاہور میں فری میسن ہال کی بنیاد 1860ء میں رکھی گئی۔ یہ ہال "لاہور ٹیمبل" طور مشہور ہے۔ یہ عمارت اب پنجاب حکومت کے حوالے ہے۔ جہاں مختلف سرکاری کھاتوں کے دفتر قائم کیے گئے ہیں۔ فری میسن لاج ہال کراچی کا آخری پاسٹ ماسٹر ڈاکٹر محمد ابراہیم شیخ تھے۔ جن کو مئی 1973ء میں ڈاکٹر آر بی کبھاٹا سے چارج لی۔
یاد رہے کہ 1972ء میں ذو الفقار علی بھٹو نے جب فری میسن ہال کی سرگرمیاں محدود کیں تو ان کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ان سے پہلے 1961ء میں پاکستانی سرکار اور پاکستانی فورسز کے لوگوں نے فری میسن روٹری کلب اور لائنز کلب کے میمبر ہونے پر پابندی لگادی۔ 1969ء میں دوسری سرکاری ملازموں پر بھی یہی پابندی لگائی گئی۔ 17جون 1983ء میں ضیاء الحق نے جب مارشلا لا حکومت ریگولیشن 56 میں جب فری میسن کی سرگرمیوں پر پابندی لگادی تو، پھر بھی ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ کیونکہ حکم میں قانونی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی وضاحت نہیں تھی۔ اس لیے میمبروں کے موجب قانونی سرگرمیاں کر رہے تھے۔ ان باتوں کو سامنے رکھ کر سرکار 29ڈشمبر 1985ء پر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے مارشل لا ریگولیشن 17 جون 1983ء کا سلسلہ قرار دے دیا۔ اس آرڈر تحت فری میسن تنظیم کو کالعدم قرار دیے دیا۔ جن کے شق (5) تحت ان فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا۔ اور شق (7) تحت حکم کے سامنے رکاوٹ ڈالنے والے کو سخت سزا تین سال قید اور جرمانہ کی سزا دیجائے گی۔
ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد فری میسن تنظیم پر پابندی لگادی گئی۔ اس طرح دنیا کے فقط دو ملک، پاکستان اور ایران میں فری میسن تنظیم کو 1990ء شروع میں ہوپ لاج کو سندھ وائیلڈ لائیف وقت فری میسن لاج ہال میں وائیلڈ لائیف کے کھاتے اور مکھیہ آفیس ہے۔ جہاں پر سندھ حکومت عمارت کو 1994ء کے ایکٹ کے تحت قومی ورثہ، تنزئین اور آرائیش بنادی گئی۔ عمارت اور ہال آج بھی اچھی حالف میں موجود ہے۔ جہاں پر یادگار تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ ایک تختی کراچی فری میسن رابرٹس شیپرڈ کی یادگار طور لگی ہوئی ہے۔ ان دس بورڈس کے علاوہ فری میسن ہال کے شاگردوں کے لیے فقط یہی بورڈ رہ گئے ہیں۔
موجودہ نظر
ترمیمیہودیت کا شماردنیا کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے۔ اسلام سے قبل یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے ان میں بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ زیادہ اہم ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں یہودی (بنی اسرائیل) کافی تعداد میں آباد تھے جن کی آبادیاں خاص کر بمبئی، کراچی، گجرات (ہندوستان) میں آباد تھیں، اس کے علاوہ پاکستان کے شہر ملتان، راولپنڈی اور پشاور میں بھی بہت سے یہودی خاندان آباد تھے۔ جو بعد میں اسرائیل اور دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئے۔
تحقیق
