فطرت کی آواز
رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کی غرض سے باہر سڑک پر نکلا ہی تھا کہ اتنے میں ایک وجیہ چہرے والے شخص سے میری ملاقات ہوئی۔ قیافے سے معلوم ہو رہا تھا کہ یہ کوئی اہل معرفت شخص ہے۔ میں نے متواضعانہ انداز سے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے محبت بھرے لہجے میں میرے سلام کا جواب دیا۔ ان کا اخلاق بھی مثالی تھا، جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ راہ چلتے چلتے حال احوال بھی دریافت کیا۔ اتنے میں نے موقع غنیمت جان کر وقت ضائع کیے بغیر پوچھا: حضور کیا دین سے متعلق کچھ سوالات کرسکتا ہوں۔ انھوں نے کہا ضرور، لیکن ہمیشہ کے لیے یاد رکھنا کہ کسی بھی حوالے سے سوال کرنا اچھی بات ہے، لیکن اگر یہی سوال انسان کے ذہن میں شبہے کی شکل اختیار کر جائے تو یہ انسان کو گمراہ کر دیتا ہے۔ لہذا جب بھی دین سے متعلق کوئی سوال ذہن میں آجائے فوراً کسی عالم دین یا کسی دانشور سے اس کا جواب طلب کر لیا کرو تو یہ آپ کے لیے تسکین قلب کا سامان قرار پائے گا نیز آپ کی دینی معلومات میں اضافے کا بھی سبب بنے گا۔
ان کی یہ نصیحت مجھے بہت ہی پسند آئی۔ پھر میں نے پوچھا: جناب والا! جب انسان عاقل ہے تو وہ خود اپنے نفع اور نقصان کا تعین کرسکتا ہے، لہذا دین کی ضرورت آخر کیوں؟ انھوں نے محبت آمیز لہجے میں کہا: آپ نے بہت اہم سوال کیا ہے۔ ذرا غور سے سننا! میں نے کہا سر آنکھوں پر جناب! پھر مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: ضرورت دین ایک فطری امر ہے۔ انسان اپنے وجود کے ذریعے ہی ہر وقت اپنے اندر دین کی ضرورت کا احساس کرتا ہے۔ لہذا یہاں سے اس نظریے کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ معاشرتی ترقی اور تمدن کے باعث دین اور ضرورت دین روبہ زوال ہے، کیونکہ انسان کے رگ و پے میں دین کی ضرورت کا احساس سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافی تحقیق کے بعد آج کے تاریخ دان اور محققین اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ گذشتہ ادوار میں تمام قوموں اور ملتوں میں سے 95 فیصد سے زیادہ افراد خدا پر ایمان رکھتے تھے اور کسی نہ کسی دین کے پیروکار تھے۔
ان کا مدلل جواب سن کر میں مطمئن ہو گیا اور دوسرا سوال اٹھایا: آج کے دور میں تو دنیا بہت ترقی کرچکی ہے۔ ہر طرح کی نعمتیں اور آسائشیں فراہم ہیں۔ گلوبل ویلیج نے ساری دنیا کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے، پھر دین کی کیا ضرورت ہے؟ تب وہ یوں گویا ہوئے: دیکھیں انسان کا وجود دو چیزوں کا متقاضی ہے: جسمانی یا مادی ضروریات۔ جیسے بھوک، پیاس اور جنسی ضروریات وغیرہ۔ اسی طرح روحانی ضروریات یا معنویات بھی ہیں۔ جس طرح انسان کچھ کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح اگر کما حقہ روح کی غذا اسے فراہم نہ ہو تو بھی اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ خواہ اسے دنیا و مافیہا کی آسائشیں کیوں نہ فراہم ہوں۔ انسان کے فطری کمالات کی ترقی اور پیشرفت کے لیے دین کا ہونا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں انسان کی پاک و پاکیزہ فطرت اسے کمال کی طرف لے جانا چاہتی ہے، وہیں اس کی طبیعت میں موجود غضب اور شہوت اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہذا ایک ایسے دین کی ضرورت ہے، جو انسان کی طبعی خواہشات کی تعدیل کرکے اس کے مادی اور معنوی کمالات کی ترقی کا سبب بن سکے۔ ان کی عقلی دلیلوں نے مجھے بہت حد تک مطمئن کیا۔
اسی دوران میں، میں نے ایک اور سوال اٹھایا جناب! کیا انسان کے پاس فقط عقل کی طاقت ہے، جس سے وہ خود کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکتا ہے، جس سے رہنمائی لیتے ہوئے وہ آگے بڑھ سکتا ہے یا اس کے مدمقابل انسان کے اندر اور بھی طاقتیں ہیں، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا: عقل انسان کو صحیح راستے کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے مادی اور معنوی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے، لیکن قوہ واہمہ انسان کو توہم پرستی میں مبتلا کرکے خرافات میں الجھانا چاہتی ہے۔ اسی طرح قوة غضبیہ اور شہویہ انسان کو اعتدال کی راہ سے بھٹکا کر فرد اور معاشرہ دونوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ کوئی ایسا نظام موجود ہو، جو ان ساری چیزوں میں توازن برقرار کرکے عقل و فطرت کی بنیاد پر انسانی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے اور وہ سوائے دین کے کوئی اور چیز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ مادی مکاتب فکر انسان کی مادیات کو ترقی کی راہ پر لگا دیتے ہیں، لیکن اس کی معنوی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
جس طرح ایک جنگل میں پھول بھی پائے جاتے ہیں، پودے بھی ہوتے ہیں اور طرح طرح کے درخت بھی۔ لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، کیونکہ ان میں کوئی خاص نظم و ضبط پایا نہیں جاتا۔ اسی لیے جہاں قانون پر عمل نہ ہوتا ہو، وہاں جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی پھول پودے ایک سلیقے سے کیاریوں میں لگا دیے جائیں تو ایک پارک اور گلستان کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف جذب کر لیتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر انسانی معاشرے کو بغیر کسی دین اور قانون کے چھوڑ دیا جائے تو انسانی معاشرہ ناصرف ترقی کی راہ سے بھٹک جاتا ہے، بلکہ ممکن ہے کہ طرح طرح کے مفاسد میں گرفتار ہوکر معاشرہ ہی تباہ و برباد ہو جائے۔ لہذا ایسے موقع پر ہمیں دین کی ضرورت اور اہمیت کا یقین ہو جاتا ہے۔ کیونکہ دین ہی وہ نظام حیات ہے، جو انسانی معاشرے کو ایک گلستانی معاشرہ بنا سکتا ہے۔ ویسے تو بہت سے ادیان و مکاتب پیدا ہوئے، جن میں سے کچھ آج بھی باقی ہیں، لیکن قابل غور ہے کہ اسلامی معارف، بغیر کسی دین اور مکتب کی توہین یا تحقیر کیے آج بھی اہل فکر و دانش کو اپنی برتری کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ ان جوابات کو سننے کے بعد میری فطرت میں چھپی ہوئی سچائیاں شکوفا ہوگئیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر ہمارے پاس دین نہ ہوتا تو شاید ہم بھی سکون و چین کی تلاش میں بھٹکتے ہی رہ جاتے، جیسا کہ بہت سے لوگ جنھوں نے دین کو چھوڑ دیا ہے، بھٹک رہے ہیں۔[1]