فقیرا فقیرو
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
یہ ایک یتیم صفحہ ہے جسے دیگر صفحات سے ربط نہیں مل پارہا ہے۔ براہ کرم مقالات میں اس کا ربط داخل کرنے میں معاونت کریں۔ |
فقیرا فقیرو ٹنڈوالہیار کا ایک مجسمہ ساز ہے۔
1979ء میں جنم لینے وال فقیرا مینگوار المعروف فقیرو سائیں ضلع ٹنڈو الہ یار کا رہائشی ایک بے مثال مجسمہ ساز آرٹسٹ اور ڈرائنگ ماسٹر ہے، جس نے پاک سنگھار یونین کونسل ٹنڈو الہ یار سے بنیادی تعلیم حاصل کی اور ایس ایم کالج ٹنڈو الہ یار سے انٹر کیا۔
فقیرو سائیں کے دادا بیکھا رام گجرات انڈیا کے علاقے سنوا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور فقیرو سائیں کے والد کھیم چند کے ساتھ سندھ میں سکونت اختیار کی۔ بیکھا رام بنیادی طور پر روایتی مذہبی معماری کا کام کرتے تھے اور مندروں میں مورتیاں اور مجسمے بنانے کے ساتھ ساتھ مندوں کی ڈرائنگ نیز تعمیر ونقاشی کا مہین کام بھی کرتے تھے۔[1]
فقیرو سائیں کے بڑے بھائی مان سنگھ، جو اب مقامی سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں، کے ساتھ شروع شروع میں فقیرو سائیں نے اپنا ہاتھ سیدھا کرنا شروع کیا، چوںکہ یہ ان کا خاندانی وراثتی فن بھی ہے لہذا بڑے بھائی نے فقیرو سائیں کو بنیادی اصول وضوابط سکھائے،
ٹنڈوالہ یار کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔1990 کی دہائی میں عالمی شخصیات کے مجسمے بنا کر اپنے آبا و اجداد کے فن کو ایک نئی سطح پرپہنچایا۔ فقیرو کو پہلی کامیابی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا مجسمہ بنا کر حاصل ہوئی جوسوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی تھی۔[2]
فقیرو کے دادا بھیکارام آزادی سے قبل ہندو دیوتاؤں کے مجسمے بنایا کرتے تھے۔ فقیرو نے ایک انٹرویو میں بتایا کے وہ صرف دس سال کے تھے جب انھوں نے یہ کام اپنے والد کے ساتھ شروع کیا تھا۔ابتدائی اور انٹرمیڈیٹ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فقیرو نے 1996ء میں اپنے کام پر توجہ دینے کا فیصلہ کیااوراسے ایک نئی سمت دی۔
اسے امریکا نے بلایا، آسٹریلیا نے دعوت دی، اٹلی اور مصر نے کہا کہ وہ سندھ چھوڑدے مگر وہ نہ مانا، وہ آج بھی ٹنڈوالہیار میں رہتا ہے اور پوری دنیا سے لوگ اس کی کٹیا پر حاضری دیتے ہیں۔
فقیرو پتھروں کی قید سے تصویروں کو رہائی دیتا ہے، اس کمال سے ہتھوڑا، چھینی اور تیشی چلاتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ اس کے بنائے مجسموں کو جھنجھوڑ کر کہا جائے تم بولتے کیوں نہیں ہو[3] فقیرو نے مندروں کے لیے ہنومان، شیو شنکر، شیراں والی ماتا کے ساتھ ہندو عقیدے کے عین مطابق ان کی فرمائش پر کئی مورتیاں اور مجسمے بنائے۔ ان کی تعداد لگ بھگ 315 ہے، جبکہ سندھ کے مختلف شہروں میں جو کلیسا ہیں، ان میں حضرت عیسیٰ اور بی بی مریم کی کئی مورتیاں اور مجسمے فقیرو کے ہاتھوں سے بن کر ہی وہاں پہنچے ہیں۔[4]
فقیرو پاکستان کا مائیکل اینجلو ہے۔
مٹی انسان کی سب سے بڑی حقیقت ہے، انسان مٹی سے پیدا ہوا اور اسی مٹی میں اپنا وجود کھودیتا ہے، فقیرو کو مٹی سے لگاؤ ہے، یہی لگاؤ شاید اسے سندھ سے جانے نہیں دیتا۔
فقیرو اس عہد کا ایک بہت بڑا فن کار ہے، دنیا کے کئی ممالک میں اس کے فن پاروں کی نمائشیں ہو چکی ہیں، 2020ء میں ان کو تمغا امتیاز سے نوازا گیا،