ترمیمایٹکن کی مولفہ سندھ گزیٹیر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی آبادی کے بارے میں لکھتی ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد صرف 1300 ہے۔ یہ سب تقریباََ کراچی میں آباد ہیں۔ اکثر کا تعلق بنی اسرائیل برادری سے ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مہاراشٹر سے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ متحدہ ہندوستان میں یہودیوں کی تاریخ کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہے کہ 1936 میں ہندوستان میں عام انتخابات ہوئے جس میں کراچی میں کونسلر کے لیے ہونے والے انتخابات میں "ابراہام روبن" کامیاب قرار پائے تھے، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ے کہ یہودیوں کی تعداد اس وقت اس قدر تھی کہ ان کا کونسلر تعینات ہو گیا یا پھر ان کے تعلقات دوسرے مذاہب کے ساتھ بہت اچھے ہو گے۔ "ابراہام روبن" ایک یہودی تنظیم "بنی اسرائیل ایسوسی ایشن" کے عہدے دار بھی تھے، تقسیم ہند کے بعد اس تنظیم کے نام میں پاکستان کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو 1893 میں قائم کیا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں یہودی کمیونٹی کے تحفظ کے لیے بہت سی تنظیموں کی بنیاد دکھی گئی تھی جن کا مقصد یہودیوں کے حقوق کی حفاظت اور یہودیت کا پرچار کرنا تھا۔ یہ اپنی کمیونٹی کو سستے گھر بنا کر بھی دیتے تھے اور ان کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔ ان تنظیموں کو دنیا بھر کے یہودیوں کی طرف سے مالی امداد کی جاتی تھی۔ ان تنظیموں میں نوجوان یہودی پیش پیش تھے۔ ان تنظیموں میں " ینگ مین یہودی ایسوسی ایشن" اور "کراچی بنی اسرائیل ریلیف فنڈ" زیادہ اہم ہے۔ 1911 تک کراچی کی آبادی کا 0.3 فیصد یہودیوں پر مشتمل تھا۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد دنیا بھر سے جہاں یہودیوں نے نقل مکانی کی، وہیں پاکستان سے بھی بہت سے یہودیوں نے اسرائیل، کچھ نے انگلینڈ کی جانب ہجرت کی، پھر رہی سہی کسر عرب-اسرائیل جنگ نے پوری کردی جہاں یہودیوں کے لیے پاکستان میں رہنا مشکل ہو گیا، جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل سے پاکستان میں کس قدر نفرت پائی جاتی ہے۔ بہت سے یہودی اپنی شناخت چھپا کر بھی موجود رہے، جو کہیں خود کو عیسائی اور پارسی کہ کر اپنی پہچان کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ کراچی کے فریئر ہال میں نصب کتبہ پر ان یہودیوں کے نام کنندہ ہیں جنھوں نے "فری میسن" نامی تنظیم کی پاکستان میں بنیاد رکھی تھی، جو بعد میں قیام پاکستان کے بعد پابندی لگنے پر بند ہو گئی۔
کراچی کی بنی اسرائیل مسجد
ترمیمیہودیوں کی ایک مذہبی عبادت گاہ "امن کلیسہ کے سٹار" کے نام سے کراچی کے علاقے کرنل جمیل سٹریٹ، نشاط روڈ پرموجود تھی۔ اس کلیسہ کو سلیمان ڈیوڈ نے 1893 میں قائم کیاتھا۔ پھر 1912 میں مزید توسیع سلیمان کے بیٹیوں، گرشون سلیمان اور راحامین سلیمان کی طرف سے کی گئی۔ 1916-1918 میں یہودی کمیونٹی کی جانب سے اس کلیسہ کی حدود میں عبرانی اسکول بھی قائم کیا گیا تھا۔ 1918 میں یہاں ناتھن ابراہیم حال بھی قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ایک سائن بورڈ بھی آویزاں ہے جہاں "پاکستان بنی اسرائیل ایسوسی ایشن" کے الفاظ کندہ ہے۔ یہاں ایک مسجد بھی قائم ہے جس کا نام بنی اسرائیل مسجد ہے۔ اس کے داخلی دروازے پر کندہ ہے کہ "صرف یہودیوں کو یہاں داخلے کی اجازت ہے"۔ کراچی کے رنچھوڑ لائنز کے علاقے کے مرکزی چوک میں اسرائیلی مسجد کی عمارت تھی جس کو اب ایک کثیر المنزلہ رہائشی بلڈنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو "مدیحہ اسکوائر" کے نام سے موجود ہے۔ جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ علاقے کے ایک قدیم رہائشی "قاضی خضر حبیب" بتاتے ہیں کہ بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی "ریشل جوزف" نامی خاتون تھیں جنھوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی "احمد الہٰی ولد مہر الہٰی" نامی شخص کے نام کر دیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ تعمیر کی جائے گی۔ نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں اور پہلی منزل پر عبادت گاہ بھی۔ مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ ہیں۔ "ریشل جوزف" اور مختلف افراد کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی جس میں "ریشل" اور ان کے اٹارنی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت عرصہ قبل لندن منتقل ہو چکی تھیں۔ 6 مئی2007 کو روزنا مہ ڈان کی کالم نگار ریما عباسی لکھتی ہیں کہ اس جگہ کی آخری کسٹوڈین "ریشل جوزف" 2007 تک کراچی میں موجود تھیں اور پھر وہ یہاں سے لندن منتقل ہوگئیں۔
حیدرآباد کے یہودی
ترمیمیہودیوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ صرف کراچی تک محدود تھے، لیکن یہودی قبرستان کے ایک کتبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ کراچی کے علاوہ بھی سندھ کے دیگر شہروں میں خدمات انجام دیتے تھے۔ ایک قبر حیدرآباد کے سول ہسپتال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر ایلیزر جیکب بھوراپکر کی بھی ہے، جن کا سالِ پیدائش 1850 اور وفات 1922 کی ہے۔ اسی طرح سے ایک قبر کراچی کی یہودی برادری کے نائب صدر ابراہام ریوبن کمار لے کر کی ہے۔
ملتان کے یہودی
ترمیمالیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر میڈیا ریلیشنز الطاف احمد کے مطابق سن دو ہزار تیرہ میں ہونے والے گذشتہ قومی انتخابات میں پاکستان کے یہودی ووٹروں کی تعداد آٹھ سو نو تھی۔ اور ملتان میں یہودیوں کی تعداد 12 تھی جو اپنی پہچان پارسی کے طور پر کرواتے تھے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق، پانچ برسوں میں سینکڑوں یہودی ووٹروں کا سرے سے غائب ہو جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ آخر یہودی ووٹر کہاں گئے؟
پشاور کے یہودی
ترمیم1960 کی دہائی میں پشاور کے پاس بھی یہودیوں کی کمیونٹی موجود تھی اور یہاں ان کی دو مذہبی عبادت گاہیں بھی قائم تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 تک 900 یہودی ووٹر رجسٹر تھے۔ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی یہودی موجود ہے یہ اپنی شناخت چھپاتے ہے۔ یہودی اپنے آپ کو پارسی یا مسیحی بتاتے ہے جس وجہ سے ان کی اصل تعداد کا علم ہونا ممکن نہیں ہے۔
راولپنڈی کے یہودی
ترمیمانگریزی نشریاتی ادارے DW کے رپورٹر " ڈوئچے ویلے" نے راولپنڈی میں یہودیوں سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ انھیں یہودیوں کی راولپنڈی میں شناخت بہت مشکل سے ہوئی، ڈوئچے ویلے نے جن پاکستانی یہودیوں سے رابطہ کیا، ان میں سے صرف ایک بزرگ شہری انٹرویو دینے پر راضی ہوئے اور وہ بھی اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر۔ پاکستان کے اس بزرگ یہودی شہری کی عمر بہتر برس ہے اور وہ راولپنڈی کے ایک پرانے اور گنجان آباد علاقے میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا، ’’ایک وقت تھا جب قریب تیس سال پہلے تک بھی پینتالیس کے لگ بھگ یہودی خاندان راولپنڈی، اسلام آباد اور گجرخان میں رہائش پزیر تھے۔ میرے اپنے خاندان سمیت کئی یہودی گھرانے نقل مکانی کر کے یورپ، امریکا یا جنوبی افریقہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ کم از کم چھ یہودی خاندان کراچی منتقل ہو چکے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’ستر کی دہائی تک راولپنڈی میں دو یہودی عبادت گاہیں (سینے گوگ) موجود تھے۔ مگرچند یہودی خاندانوں کے شہر میں مقیم ہونے کے باوجود یہ عبادت گاہیں اس لیے بند ہو گئیں ہمارے مذہبی رہنما یعنی ربی ہی دستیاب نہیں تھے۔ یہودیوں نے خود کو بطور ووٹر رجسٹر کرانا اس لیے چھوڑ دیا کہ کسی یہودی کے لیے کسی مخصوص نشست پر الیکشن لڑنا اور بطور ووٹر ایسے کسی انتخابی امیدوار کو جا کر ووٹ دینا اب فرقہ واریت اور شدت پسندی کے دور میں کوئی قابل عمل سوچ رہی ہی نہیں۔‘‘ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ راولپنڈی شہر کے ایک محلے میں گزار دینے والے اس پاکستانی اقلیتی شہری نے مقامی یہودیوں کی سیاست میں بہت کم دلچسپی کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں یہودی طبقہ تو ویسے ہی کبھی سیاسی طور پر فعال نہیں رہا۔ مگر ضیاالحق کی آمریت کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اور تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں کی مقامی یہودیوں میں عدم دلچسپی کے باعث سیاست میں ہماری اپنی دلچسپی بھی تقریبا ختم ہی ہو چکی ہے۔ میں نے خود آخری مرتبہ اپنا ووٹ انیس سو نوے کے عام انتخابات میں ڈالا تھا۔ اس کے بعد بطور ووٹر الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش ہی ختم ہو گئی۔‘‘
کراچی کا یہودی بنی اسرائیل قبرستان
ترمیمکراچی کے قبرستان "میوہ شاہ" میں یہودیوں (بنی اسرائیل) کی قبریں موجود ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق یہاں پانچ ہزار یہودی دفن ہیں۔ جب کے پانچ سو کے قریب قبروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ کتبوں پر لکھی عبرانی زبان ہی اب وہ واحد نشانی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں یہودیت کے ماننے والے دفن ہیں۔ اس بنی اسرائیل قبرستان میں آخری تدفین سن 80 کی دہائی میں کی گئی تھی، جس کے بعد یہاں کس یہودی کے دفن ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ سولومن ڈیوڈ انگریزدور میں بلدیہ کراچی میں ایک سرویئر تھا، 1902 میں سولومن مر گیا اور اس کے اگلے ہی سال اس کی بیوی بھی چل بسی، دونوں میاں بیوی اسی قبرستان میں دفن کر دیے گئے۔ 1912ء میں اسی سولومن ڈیوڈ کے دو بیٹوں نے ان کے کتبوں کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی۔ اس قبرستان میں جا بجا جھاڑیاں اور پودے اگے ہوئے ہیں اور حکومتی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اکثر جرائم پیشہ افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپ کر رہتے ہیں۔ اس قبرستان کی دیکھ بھال ایک بلوچ خاندان کر رہا ہے جن کے مطابق وہ 6 نسلوں سے یہاں کے چوکیدار ہیں۔ ان کے مطابق پہلے کچھ یہودی یہاں آتے تھے اور یہاں کی دیکھ بھال کے لیے انھیں خرچہ دے جایا کرتے تھے، لیکن اب سالوں سے یہاں کوئی نہیں آیا، صرف اخباری نمائندے اور ریسرچر آتے ہیں اور تصویریں بنا کر چلے جاتے ہیں۔ کراچی میں یہودیت کے ماننے والوں کی یہ یادگار مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث کھنڈر بن چکی ہے۔ یہودیوں کی اکثر قبریں مسمار کی جا چکی ہیں اور مسلمان مُردوں کی آباد کاری زور شور سے جاری ہے۔
کراچی کا اسرائیلی یہودی
ترمیمیہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ملکہ مشرق کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ ایک ہیکل اور سیمٹری ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ تعلیم یافتہ اور خاصے خوش حال ہیں۔ معروف قلم کار اور صحافی محمد حنیف جنھوں نے خوش قسمتی سے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ ہیں اپنے اسرائیل کے دورے کے دوران ایک تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آخر میں کسی منتظم کو خیال آیا کہ میں نے تقریر نہیں کی۔ مجھے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کر دیا گیا۔ میں نے کہا کہ میرا تعلق ہندوستان سے نہیں کراچی سے ہے۔ میں تو یوں ہی کام سے آیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ میری بات سن کر پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے پکی رنگت اور فربہ جسم کے ایک چالیس پینتالیس سالہ آدمی نے زور سے سسکی لی۔ میں اسٹیج سے اترا تو اس نے آکر میرا ہاتھ پکڑا، ایک کونے میں لے کر گیا اور گلے لگایا۔ یہ سولجر بازار کراچی کا ڈینئل تھا۔ "میں نے 68 کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا" اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا: "میں وہاں انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد تھی۔ سن 67 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی۔" پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، "ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی لوگ اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے ہیں۔
1947ء میں پاکستان اور 1948ء میں اسرائیل بنا اور یہیں سے ان یہودیوں کے برے دن شروع ہو گئے۔ پھر جب بھی عربوں کی اسرائیل سے جنگ ہوتی سندھ کے یہودیوں کے لیے زمین تنگ ہو جاتی. 1956ء اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستانی شدت پسند مسلمانوں نے پاکستانی یہودیوں کا جینا محال کیے رکھا۔ یہاں تک کہ 1968ء سندھ میں صرف 250 یہودی رہ گئے جو کبھی تین چار ہزار کی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ یہودیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر انگلینڈ یا اسرائیل میں پناہ لیں.
باقی بچ جانے والے یہودی شناخت چھپاتے ہوئے خود کو پارسی ظاہر کرتے تھے، انھوں نے کراچی کا میگن شیلوم سنیگاگ اور یہودی قبرستان بھی کسی نہ کسی طرح آباد رکھا. پاکستان کی بدقسمتی کہ پھر ضیاء الحق کا دور آ گیا، یہ پاکستانی یہودیوں کی ڈبل بدقسمتی تھی، جہاد کے نعرے لگاتے ہوئے لوگ ایک دوسرے پر ہی پل پڑے، جب دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر مار رہے ہوں ایسے میں یہودی کیسے بچ سکتے ہیں۔ کچھ شدت پسند مسلمانوں نے قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر اس یہودی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا، یہودی جان بچا کر بھاگ گئے، قیمتی سامان چرا لیا گیا۔ آج سے بارہ برس پہلے تک کراچی میں تقریباً دس یہودی خاندان آباد تھے۔ لیکن یہ تعداد اب مزید کم ہو گئی ہے اور یہودیوں کی جائداد پر قبضہ مافیا اور مقامی افراد نے رہائشی عمارتیں اور تجارتی کمپلکس تعمیر کرلئے ہیں۔
یہودیوں کے بارے میں اپنی اس تحقیق کے حوالے سے میں اپنے ہم وطنوں کو یہ پیغام دینا چاہونگی کہ براہ کرم پاکستانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، عبادت گاہوں اور قبرستانوں کا احترام بہرصورت ملحوظ رکھیں، یہ ملک سبھی کا ہے اور اسلام بھی ہمیں امن سے رہنے کا درس دیتا ہے اور ہمارے بیچ موجود اقلیتوں کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے۔
حوالہ جات
ترمیمhttps://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1825492477536356&id=100002268632446